(ڈاکٹروزیرآغاکی یادمیں)
’’جیلانی صاحب کوبھوک لگ رہی تھی لیکن میں نے سوچاکہ یوسف خالدصاحب کے ساتھ ہمارے نئے دوست یونس خیال آتے ہیں توشروع کرتے ہیں ‘‘۔۔۔ یہ اُس آوازسے پہلاتعارف تھاجس نے مجھےجوانی کےاُس ایک پَل میں ایسااعتماددیاکہ جوشاید برسوں کی ریاضت اور تجربےکےبعدبھی میری ذات کاحصہ نہ بن پاتا۔یہ غالباً ۱۹۸۴ءکی ایک دوپہرتھی۔محبت میں بھیگے اس شفیق لہجے کی گرفت سے وقتی طور پر نکلنےکےلیےمیاں ایم ڈی شادؔنےمیری مددکی اورگرم جوشی سےایک کرسی گھسیٹ کربولےکہ ’’عالی جاہ آپ یہاں آجائیں ‘‘۔ یوسف خالدخودہی بیٹھ چکے تھےکہ وہ پہلےسے اس فضاسے مانوس تھےاورویسے بھی وہ ’’ اپنی جگہ خود بنانے ‘‘کےسلیقے میں مجھ سےہی نہیں بلکہ کافی لوگوں سےبہترہیں ۔
ڈاکٹروزیرآغا کی وہ آوازآج بھی میرےاندرموجودہے۔ویسے بھی آوازیں مرتی ہی کب ہیں۔انسانی جسموں اوراُن سے جُڑے ناموںکی قیدسےآزادی کےبعدیہ ایک سے لاتعدادہوکرنئےرُوپ دھارلیتی ہیں اورہمارےتعلقات اور یادوں کی بستی میں چُپ کی چادر اُوڑھےسوتےجاگتےکی کیفیت میں موجودرہتی ہیں۔اس موقع پرآغاجی ہی کی ایک نظم’’ آپ کا کوئی نام تو ہوگا؟ ‘‘ذہن میں آرہی ہے:
پوچھا:
کیسی ہو تم
بولی:
کس سے بات کریں گے؟
ممی تو ابّو کے ساتھ گئی ہیں
شام کو شاید لوٹ آئیں گی!
جب لوٹیں تو
ان سے بس اتنا کہہ دینا
میں نے ٹیلی فون کیا تھا!
آپ کا کوئی نام تو ہوگا؟
میراکوئی نام نہیں ہے
آنکھیں،گردن،بازو
پاؤں
کچھ بھی نہیں ہے
مَیں بس اک آواز ہوں… کہنا
ممّی!
اک آواز نے آپ کا پوچھا تھا!
اس پہلی ملاقات میں ان کی آوازاورلہجے سےہونےوالی دوستی آج بھی میراقیمتی سرمایہ ہے۔وہ مجھ سےہمیشہ شفقت سےپیش آتے۔اس وقت میری رہائش کلب روڈ پرایک ہاسٹل میں تھی۔وہ جب بھی سرگودھا تشریف لاتے ،ملاقات کےلیےخصوصی طورپرپیغام بھیجتےاوراگرپروفیسریوسف خالدکسی مصروفیت کی وجہ سے نہ موجودہوتے تومجھےلینےکےلیےاپنے ڈرائیوربائوکوبھیج دیتےاورپھران کی رہائش گاہ پرگفتگوکالمبادورچلتا۔ان کی آوازکامیں اکیلااسیرنہیں تھاوہ توملنےوالےہرشخص کےساتھ اسی طرح پیش آتے تھے۔وہ جب بھی آتے اپنی آوازکے ساتھ دوسروں کوشامل کرکے آوازوں کی ایک بستی آبادکرلیتے۔میں نے وہاں کتنی آوازیں سنیں،کس کس کانام لوں۔ اس وقت میرے چاروں طرف ان آوازوں کاشورہےجن کے جسم خاک کارزق ہوئے۔آنکھیں بھیگ رہی ہیں اورمیں ان دوستوں کےلیے لمبی عمر کی دعاکررہاہوں جن کی آوازیں ابھی اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی سہولت مجھے میسرہے۔کل کاکیاہے،جانے کل میں خودبھی ایک آوازہوجاوں۔درانتی کارقص جاری ہےاورکٹنے کےلیےمیرے جیساتیارمحبوب اُسے اورکہاں سے ملے گا۔
مجھے اندازہ ہے کہ محبتوں کے کھونے کاذکرمجھےاورآپ سب دوستوں کورنجیدہ کررہاہے۔بس آپ یہاں اس موضوع پرڈاکٹر وزیرآغاکی نظم’’درانتی رقص کرتی ہے!‘‘پڑھ لیجیے:
درانتی رقص کرتی ہے
زمیں پر گنگناتے انگنت خوشوں کے بادل میں
درانتی کوندتی پھرتی ہے
ہر خوشے کا بوسہ لے کے کہتی ہے:
’’تمھاری، بس تمھاری منتظر تھی مَیں‘‘
اُسے سینے سے چمٹاتی ہے
جھولے میں جُھلاتی ہے
اُسے میٹھی سی اِک لوری سناتی ہے!
درانتی رقص کرتی ہے
کبھی گھنگھرو، کبھی مُدرا
کبھی جھک کر، کبھی اک دائرے میں
گھوم کر
چاروں طرف سو بار پھرتی ہے
درانتی
اک ہراساں نسل سے دامن چھڑا کر
دوسری تک
ایک یُگ کو پار کر کے
دوسرے یُگ تک
درانتی….. خون کی پیاسی
درانتی …..ناچنی!
بھوری زمیں پر صورتِ تلوار پھرتی ہے
درانتی رقص کرتی ہے!!
اردوپڑھانامیراخواب تھا۔۱۹۹۱ء میںسرگودھا میں اردوکی خالی اسامی نہ ہونے کی وجہ سےمجھے آوازوں کی بستی چھوڑکرجہلم کےلیےہجرت کرنی پڑی۔اس موقع پرمیرے نوجوان دوستوں کے علاوہ جن بزرگ دوستوں کومیں نےرنجیدہ پایاان میں ڈاکٹروزیرآغااورپروفیسرغلام جیلانی اصغر شامل تھے۔اس بات کازیادہ احساس مجھے ان کے خطوط سے ہوا۔
ڈاکٹروزیرآغا نےتوعملی طورپرمیری سرگودھاتعیناتی کے لیے بہت کوشش کی۔مجھے فون پرلاہورآنے کوکہااورجب میں سول سیکریٹریٹ لاہورپہنچاتووہ مجھ سے پہلے سیکرٹری صاحب کے کمرےمیں موجودتھے ۔انہوں نےوہاں میراادبی تعارف کرواتے ہوئےمجھے دبستانِ سرگودھا کے لیے ناگزیرقراردیا۔اس وقت اپنی کمزوریوں پرشرمندگی کے احساس کے ساتھ آغاصاحب کے بڑے پن کااحساس کچھ اوربھی بڑھ گیاتھا۔آج طویل مدت کے بعدسوچتاہوں کہ میں بھی عجیب آدمی ہوں جس نے بس ایک خواب کی تکمیل کےلیے سرگودھامیں موجود جانےکتنی زندہ حقیقتیں اپنےہاتھوں سے کھودیں۔ تہی دامنی کاکچھ ایساہی احساس مجھے ڈاکٹروزیرآغاکی نظم’’ کہاں گئی وہ بات! ‘‘میں بھی ملا۔
تُو نے کہا تھا:
غم مت کر میں ہوں جو تمہارے ساتھ
کہاں گئی وہ بات!
چاروں جانب کھلا پڑا ہے
رات کا دستر خوان
تارے…جیسے باسی چاول
ایک کٹورا کڑوا ساگر
جلا سڑا مہتاب
کہاں گئی وہ بات!
رات کے دستر خوان پہ ہوں
میں ایک اکیلی جان
انت، بے انت کی زنجیروں میں
جکڑا اِک مہمان
اک لقمے میں سمٹ گئی ہے
میری ساری آن
میرا سارا مان
جگمگ کرتی
کرنیں دُھنتی
میری اُجلی ذات
کہاں گئی وہ بات!
جہلم میں ڈاکٹرصاحب نے مجھے اپنی نظموں کی کتاب ’’ اک کتھاانوکھی ‘‘بھجوائی۔فراغت تھی اورکچھ اُداسی بھی۔ایسےمیں مَیں نے پنجابی میں اس نظم کاترجمہ کیااورپنجابی ہی میںاس پرایک تنقیدی مضمون لکھ کرانہیں واپس بھجوایا۔انہوں نےاس کےجواب میں ترجمے اورمیری تنقیدی رائے کوبہت پسندکیااورمجھے خط لکھاکہ اس میں اگرکچھ اورنظمیں اوران پرتنقیدشامل ہوجائے تواسے کتابی صورت میں شائع کیاجائے۔ میں نے حامی توبھرلی لیکن کچھ نجی معاملات میں اُلجھ گیا اورپھران کی خواہش کےباوجوداس کام میںدیرہوتی چلی گئی۔۲۰۱۱ءمیں ڈاکٹرجنیداکرم کےتماہی ’’ پنجابی ‘‘ میں ڈاکٹرصاحب کی گیارہ نظموں کاپنجابی ترجمہ اوران پرتنقیدی رائے چھپے جنہیں احباب کی طرف سے بہت پذیرائی ملی۔
بڑےآدمیوں کےپاس دوسروں کے کام کےاعتراف اوران کی پذیرائی کااندازاورحوصلہ بھی پڑاہوتاہے۔ مجھےڈاکٹر عابدخورشید اورذالفقاراحسن نے بتایاکہ ’’ اک کتھاانوکھی ‘‘کاپنجابی ترجمہ اورتنقیدپرگفتگوکرتےہوئے میری عدم موجودگی میں کہاتھاکہ اگرمیں خودیہ نظم پنجابی میں لکھتاتواتنی عمدہ نہ لکھ پاتا۔
۲۰۲۴ءمیں ڈاکٹرصاحب کے ساتھ کیاوعدہ وفاہوپایا۔ ’’ڈاکٹروزیرآغاکی اک کتھاانوکھی اوردوسری نظمیں ‘‘شائع ہوئی ۔جس میں اُن کے کچھ خطوط بھی شامل ہیں۔بہت دیرہوگئی لیکن اس مہربان آواز سے جب بھی اس ضمن میں مَیں نے معذرت کی،اس طرف سے متبسم لہجےمیں ایک ہی جواب سنائی دیا۔۔۔ ’’کتاب بہت اچھی چھپی ہے، مجھے پسندآئی ہےاور یہ جوذراسی دیرہوئی ہے اس کی وجوہات میں پروفیسریوسف خالدکی سازش بھی شامل ہے۔ ‘‘
مجھ جیسےآوازوں کی بستی سے نکلےآدمی کویہ آوازحوصلہ ضروردیتی ہےلیکن اس خلاکوکون پوراکرے جوگزشتہ پینتیس برس میں میری بصارت اورسماعت کےدرمیان غیرمحسوس طریق سے وجودپاچکاہےاوراب تیزی سے بڑھتاجارہاہے۔ شایداس موقع پرڈاکٹروزیرآغانے میری ہی ترجمانی کے لیے نظم ’’کہاں گئی ہو! ‘‘لکھی تھی۔
کہاں گئی ہو؟
فلک کے اُس پار جا بسی ہو ؟
زمیں کی گہری گپھا کے اندر اُتر گئی ہو
کہاں گئی ہو؟
تمہارے ہونے سے دل جواں
رہگزر رواں تھی
گلاب چہروں سے ساری بستی مہک اُٹھی تھی
خوشی، مکانوں کے ساغروں سے چھلک پڑی تھی
تمہارے جانے کے بعد
اب کچھ رہا نہیں ہے
اُداس شاخوں میں
اک بھی بھیگی صدا نہیں ہے
ہوا سے خوشبو
زمیں سے برکھا خفا کھڑی ہے!
کہاں گئی ہو؟
رسیلی، میٹھی، گداز… گھی میں گُندھی رُتو
تم کہاں گئی ہو ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔