تنقید

یوسف خالدکی نظم گوئی : تحقیقی وتنقیدی مطالعہ

خیال نامہ کے مدیراور معروف شاعرجناب پروفیسریوسف کی شخصیت اورفن کے حوالے سے کئی تحقیقی اورتنقیدی مقالہ جات تحریرکیے جاچکے ہیں ۔ یوسف خالدکی نظم گوئی : تحقیقی وتنقیدی مطالعہ (مقالہ برائے ایم فل اردو)حال ہی میں ان کی نظم کے حوالے سے ساجد خاں نےڈاکٹرمظہرشاہ کی نگرانی میں،ہزارہ یونیوسٹی ،مانسہرہ سے تحریرکیا ہے ۔

ادارہ یوسف خالد اورمقالہ نگار ساجد خاں کومبارک بادپیش کرتاہے۔ امید ہے کہ یہ تحقیق فنی اورفکری حوالے سےیوسف خالد کی نظم کے کئی چھپے گوشوں کو بےنقاب کرے گی۔

ہم اک ایسے خطِ تقسیم پر محو سفر ہیں
جس کے اک جانب
گھنے برگد تھے
کچے راستے تھے
کچے گھر تھے
ہوا میں کچی کلیوں کی مہک تھی
دور تک پھیلی ہوئی سرسوں تھی
چرواہے تھے ریوڑ تھے
پرندوں کی حسیں ڈاریں تھیں
ڈیرے داریاں تھیں
ڈھولے ماہیے تھے
بہر سو زندگی تھی
زندگی کا ہر حوالہ تھا
مگر اس رہگزر کی دوسری جانب
مسلسل شور ہے
رفتار ہے
ہنگامہ خیزی ہے
عجب بے اطمینانی ہے
ہوا میلی ہے بد بو سے بھری ہے
دھوئیں کی ایک چادر ہے
جو زیر آسماں بے انت پھیلی ہے
یہاں کے موسموں میں بھی بلا کی شدتیں ہیں
زہر ناکی ہے
یہاں پر موت ارزاں ہے
ہر اک ذی روح لرزاں ہے
یہ منظر خوف کا منظر ہے
اس میں زندگی ناپید ہے
بس زندگی کی ایک مصنوعی سی صورت ہے
جسے سب اوڑھ کر
اندھے سفر پر گامزن ہیں
ہمارا المیہ یہ ہے
کہ ہم اس دوڑ میں آگے ہی آگے بڑھتے جاتے ہیں
نہ رکتے ہیں نہ ہم پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں
ہمیں یہ خوف ہے کہ رک گئے تو کچلے جائیں گے
کہیں برگد نہیں
جس کی گھنی چھاؤں میں دم لے لیں
نہ کچے راستے ،نہ دور تک پھیلی ہوئی سرسوں
نہ چرواہے نہ ریوڑ ہیں
فقط بے اطمینانی ہے
کہ ہم سے زندگی روٹھی ہوئی ہے

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں