ڈاکٹرناصر عباس نیر ّ
اگر ایک آدمی اپنی آرا کی خاطر خطرہ مول لینے پر تیار نہیں تو اس کی آرا معقول نہیں یا پھر وہ خود معقول نہیں۔
(ایذر اپائونڈ)
اردو ادب میں متنازع کتابوں اور تحریروں کا سرمایہ کچھ زیادہ نہیں۔لے دے کے زٹل نامہ ،مرزا شوق کی مثنویاں،جان صاحب اورسعادت یا خان رنگین کی ریختی پر مبنی شاعری ،امہات الامہ ، انگارے ،منٹو ، عصمت چغتائی کے چند افسانے، اوریادوں کی برات۔ اردو میںکتابوں یا تحریروں کے متنازع ہونے کا باعث مذہب ا ور جنس کی خاص طرح کی نمائندگی رہی ہے؛یعنی ایک ایسی نمائندگی جسے کچھ طبقات نے کفر و فحاشی پرمبنی سمجھاہے۔ ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ کفر و فحاشی کا کوئی ایسا تصور نہیں جس پر کسی سماج کے تمام طبقات اتفاق کرتے ہوں۔ یہی حقیقت کتابوں کو متنازع بناتی ہے ۔ کسی کتاب کے متنازع ہونے کا اس کے سوا کیا مطلب ہے کہ اس کے بارے میں ایک سے زیادہ ،مگر باہم متصادم آرا پائی جاتی ہوں۔ ایک ہی قسم کی رائے (خواہ وہ کفروفحش پر مبنی ہو ،یا اس کے برعکس)کسی کتاب کو متنازع نہیں بناتی؛تنازع پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب کسی متن سے متعلق ایک رائے کو چیلنج کرنے ،یا پچھاڑنے کے لیے دوسری رائے میدان میں اترتی ہے۔ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ کتابیں یا تحریریں ایک ایسی مچان ثابت ہوتی ہیں جہاںکسی سماج میں رائج مختلف بیانیوں کے مابین جنگ برپا ہوتی ہے۔ تمام متنازع کتابیں ان سب بیانیوں کو منظر عام پر آنے کا موقع دیتی ہیں ،جو در اصل کسی سماج کی انتہائی داخلی ،زیریں فکری سطح پر موجودتضادات کو زبان دیتے ہیں۔یہ سب باتیں ہمیں یادوں کی برات پر لکھی جانے والی تنقید میںبھی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کتاب کی وجہ ء نزاع بھی مذہب و جنس کی خاص طرح کی نمائندگی ہے ، جسے عبد الماجد دریا بادی اور ماہر القادری نے خاص طور پرکفر وفحاشی قرار دیا ہے۔
کم و بیش تما م متنازع کتابوں کی عجب تقدیر رہی ہے۔ انھیں جن وجوہ سے متنازع قرار دیا گیا ہے، ان کا تعلق کتاب کے بنیادی اور غالب موضوع سے عموماًنہیںتھا۔ جن باتوں پر کفر و فحش کا فتویٰ داغا گیا ،وہ عام طور پرکتابوں میں ضمنی طور پر پیش ہوئے تھے۔ یادوں کی برا ت ایک شاعر کی آپ بیتی ہے؛اس میں مذہب و جنس سے متعلق انھوں نے اتنا ہی لکھا ہے ،جتنا انھیں اپنی آپ بیتی کا حصہ لگا،اور یہ حصہ کتاب کے مجموعی حجم کا خاصا قلیل حصہ ہے ۔پونے آٹھ سو صفحات کی کتاب میں بمشکل اَسی صفحے نام نہاد اٹھارہ معاشقوں کے بیان پر مشتمل ہیں۔اگر ایک آدمی کی بہتر سالہ زندگی میں اتنی تعداد میں عورتیں واقعی آئی ہیں یا ان کی خواہش ہی رہی ہے تو آپ بیتی کے نقطہ ء نظر سے ان کا ذکر نہ کرنا معیوب ہوتا۔ ان عشقیہ قصوںمیں جنسی عمل کی جزئیات کا ترغیب آمیزبیان شاید ہی کہیں موجود ہو۔دوسری طرف جوش نے کچھ مقامات پرمذہب اور خدا کے روایتی تصورسے متعلق اپنی بے زاری و تشکیک کا بے باکانہ اظہار کردیا ہے ۔کہنے کا مقصود یہ ہے کہ یادوں کی برات کا مرکزی موضوع نہ تو جنس و عشق ہے ،نہ مذہب بے زاری۔ اس کے باوجود اس کتاب پر جو تنقیدی ڈسکورس قائم ہوا، اس میں انھی دو کو مرکزی اہمیت دی گئی۔ گویا متن میں جو بات حاشیے پر تھی، وہ اس متن پر تنقید کے مرکز میں آگئی۔
اپنے ہی زندگی نامے کے مصنف کی حیثیت میں ،ہم جوش صاحب کو اس امر کا فیصلہ کرنے کے اختیارسے کیوں کر محروم کرسکتے ہیں کہ کون سی بات ان کی زندگی نامے میں اہمیت رکھتی ہے،اور کون سی نہیں،اور کس واقعے کی اہمیت زیادہ ہے اور کس کی کم ہے ۔ہم ایک آپ بیتی نگار سے کچھ توقعات وابستہ کر سکتے ہیں،لیکن ہم اپنی ترجیحات اس پر مسلط کرکے اس کی آپ بیتی کا جائزہ لینے کے مجازنہیں۔مثلاً آپ بیتی نگار سے ہماری یہ توقع عین بجا ہے کہ وہ اپنے اس اختیار وبے اختیاری کا زیادہ سے زیادہ بیان کرے جن کاسامنا اسے کارگاہ ہستی میں کرنا پڑا؛ اپنی ناکامیوں اور کامرانیوں ،نیز اپنی حسرتوںکا اظہار اسی لہجے اور اسلوب میں کرے جو اس کے حقیقی مزاج کاحصہ رہا ہے۔اس نے اگر لوگوں کے سامنے اپنا سینہ چاک کرنے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو اپنے قارئین پر اعتماد کرے۔ وہ ایک آزاد ونڈرجود کے طور پر زندگی کرسکایا نہیں، یہ حقیقت اہم ہے ،مگراس بات کے مقابلے میں کم اہم ہے کہ اس نے ایک آزاد وجود کے طور پر اپنی حیاتِ گزراں لکھی یا نہیں۔حقیقی زندگی کی بے اختیاری ، اس زندگی کے بیان کی بے اختیاری نہیں بننی چاہیے۔زندگی کرنا اور آپ بیتی لکھنا ایک جیسی سرگرمیاں نہیں، کم از کم انسانی اختیار و ارادے کی سطح پر۔زندگی جینے میں آدمی کو وہ آزادی حاصل نہیں ،جو اس زندگی کے بیانیے میں حاصل ہو سکتی ہے، بشرطیکہ آدمی بیانیے کے امکانات کھنگالنے کی صلاحیت سے مالامال ہو۔آپ بیتیوں کے جائزوں میں ایک بڑی گڑ بڑ یہیں سے پیدا ہوئی ہے۔ زندگی نامے کو زندگی کے مماثل سمجھنے کا مغالطہ عام ہے۔ زندگی نامہ ایک بیانیہ ہے، اس سب کا جو بیت چکا۔بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے۔ بیانیے میں بیتی ہوئی زندگی کو۔۔۔ جو کھو چکی ہے ،گم ہوچکی ہے ، جس کا ’ہونا‘ایک فنا ہو چکی شے کی ٹمٹماتی یاد سے سوا نہیں۔۔۔اس کی اوّلین صورت میںدہرایا جانا ممکن ہی نہیں؛ اس کی ہوبہو نقل تیار نہیں کی جاسکتی، خواہ کسی شخص کا حافظہ کس قدر قوی ہی کیوں نہ ہو۔ہم اپنی زندگی کے کسی خاص واقعے کا بیان جب مختلف اوقات میں کرتے ہیں تو ہر دفعہ وہ واقعہ کچھ نہ کچھ بدل جاتا ہے؛ ہم کسی واقعے کے بیان کے وقت جس کیفیت یا صورتِ حال سے گزررہے ہوتے ہیں ،وہ ہمارے بیان پر اثرا نداز ہوتی ہے؛جسے ہم یادداشت کہتے ہیں،وہ گزری باتوں کو ہوبہو دہراتی نہیں، انھیں نئے سرے سے تحریر کررہی ہوتی ہے۔آپ بیتی لکھتے وقت آدمی ماضی کے واقعات کو زندگی کے مجموعی تجربے کی روشنی میں یادکررہا ہوتا ،اور ان کی تشکیل نو کررہاہوتاہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو آپ بیتی میں سچائی اور حقیقت کی تلاش ایک اچھی خاصی معمائی (Problematic) صورت اختیار کرلیتی ہے۔
آپ بیتی میں سچ کی دریافت کے سفر پرروانہ ہونے سے پہلے ایک بنیادی سچ کا سامنا کرلینا چاہیے کہ آپ بیتی میں ’مَیں‘ کی کہانی ’مَیں‘ کی زبان سے بیان ہوتی ہے۔ گویا ’مَیں ‘ ہی موضوع اور ’مَیں‘ ہی معروض بنتا ہے۔ظاہر ہے ایک ہی شے بہ یک وقت موضوع اور معروض نہیں ہوسکتی ۔ یعنی ’بیان کرنے والامَیں‘ اور ’بیان کیا جانے والا مَیں‘ دو ہستیاں ہیں۔’بیان کرنے والامَیں‘ ایک سماجی و ثقافتی وجود ہے ؛ایک بیرونی ہستی ہے ،جب کہ ’بیان کیا جانے والامَیں‘ ایک نجی ،شخصی وجود ہے۔چناں چہ ’بیان کرنے والامیں‘ بڑی حدتک سماجی فوق انا (Super ego)کی خصوصیات رکھتا ہے،جب کہ ’بیان کیا جانے والامَیں‘ لاشعوری صفات کا حامل ہے۔اس حقیقت کی بنا پر دونوں ’مَیں‘ میں ایک کش مکش ہوتی ہے۔’بیان کیا جانے والامَیں‘ جن باتوں کا اظہارچاہتا ہے، ’بیان کرنے والامَیں‘ ان کے سلسلے میں روک ٹوک کرتا ہے، جھڑکتا ہے،اور کبھی کبھی خوف و خطرے کے احساس سے بھی دوچار کرتا ہے۔جوش صاحب نے یادوں کی برات کو چار مرتبہ لکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اگر ہم اس دعوے کو ایک تکمیلیت پسند فنکار کے عدم اطمینا ن کی روشنی میں بھی دیکھیں ،تب بھی اس کے پس منظر میں مذکورہ نفسیاتی کش کش محسوس کی جاسکتی ہے ۔جوش صاحب نے اپنی شاعری کے ضمن میں نہیں لکھا کہ وہ اپنی ہر نظم کے سلسلے میں اس طرح کے عدم اطمینان کا شکار ہوتے تھے ،جس کا ذکر یادوں کی برات کے ضمن میں کیا ہے۔لکھ کر کاٹنے ،پھرلکھنے،پھر کچھ سوچ کر کاٹ دینے کا عمل ، نفسیاتی خوف و اضطراب و بے اطمینانی کو ظاہر کرتا ہے۔یہی بات جوش کے اس جملے سے بھی ظاہر ہے:’’ اس مسودے کو بھی میں نے ایک ایسے گھبرائے ہوئے آدمی کی طرح لکھا ہے جو صبح کو بیدار ہوکر رات کے خواب کو ،اس خوف سے جلدی جلدی، الٹا سیدھا لکھ مارتا ہے کہ کہیں وہ ذہن کی گرفت سے نکل نہ جائے‘‘۱۔جوش صاحب کو آپ بیتی کے مسودے کے لیے ’رات کے خواب‘ کا استعارہ اتفاقاً ہی سوجھا ہوگا ،مگر اس کی گہری معنویت ہے۔رات کا خواب ،’ بیان کیے جانے والے مَیں‘ کا نمائندہ ہے؛ دونوں کا تعلق لاشعور سے ہے ، یعنی آدمی کے نجی ،داخلی وجود سے ہے ۔جب کہ گھبرایا ہوا آدمی ’بیان کرنے والے مَیں‘ کا نمائندہ ہے ؛اس کی گھبراہٹ فوق انا کے دبائو کے سبب ہے۔آپ بیتی کو سمجھنے کے لیے یہ نکتہ ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ آدمی کا نجی ، داخلی وجود ایک ٹھوس ،جامد وجود نہیں؛یہ ایک ایسی سیال شے ہے جو اظہار کے دوران میں تشکیل پاتی ہے،اور مخصوص شناخت حاصل کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ بیتی نگار اپنے باطن کی سیاحت کرتا ہے؛ اند ر کی نیم روشن دنیا میں سفر کرتا ہے ،اور بعض ایسی باتوں سے آگاہ ہوتا ہے جو خود اس کے لیے باعث ِ حیرت ہوسکتی ہیں۔
’بیان کرنے والے مَیں ‘ اور ’بیان کیے جانے والے مَیں‘ میں رونما ہونے والی کش مکش سے ہر آپ بیتی نگار الگ الگ طریقے سے عہد ہ برآ ہوتا ہے۔اکثر آپ بیتی نگار ایک حددرجہ مانوس ، عام فہم ،سماجی طور پر مقبول راستہ اختیارکرتے ہیں؛وہ فوق انا کی بالادستی قبول کر لیتے ہیں، اوراپنے لاشعور ، اپنے حقیقی داخلی تجربات و احساسات ،اپنے وجود کی تاریک و نامانوس دنیا کو ظاہر نہیں کرتے ۔ ان کی آپ بیتیاں غلامی کی حدتک پہنچی ہوئی اطاعت شعاری کی مثال ہوتی ہیں۔وہ صرف وہی کچھ لکھتے ہیں جن کی اجازت سماجی امتناعات کا نظام دیتا ہے،اور جنھیں اعلیٰ اخلاقی اقدار کے طور پر پیش کرتا ہے۔ان آپ بیتیوں میں باہر کی دنیا کے واقعات زیادہ سے زیادہ پیش ہوتے ہیں۔ یوں ’بیان کیا جانے والا مَیں‘ ان واقعات کے انبار میں دب کررہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چند ایک آپ بیتی نگار ایسے ہیں جو ’بیان کرنے والے مَیں ‘ اور ’بیان کیے جانے والے مَیں‘ میں برپا ہونے والی کشمکش کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو ابتدا ہی میں سمجھ لیتے ہیں کہ آپ بیتی لکھنے کا عمل اس گم شدہ سلسلے کی بازیافت ہے جسے جھیلنے والا،اور برقرار رکھنے کی اپنی سی کوشش کرنے والا واحد مستند وجود ’مَیں‘ ہے؛آپ بیتی لکھنے کا ایک مطلب اس ’ مَیں‘ کا تحفظ ہے ، ان سب قوتوں کے مقابل جو اسے مٹانے کے در پے ہیں؛یہ قوتیں زمانہ ،لوگ ، موت،خود انسانی جسم اور اس کی آرزوئیں ہو سکتی ہیں۔ چناں چہ وہ فوق انا سمیت ان قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہونے میں حرج نہیں دیکھتے ۔ ان کی آپ بیتیوں میں سماج کی اقتداری علامتوں کو مزاح یا طنز و استہزا کا نشانہ بنایا جانے لگتا ہے۔ جوش صاحب کی آپ بیتی اس کی اہم مثال ہے۔مزاح جوش صاحب کے بس کا روگ نہیں تھا ،تاہم یادوں کی برات میں جگہ جگہ ان سب چیزوں ،لوگوں، رویوں ، عقیدوں، نظریوں کو طنز و استہزا کا نشانہ بنایا گیا ہے ،جن کا تصادم ’بیان کیے جانے والے مَیں‘ سے ہے،یعنی لاشعور سے ہے، حسی، جذباتی، لبیدو کی دنیا سے ہے ۔نشان خاطر رہے کہ جوش صاحب معروف معنوں میں سماجی طنزنگار نہیں ہیں۔ان کے طنز واستہزا کا حقیقی سیاق ،نفسیاتی ہے۔
ہم جوش صاحب کے طنز و استہزا کے ابتدائی نفسیاتی محرکات ان کے بچپن کے واقعات میں تلاش کرسکتے ہیں۔
جوش صاحب نے اپنے مزاج کو مجموعہ اضداد لکھا ہے۔’’ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں بچپن میں تھا کہ ؛شعلہ تھا کہ شبنم ،حدید تھا کہ حریر،نوک خار تھا کہ برگ گل، خنجر تھا کہ ہلال، چنگیز خاں کا علم بردار تھا کہ’’ رحمتہ اللعالمین‘‘ کا پرستار‘‘۲۔ ظاہر ہے ، بچپن میں جوش صاحب اس بات کا ادارک نہیں کرسکے ہوں گے کہ وہ کیوں کر کبھی ماسٹر بن کر بچوں کی کھال کھینچنے لگتے تھے ،نائی کے لڑکے کو سلام نہ کرنے پر اس کے پیٹ میں چھر ا اتارنے اور اسے پسلیوں میں ٹھڈے مارنے لگتے تھے اور کبھی اپنے سپاہی بندے علی خاںکی مدد کی خاطر اپنی والدہ کی چمپا کلی چرانے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ ان کی یادداشت میں بچپن کے یہ واقعات،کسی باہمی ربط یا تقابل کے بغیر محفوظ ہوگئے۔ اس تضاد کا ادارک انھیں آپ بیتی لکھنے کے دوران میں ہوا۔ مزاج کے تضاد کا جو بیانیہ یادوں کی برات میں ملتا ہے ، اس سے ظاہر ہے کہ جوش صاحب کو اپنے مجموعہ اضداد ہونے پر کوئی تاسف نہیں ہے۔ وہ اپنی شقاوت اور شفقت کے واقعات ایک ہی طرح کے شوخ اسلوب میں بیان کرتے ہیں؛انھیں اپنے شقی ہونے کا تاسف نہیں،اور دردمند ہونے کا تکبر نہیں؛البتہ دونوں میں ایک ہی قسم کا تفاخر ضرور موجود ہے۔کہنے کا مقصود یہ ہے کہ جوش صاحب نے تضاد کا ادراک ،زندگی کی ایک ناگزیرحقیقت کے طور پر کیا ہے۔ وہ اپنے لیے جس زندگی ،اور جس دنیا کا تصور قائم کرتے ہیں ،تضاد اس کا لازمی حصہ ہے ۔جوش صاحب نے اچھا کیا کہ اپنی آپ بیتی میں اس تضادِ مزاج کا تجزیہ نہیں کیا،اسے بس امر واقعہ کے طور پر اپنے شوخ اسلوب میں بیان کردیا۔اگر تجزیہ کرنے لگ جاتے تو عین ممکن تھا کہ اپنے دفاع کی الٹی سیدھی کوشش کرتے۔ بایں ہمہ انھوں نے اسی دوران میں کچھ ایسے واقعات بھی لکھے ہیں ،جن کی مدد سے ہم ان کے مزاج کے تضاد اور پھر اس کے وسیلے سے ان کے طنز و استہزا کی نفسیاتی بنیادوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ جوش صاحب نے اسی ذیل میں اپنے بچپن کا ایک واقعہ لکھا ہے۔
میں اپنے باپ سے بے حد ڈرتا تھا،اور اس قدر کہ جب ان کے سامنے جاتا تھا تو میری چال بدل جایا کرتی تھی،لیکن اس کے باوجود جب ایک روز میں خرپزے کی قاشیں چاکو کی نوک سے اٹھا اٹھا کر کھارہا تھا،اور انھوں نے ڈانٹ کر ،یہ کہاتھا کہ یہ کیا کررہا ہے گدھے،چاکو کی نوک اگر تالو میں چبھ گئی تو ناچتا پھرے گاسارے گھر میں۔۔۔تو مجھے اس قدر غصہ آگیا تھا کہ میں نے باپ کی طرف چاکو اس طرح نشانہ باندھ کر پھینک مارا تھا کہ اگر وہ ان کے سینے میں چبھ جاتا تو لہولہان ہوجاتے۳۔
اس واقعے کے فوراً بعد اسی سے ملتا جلتاایک دوسرا واقعہ بھی لکھا ہے ۔جوش کے باپ نے سختی سے حکم دے رکھا تھا کہ کوئی بچہ ،بغیر اجازت کے گھر کے پھاٹک سے باہر قدم نہ رکھے،مگر ایک دن جوش نے حکم عدولی کی ، گھر سے باہر اکیلے چلے گئے ۔اپنے دوست کی دادی کے ہاتھوں بھنڈی کھائی ۔اس حکم عدولی کی سزا باپ نے جریب سے پیٹنے کی صورت میں دی،اور جوش نے بے ارادہ کہا ’’اللہ کرے میاں مرجائیں‘‘۔ان دو بہ ظاہر معمولی واقعات سے ،ہم جوش کی ذہنی تشکیل کی بنیادوں کا سراغ پاسکتے ہیں۔دونوں واقعات میں جوش نے وہ کام کیے جو ان کے باپ کو پسند نہیں تھے؛ دونوں میں جوش نے باپ کی موت کی خواہش کی ؛دونوں میں کھانے کا واقعہ مشترک ہے۔اس کھانے کا گہر اعلامتی تعلق ممنوعہ پھل کی اسطورہ سے ہے ،جس نے آدمی کو جنت بدر کیا ،مگر ساتھ ہی اسے علم سے روشناس کیا۔ہمارے روزمرہ اعمال میں ہماری مذہبی وثقافتی اساطیر کا کس قدر کردار ہوتا ہے ،اور ہم کیوں کر اپنے ہر عمل کی کنہ ، تائید اور جواز کے لیے ان اساطیر کی طرف رجوع کرتے ہیں،نیز کس طور ہماری نجی دنیا کے کنارے ،وسیع ثقافتی اساطیری دنیا کے ساحلوں سے ملے ہوتے ہیں،اس سب کے بارے میںجوش صاحب کی آپ بیتی بہت کچھ بتاتی ہے۔مثلاً جوش نے اپنی شاعری کے ضمن میں باپ کے سخت گیر رویے کی وضاحت کرتے ہوئے ،آدم وابلیس کی کہانی کا حوالہ دیا ہے۔ لکھتے ہیں۔’’میری حالت آدم و ابلیس کی سی ہوگئی۔آدم کو ممانعت کی گئی تھی کہ خبردار شجرِ ممنوعہ کے قریب بھی نہ پھٹکنا،لیکن مشیت کا تقاضاکہ اے آدم لوٹ ،جی بھر کے مزے لوٹ شجرممنوعہ کے ،اور ابلیس کو حکم دیا گیا تھا کہ جھک جا سجدے میں ، آدم کے روبرو،لیکن مشیت نے آنکھ دکھا دی تھی ابے اگر سجدہ کردیا توناک کاٹ ڈالی جائے گی جڑ سے۔ سو جس طرح آدم و ابلیس ممانعت و حکم سے روگردانی کرکے مشیت کے سامنے جھک گئے (اور مجال نہیں تھی کہ نہ جھکتے) ،اسی طرح میں حکمِ پدر سے روگردانی کرکے ،فرمان ، قضا و قدر کے آستاں پر سربسجود ہوگیا‘‘۴۔جوش صاحب کی سمجھنے کے لیے ،یہ نکتہ بھی پیش نظر رکھیے کہ انھوں نے اپنے انکارکو آدم و ابلیس ،دونوں کے انکار سے مشابہ ٹھہرایا ہے۔
ممنوعہ پھل کی سزا جوش کو ملی ،مگر سز ا سے زیادہ اس کے ذائقے کی یاد محفوظ رہی ۔دوسرے واقعے پر جوش نے حاشیے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس بھنڈی کا مزا ،اب تک زبان پر تازہ اور حافظے میں محفوظ ہے،اور اب جب کبھی بھنڈی کھاتا ہوں تو میرے منہ سے نکل جاتا ہے بے ساختہ ،ہائے مشیر خاں کی ماں‘‘۔جوش نے لکھا نہیں،مگرہوسکتا ہے ، خرپزے کی قاشوں کا ذائقہ بھی ان کی زبان پر بھنڈی کے ذائقے کی مانند ہی تازہ ہو۔ذائقے کی یاد ، کھانے کی اس لذت کا علم ہے ،جسے ممنوع و بندش کے کڑے نظام کے خلاف بغاوت نے یادگار بنا دیاتھا؛چاکو سے خرپزے کی قاش کھانا،ان سب خطرات سے کھیلنے کا علامتی عمل تھا،جن سے بڑے ،بچوں کو منع کرتے ہیں؛اس علامتی عمل میںاپنی زندگی کے معاملات کو ،جرأت کے ساتھ ،خود اپنے ہاتھ میں لینے کی، وہ شدید آرزو پوشیدہ تھی،اور محرک کے طور پر کام کررہی تھی،جس نے تہذیب کے اوائلی عہد میںانسان کو انجانی اشیا پر غالب آنے کے قابل بنایا تھا۔قدیم انسان کے انجانی اشیا کو تسخیر کرنے، اوربچے کی باپ کے خلاف بغاوت میں گہری مماثلت ہے۔یوں بھی ،بہ قول فرائیڈیہ باپ ہی کا تصور تھاجو آدمی کو خدا جیسی انجانی ہستی کے تصور تک لے گیا۵۔ بہر کیف جوش کی یہ بغاوت اپنے حقیقی باپ کے اقتداری اختیار اور پدری شبیہ (Father Figure) دونوں کے خلاف تھی؛ اس کی مدد سے جوش نے اپنی آزادی کا اعلان تو کیا ہی،اس اقتداری اختیار سے کام لینے کا عملی مظاہر ہ بھی کیا ،جس کا تصور انھوں نے اپنے باپ سے اخذ کیا تھا۔باپ کی موت کی خواہش، در اصل باپ کے اقتدا ر کے خاتمے کی خواہش تھی ،جسے جوش نے اس لمحے قطعاً لاشعوری طورپر اپنے آزادنہ عمل کی راہ میں رکاوٹ سمجھا۔جوش نے اپنے ولولہ ء تعلیم کے سلسلے میں باپ کی جس ’غیر معمولی محبت،بے حد و حساب محبت‘ کا ذکرکیا ہے،اور جس کی وجہ سے وہ جوش کو ملیح آباد سے باہر بھیجنے پر آمادہ نہیں تھے، اس کا جائزہ بھی مذکورہ واقعات کی روشنی میں لیا جانا چاہیے۔جوش نے گھر کی تمام دیورایںکوئلے سے’’تعلیم کا بھوکا شبیر‘‘ لکھ لکھ کر سیاہ کر ڈالیں ۔جوش کی پوری آپ بیتی پڑھیں تو لگتا ہے کہ انھیں دراصل باپ کی بے حد و حساب محبت سے آزادی چاہیے تھی۔ولولہ ء تعلیم ، ولولہ ء آزادی کا پردہ بن گیا تھا۔جوش کو باپ نے پڑھنے کے لیے ملیح آباد سے باہر بھیج دیا،مگر جوش کی رسمی تعلیم میٹرک تک بھی نہ پہنچ سکی۔ یہ واقعات واضح طور پر ایڈی پس گرہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ایڈی پس گرہ کی کہانی میں کلیدی واقعہ باپ کی موت ہے۔
ایڈی پس گرہ سے جو مزاج رونما ہوتا ہے ،وہ مجموعہ اضداد ہوتا ہے۔بیٹا باپ کی اقتداری حیثیت سے آزادی چاہتا ہے ،مگر اقتداری حیثیت ہوتی کیا ہے،اسے کیوں کر بروے کار لایا جاتا ہے، اس کا تصور بھی باپ سے حاصل کرتا ہے۔ وہ باپ کی طرح ،اور باپ کی طاقت و اختیار کی آرزو کرتا ہے ،مگر باپ ہی کو راستے میں حائل دیکھتا ہے ،اس لیے وہ باپ کی موت کی تمنا،لاشعوری طور پر کرتا ہے۔اس طرح طاقت و اختیار ،اور انفرادیت و آزادی کا تصور ابتدا ہی سے دبدھے کا شکار ہوتاہے۔یہ تصورات مکمل اور مطلق نہیں ہوتے؛ اختیار ابتدا ہی سے ، دوسرے پر منحصر ہوتا ہے۔اسی سے تضادات جنم لیتے ہیں۔یوں ایڈی پس گرہ کی وجہ سے، مزاج میں ایک طرف متابعت، نرمی ، گداز ، ایثار،خوف ،اطاعت جیسی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں،اور دوسری طرف بغاوت، انکار،طنز و استہزا کے رویے جنم لیتے ہیں۔
جوش صاحب کی شخصیت میں متابعت اور بغاوت، عشق اور ہوس ، تعقل اور تخیل ،دردمندی و طنز و استہزا کے متضاد دھارے شروع سے آخر تک ملتے ہیں۔ جوش صاحب نے خود کشائی کے عنوان سے لکھا ہے کہ:’’ میری زندگی کے چار بنیادی میلانات ہیںـ : شعر گوئی، عشق بازی، علم طلبی اور انسان دوستی‘‘۶۔علم طلبی کے حوالے سے یہ کہنا ضروری ہے کہ ان کی آپ بیتی میں ہمیں علم کی امٹ پیاس، جستجو کی لازوال تڑپ نہیں ملتی،البتہ اس تڑپ سے متعلق انشا پردازی ضرور ملتی ہے۔مثلاً یہ جملہ:’’ہندومسلم، یہودی، زرتشتی،بدھی ،جینی اور عیسائی علما کے سامنے برسوں ،دریوزہ گروں کے مانندکاسہء گدائی بڑھایا،علم کی بھیک مانگی،آگاہی کے واسطے ان کے آستانوں پرناک رگڑی، گڑگڑا، گڑگڑاکر،دامن پھیلایا،لیکن کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا‘‘۷، علم کی جستجو کا ولولہ خیز،یا شاید آرزومندانہ بیانیہ ضرور ہے، مگر اسے ہم ایک امرواقعہ کے طور نہیں لے سکتے؛ آپ بیتی سے اس امر کی واقعاتی تائید نہیں ہوتی کہ جوش صاحب نے علماے عالم کے سامنے کاسہ ء گدائی بڑھایا ہو۔یوں بھی کاسہ ء گدائی بڑھانا ،جو ش صاحب کی انانیت کے خلاف تھا۔ تاہم باقی تینوں میلانات،ان کی شخصیت کی متابعت ،گداز، دردمندی،خوف وغیرہ کو ظاہر کرتے ہیں۔ اپنی شخصیت کے دوسرے ،متضاد میلان کا ذکر انھوں نے نہیں کیا، جو در اصل اقتداری علامتوں کا مضحکہ اڑانے سے عبارت ہے۔
جوش صاحب کے سلسلے میں سب سے دل چسپ بات غالباً یہ ہے کہ اقتداری علامتوں سے ،ان کی نفرت کا آغاز کسی نہ کسی واقعے سے ہواہے۔یہ بات اپنی جگہ کچھ نہ کچھ اہمیت رکھتی ہے کہ حقیقتاً جوش صاحب کی زندگی میں اس طرح کے واقعات رونما ہوئے یا نہیں،مگر اہم تر بات یہ ہے کہ جو ش صاحب نے مذکورہ نفرت کے آغاز کا بیان کس ڈھنگ سے کیاہے،کیوں کہ اسی کی مدد سے ہم جان سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنے شخصی رجحانات کی جڑوں کی تلاش میں، کون سا طریقہ اختیارکیا ہے؟ یہ طریقہ ’بیانیہ ‘ہے۔ وہ ایک کہانی تیار کرتے ہیں،جس کے لیے وہ ایک کلاسیکی انداز کا افسانوی تخیل بروے کار لاتے ہیں۔اسے لکھنوی افسانوی؍داستانی اسلوب میں بیان کرتے ہیں۔ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ ان کی آپ بیتی میں ،اپنی جڑوں کا علم،نوعیت کے اعتبار سے، ’بیانیہ ‘ ہے؛ یعنی یہ تجزیاتی علم کے برعکس ،بیانیاتی علم ہے۔یہ اچنبھے کی بات نہیں کہ بیانیہ بھی ہمیں علم دے سکتا ہے۔بیانیہ علم، تجزیاتی علم کے مقابلے میں کہیں زیادہ مربوط ومنظم ہوتا ہے۔نیز یہ باور کراتا ہے کہ کوئی شے زمان و مکاں کی اس دنیا سے باہر نہیں؛ہر شے کی علت اسی زمان و مکاں میں موجود ہے۔اس بنا پر’ بیانیاتی علم ‘یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ انسانی پیمانے پر زیادہ مستند ہے ۔اس کے علاوہ ،بیانیہ علم،اس مفہوم میں عوامی ہوتا ہے کہ یہ اس زبان میں پیش ہوتا ہے ،جس سے عوام سب سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں ۔کہانی سے جوش صاحب کی دل چسپی کا سبب خود آپ بیتی کی ہیئت بھی ہو سکتی ہے،جو اصلاًکہانی کی ہیئت ہے۔ بہر کیف، جوش صاحب نے بیانیہ اسلوب کی مدد سے اپنا ’نفسیاتی ثقافتی رشتہ‘ لکھنوی روایت سے جوڑاہے ،جسے وہ کعبہ ء تہذیب کہتے ہیں۔ مثلاً فرنگی سے نفرت کا آغاز لکھنئو کے نخاس والے مکان سے ہوا، جہاں وہ اپنی کھلائی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ سڑک پر کوئی شخص گھوڑے کو پیٹ رہا تھا۔بڑی بی جان عالم پیا کویادکرکے رونے لگیں۔ جوش کو بڑی بی نے بتایا کہ ’’ جب سے ان بندر فرنگیوں کا راج ہوا ہے، ان غازی مردوں کو چابکوں سے مارا جانے لگا ہے۔‘‘ بڑی بی کی باتیں سن کر جوش صاحب بلبلا گئے اور انھیں فرنگی سے نفرت ہوگئی۔ ’’اور وہی لڑکپن کی نفرت آگے چل کر میری سیاسی نظموں کے روپ میں شعلہ فشانی کر نے لگی‘‘۸۔گویا جوش کی فرنگی سے نفرت کا آغاز ،ترقی پسندتحریک کا حصہ بننے سے پہلے ہوچکا تھا،اوراس نفرت کو پیدا کرنے میںاودھ کی اس عمومی ثقافتی فضا کا ہاتھ تھا ،جس میں بادشاہان ِ اودھ سے عوام کی محبت موجود تھی ۔خیر،آپ بیتی میں جہاں جہاں فرنگیوں کا ذکر ہوا ہے ،ان پر طنز و استہزا کے تیر برسانے میں جوش صاحب نے تامل نہیں کیا۔ فرنگی ،جوش کے لیے سیاسی استعمار ہیں، اور علی گڑھ اس استعمارکے حامیوں کی علامت ہے۔چناں چہ دونوں کے سلسلے میں جوش نے طنز وتنقید و استہزا سے کام لیا ہے۔ بلاشبہ علی گڑھ و سر سید پر جوش کی تنقید میں نیا کچھ نہیں؛اس کا لب لباب وہی ہے جسے اکبر اپنی طنزیہ شاعری میں پیش کرچکے تھے، مگر جوش کی ذہنی دنیا کو سمجھنے کے سلسلے میں بہ ہر حال اہم ہے۔
محمڈن اینگلو اورینٹل کالج : یہ مسلمانوں کو غیر اسلامی خطاب دینے والا، غلامانہ انگریزی نام ،اس کالج کے بانی ،ان سید احمد نے (جن کے کاسہ ء سر میں ’’سر‘‘ کے خطاب کا ہندوستان شکار عقاب اپنا آشیاں بنا چکا تھا)اپنی ذہنیت کے اس تیشہ زبوں سے تراشا تھا،جس سے حب وطن کے پہاڑ کاٹے جاتے تھے، اور ’’عشرت کدہ پرویز‘‘ کی جانب جوئے شیر لائی جاتی تھی۔،اور یہ خدا بخشے انھیں خویش و دشمن و بیگانہ دوست بزرگ کا موروثی اثر ہے جو آج تک ہمارا تعاقب کررہا ہے۹۔
اس کے بعد جوش صاحب نے ایک ایک کرکے، وہ نقصانات گنوائے ہیں جو علی گڑھ نے ہندوستان کو پہنچائے۔ مثلاً، یہ تحریک اس لیے اٹھائی گئی تھی کہ مسلمانوں کو ۱۸۵۷ء ی جنگ آزادی سے بے تعلق ثابت کیا جائے کہ ’مسلمانوں کا دل حبِ وطن جیسی ذلیل چیز سے قطعی آلودہ نہیں ہے‘؛مسلمانوں کو بس اتنی تعلیم دی جائے کہ وہ بابو یا ڈپٹی کلکٹر بن سکیں؛مسلمان اپنی زبان کو بھول بھال کر انگریزی میں سوچے ، انگریزی میں خواب دیکھے؛نیز مغربیت اختیار کرکے ،مشرق سے اس قدر بے زار ہوجائے کہ اپنی ثقافتی روایت کو ذلیل اور یہاں تک کہ اپنے باپ دادا کو احمق سمجھنے لگے۔(یہاں اکبر کی آواز صاف محسوس ہورہی ہے:ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں؍کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں)۔یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ جوش صاحب نے علی گڑھ پر کڑی تنقید اور کاٹ دار طنز کرتے ہوئے ،مسلمانوں اور مشرق کا مقدمہ پیش کیا ہے،جس کاذکر یادوں کی برات پر لکھی جانے والی تنقید میں عموماً نہیں ملتا۔جو ش کے نقادوں کی توجہ ،ان کی تعقل پسندی، روایت شکنی، مذہب سے بے زاری پررہی ہے ،اور شاید اس لیے کہ خود جوش نے جگہ جگہ ،ان کاببانگ دہل اظہار کیا ہے؛لیکن بچپن کے ثقافتی ومذہبی اثرات کس کس طرح ،چپکے چپکے ظاہر ہوتے ہیں،اور ’بالغ عمری‘ کے بہت سے دعووں کو تہ وبالا کردیتے ہیں، اس جانب ، جوش کے نقادوں کی کم ہی نگاہ پڑی ہے۔جوش جب سیاسی و ثقافتی اقتدار کی علامتوں کو طنزو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو در اصل ان ثقافتی علامتوں کے تحفظ کا مقدمہ لڑرہے ہوتے ہیں،جنھیں استعمار یا اس کے حامیوں نے نقصان پہنچایا۔
نفسیاتی زاویے سے دیکھیں تو ’ثقافتی علامتوں کے تحفظ کا مقدمہ‘ اس لیے لڑاجاتا ہے کہ اپنے ’مستند مَیں‘ کو محفوظ اور مستحکم بنایا جاسکے۔’مَیں‘ اگرچہ ایک داخلی ،نجی ہستی ہے ،مگراسے جو شے مستند بناتی ہے ،وہ خارجی ہے ،یعنی ثقافت ۔ جس ثقافت میں ،مَیں تشکیل پاتا ہے،وہی اس کو حقیقی ہونے کی سند بھی دیتی ہے۔اس لحاظ سے مَیں کی اصل مقامی رہتی ہے۔مَیں خواہ کس قدر عالمی ہونے کا دعویٰ کرے ، یعنی باہر کی طرف پھیلنے ،اور اوپر بلند ہونے کی کوشش کرے، اس کی مقامیت اسے نیچے اور ماضی کی طرف کھینچتی رہتی ہے۔مَیں کے استناد کو سب سے بڑا خطرہ ان ثقافتی اثرات سے ہوتا ہے ،جن کی نوعیت استعماری ہوتی ہے۔ اگر غیراستعماری اثرات،کسی ثقافت کو نیا خون دیتے ہیں تو استعماری اثرات اس کا خون نچوڑ لیتے ہیں؛وہ جڑوں پر وار کرتے ہیں،اور لوگوں کو بیگانگی و اجنبیت وبے معنویت کے احساسات سے دوچار کرتے ہیں ۔جوش کے یہاں بھی یہ احساسات ہیں،اور ان کے طنز کا محرک ہیں۔گویا ان کے طنزکا ہدف ،ان کے داخلی ثقافتی وجود پر حملہ آور ہونے والے بیرونی ،استعماری عناصر ہیں۔ جوش کی ذہنی تشکیل’ لکھنوی ثقافت ‘کے تحت ہوئی؛ملیح آباد لکھنئو ہی کا ایک نواحی قصبہ تھا؛جو ش کے گھر لکھنوی شعرا کا مسلسل آنا جانا تھا؛جو ش کی شیعت بھی ، لکھنئو کی دین ہے؛جوش نے بچپن میں لکھنوی کہانیاں سنیں ۔اسی لکھنئو پر ،جسے جوش کعبہ ء تہذیب کہتے ہیں، فرنگی نے غاصبانہ قبضہ کیا۔فرنگی سے نفرت کا آغاز بھی جان عالم پیا کے اس ناستلجیائی ذکر سے ہوا،جو ایک بوڑھی عورت نے جوش کے سامنے کیا۔ خود اس بوڑھی عورت کے لفظوں میں فرنگی کے لیے طنز کے نشتر تھے ،اور اس طنز کی جڑیں بھی ماضی کے لکھنئو سے والہانہ محبت میں تھیں۔جان عالم پیا اہل لکھنئو کی ،لکھنوی ثقافت سے محبت کا استعارہ تھا۔
جوش کی تقشف سے روگردانی کا بیان بھی ایک کہانی کی صورت ہے۔
میں ایک روز حسب معمول امانی گنج کے میدان میں ٹہل رہا تھا ۔۔۔۔دسمبر کی برفانی ہوائیں،اونی واسکٹ کو توڑ کر سینے میں چبھ رہی تھیں ۔فضا اپنی کالی کملی کو اوڑھ لینے کے واسطے جھٹک رہی تھی،تھکی مانند چڑیاں بسیرالے رہی تھیں۔دور دور تک اداسی چھائی ہوئی تھی،اور آفتاب کے ڈوب جانے کی کراہ فضامیں تھرتھر ارہی تھی کہ میں نے دیکھا کہ ایک کوزہ پشت بوڑھی بڑی بی،لکڑی ٹیکتی،اور ریلوے لائن کو عبور کرتی ہوئی،انتہائی دردمندی کے ساتھ میری طرف رینگتی چلی آرہی ہیں۔۔۔۔ان کا یہ عالم دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔۔۔ سوچنے لگا کہ یہ چلے کے جاڑے ، یہ برف میں جھلا جھٹپٹا،یہ ہڈیوں کو تراشنے والی ٹھنڈی ہوا،یہ اونگھتا چٹیل میدان ،اور یہ ضعیفہ؟۱۰
واقعہ نویسی کرتے ہوئے جوش صاحب کے قلم میں ایک عجب جوش بھر جاتا ہے ؛یہ جوش ،اس واقعے سے وابستہ نفسی کیفیت کی بازیافت سے پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس واقعے کی معمولی سے معمولی جزئیات کو ، تمام حسی تلازمات کے ساتھ، لطف لے لے کر بیان کرتے ہیں۔وہ Tellingسے زیادہ Showingمیں یقین رکھتے محسوس ہوتے ہیں۔اس واقعے کو بھی خاصی تفصیل سے بیان کرنے کا مقصد ،یہ ظاہر کرنا ہے کہ جب ان کے تقشف کا خاتمہ ہوا تو ان کی نفسی حالت کیا تھی؟ ’’میرا سر چکرانے لگا کہ اللہ کی بنائی ہوئی اس دنیا کا یہ عالم ہے کہ یہاں قدرت نے طاقت کو یہ لائسنس دے رکھا ہے کہ وہ ناطاقتی کو کچل ڈالے‘‘۔اس کے ساتھ ہی انھیں تاریخ کی اقتداری علامتیں یاد آنے لگیں: یزید ،شمر، نادر، نیرو، چنگیز، ہلاکو، مسولینی اور ہٹلر۔’’ ایک سانس میںغور کرنے کے بعد،زندگی میں پہلا دن تھا کہ خدا کے عادل و حکیم اور رب ورزاق ہونے سے میرے دل میں شدید بدگمانی پیدا ہوگئی،اور جھوٹ کیوں بولوں،مجھ کو خدا پر اس قدر غصہ آگیا کہ میں نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی کہ اگر آس پاس کوئی مسجد ہوتو اسے آگ لگادوں۔۔۔مسجد وہاں تھی نہیں، ریلوے لائن کے شوالے پر نظر پڑ گئی،میں غصے میں بھرا،ادھر گیا،اور شوالے کے دروازے پر کھڑے ہوکر اول فول بکنے لگا‘‘۱۱۔ ۔غورکیجیے، جوش صاحب تقریباً اسی ہیجانی نفسی کیفیت سے یہاں دوچار ہوئے ہیں،جس سے وہ اپنے باپ کی طرف چاکو پھینکنے کے وقت گزرے تھے۔دونوں واقعات میں ان کا ردّعمل یکساں تھا: طاقت و اقتدار کے مظاہرکی شکست کی کوشش۔طنز کی تہ میں یہی نفسی ہیجانی کیفیت موجود ہوتی ہے ،اور لفظوں کو نشتر بنا کراپنے ہدف کی اقتداری حیثیت کو شکست آشنا کرنا چاہتی ہے۔ان واقعات سے ایک اور بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ کم از کم بچپن میںخدا ، پدری طاقت کی علامت ہوتا ہے۔
جوش صاحب کے بیان کے مطابق ،ان کے تقشف کا خاتمہ،ان کی تعقل پسندی کا آغاز بنا؛تقشف کی راکھ سے تعقل پسندی کا جنم ہوا۔انھوں نے اپنی قلب ِماہیت کے واقعے کا بیا ن جس پرلطف پیرائے میں کیا ہے ، اور جس طرح خیال وکیفیت کی ایک ایک لرزش کو لکھا ہے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اپنی زاہدانہ زندگی کے خاتمے اور رندانہ زندگی کے آغاز نے ایک غیر معمولی نشاط سے ہمکنار کیا تھا۔جوش صاحب کے دل کا حال ذرا انھی کی زبانی سنیے:
ایک روز نماز پڑھ رہا تھا کہ خیال آیا۔۔۔ایسی نمازیں ،جن میں لب پر آئتیں ہوں اور دل میں شکائتیں ،کس مرض کی دوا ہوسکتی ہیں۔ یہ خیال آتے ہی ایک توپ سی چلی میرے دل میں ،دھائیں سے ۔میری کھوپڑی میں چٹاخا پیدا ہوا۔میری عقل ،میرے سر سے نکل پڑی اور میرے سامنے کھڑے ہوکر مجھ کو چونچ دکھانے لگی۱۲۔
انھوں نے فی الفورنماز کو خیر باد کہا۔داڑھی منڈوادی۔موٹے جھوٹے کپڑے اتارکر پھینک دیے ۔اچھا لباس پہنا۔ٹمٹم منگائی۔لکھنئو پہنچے۔ ایک نازنین کے کوٹھے کا رخ کیا۔ رات اس کی مسہری پر گزاری۔دل میں بس جانے والا مُلاّ رخصت ہوا۔’’اس مُلاّ کے جاتے ہی میری خواب گاہ میں میرا گم کردہ شاعر : پس از مدت گزرافتاد ،برما،کاروانے را، کے مانند ہنستا ہوا در آیا۔آتے ہی اس نے دوڑ کر میرے گلے میں بانہیں ڈال دیں‘‘۔ بلاشبہ یہ قلب ِ ماہیت تھی؛جوش صاحب نے ایک طرح کی زندگی ترک کی ،اور دوسری طرح کی زندگی اختیار کی، لیکن ہمارے لیے جوش صاحب کی بات پر یقین کرنا مشکل ہے ۔ان کے بیان کے مطابق ،ان کی دوسری طرح کی زندگی تعقل کی تھی ،جب کہ حقیقت میں یہ تعیش کی تھی۔جوش صاحب کو عقل نے چونچ نہیں دکھائی، ان لاشعوری جنسی خواہشوں نے چونچ دکھائی ،جنھیں وہ اپنے تقشف کی زندگی میں مسلسل دبا تے چلے آرہے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ تقشف کی زندگی جن پابندیوں کی حامل تھی، وہ شعوری ،عقلی تھیں،اور ان پابندیوں سے آزادی لاشعوری ،وراے عقلی فعل تھا۔’گم کردہ شاعر‘ اس آزادانہ زندگی کی علامت ہے ،جو عقلی ،شعوری بندشوں کو شکست آشنا کرنے سے عبارت ہے۔تاہم جوش صاحب کی قلبِ ماہیت’ فطری ‘تھی؛جوش نے زاہدانہ زندگی جس زور و شور سے اچانک شروع کی،حضرت حبیب حیدرشاہ کی بیعت بھی کرلی،اپنا حلیہ بدل ڈالا،اور جنس و تعیش کی آرزوکا گلا گھونٹ ڈالا، اس کا ردّ عمل ہونا عین فطری تھا ۔ان کے اندر اصل جنگ مُلاّ اور شاعر، زاہد او ر رند ،شعور اور لا شعور کی تھی۔ جوش صاحب کی دیانت داد طلب ہے کہ انھوں نے اس جنگ میں شاعر، رند اور لاشعور کی فتح کا اظہار،کسی مصلحت و خوف کے بغیر کردیا۔
جوش صاحب نے جگہ جگہ اپنی تعقل پسندی کا تفاخر آمیز دعویٰ کیاہے۔ اس دعوے کی تائید ،ان کی آپ بیتی میں بیان کردہ واقعات و حقائق سے نہیں ہوتی۔ یہاں ہم صرف ایک واقعے کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ جوش صاحب نے کچھ خوابوں کا ذکرکیا ہے۔ آپ بیتی میں ’ایک خواب ‘کے عنوان سے جس خواب کا بیان کیا ہے ،وہ اس دعوے کی تردید کے لیے کافی ہے کہ عقل ہی انسانی شخصیت کی واحد رہنما قوت ہے۔جوش صاحب کے مطابق انھوں نے ۱۹۲۲ء میں ایک رات خواب میںحضرت محمدﷺکو دیکھا،جنھوں نے ارشاد رفرمایا کہ ’’یہ نظام ِ دکن ہے ،تم کو دس برس تک اس کے زیر سایہ رہناہے‘‘۔اس کے بعدبہ قول جوش صاحب، ایک نرالی خوشبو نے ان کا احاطہ کرلیا،جس کی تصدیق ان کی بیوی اور چھوٹے دادانے بھی کی۔ اس کے بعد جوش صاحب دس برس تک نظام حیدر آباد کی ملازمت میں رہے ۔جوش صاحب کے اکثر نقادوں نے اس خواب کو من گھڑت قرار دیا ہے۔مثلاً رشید حسن خاں نے مائل ملیح آبادی کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے ،جس میں ’’انھوں نے بتایا تھا کہ جو ش صاحب نے نظام حیدرآباد کی خدمت میں ایک درخواست بھیجی تھی،جس میں یہ لکھا تھا کہ شاہنامہ فردوسی کے انداز پر ،میں خاندان آصفیہ کی منظوم تاریخ لکھنا چاہتا ہوں۔نمونے کے طور پر اس کا ابتدائی حصہ بھی درخواست کے ساتھ منسلک کردیا تھا‘‘۱۳۔ خود جوش صاحب نے ایک دوسری جگہ اس سے مختلف بات لکھی ہے۔’’لیکن جب عمر ڈھال کی طرف آنے لگی، میری امارت کا آفتاب ڈوب گیا۔ناقدر شناس و بے مہردنیا نے میرا خلعت خواجگی چھین کر ،مجھے غلامی کا لباس پہنایا،اور میری گردن میں نظام دکن کی ملازمت کا طوق ڈال دیا‘‘۱۴۔ اگر حیدر آباد جانا ان کی تقدیر میں لکھا تھا، جس کی بشارت انھیں پیغمبر اسلام ﷺ نے دی تھی تو اسے غلامی کا لباس کہنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
بایں ہمہ ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ،جس سے جوش صاحب کے اس خواب کی تصدیق یا تردید کرسکیں۔ ہماری نظر میں اس خواب کا بیانیہ ،جوش صاحب کو سمجھنے میں بے حد معاون ہے۔ مثلاً پہلی بات یہ کہ جوش صاحب ،لاشعور کو شعورپر ،اور ماوراے حواس دنیا کو حسی دنیا پر ، وجدان کو عقل پر فوقیت دے رہے ہیں۔جوش صاحب ، اپنی تعقل پسندی کے جوش میں علم کے ماورائی سرچشمے کا انکار بلند بانگ لہجے میں کرتے ہیں،مگر یہ خواب ایک بالکل مختلف کہانی سناتاہے۔یہ خواب بتاتا ہے کہ ان کے دل میں کہیں چورموجود تھا کہ صرف حواس اور عقل علم کا ذریعہ نہیں؛ماوراے حواس دنیا بھی ’قطعی علم ‘ کا ذریعہ ہوسکتی ہے؛اس خواب میں دل کا یہی چور ظاہر ہوا ہے۔جوش صاحب کی آئندہ زندگی کے دس برس حیدرآباد میں گزریں گے، اس کا علم انھیں خواب میں اس عظیم المرتبت ہستی کے ذریعے ہوا، جو ایک حدیث کے مطابق حقیقتاً خواب میں ظاہر ہوتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اس خواب کے بیانیے میں جوش صاحب کا اصل تخاطب مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے کہ خواب میں بھی شیطان پیغمبرﷺ کا بھیس اختیار نہیں کرسکتا۔ لہٰذا ان کی بات کو من و عن قبول کرلیا جائے گا،اور جوش صاحب کی دہریت سے متعلق نفرت ختم ہوجائے گی،یا اس کی شدت میں کمی آجائے گی۔گویا جوش صاحب ،دہریت کی شناخت سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرسکے تھے۔ اس خواب کا بیان ،واضح طور پر اس بات کا مظہر ہے کہ وہ مسلمان کے طور پراپنی ابتدائی مذہبی شناخت کی بحالی چاہتے تھے۔جوش کو اپنی مسلمانی شناخت کا کس قدر لاشعوری احساس تھا، اس کا اظہار مس میری رونالڈو سے عشق کے دوران میں بھی ہوا۔ جوش کے والد نے کہا کہ اگر فرنگی لڑکی مسلمان ہوجائے ،اور پردہ نشینی اختیار کرلے تو وہ اسے بہو کے طور پر قبول کرنے پر آمادہ ہیں۔ جوش نے دونوں شرطیں مس میری رونالڈوکے سامنے رکھیں ۔وہ پردہ نشینی پر تو تیار ہوگئی،مگر اسلام قبول کرنے سے اس لیے انکار کردیا کہ اس کی نظر میں ’’ یہ گنڈوں کا دین ہے‘‘۔ جوش کو تائو آگیا،اور انھوں نے ایک بھاری اسٹول اٹھا کر اس کو کھینچ کرمار دیا۔جوش صاحب عیسائی مذہب کو برابھلا کہتے اس کے گھر سے روانہ ہوگئے۔ جوش کا جذباتی ردّعمل ،ان کی مذہب سے کسی داخلی گہری وابستگی سے زیادہ ،قومی مذہبی شناخت کے اثبات سے عبارت تھا۔
جوش صاحب کے خواب ،اور مس رونالڈو کے واقعے کو نو آبادیاتی اور پس نو آبادیاتی عہد کے قومی بیانیوں کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے ۔ یہ قومی بیانیے ، مذہب اساس تھے ۔ چوں کہ مذہب اساس تھے، اس لیے ان میں ایک طرح کی’ تقدیس کی طاقت ‘پیدا ہوگئی تھی۔دوسری طرف سیاسی وجوہ ،آزادی کی تحریکوں، پریس کی حدر درجہ نفوذ پذیری نے انھیں اس قدر طاقت ور بنا دیا تھا کہ برصغیر میں رہنے والا کوئی شخص ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ان قومی بیانیوں نے ایک حساس انسان کی وجودی شناخت کے سوال کو قومی ،مذہبی شناخت سے بھڑا دیا تھا۔یعنی ’میں کون ہوں‘ جیسے انسان کے بنیادی ،فلسفیانہ سوال کو ایک سماجی مسئلہ بنا ڈالا تھا؛صاف لفظوں میں آدمی کو اپنی فطری آزادی کے ساتھ ،انسانی وجود کے ازلی سوالات پر غور کرنے کی فرصت وحق سے محروم کردیا تھا۔بنا بریںجوش صاحب کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ’ایشیا میں کسی خالص مفکر کا پیدا ہوجاناتقریباً ایک محال امر ہے‘۔غالباً وہ خالص مفکر سے ایسا شخص مراد لیتے ہیں جس کی فکر تضادات سے ملوث نہ ہو ،اور جسے اپنی ہر بات کہنے کی آزادی ہو۔بہ ہرکیف، جوش صاحب خود کو لاکھ ’کافر باللہ ‘ اور ’مومن بالانسان‘ کہیں، ان قومی بیانیوں کا غیر محسوس جبر انھیں ’مومن بالمسلمان‘ ہونے پر مجبور کرتا تھا۔یہاں تک کہ جوش صاحب کا پاکستان آنا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔پاکستان آنے کا بڑا محرک ،وہ اندیشہ تھا جو ہندوستان میں اردو اور مسلمان کی قومی شناخت کو لاحق تھا۔اسی طرح جوش صاحب ،اگرچہ تمام بانیان مذاہب کے احترام کا ذکرکرتے تھے، مگر خصوصیت کے ساتھ جن ہستیوں کا دل سے احترام کرتے تھے،ان میں انھوں نے حضرت محمد عربیﷺ ، حضرت علی ؑ، اور حضرت حسین ؑ کے اسما لکھے ہیں۔ جوش صاحب آبائی عقائد سے آزاد ہوجانے کا جابجا ذکرکرتے ہیں، مگر یہ ذکر در اصل ، اس شدید دبائو کو برابرمحسوس کرنے کا دوسرانام ہے ،جو ان عقائدکے شعوری انکار کے ساتھ ،لاشعور میں بڑھ جایا کرتا ہے۔ اس طرح کا دبائو آدمی کو نیوراتی بنا سکتا ہے ،مگر جوش صاحب کوجس بات نے نیوراتی ہونے سے محفوظ رکھا ، وہ ایک طرف یہ اقرار تھا کہ آبائی عقائد طاقت ورہوتے ہیں(ڈر کا سامنا ہی ڈر کو کم کرسکتا ہے) ،اور دوسری طرف وہ مذہب و خدا ،اور الوہی ہستیوں کے ’محدود اور رائج ‘ تصور کے منکر تھے۔’’وہ دراصل خدا کے اس تصور کے خلاف ہیںجو ناپختہ ذہن انسانی کا تراشیدہ ’’شخصی خدا‘‘ Personified Godہے‘‘۱۵۔جوش نے مذہبی عقائد کی ایک ایسی تعبیر کی کوشش کی ہے،جس کی مدد سے عظیم مذہبی ہستیوں کی انسانی صفات روشن ہوتی ہیں؛وہ پیغمبروں اور اماموں کی جو تصویر ابھارتے ہیں، وہ انسانی دنیا کی تصویر ہوتی ہے؛وہ ان صفات کے حامل ہیں جنھیں انسان اپنی بشری وفطری صلاحیتوں کی نشوونما کرکے پیدا کرتا ہے۔
مذکورہ وجوہ سے جوش صاحب کی علانیہ دہریت کی تہ میں لاادریت موجزن تھی۔ خود کہتے ہیں’’بہر حال میں اقرارو انکار کے دوکروں کے، بیچوں بیچ بیٹھا ہوں‘‘۱۶۔یوں بھی دہریت ایک غیر معمولی نفسی حالت کو جنم دیتی ہے۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ انکارِ محض کی حالت ہے،جس میں انسان مطلق آزادی کے ساتھ ،اپنی سب خواہشوں کی تسکین چاہتا ہے۔ممکن ہے ،دہریت کی حالت میں کوئی ایسا مرحلہ آتا ہو،جس میں آدمی خود کو ہر ذمہ داری اور جواب دہی سے آزاد محسوس کرتا ہو، مگر نفسیاتی تجزیے کی رو سے دہریت ،کبریائی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے ناتواں انسانی کاندھوں پر اٹھانے سے عبارت ہے ۔’’ژنگ کہتا ہے کہ جب ہم خدا کا انکار کرتے ہیںتوہم اناکو کبریائی قوتیں دے دیتے ہیں۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری عقل اور ہمار اشعوراس کائنات کی زندگی اور موت کی ذمہ داری لے سکتا ہے۔یہ دہریت کی نفسیاتی تعبیر ہے جو بہت حد تک درست سمجھی جاسکتی ہے‘‘۱۷۔گویا دہریت ایک استعارہ ہے ،جس میں کبریائی ذمہ داریوں کا مفہوم ، انسانی شعور کی طرف منتقل ہوجاتاہے۔جوش صاحب کے یہاں ہمیں دہرے وجودیوں کا یہ تصور کہیں نہیں ملتا کہ دنیا میں جہاں کہیں جو کچھ رونما ہورہا ہے ،جوش خود کو اس کے ذمہ دار سمجھتے ہوں،اور اپنے ہر عمل کو پوری دنیا کے لیے حکم بناتے ہوں۔
بہرکیف جوش کی علانیہ دہریت اصل میں لاادری تھی۔چناں چہ جب ایک کرے میںجوش کا احساس بھٹک رہا ہوتا تھا تو انھیں موذّن کی آواز بھی گراں گزرتی تھی ،اور جب دوسرے کرے میں ان کی روح قیام پذیر ہوتی تھی تو ’’ایسا معلوم ہوتا ۔۔کہ تمام کرہ ارض عرش کی جانب پرواز کرتا چلا جارہا ہے،اور تما م ثابت و سیارزمین کی جانب جھکتے چلے آرہے ہیں‘‘۱۸۔لاادریت ،ایک سطح پرا نسانی آزادی کی علامت بن جاتی ہے،کیوں کہ اس میں انسان ،انکارو اقرار ، قبض و بسط کی متضاد حالتوں کا تجربہ کسی خوف یا مصلحت کے بغیر،اپنے اندر کی آواز پرکرتا ہے۔وہ ردّ کرنے میں جھجکتا ہے ،نہ قبول کرنے میں شرماتا ہے۔اس بنا پر ردّ اور قبول ،دونوں حالتِ التوا میں رہتے ہیں؛ ان میں سے کسی ایک کا تسلط ،ذہن و احساس کی دنیاپر قائم نہیں ہوپاتا۔نیز لاادریت ،جس متضاد حالت کو جنم دیتی ہے، وہ ایک تخلیقی پیرایہ اختیار کرنے کا میلان رکھتی ہے۔ جوش صاحب کی باکمال نثر کا یہ ٹکڑااس سیاق میں پڑھیے۔ واضح رہے کہ یہ ٹکڑااس تحریر کا حصہ ہے جس میں جوش نے اپنے معاشقوں ،یا اپنی جنسی زندگی کے آغاز کی کہانی لکھی ہے۔
سب سے پہلے میرے ذوق جمال کو مرتب و مہذب بنانے کی نیت سے اس [قوت و حیات]نے افق کا گریباں پھاڑ کر نازل کردیا،مجھ پر طلوع صبح کا قرآن۔۔۔۔اب کیا تھا،مشرق کی زریں دھاریوں سے اترنے لگے،میرے ذہن پر آیات۔۔۔۔پھولوں کے امواج ِ رنگ وبوسے اڑنے لگے میرے سر پر جبریل۔۔۔مرغان سحر کے چہچہوں سے گونجنے لگے میری محراب وجود میں نغمات دائود۱۹۔
آپ نے ملاحظہ کیا !کس طرح یہاںحسیت و ماورائیت، دنیویت وتقدیس ،ایک دوسرے میں آمیز ہوگئی ہیں، دونوں کا تضاد ایک دوسرے کو آنکھیں نہیںدکھارہا،بلکہ ایک دوسرے سے آنکھیں چار کرنے لگا ہے؛ اور کس طرح وہ کیفیت پیدا ہورہی ہے ،جسے ارتفاع کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ارتفاع ،جبلت کی روحانی جہت کے آشکار ہونے کا نام ہے۔جبلت کی روحانی جہت ،ایک ایسے انداز میں رونما ہوتی ہے کہ جبلت کی نفی نہیں ہوتی؛اس میں اچانک ایک ایسا رخنہ نمودار ہوتا ہے ،جس میںتقدیس کانور جھانکنے لگتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں جبلت کا ہیجان ختم ہوجاتا ہے ،اور روحانی احساس کے ،انسانی بساط سے باہر ہونے کا خوف دم توڑ دیتا ہے۔ حسی لذت لطیف ہوکرجمالیاتی و روحانی کیفیت میں بدل جاتی ہے۔ جوش کی نثر میں ہمیں ارتفاع کی یہ کیفیت کئی مقامات پر ملتی ہے۔واضح رہے کہ یہاں جوش صاحب کے کسی روحانی تجربے کا ذکر مقصود نہیں، صرف یہ باور کرانا مطلوب ہے کہ ان کی انشا جس جمال کی حامل ہے،اس میں ایک حصہ ان کی لادریت سے پیدا ہونے والی نفسیاتی، تخلیقی حالت کا بھی ہے۔
چند باتیں ،جوش صاحب کے خواب سے متعلق مزید کہنے کی ضرورت ہے۔ الوہی ہستیوں سے متعلق خواب ،اور ان خوابوں کی تفہیم میں فرق کیا جانا چاہیے۔ کسی الوہی ہستی کو خواب میں دیکھنا، دراصل اپنی قبل شعور کی ،قدیم سائیکی کی پراسرار دنیا میں قدم رکھنا ہے۔ان خوابوں کو من وعن سچا سمجھنا ،ان کی راہنمائی کو قبول کرنا ،ان کی علامتی حیثیت سے صرفِ نظر کرنا ہے۔ خواب لاشعور سے ظاہر ہوتے ہیں ،جو علامت سازی کا منبع ہے۔بہ قول ژنگ، ’’خواب کے مندرجات علامتی ہوتے ہیں، اسی لیے ان کے ایک سے زیادہ معانی ہوتے ہیں۔خواب ان سمتوں سے مختلف سمت میں اشارہ کرتے ہیں، جنھیں ہم شعوری ذہن کی مدد سے سمجھتے ہیں‘‘۲۰۔ چوں کہ ہر علامت غیر متعین معانی کی حامل ہوتی ہے، اسی لیے خوابوں کی علامتوں کی تعبیر کی ضرورت ہوتی ہے،اوریہ تعبیر کسی خاص وقت میں انسان کی احساساتی حالتوں پر روشنی ڈالتی ہے؛گویا خواب ہمیں علم دیتے ہیں، اپنے آپ کا،اپنے عقائد کا، اپنی الجھنوں کا،اپنی تشنہ آرزوئوں کا ۔ جوش صاحب نے اس خواب کو علامت نہیں سمجھا،قدیم زمانے کے انسان کی مانند اس کی پراسراریت،اس کی معمائی کیفیت کوقبول کیا۔ خود کہتے ہیں:’’ ممکن ہے کہ وہ خواب اور اس کے بعد کی خوشبو میرے آبائی عقائد کی ایک محسوس کیفیت ،یا میرے شاعرانہ تصورات کی ایک حیرت ناک خلاقی ہو،ایسی خلاقی جو حواس کو فریب دے سکتی ہے،یا جناب والا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ انسان کے اس ابتدائی دور کے تمام قیاسات اور اب تک کے تمام سائنسی انکشافات سے قطعاً مختلف کوئی اور ہی چیز ہو‘‘۲۱۔اصل یہ ہے کہ جوش صاحب نے ثابت کیاہے کہ وہ حقیقت میں وجدان و لاشعور میں یقین رکھنے والے کلاسیکی آدمی تھے؛ ایک مفکر سے زیادہ شاعر تھے؛ان کا تخیل، ان کے تعقل سے کہیں زیادہ طاقت ور تھا۔ کم از کم یادوں کی برات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ جوش کی اصل شخصیت،ایک جدید،عقلی آدمی کی تھی۔ یہاں تک کہ جوش صاحب کے تقشف کا خاتمہ بھی انھیں ’جدید ،عقلی آدمی ‘ ثابت نہیں کرتا۔ انھوں نے زاہدانہ زندگی کے بعد جس رندانہ زندگی کو اختیار کیا، وہ بھی قدیم جاگیردارانہ تہذیب کی تعیش پسندی کے احیا سے زیادہ نہیں تھا۔جوش صاحب نے جدید آدمی کی طرح بوہمین طرز زندگی اختیار نہیں کیا،جس کی مثال ہمیں میراجی کے یہاں ملتی ہے۔ جوش صاحب ،اپنے جاگیردارانہ پس منظر کی تفاخر آمیزیاد سے شاید ہی غافل ہوئے ہوں!
ماضی کئی طرح سے جوش کے تخیل و تعقل پر اثرا نداز ہوتا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ جوش صاحب کاانسان دوستی کے تصور بھی ’نیا‘ نہیں۔اس کی اساس بھی ان کے اس ثقافتی ماضی میں تلاش کی جاسکتی ہے، جس کا شعوری طور پر وہ انکار کرتے ہیں۔ انسان دوستی کا مغربی تصور، بشر مرکز فلسفے کی پیداوار ہے، جس کے مطابق انسان ہی تمام اشیا کا پیمانہ ہے۔مغرب میں نشاۃ ثانیہ کے عہد میں لبرل آرٹس کی تعلیم سے شروع ہونے والاانسان دوستی کافلسفہ ،’’ایک ایسا نیا فلسفہ تھا،جس کا مفہوم انسانی فطرت کی تجلیل تھا،اور قرون وسطیٰ کی عقبیٰ سے متعلق اقدار کی جگہ اسی دنیا کے مقاصد کو رفعت بہ کنار کرنا تھا‘‘۲۲ ۔اب ذرا جوش صاحب کا انسان دوستی کا تصور ملاحظہ کیجیے:
یہ ایک ناقابل ابطال حقیقت ہے کہ انفس و آفاق یعنی تمام ذی حیات و غیر ذی حیات،واحد العناصر، واحد الخمیر، واحد القوام، واحد العلت، واحد النسل، اور واحد الاصل ہیں،اور اسی طرح واحد النسل ہیں۔ جس طرح پلاسٹک کے کھلونے اور پلاسٹک کے پھول،ہرچند اسما،اشکال اور اجسام کے اعتبار سے تمام کھلونے ،اور پھول،ایک دوسرے سے قطعی طور پرمختلف ومتضاد نظر آتے ہیں ،لیکن اگر انھیں پگھلا دیں گے تو پلاسٹک کے سوااور کچھ باقی ہی نہیں رہ جائے گا۲۳۔
وحدت انسانی کا یہ تصور،وحدت الوجود کے صوفیانہ نظریے کی ’انسانیاتی تعبیر‘ کے سوا کیا ہے؟اصل یہ ہے کہ جوش صاحب نے وحدت انسانی کے حق میں وہی دلیل دی ہے ،جسے ابن عربی نے وحدت الوجود کے حق میں دیاتھا۔ فتوحات مکیہ میں ابن عربی نے لکھا ہے کہ ’’ [ترجمہ]پس اگرتو آنکھ اور عقل دونوں کا مالک ہے توتُو ایک شے واحد کے علاوہ کسی اور چیز کو بالفعل نہیں دیکھے گا‘‘۔بس فرق یہ ہے کہ جوش صاحب نے اس دلیل کا معروض بدل دیا ہے؛ ’وحد ت حق‘ کے مابعد الطبیعیاتی تصور کی جگہ وحد ت انسانی کامادی تصور پیش نظر رکھا ہے۔ کہنے کا مقصود یہ نہیں کہ جوش صاحب مغرب کے انسان دوستی کے نظریے کو ناپسند کرتے تھے ،یا اسے ناقص خیال کرتے تھے،صرف اس بات پر زور دینا مقصود ہے کہ جو ش صاحب کے یہاں مقامی ثقافتی علامات کی بازیافت کا ایک لاشعوری رجحان موجود ہے ۔انھوں نے انسان دوستی کے’ آفاقی تصور ‘کی تشکیل کے لیے،اپنی ’مقامی ثقافتی دنیا ‘کی طرف رجوع کیا ہے۔اس بات کا ذکر بے جا نہیں ہوگا کہ کلاسیکی اردو شاعری میں وحدت الوجودی تصورات کثرت سے موجود تھے۔ مثلاًصرف دو شعر دیکھیے:
وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آسکے
آئنہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے
(میر درد)
کثرت آرائی وحدت ہے پرستاری وہم
کردیا کافر ان اصنام خیالی نے مجھے
(مرزا غالب)
وحد ت الوجودی تصورات کی گہری سماجی معنویت تھی۔ برصغیر جیسے کثیر اللسانی اور کثیر الثقافتی معاشرے میںوحد ت الوجود نے سماجی ہم آہنگی کی فضا پیداکی تھی۔ یہی مقصود جوش صاحب کا بھی نظر آتا ہے۔ انھیںانسانی فطرت کی تجلیل کے فلسفیانہ تصور سے زیادہ ،انسانی فطرت کی وحدت سے دل چسپی محسوس ہوتی ہے۔وہ اس وحدت کو اپنے اخلاقی تصور کی بنیاد بناتے ہیں۔
O
جوش صاحب کا اقتداری علامتوں سے رشتہ خاصا پیچیدہ رہا ہے۔ ان کے یہاں اقتداری مظاہر کا مضحکہ اڑانے ،اور ان کی طرف کھنچے چلے آنے کے متضاد دھارے موجود ہیں۔وہ مذہبی مقتدرہ کا مضحکہ اڑاتے ہیں،اور، مذہبی مقتدر ہستیوں کی عظمت تسلیم بھی کرتے ہیں۔ایک طرف وہ فرنگی اور اس کے ہم نوائوں پر طنز کے تیر برساتے ہیں،اپنے بیش تر ترقی پسند دوستوں کے برعکس ہٹلر اور مسولینی جیسے آمروں،تہذیب دشمنوں کی اس بنا پر مذمت سے انکار کرتے ہیں کہ اس سے ایسٹ انڈیا کے فرندوں کے حمایت کا پہلو نکلتا ہے، اور دوسری طرف،انگریز کے وفادارنظام حیدرآباد کی ملازمت قبول کرتے ہیں۔پھر ایک وقت آتا ہے کہ نظام کے خلاف نظم پڑھنے کی جرأت کا مظاہر ہ بھی کرتے ہیں۔اسی طرح آمر ایوب خاں کی حکومت سے مدد کے طالب رہتے ہیں۔ انھیں حکومت کی مالی سرپرستی قبول کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں ہوا۔ پاکستان آنے کے بعد انھوں نے پلاٹ ،پرمٹ ،لائسنس حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں دیکھی۔ یہ دوسری بات ہے کہ انھیں زیادہ تر ناکامیوں کا منھ دیکھنا پڑا۔غالباً وہ شعرا کی حکومتی سرپرستی کے قدیم تصور کے اسیر تھے ۔جوش صاحب نے اپنی شخصیت کے اس تضاد کا تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ایک طرف وہ یہ کہتے ہیں’’ کھوکھلے اقتدار کی چھچھوری آرزو کے ڈسے ہوئے، ان سفید اور دیوانے سیاستدانوں کو،جو گلی گلی،ووٹوں کی بھیک مانگتے ،کھوئی دولت کی ،تابہ مرگ نہ بجھ سکنے والی پیاس کے مارے ہوئے،ان جاہل اور بورائے صنعت کاروں ،یعنی دولت مند ناداروں کو ،جو قریوں قریوں نوٹوں کے پیچھے دوڑتے پھرتے ہیں،اس بات کا مطلق علم نہیںہے کہ دنیا میں دولت کی نہیں، دماغ کی فرماں روائی ہے،اور سرکار قلم کے دربار میں ،سکندر اعظم اور قارون پرشکم کی بس اس قدر آبرو ہے کہ اسے غلام اور اسے دریوزہ گر کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔اور خیمہ رامش ورنگ کے متوالوں کو اس بات کا پتہ نہیں ہے کہ نوشت و خواند ایک ایسی بے نظیر عیاشی بھی ہے کہ راجہ اندر کا اکھاڑا،اس کے روبرو گورغریباں سے زیادہ سنسان نظر آتاہے‘‘۲۴۔،اور دوسری طرف ہر مشکل وقت میں کھوکھلے اقتدار میں شریک کسی صاحب اختیار کے منتظربھی رہتے تھے۔ ’’جب دکن سے اخراج ہواتھا تو سردار روپ سنگھ اور سروجنی نائیڈو نے میری مدد کی تھی۔اس کے بعد شیو نرائن نے ہات بٹایا تھا،اور جب شیو نرائن نے ساتھ چھوڑ دیا تھا ،اس وقت مہاراجہ پٹیالہ میری پشت پر آکر کھڑے ہوگئے تھے۔جب بمبئی میں نان شبینہ تک سے محروم ہونے کا وقت سرپر آ پہنچاتھا ،اس وقت پنڈت نہرو نے میری دست گیری کی تھی‘‘۲۵۔جوش صاحب کو فقط اپنی خاندانی حشمت پر تفاخر ہی نہیں تھا، وہ جاگیر داری عہد کے اس تصور کے اسیربھی تھے کہ حکومتی سرپرستی و قدردانی ،شعرا کا استحقاق ہے۔ خاندانی حشمت پر تفاخربھی ،نفسیاتی اعتبار سے تلافی کی ایک صورت تھی۔ وہ جس پرتعیش خوشحال ماحول میں پلے بڑھے تھے،وہ ان کی جوانی کے دنوں ہی میں قصہ ماضی بن گیا تھا؛ وہ جاگیریں، نوکر چاکر، روپیہ پیسہ سب ختم ہوگیا تھا،مگراس سب کی فخریہ انداز میں یاد،حالات کی سنگینی کو گوارا بناتی تھی۔ نیزصاحبانِ اختیار سے ربط ضبط،اپنی گم شدہ جاگیردارانہ شناخت برقرار رکھنے کا وسیلہ تھا۔
جو ش صاحب کا دبدھا یہ تھا کہ وہ انسان دوستی کے تمام تر دعووں کے باوجود، اشرافیائی طرز زندگی سے کم پر خوش نہیں ہوتے تھے۔وحدت انسانی کے تصور کا تقاضا ہے کہ سب کو یکساں حقوق حاصل ہوں؛ ہر ایک کواپنی مرضی ومیلان سے ہر شے کے انتخاب کی آزادی حاصل ہو،مگر جوش صاحب سب انسانوں کو ،بلا تفریق’ انتخاب کی آزادی‘ دینے کے حق میں نہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’بادہ خواری اور حسن پرستاری کا حق پہنچتا ہے ،صرف ان خاصان ِ خدا کو ،جو اقطاب واولیاے ادب ہیں‘‘۔ اس کے حق میں جو دلیل دیتے ہیں، وہ اس قدر بودی ہے کہ ان کے وحدت انسانی کے دعوے کو مضحکہ خیز بناتی ہے۔ ’’ اگر ہر ایرے غیرے ،نتھو خیرے کے ہات میں بلوریں جام اور زلف مشک آشام دے دی جائے گی تو ،معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجائے گا،اور اگر خدا نہ خواستہ حکام اس کے خوگر ہوجائیں گے تو پورا ملک تباہی کے کھڈ میں گر کر چکنا چور ہوجائے گا‘‘۲۶۔ جوش صاحب کی توجہ اس جانب نہیں جاتی کہ یہ طرز فکر خالصتاً اشرافیائی اور طبقاتی ہے ۔اس کی رو سے ادب کے اولیا و اقطاب یعنی جوش صاحب کی قبیل کے ادیب ، خاص الخاص لوگ ہیں،جنھیں زندگی کرنے کے خصوصی ،خدائی اختیارات حاصل ہیں؛یہی وہ لوگ ہیں جو عین حالت بے خودی میں بھی ذمہ داری کا شعور برقرار رکھنے کے اہل ہیں ۔نیز کیا یہ وہی دلیل نہیں ہے ،جس کی مدد سے طاقتور طبقے ،کمزور لوگوں پر اپنا اقتدار قائم رکھتے ہیں؛ اسی دلیل کی مدد سے پدر سری سماج ، عورتوں کو غلاموں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ جوش صاحب ، تعقل پسندی کے چیختے چنگھاڑتے دعووں کے باوجود،اپنے جاگیر دارانہ اشرافیائی پس منظر سے پیچھا نہ چھڑا سکے۔
بہر کیف،ان کی شخصیت کے یہ متضاد دھارے،کہیں ایک دوسرے کے متوازی بہتے ہیں ،اور کہیں ایک دوسرے سے ٹکراتے ،ایک دوسرے سے آمیز ہوتے ،ایک دوسرے کے ہم قرین ہوتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ جوش صاحب ،ان تضادات کو حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ہمیں جوش صاحب کے یہاں اس نفسیاتی بحران کے شواہد نہیںملتے ،جو تضادات کے عرفان سے پیدا ہوتا ہے ،کیوں کہ تضادات کا عرفان،ذات کی اکائی کو برہم کرنے کے ایک مہیب خطرے کے طور پرخود کو پیش کرسکتا ہے۔گویا جوش صاحب تضادات کو قبول کرتے ہیں۔ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس کا ایک ممکنہ جواب یہ ہوسکتا ہے کہ وہ دائروی تصورِ کائنات(Spherical Worldview)میں یقین نہیں رکھتے؛ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ زندگی یکساں ومتجانس عناصر سے عبارت ہے ،یا یکساں و متجانس عناصر کے غلبے کی کوششوں سے عبارت ہے؛وہ زندگی میں متضاد و غیر متجانس عناصر کی بہ یک وقت موجودگی کے عرفان کو قبول کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؛ان کے طنز کا ماخذ یہی علم ہے ۔بلاشبہ متضاد و غیر متجانس عناصر کی بہ یک وقت موجودگی ،زندگی کا ایک نامکمل تصور پیش کرتی ہے۔دائروی تصور کائنات ،زندگی کومکمل بنا کر پیش کرتا ہے۔اس تصور کے تحت طنز نہیں، آدرشی شاعری کی جاسکتی ہے۔
آخر میں چند باتیں کتاب کے اس حصے سے متعلق جسے غالباً سب سے زیادہ توجہ ملی؛یعنی جوش کے معاشقے۔
جوش صاحب کے ڈیڑھ درجن کے قریب معاشقے کوئی ایساغیر معمولی واقعہ نہیں کہ انھیں اس قدر اہمیت دی جاتی (آخر دنیا میں کون ایسا شخص ہے جس کی کتاب ِ زندگی میںایک سے زیاد ہ حسینائوں کے نام درج نہیں ہوتے،یاان کی شدید آرزو نہیں ہوتی)،مگر یادوں کی برات کی شہرت یا بدنامی میں ان معاشقوں کا بڑاحصہ ہے۔کتاب کی شہرت یا بدنامی میں ایک کردار خود جوش صاحب کا بھی تھا۔ کچھ لڑکوں اور باقی عورتوں سے جوش صاحب کے عشق ،ان کا ذاتی معاملہ تھے،مگر ان کے بیانیے لکھ کر انھوں نے اس ذاتی معاملے کو بہ یک وقت عمومی دل چسپی کی چیز اور سماجی مسئلے کی صورت دے دی ۔ جوش نے لطف لے لے کر ہر معاشقے کی کہانی لکھی ہے۔ہمیں نہیں معلوم اصل واقعات کیا تھے، مگر کتاب میں انھیں جس طور بیان کیا گیا ہے،وہ انھیں جنسی وجمالیاتی تخیل کو مہمیز کرنے والی کہانیاں بناتا ہے۔جوش صاحب کی اس تیکنیک سے ہم ایک نتیجہ تو پورے اعتماد سے اخذ کرسکتے ہیں:یہ کہ بہتر برس کی عمر میں یہ عشقیہ کہانیاں لکھتے ہوئے ،ان کا جنسی وجمالیاتی تخیل(انھیں علیحٰدہ کرنا آسان نہیں) پوری طرح فعال تھا۔ یہ کہانیاں لکھتے ہوئے ،انھیںعجب سرشاری محسوس ہوئی،جو ان کہانیوں کی سطر سطرمیں رواں محسوس ہوتی ہے۔اس سرشاری کی بعض لہریں گزرے واقعات سے وابستہ لطف و انبساط کی ہیں تو اکثر موجیںان واقعات کو یاد کرنے ،اور ان کی تشکیل ِ نو کی تخلیقی سعی کی پیداوار ہیں ۔ جوش صاحب کے معاشقوں کو اس تناظر میں بھی پڑھا جانا چاہیے۔
ان کہانیوں کے ضمن میں ایک یہ نکتہ بھی توجہ طلب ہے :جوش صاحب کے ذہن میں ،عشق کے روایتی تصور (جو ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھنے سے عبارت ہے)اور اپنے کثیر معاشقوں کے ضمن میں اچھی خاصی الجھن موجود تھی۔ان کی فوق انا انھیں کٹہرے میں کھڑا کرتی تھی ،اور ان سے عشق اور عیاشی کے فرق پر جرح کرتی تھی۔اس کا صاف مطلب ہے کہ اس روایتی اخلاقیات کا کانٹا جوش کے دل میں چبھن پیدا کرتا تھا،جو عشق و عیاشی کے فرق سے عبارت ہے ۔ جوش، مجنوں و فرہاد کے روایتی عشق پر تنقید کرنے کے باوجود ،اسی روایتی عشق کی اخلاقیات کو پسند کرتے تھے؛وہ بغاوت پسند تھے،مگر بغاوت کے اخلاقی مضمرات سے خوفزدہ بھی تھے ۔ چناں چہ اپنا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’میں نے کبھی اپنے دل کو عیاشی کا وطن بننے نہیں دیا ،بلکہ اسے ایک رات کا مسافر خانہ بنائے رکھا،اور ایسا مسافر خانہ جس پر صبح کی پہلی کرن کبھی نہیں پھوٹی‘‘۲۷۔ اوّل تو اس دفاع کی ضرورت نہیں تھی ۔دوم یہ خاصا کمزو ر دفاع ہے۔ اس لیے کہ یہ ایسی دلیل ہے ،جو مکمل طور پر موضوعی ہے ،جب کہ دفاعی دلیل معروضی ہونی چاہیے؛یعنی ہم اس بات کی تصدیق کرنے سے قاصررہتے ہیں کہ جوش کا دل عیاشی کا وطن تھا یا عشق کا گھر۔اس دلیل کی نوعیت کم و بیش وہی ہے ،جسے جوش صاحب نے اپنی بیگم سے جھوٹ بولنے کے سلسلے میں پیش کیا ہے۔ جوش صاحب نے بیگم سے جھوٹ کو جائز ثابت کرنے کے لیے ذہانت کا مظاہرہ تو کیا ہے، سچ قبول کرنے کی اخلاقی جرأت کا نہیں۔
جوش صاحب کے معاشقوں کی ان کہانیوں کا نفسیاتی مطالعہ ،کچھ ایسی گرہیں کھول سکتا ہے ،جن کا تعلق عشق و جنس میں تسکین تلاش کرنے ،اور پھر پیاس محسوس کرنے سے ہے۔
مرد، عورت یا عورتوں سے جو تعلق قائم کرتا ہے، اور یہ تعلق جو نوعیت اختیار کرتا ہے، اس کا مطالعہ تصویرِ زن (Anima) کے آرکی ٹائپ کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ تصویرِ زن عمومی آرکی ٹائپ ہے ،مگر ہر آدمی کے یہاں مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ ژنگ نے تصویرِ زن کے چار مدارج بتائے ہیں۲۸۔ وہ پہلے درجے کو حوا کا نام دیتا ہے۔ اس میں عورت محض ایک حیاتیاتی ،جنسی وجود ہے۔ دوسرے درجے میں جنسی عنصر کے ساتھ ساتھ جمالیاتی ورومانوی پہلو بھی شامل ہوتے ہیں۔اس منزل کو ژنگ ہیلن کا نام دیتا ہے۔تیسرے درجے میں جنسی آرزو ،روحانی اور مذہبی سپردگی اور اعتقاد میں بدل جاتی ہے؛اسے ژنگ کنواری مریم کا نام دیتا ہے۔جب کہ چوتھے اور آخری درجے میں تصویرزن ،حکمت کی علامت ہے۔اسے صوفیہ کہا گیا ہے،جو ابتدائی عیسائی عقیدے کی رو سے روح القدس کی علامت تھی۔ جوش کے یہاں ہمیں حوا اور ہیلن کی تصویرزن دکھائی دیتی ہے۔ جوش ،شہوت ہی کو عشق کہتے ہیں۔ جوش کا یہ تصورعشق،حوا ور ہیلن کے آرکی ٹائپ کی پیداوار ہے۔حوااگر اولین عورت ہے ،جس سے مرد نے حیاتیاتی جنسی تعلق قائم کیا،تاکہ نسل انسانی آگے بڑھ سکے ،تو ہیلن عورت کے مثالی حسن کی علامت ہے،جس کے حسن کا شکار ہوکر کتنے غریب مارے گئے۔پیرس کے ساتھ اس کی محبت نے دو ملکوں کو خوف ناک جنگوں میں دھکیل دیا۔دوسرے لفظوں میں جوش کے نسائی آرکی ٹائپ نے ، عورت سے جنس و رومان کارشتہ قائم کرنے کی انھیں تحریک دی۔۔ خو د کہتے ہیں:’’ جی ہاں میں نے عیاشی کی ہے،جی بھر کر،لیکن عشق بازی کی ہے جی سے گزرکر۔ عیاشی نے جسم کی کھیتیاں لہلہائیں۔عاشقی نے میرے ذہن کی کلیاں چٹکائیں۔عیاشی نے لذات حواس سے دوچار کیا۔عاشقی نے نشاط شعور سے سرشار کیا۔۔۔عیاشی نے میرے حیوان کو تھپتھپایا۔عاشقی نے میرے انسان کو جگایااور قلب گداختہ کی دولت بیدار مرحمت فرما کر ،مجھ کو شاعری اور حب نوع انسانی کا راستہ دکھایا‘‘۲۹۔(یہاں جوش صاحب عشق و عیاشی میں ایک ممکنہ مصالحت میں کوشاں نظر آتے ہیں، جو دراصل عیاشی سے وابستہ خوف پر غالب آنے کی صورت ہے)۔ حوا کا آرکی ٹائپ انھیں عورت سے عیاشی کا رشتہ قائم کرنے کی تحریک دیتا ہے ،اور ہیلن کا آرکی ٹائپ ،عاشقی کی تعلیم دیتا ہے۔جیسا کہ ابھی ذکر ہوا،عورت کا آرکی ٹائپ روحانی سپردگی اور حکمت کی منزل کی طرف مرد کی راہنمائی کرسکتا ہے، وہ جوش کے یہاںموجود نہیں۔ عورت کا آرکی ٹائپ بہ یک وقت سلبی اور ایجابی ہوتا ہے۔جوش کی معشوقائیں اگر عورت کے آرکی ٹائپ کاایجابی رخ رکھتی ہیں،تو جوش کی بیوی ،تصویرزن کے سلبی رخ کی نمائندگی کرتی ہے۔ جوش نے اپنی بیوی کا جو خاکہ لکھا ہے ،اس میں وہ سراپا غیظ و غضب ہے نظر آتی ہے۔
جوش صاحب عشق کو جنس و شہوت کا نام دیتے ہیں۔ان کے قصوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔وہ عشق کے سب مراحل ایک آن میں طے کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ جنس کی طلب جبلی ہے، مگر اس کا مفہوم ’فطری‘ نہیں ہوتا ۔ ہر طلب کی مانند اس کا مفہوم ’باہر‘ سے حاصل کیا جاتا ہے۔اپنی جبلی طلب کی تسکین کے دوران ہی میں آدمی اس دنیا میں داخل ہوتا ہے ،جسے ژاک لاکان(۱۹۰۱ء۔۱۹۸۱ء)نے ’خواہش‘ کا نام دیتا ہے۔جوش کی عشقیہ کہانیوںکی نفسیاتی توجیہات کے لیے ہمیں لاکان کاخواہش کے نظریہ بھی کافی مدد دے سکتا ہے۔لاکان نے آدمی کی ذہنی دنیا میں ضرورت، مطالبے اور خواہش کو کارفرما دیکھا ہے۔ ضرورت فطری ہے، مگر بچہ جب اپنی ضرورت کا اظہار کرتا ہے تو اس کی تسکین کوئی دوسرا (ماں، باپ یا سرپرست) کرتا ہے۔ضرورت خالص حیاتیاتی ہے ،مگر اس کا مفہوم ’دوسرے‘ لوگ متعین کرتے ہیں،اور اس زبان میں متعین کرتے ہیں جو بچے کے لیے ’غیر‘ ہے۔ بچہ صرف اپنی ضرورت کی شے حاصل کرنے پر اصرار نہیں کرتا ،بلکہ ’دوسرے‘ کی محبت بھی طلب کرنے لگتا ہے۔ یوں ضرورت میں محبت کا مطالبہ شامل ہوجاتاہے۔ یہی نہیں،محبت کا مطالبہ، ضرورت کی شے پر غالب آنے لگتا ہے؛شے کا حقیقی تفاعل (ضروت کی تسکین) گہنانے لگتا ہے؛شے کے ذریعے ،ضرورت کی مکمل تسکین ہوسکتی ہے،مگر محبت کے مطالبے کی غیر مشروط تسکین کبھی نہیں ہوپاتی؛اس لیے محبت یا توجہ کامطالبہ، شے کے ذریعے تسکین کے دوران میںبھی بچی کھچی صورت(leftover)میں باقی رہتا ہے؛ بچہ ماں کے ہاتھوں کھاناکھاتے ہوئے بھی ،ایک اور طرح کی بھوک محسوس کرتا رہتا ہے ؛ آدمی محبوب سے جنسی وصال کے دوران میں بھی ،ایک اور طرح کی طلب کی ادھیڑ بن میں لگا رہتا ہے۔ اسی ’ بچی کھچی صورت ‘سے خواہش جنم لیتی ہے۔لاکان واضح کرتے ہیں کہ خواہش نہ تو تسکین کی بھوک ہے ،نہ محبت کا مطالبہ ہے ،بلکہ وہ فرق ہے،جو نتیجہ ہے خواہش سے مطالبے کی نفی کا۳۰ ۔سادہ ترین لفظوں میں آدمی کی ضرورتیں (خوراک، جنس،چھت) پوری ہوجاتی ہیں،مگر خواہش کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا؛ ایک دائمی کمی، ایک ہمیشہ کی بھوک، ایک کبھی نہ مٹنے والی پیاس باقی رہتی ہے۔ یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ آدمی اس ’غیر‘کی دنیا کا شہری بننے پر مجبور ہے ،جسے ہم زبان کہتے ہیں۔ زبان کے ذریعے ہی آدمی ’علامتی نظام‘(Symbolic Order)کا حصہ بنتا ہے۔ یعنی ان سب بیانیوں، روایتوں،رسموں ، نظریوں ،عقیدوں، اسطوروں،نشانوں کی دنیا میں داخل ہوتا ہے ،جو اسے ماں باپ ، سکول، مسجد، یونیورسٹی ، کتابوں، استادوں، راہنمائوںکے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔ انھی کے اندر اس کی جبلی ضرورتوںکے مفاہیم متعین ہوتے ہیں۔جنس کی خواہش ہو کہ آزادی وانفرادیت کی خواہش ،وہ ہمیشہ ایک دائمی کمی، ایک ہمیشہ کی بھوک ،کبھی نہ مٹنے والی پیاس کی صورت باقی رہتی ہے۔ جوش کے ڈیڑھ درجن معاشقے،ایک کبھی نہ مٹنے والی پیاس کی اطلاع دیتے ہیں۔
اس تناظر میں دیکھیں تو جوش کے کثیر معاشقے،اور ان کا بیان ،دونوں کا محرک خواہش ہے۔ یعنی وہ ضرورتِ جنس سے زیادہ،خواہش ِ جنس کے اسیر نظر آتے ہیں۔ ضرورت کی تسکین ہوجاتی ہے ، خواہش کی نہیں؛ خواہش مسلسل نئی مہمیں سر کرنے ،اور ہر بار ایک کمی سی محسوس کرنے پر آدمی کو مجبور رکھتی ہے،اور یہی کمی ایک نئی مہم پر روانہ ہونے کا محرک بنتی ہے۔اس طرح عشقیہ مہم ہو یا کوئی دوسری ،وہ اپنے ہی خاتمے کا تعاقب کرتی ہے ۔یعنی ہر خواہش کی تہ میں تحریک ِ مرگ (Death Drive)مضمر ہوتی ہے۔لاکان یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی شے کی خواہش اس شے کی کسی اپنی قدر کی بنا پر نہیں کی جاتی،بلکہ اس قدر کی وجہ سے وہ ہماری خواہش کا معروض بنتی ہے جو اسے دوسرے لوگ دیتے ہیں۔اس بنا پر خواہش ،اشیا کو یکساں طور پر تبادلے کے قابل بنا دیتی ہے ۔آدمی تُو نہیں اور سہی ،اورنہیںاور سہی کے چکر میں گرفتاررہتا ہے۔جوش صاحب کی عشقیہ خواہش، لمحے بھر میں ایک عورت سے دوسری عورت کی طرف منتقل ہوجاتی ہے،اور ایک ہی طرح کی تڑپ کا مظاہرہ کرتی ہے۔
واقعے کو کہانی بنانے ،اورعمل بیان سے ایک طرح کی لذت کشید کرنے کے پس منظر میں بھی یہی خواہش کارفرما ہوسکتی ہے ۔مثلاًہم جانتے ہیں کہ ہر کہانی ،اپنے حقیقی واقعے سے کچھ نہ کچھ علیحٰدہ ہوکر،کٹ کر ایک اپنی الگ ’تخیلی ،بیانیاتی دنیا‘ قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ہر کہانی کسی بنیادی یا حقیقی واقعے پر منحصر بھی ہوتی ہے ،اور اس سے آزاد بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی کہانی میں ہماری حقیقی دل چسپی کا مرکز وہ حصہ ہوتا ہے ،جہاں کہانی واقعے سے آزاد ہوتی ہے ۔یہی وہ حصہ ہوتا ہے ،جہاں مصنف اپنے بیان کے طلسم (اگر وہ یہ طلسم تخلیق کرنے کا ملکہ رکھتا ہو)کا مظاہرہ کرتا ہے ،اور اپنی خواہش کی تسکین کی سعی کرتا ہے۔ان کہانیوں میں جوش صاحب کے طلسم بیان کا مظاہرہ وہاں خاص طور پر ہوا ہے،جہاںوہ ایک جاں ہار عاشق سے زیادہ ،ایک مہم جو سورما نظر آتے ہیں۔مثلار۔کماری کے ساتھ معاشقے میں وہ ایک مہم جو سورما ہیں۔وہ اپنی محبوبہ کی آرزو پوری کرنے کی خاطر مندر پہنچ جاتے ہیں،مگراس سے پہلے کہ مندر کی گھنٹیاںاوربھجن،ر۔کماری کی طرح ان کے دل کو فتح کریں،وہ’ لاموجود الااللہ‘ کا ورد کرنے لگتے ہیں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے ہم جوش کی بغاوت کی نوعیت اور حدود کی قدرے درست تفہیم کرسکتے ہیں۔ ان کا مندر میں اپنی محبوبہ سے ملنے جانا ،ایک باغیانہ عمل تھا، مگر مندر کی گھنٹیوں نے ان کے اس خوف کو بیدارکردیا کہ کہیں ان کا اسلام خطرے میں نہ پڑجائے ۔وہ اپنی بغاوت کو ترک رسوم و قیود کی حد تک لانے سے خوفزدہ تھے۔رسوم وقیود ،دوسروں کی بنائی ہوئی ہیں۔رسوم و قیود کی پابندی کا مطلب ،خود کو دوسروں کی منشا کے سپرد کرنا ہے،اور دوسروں کی خواہش کی خواہش کرنا ہے ۔خوف کا نفسیاتی مفہوم اس کے سوا کیا ہے کہ آدمی دوسروں کی منشا ،دوسروں کی وضع کی ہوئی اخلاقیات، دوسروں کی بنائی گئی رسوم و قیود کی لچھمن ریکھا کو عبور کرنے سے گھبرائے۔علاوہ ازیںیہاں جوش صاحب داستانی ہیر وہیں۔داستانی ہیرو کا پروٹو ٹائپ دل پھینک عاشق ،مگر صاحب ایمان مسلمان کا ہے۔جوش داستانی ہیرو ہی کی طرح اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے سے نہیں ڈرتے تھے ،مگر اپنے ایمان کو خطرے میں دیکھ کر ڈرجاتے تھے!
حوالہ جات
۱۔ جوش ملیح آبادی، یادوں کی برات، مکتبہ شعرو ادب، لاہور،۱۹۷۵ء (۱۹۷۰ء)،ص ۹۔۱۰
۲۔ ایضاً، ص۳۱
۳۔ ایضاً، صص ۳۲
۴۔ ایضاً،ص ۱۱۹
۵۔ سگمنڈ فرائیڈ، ’’ سراب کا مستقبل‘‘ مشمولہ فرائیڈی تناظر(مرتبہ تہذیب صدیقی)، برائون پبلی کیشنز، دہلی، ۲۰۱۲ء، ص۱۱۲
۶۔ یہاں برٹرینڈ رسل کی آواز صاف طور پر سنائی دے رہی ہے ،جس نے اپنی آپ بیتی کے پرولاگ کا آغاز ہی ان جملوں سے کیا ہے :’’ تین سادہ مگر زبردست جذبے میری زندگی پر حکمرانی کرتے رہے ہیں۔محبت کا ارمان ، علم کی جستجو، اور انسانی دکھوں کے لیے بے پایاں دل سوزی‘‘۔
[برٹرینڈ رسل، Autobiography،روٹلیج ،نیویارک ، ۲۰۰۹ء (۱۹۶۷ء)ص ۳]
۷۔ جوش ملیح آبادی، یادوں کی برات،محولا بالا،ص ۱۷۔۱۸
۸۔ ایضا، ص ۹۶
۹۔ ایضاً،ص ۱۳۴
۱۰۔ ایضاً، ص ۱۷۱۔۱۷۲
۱۱۔ ایضاً،ص ۱۷۴
۱۲۔ ایضاً ص ۱۷۶
۱۳۔ رشید حسن خاں، ’’جوش بحیثیت انشا پرداز‘‘ مشمولہ جوش شناسی ،یادوں کی برات نمبر،مدیر ڈاکٹر ہلال نقوی، الفاظ فائوندیشن ،کراچی،جون ۲۰۱۳ء،ص ۲۰
۱۴۔ جوش ملیح آبادی ، یادوں کی برات ، قلمی نسخہ اور اس کے گم شدہ اوراق ، (مرتبہ ڈاکٹر ہلال نقوی) ،بک کارنر،جہلم ، ۲۰۱۳ء ص ۱۹۹
۱۵۔ خورشید علی خاں، ہمارے جوش صاحب،ذیشان کتاب گھر، کراچی ،۱۹۹۶ء ص ۱۰۴
۱۶۔ جوش ملیح آبادی، یادوں کی برات،محولا بالا،ص ۱۷۔۱۸،ص۳۱۶
۱۷۔ ڈاکٹر محمد اجمل، تحلیلی نفسیات (ترتیب خالد سعید)، بیکن بکس ، ملتان ،۲۰۰۹ء ،ص۱۷۶
۱۸۔ جوش ملیح آبادی، یادوں کی برات،محولا بالا،ص ۳۰۲
۱۹۔ ایضاً،ص ۶۲۹۔۶۳۰
۲۰۔ کارل گستاو ژنگ،Man and His Symbols،اینکر پریس ،نیویارک، ۱۹۶۴ء،ص ۹۰
۲۱۔ جوش ملیح آبادی، یادوں کی برات،محولا بالا،ص ۲۰۶
۲۲۔ چارلس جی نائورٹ،Humanism and the Culture of Renaissance Europe،کیمبرج ، ۲۰۰۶ء،ص۸
۲۳۔ جوش ملیح آبادی، یادوں کی برات،محولا بالا،ص ۲۱
۲۴۔ ایضاً،ص ۳۰۳
۲۵۔ ایضاً،ص ۲۹۳۔۲۹۴
۲۶۔ ایضاً،ص ۷۳۲
۲۷۔ ایضاً،ص ۶۳۹
۲۸۔ ڈاکٹر محمد اجمل، تحلیلی نفسیات (ترتیب خالد سعید)،محولا بالا، ص ۱۰۴
۲۹۔ جوش ملیح آبادی، یادوں کی برات،محولا بالا،ص ۶۴۰
۳۰۔ ڈیلن ایوانس،An Introductory Dictionary of Lacanian Psychoanalysis،روٹلیج، لندن ،نیویارک ،۲۰۰۶،ص ۳۶۔۳۸