اکبر حمیدی
ڈاکٹر وزیر آغا سے میرا تعلق محترم دوست ’’عارف عبد المتین صاحب’‘ کے ذریعے سے ہوا جو اس وقت رسالہ’’اوراق’‘ کے شریکِ مدیر تھے۔ تین چار سال تک رسالہ’’اوراق’‘ میں چھپنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ اب آغا جی سے ملاقات بھی ہونی چاہئے۔ ان دنوں آغا جی لاہور کینٹ میں اپنی کوٹھی میں رہتے تھے چنانچہ آغا جی سے وقت لے کر مَیں وہاں پہنچ گیا۔ یہ اس سال کی بات ہے جب رسالہ افکار کراچی نے احمد ندیم قاسمی صاحب کے لیے ندیم نمبر شائع کیا تھا۔ مَیں آغا صاحب سے ملاقات کے لیے ان کی کوٹھی پہنچا۔ سردیوں کے دن تھے کوئی دس گیارہ بجے کا وقت تھا آغا جی کوٹھی کے لان میں ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کچھ کرسیاں خالی پڑی ہوئی تھیں۔ اتفاق سے وہ اکیلے ہی تھے۔ میں گیا تو آغا جی نے کھڑے ہو کر میرا استقبال کیا۔ ان کے ہاتھوں میں افکار کا ندیم نمبر تھا جس میں میرا بھی ایک مضمون چھپا تھا۔ آغا جی نے مجھے دیکھتے ہی اشارہ کیا اور کہا کہ تشریف رکھیں پھر بو لے ندیم صاحب اس طرح کے آدمی نہیں ہیں جیسے آپ نے لکھا ہے مَیں نے انھیں مرزا غالبؔ سے موازنہ کیا تھا آغا جی نے کہا میں آپ ہی کا مضمون پڑھ رہا ہوں۔ اچھا ہے !پھر اور باتیں ہونے لگیں یوں اوراق سے وابستگی پختہ ہوئی اور پختہ تر ہوتی گئی۔ آغا جی کی شخصیت میں ایسی کوئی کشش تھی کہ جو کوئی ایک دفعہ ان کے حلقے میں آ جاتا پھر نکل نہ پاتا۔ وہ دوستیاں کرنا جانتے تھے اور نبھانا بھی۔
انشائیہ میں نے انیس سو اسی سے لکھنا شروع کیا۔ دو تین سال لکھنے کے بعدبیلنس پچیس انشائیے ہو گئے۔ میں نے آغا جی سے کہا کہ انشائیے تو ہو گئے ہیں کتاب چھپ سکتی ہے لیکن چھاپے گا کون۔ اس زمانے میں آغا جی نے اپنی کتابیں چھاپنے کے لیے مکتبہ اردو زبان کے نام سے ادارہ بنا رکھا تھا۔ میرے لکھنے کے بعد آغا جی نے جواب دیا آپ مسودہ بھیج دیں میں لکھ دو ں گا اور مکتبہ اردو زبان سے شائع بھی کروا دوں گا۔ چنانچہ میں نے مسودہ بھیج دیا۔ پھر مہینے ڈیڑھ بعد آغا جی اسلام آباد آئے، ان کی گاڑی میرے گھر کے سامنے آ کر رکی، تب میں میلوڈی کے قریب جی سکس ٹوکے سرکاری کوارٹر میں رہتا تھا۔ میں آغا جی کے انتظار میں تھا۔ جیسے ہی گاڑی رکی میں استقبال کے لیے آگے بڑھا۔ آغا جی نے سب سے پہلے بایاں ہاتھ گاڑی سے باہر نکالا اُن کے ہاتھ میں کتاب تھی اور وہ میرے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے کا سفر’‘ تھا۔ گاڑی سے نکل کر مجموعہ مجھے پیش کیا اور کہا اس وقت اس سے بہتر تحفہ آپکے لیے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
جب آغا جی اکیلے ہوتے بڑے مزے مزے کی باتیں کرتے۔ ایک دفعہ میں ان کے ہاں وزیر کوٹ گیا ہوا تھا۔ ہم ڈرائنگ روم سے باہر سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ مَیں نے پوچھا اللہ میاں کیا ہے۔ آغا جی نے دونوں بازو آگے پھیلائے اور کہا یہ سب کچھ وہی ہے۔ آغا جی کی نظموں کا اتنا شور مچا کہ وہ غزل سے دور ہو گئے لیکن مجھے یقین ہے اور یہ یقین ان کی غزلیں پڑھ کر پیدا ہوا ہے کہ ان کی غزل ان کی نظم سے بہتر ہے۔ اب بھی ’’جدید ادب’‘ رسالہ میں آغا جی کی جو غزلیں چھپی ہیں وہ دیکھ کر یہ یقین اور بھی پختہ ہو جاتا ہے۔ اگر وہ غزل پر توجہ دیتے تو ان کی غزلیں اردو ادب کا عظیم سرمایہ ہوتیں لیکن ا ب بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ آغا جی بڑے آدمی تھے مگر اپنے بڑے پن کا سایہ بھی دوستوں پر نہیں پڑنے دیتے تھے۔ وہ زندگی کے آخری دوسالوں سے لاہور ہی میں رہ رہے تھے میرا ا ن کا رابطہ ٹیلی فون پر مسلسل رہا۔ یا میں فون کر لیتا یا وہ۔ ایک دفعہ مَیں نے حال پوچھا تو بولے کوٹھی کے صحن میں چھڑی سے چہل قدمی کر لیتا ہوں اور یوں اپنی تین کلو میٹر کی واک پوری کر لیتا ہو۔ آخری دفعہ فو ن کیا تو جواب میں ان کے بیٹے سلیم آغا نے ٹیلی فون اٹینڈ کیا اور بتایا کہ آغا جی بہت بیمار ہیں۔ ہسپتال میں داخل ہیں۔ اگلے دن ٹی وی پر آغا جی کی وفات کی خبر دکھا دی گئی۔ یوں روشنی کا یہ مینار زمیں بوس ہو گیا لیکن اس کی روشنی ہمیشہ دلوں کو گرماتی رہے گی
ڈاکٹر وزیر آغا دوستوں کو تحفے بھیجتے۔ سال میں ایک دفعہ مالٹوں کا کریٹ ہر دوست کو بھجواتے۔ ایک دفعہ مجھے شہد کی بڑی بوتل بھیجی جو ان کے اپنے باغات کے چھتوں سے نکلی تھی۔ ایک دفعہ میرے موجودہ گھر میں آئے تو آتے ہی کہا اکبر صاحب آپ کے گھر کو آنے والے سبھی موڑ لیفٹ کے ہیں میں بات سمجھ گیا۔ مَیں نے کہا صرف ایک رائیٹ کا ہے۔ کہا نہیں وہ بھی رائٹ کا نہیں۔ مَیں حیران ہوا کہ آغا جی کیسی باتیں کر رہے ہیں شاید وہ اپنی شخصیت اور نظریات کی وضاحت کر رہے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ وہ دوستوں سے باخبر رہتے۔ ان کی مزاج پرسی کرتے۔ میری آنکھ میں انفیکشن ہوا تو بطورِ خاص احوال پرسی کے لیے تشریف لائے۔ دوسروں کے گھروں میں جا جا کر ان کی عزت بڑھاتے۔ مجھے فخر ہے کہ میری کسی بات کو ٹالتے نہیں تھے۔ جب بھی کہیں بلایا تشریف لائے وہ جدیدیت کے علمبردار تھے۔ ایک دفعہ میں نے پوچھا جدیدیت کیا ہے بولے ترقی پسند نظریات سمیت موجودہ زمانے کی عکاس تحریک ہے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ ترقی پسند تحریک سے منکر نہیں بلکہ اس میں موجودہ زمانے کا اضافہ کر رہے ہیں۔ مجھے ہمیشہ اکبر صاحب یا اکبر حمیدی صاحب کہہ کر بلاتے۔ صرف حمیدی صاحب کبھی نہ کہا لیکن زیادہ تر اکبر صاحب ہی کہتے جو میرا ذاتی نام ہے۔ وہ بہت مرصع شخصیت کے مالک تھے لیکن سادگی کا لبادہ اوڑھے رکھتے۔ اسی درویشانہ روش اور عالمانہ شان سے انہوں نے زندگی گزار دی۔ ایسے لوگ جس ملک میں ہوں اس ملک کے لیے ‘ جس قوم میں ہوں اس قوم کے لیے ‘ فخر کا باعث ہوتے ہیں۔ ان میں زندہ رہنے کی بہت قوت تھی۔ اسی قوت کے بھروسے پر انہوں نے طویل زندگی بسر کی اور ساری زندگی فعال رہے۔ ان کا مشہور شعر ہے۔
دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا
سارا لہو بدن کا رواں مشتِ پر تھا