ڈاکٹر محمد عبدالعلیم عثمانی جوادبی وشعری دنیا میں علیمؔ عثمانی کے نام سے مشہور تھے ، نہ صرف طبیب حاذق، کامیاب ہومیوپیتھ معالج ،بلکہ معروف ومقبول کہنہ مشق شاعر تھے۔ ان کی شخصیت باغ وبہار ،طبیعت مرنجان مرنج ،آواز سامعہ نواز اورانداز دلنواز تھا ۔بارگاہ ایزدی سے اگرانھیں ایک طرف جمال ظاہر سے سرفراز کیاگیا تھا تودوسری طرف دست قدرت نے انھیں بڑی فیاضی سے حسن باطن سے نواز اتھا،اس طرح وہ حسنِ صَوت وصورت اورخوبیٔ سیرت سے مالامال تھے۔
ان کی طبیعت میںبلا کی موزونیت تھی ،اس لئے شعرو شاعری سے انھیں فطری مناسبت اورقلبی لگاؤ تھا ،کم عمری اورزمانہ طالب علمی ہی سے انہوںنے شعرگوئی کے میدان میں قدم رکھ دیاتھا اورگیسوئے سخن کوسنوارنا شروع کردیا تھا ۔اس طرح وہ آغاز شباب ہی سے اہل سخن سے داد تحسین حاصل کرنے لگے تھے۔
موصوف اپنے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’مجھے اوائل عمری سے شعر سننے ،شعر پڑھنے اورشعر کہنے کا شوق رہا اورمیں اپنے اشعار اپنے کرم فرمائوں اورمخلصوں کے درمیان سناتارہا۔ لوگ میری حوصلہ افزائی کرتے رہے ‘‘۔
شعروشاعری نے انھیں آداب شاعری سکھائے تھے اوراس کے اسرار ورموز سے آگاہ کردیاتھا ۔یہی وجہ ہے کہ ایک ’’استاذ شاعر‘‘ ہونے کے باوجود انہوںنے شعروشاعری میںکسی استاذ سے اصلاح نہیں لی۔
ان کی شاعری میں تجدد اورتنوع تھا، ہرصنف سخن میں انہوںنے طبع آزمائی کی ۔روایتی غزل گوئی میں فردوطاق ہونے کے ساتھ نعت گوئی میں بڑے ماہر ومشاق تھے۔
ان کی شاعری میں غم دوراں وغم جاناں کاحسین امتزاج ہے۔ جناب محمد اصغر صاحب عثمانی نے بزم عزیز کے تعزیتی جلسہ کے موقع پر اپنے خطبۂ صدارت میں ان کی غزلیہ شاعری کوان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ ’’مرحوم نے روایتی غزل میں تغزل کابھرپور استعمال کیا، وہ غزل جومیرؔ وغالبؔ سے ہوتے ہوئے جگرؔ اورخمارؔ تک پہنچی اس کوامانت کی طرح آخری دم تک سنبھالے رہے‘‘۔
ڈاکٹرصاحب اپنے کلام کی پختگی ،مضامین کی آمد اوراسلوب کی سلاست کی بدولت ہربزم میں’’مزکرتوجہ‘‘ بن جاتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اپنے ہم عصر مشہور شعراء سے گہرے مراسم تھے۔جونہ صرف ان کی شعری محاسن کے معترف بلکہ ان کے فنی کمالات کے مدّاح بھی رہے ہیں۔ جانشین حضرت افقرؔ موہانی جناب عزیزؔ ؔبارہ بنکوی ان کی شاعری کوان الفاظ میں داد تحسین دیتے ہیں۔‘‘ ان کی مشق سخن کافی ہے ،اشعار تمام نقائض سے پاک وصاف ہوتے ہیں‘‘۔ نیز ان کی شعر نوازی اور شعراء پروری کویوںسندِ توصیف عطا کرتے ہیں :-
’’ان کی وجہ سے مجھے بڑی تقویت حاصل ہے، قرب وجوار میں اپنی محنت سے شاعری کوزندہ کئے ہوئے ہیں۔ ‘‘
ان کی غزلوں کاایک مجموعہ ’’دیوار‘‘ 1995 میںزیور طبع سے آراستہ ہوکر مقبول اہل نظر ہوچکاہے۔ان کے نعتیہ کلام کا مجموعہ’’ متاع مغفرت‘‘ کے نام سے 2016 میں شائع ہوا تھا ، اور دستیاب غزلوں قطعات اور نظموں پر مشتمل تین مجموے ’ بام و د‘ر ’، نقش اول‘ ا و’ر حرفِ آخر‘ کے نام سے حال ہی میں شایع ہوئے ہیں۔ یہ سارے مجموعے ریختہ ڈاٹ کام اور دیگر درجنوں ویب سائیٹوں پر ای بک اور پی ڈی ایف کی شکل میں بھی دستیاب ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ’’بزم بہار سخن‘‘ کے نام سے ایک ادبی انجمن قائم کی تھی جس سے اودھ کے لکھنؤ وبارہ بنکی اضلاع اوران کے اطراف سے تعلق رکھنے والے نامور شعراء وابستہ تھے جس کی ماہانہ نشستوں میںجس طرح کہنہ مشق شعراء اپنے کلام سے سامعین کومحظوظ کرتے تھے ،اُسی طرح نوآموز شعراء ان کی رہنمائی وسرپرستی میںمشق سخن کیاکرتے تھے،اس طرح نہ جانے کتنے تازہ وارِ دانِ بساط سخن ان کی اصلاح وتصحیح نیز تشجیع وتحریک سے سخنوران غزل اورشہنشاہانِ اقلیم سخن بن گئے۔
ان کے کلام بلاغت نظام کے چند اشعار بطور نمونہ نذرقارئین کئے جارہے ہیں۔
گذرنا میرا جس رستے سے دنیا کو گراں گذرا
اسی رستے سے آخر ایک دن سارا جہاں گذرا
====
ان سے تعلقات نہ پیدا کریںگے ہم
یہ اور بات ہے انہیں چاہا کریںگے ہم
تم آئینوں کی رائے سے کیوں فکر مند ہو
تم کو اسی نگاہ سے دیکھا کریںگے ہم
====
جو جی میں آئے وہ یہ صاحب شباب کریں
یہ لوگ وہ ہیں فرشتوں کو جو خراب کریں
====
ہے صاف بات ہمیں گنتیاں نہیں آتیں
کرم جو آپ کو کرنا ہے بے حساب کریں
====
بغیر تیغ اٹھائے گزر نہیں ہوگا
یہ دور وہ ہے قلم کارگر نہیں ہوگا
====
بڑے چرچے ہیں ہم نے زندگی وقفِ بتاں کردی
ہم اپنی چیز کے مالک تھے ہم نے رائیگاں کردی
مقفل اس نے جس کے واسطے سب کی زباں کردی
وہی بات اس کے ماتھے کے پسینے نے بیاں کردی
جناب علیمؔ عثمانی کی پیدائش قصبہ کرسی ضلع بارہ بنکی یوپی میں مورخہ8؍نومبر 1931کوہوئی ،ان کے والد ماجد جناب محمد نسیم صاحب اپنے زمانہ کے ایک نامور حکیم تھے جن کی شفقت پدری کاسایہ ان کے سر سے صرف 4سال ہی کی عمر میں اٹھ گیا تھا، انہوںنے مادرمشفق ہی کی آغوش محبت میں تعلیم وتربیت پائی، ان ہی کی خدمت اورراحت رسانی کی خاطر وہ مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے اورملازمت کی غرض سے کبھی قصبۂ کرسی سے باہر نہیں نکلے۔ ماںکی دعائوں کاثمرہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نورنظر اورلختِ جگر کوشہرت ومقبولیت کے بام عروج پرپہنچادیا۔
ڈاکٹر صاحب کی ذات مرجع خلائق تھی۔ لوگ دوردرازمقامات سے طبی مشورے کے علاوہ دیگر دینی ،علمی اورادبی امور میں تبادلہ خیال کے لئے ان سے رابطہ کرتے تھے اوروہ ان کی اپنے طویل تجربات ،وسیع مشاہدات ومطالعات کی روشنی میں رہنمائی کیاکرتے تھے۔
ایک کہنہ مشق شاعر، بلند پایہ ادیب اورباکمال سخن شناس ہونے کے ساتھ وہ نہایت شگفتہ مزاج ،بذلہ سنج ،ذہین وطبّاع نیز حاضر دماغ وحاضر جواب تھے۔
ڈاکٹر صاحب اپنی خوش اخلاقی ،خندہ جبینی اورکشادہ روئی کی وجہ سے ہردلعزیز تھے،اسی لئے ہرمجلس میں’’جان محفل‘‘بنے رہتے تھے ،ان کی مجلسیں بڑی پُرلطف اورامن وسکون سے معمور ہواکرتی تھیں۔اگرایک طرف ان کی ظرافت اورطنز ومزاح سے محفلیں قہقہہ زار بن جاتی تھیں تودوسری طرف ان کی آنکھیں یادالہی میں اشکبار ہوجاتی تھیں ۔کیونکہ وہ بڑے ذاکر وشاغل اورپابندِ معمولات تھے،ان کی زندگی ذوق عبادت ،فکر آخرت اوراندیشۂ عاقبت سے عبارت تھی۔
اور اب کچھ ان کی نعت گوئی کے متعلق ، نعت نبیؐ یا مدح رسولؐ ایک مؤمن شاعر کا سرمایۂ آخرت اور ’’متاع مغفرت‘‘ ہے نیز حب نبیؐ کا بین ثبوت اور عشق رسولؐ کی روشن دلیل ہے، ہر دور میں باذوق اہل سخن بارگاہ رسالت مآب میں نذرانہ ٔ عقیدت پیش کرتے رہے ہیں، اس زریں سلسلہ کا آغاز دور نبوی ہی سے حضرت حسان بن ثابت، عبد اللہ بن رواحہ، اور کعب بن مالک جیسے شعراء صحابہ کے ذریعہ ہوگیا تھا جن کے کلام بلاغت نظام کو دربار نبوۃ سے سند توصیف و تائید بھی حاصل ہوئی، پیغمبر اسلام کے دفاع اور اس پیغام رسانی نیز شرح و ترجمانی کے صلہ میں زبان نبوت سے جن کے حق میں دعائیہ کلمات نکلے جس کی بدولت یہ ’’شعرائے رسول‘‘کے معزز لقب سے سرفراز ہوئے، یہ مبارک سلسلہ بلا انقطاع تا ہنوز جاری ہے۔
آپ محبوبیت نعت کا اندازہ کریں:
گرم اس دور میں ہے محفل حسانؓ رسول (علیمؔ عثمانی)
ایک مسلم کو کمال ایمان اسی وقت عطا ہوتا ہے جب وہ عشق نبیؐ سے سرشار ہوجاتا ہے، دل و جان سے آپؐ پر نثار ہونے کے لئے بے قرار اور آپؐ کا ہر حکم بجالانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، اسی لئے وہ ہم دم سے تابع فرماں، منتظر اشارۂ چشم رہتا ہے، فیصلۂ نبوی کے سامنے سپر اندازی، اپنی ہر خواہش نیز عفا و آرزو سے دست برداری اختیار کرلیتا ہے، اس کی ہر ادا آپؐ کی فرماں برداری اور تابعداری کی عکاسی نیز آپؐ سے پختہ ارادت اور گہری عقیدت کی غمازی کرتی ہے، خدا وند قدوس کا ارشاد ہے:’’ فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فی ما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی أنفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما‘‘ آ پ کے پروردگار کی قسم یہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہونگے جب تک یہ اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو حکم وثالث نہ بنالیں اور آپؐ کے فیصلہ سے اپنے دل میں ذرا بھی تنگی محسوس نہ کریں اور مکمل طور پر اسے تسلیم نہ کرلیں ۔
نعت گوئی ایک نہایت نازک اور بے حد حساس موضوع ہے، جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے، یہ وہ ’’پر پیچ‘‘ راہ ہے جس میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے اور ہر لحظہ توازن واعتدل ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
مقام مسرت ہے کہ ہمارے محسن وکرم فرما مخدوم معظم جناب ڈاکٹر علیمؔ عثمانیؒ جو نہ صرف روایتی غزل کے معروف و مقبول شاعر تھے بلکہ نعتیہ شاعری میں اپنے ہم عصروں کے درمیان ایک منفرد مقام رکھتے تھے ، خود موصوف اپنے بارے میں فرماتے ہیں؎
اے علیمؔ اس میں گنجائش شک نہیں، یہ ہے سب رحمت رحمۃ للعالمیں
آپ جیسے اسیران زلف غزل نعت کی صنف میں طاق فن ہوگئے۔
====
نعت گوئی میں شہرت نہ پائیں علیم ؔ
اپنے فن کی مگر آبر و ہم بھی ہیں۔
لکھتا تھا جو توصیف بتاں میں وہ علیمؔ اب
کچھ دن سے ادھر شاعر دربار نبیؐ ہے
بلاشبہ ڈاکٹر صاحب اس راہ سے نہایت کامیابی سے گذرے ہیں اور بے حد خوش اسلوبی کے ساتھ اس موضوع کے حق کی ادائیگی سے عہدہ برآں ہوئے ہیں، انہوں نے بجا طور پر کہا ہے :
بیش کہئے تو لگے ماتھے پہ داغ تشریک
مطمئن دل نہیں ہوتا ہے اگر کم کہئے ۔
ڈاکٹر صاحب کے نعتیہ کلام کے مطالعہ سے ان کی شریعت کے بنیادی مآخذ: قرآن و حدیث سے گہری واقفیت کا اندازہ ہوتا ہے جس کا ثبوت ان کے وہ معنی خیز اشعار ہیں جنہیں بطور نمونہ درج ذیل کیا جارہا ہے۔
اس دور میں ثواب وہ پا ئے گاسو شہید کا
جس میں بھی پائی جائے گی آپؐ کی اک ادا فقط
حد کن فکاں میں کوئی بھی نہیں جو
ہمارے نبی کی طرح دلربا ہو
بالاتفاق سب سے حسیں دو جہاں میں ہیں
وہ آمنہ کے چاند و ہی عائشہ کے پھول
اور انکی یہ نعت بھی جو بہت مشہور ہوئی اور ہند و پاک کے بہت سے نعت خواں حضرات دینی جلسوں اور محفلوں میں پڑھ کر داد و تحسیں حاصل کرتے ہیں۔ درج ذیل ہے۔
سارے عالم کی مٹی میں جلوہ فگن جتنے ذرے ہیں اتنے درود آپؐ پر
باغ کونین کے سارے اشجار میں جتنے پتے ہیں اتنے درودآپ ؐپر
چشم انساں سے اشکوں کی ٹپکے ہوئے جتنے قطرے ہیں اتنے درود آپؐ پر
آسماں کے دوشالے میں ٹانکے ہوئے جتنے تارے ہیں اتنے درود آپ ؐپر
ساری تقریر وتحریر انسان میں رب کونین کے سارے قرآن میں
جس قدر حرف ہیں اور ہر حرف کے جتنے نقطے ہیں اتنے درودآپ ؐپر
ذرہ وآفتاب ومہ وکہکشاں رنگ رخسار گل حسن روئے بتاں
میرے کہنے کا مطلب ہے اللہ کے جتنے جلوے ہیں اتنے درود آپؐ پر
اے علیمؔ اب خدا سے یہ فریاد ہے اس کو معلوم عصیاں کی تعداد ہے
میرے اعمال نامے کے صفحات پر جتنے دھبے ہیں اتنے درود آپؐ پر
جناب ڈاکٹر علیمؔ عثمانی صاحب کی حیات مستعار ہی میں ان کے ایماء ، ومشورہ سے ان کے نعتیہ کلام کا ایک مجموعہ مرتب ہوگیا تھا جس پر حضرت عنبرؔ شاہ واثی نے عارفانہ انداز میں اور جناب مولانا سید سلمان حسینی ندوی مد ظلہ العالی نے اپنے ادیبانہ قلم سے میری فرمائش پر تقریظ لکھی تھی، یہ مجموعہ باقاعدہ کتابت و طباعت کے مراحل سے گذرنے بھی نہ پایا تھا کہ جس’’بارگاہ فن‘‘ میں یہ شعری سرمایہ محفوظ تھا وہ ایک شب طوفان باد و باراں میں زمین بوس ہو گئی، جس کے ملبے تلے یہ سرمایہ نذر خاک دآب ہوگیا، اس طرح ان کے نعتیہ کلام کا یہ مجموعہ زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آنے سے رہ گیا جس کے نتیجہ میں تشنہ کامان عشق رسولؐ ان گلہائے عقیدت سے مشام جاں معطر کرنے سے محروم رہ گئے، جو انہوں نے بارگاہ نبوت میں پیش کئے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی وفات حسرت آیات کے بعد کافی جد وجہد اور تلاش بسیار کے بعد ان کے اس نعتیہ کلام کو یکجا کیا جو کہ گردش دوراں اور دست برد زمانہ سے محفوظ رہ گیا تھا ، اس کی ترتیب و تسوید میں کافی عرق ریزی کے بعد اس شعری ورثہ کی حفاظت کی صو رت نظر آئی ایک مختصر نعتیہ مجمو عہ متاع مغفرت کی شکل میںشائع ہو کر منظر عام پر آیا۔
صبرو توکل اورقناعت واستغناء ان کاوطیرہ نیز تواضع وسادگی ان کاطرۂ امتیاز تھا ۔شاعری میں بے حد مقبولیت اورمیڈیکل پریکٹس میں بے پناہ کامیابی کے باوجود انہوںنے آمدنی میں اضافہ کے امکانات پرتوجہ نہیں دی ان کی زندگی جہد مسلسل ،عمل پیہم ،یقین محکم کی آئینہ دار تھی۔ جہادِ زندگانی میں انہوںنے انہی شمشیروں سے کام لیاتھا ،حیات مستعار کے آخری چند ماہ بعض عوارض وامراض کی نذرہوئے جن سے وہ جانبرنہ ہوسکے ،بالآخر ان کا آفتاب زندگی مورخہ10مئی 2012 بروز پنج شنبہ بوقت سہ پہر غروب ہوگیا اورفضل وکمال کایہ مجموعہ پیوند خاک ہوگیا۔