تنقید

ڈاکٹرستیہ پال آنند ۔۔۔ کچھ نئی پرانی باتیں : ناصر علی سید

۔۔ آؤ ساتھ چلیں۔۔ پکڑ کے ہاتھ ، کہ اگلا سفر طویل نہیں
اباسین آرٹس کونسل پشاور کی چھوٹی سی لائبریری میں ایک بڑی ادبی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھاجسے تقریب بہر ملاقات کہنا زیادہ مناسب ہو گا،کیونکہ یہ تقریب امریکہ میں مقیم اردو،پنجابی ،ہندی اور انگریزی زبان کے ممتاز شاعر، افسانہ نگار اور محقق و نقاد ستیہ پال آنند کے اعزاز میں تھی۔ اس تقریب کو اب تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، ستیہ پال آنند کا نام تو نیا نہ تھا مگر بھرپور تعارف اسی تقریب میں ہوا،خاطر غزنوی اور محسن احسان سمیت کئی احباب نے ان کے فن اور شخصیت پر با ت بھی کی اور ان سے سوالات بھی کئے، ادبی تقریبات یوں تو عصر یا شام کے وقت ہوا کرتی ہیں مگر اباسین آرٹس کونسل کے زیر اہتمام ہونے والی کم از کم تین ایسی تقریبات مجھے یاد ہیں جو دن کے وقت منعقد ہوئیں ان میں پہلی ستیہ پال آنند کے اعزا ز میں تھی جبکہ پھر طویل وقفے ہونے والی باقی دو تقریبات کے مہما ن امریکہ میں مقیم دوست ِ مہربان مرحوم شاعر و افسانہ نگار و کالمسٹ افتخار نسیم (افتی) اور اس وقت کویت میں پاکستان کے سفیر دوست عزیز معروف شاعر ادیب و دانشور ابرار حسین(اشعر) تھے۔ (ابرار حسین نے تو ہمارے ساتھ ستر کی دہائی کے وسط میں شعر و ادب کے کوچے میں قدم رکھا تھااور ینگ تھنکرز فورم اور حلقہ فکر و نظر کے ان جواں سال ساتھیوں میں شامل تھے جن میں سے بیشتر ’وفا داری بشرط استواری‘ کا علم اٹھائے، چار دہائیوں بعد اب بھی کار ادب میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں،) افتخار نسیم افتی سے پہلی ملاقات ستمبر 1999 نیویارک امریکہ میں ہونے والے حلقہ ارباب ذوق،نیویارک کے سالانہ مشاعرہ میں ہوئی تھی افتی اس مشاعرے کے صدر اور میں مہمان ِ خصوصی تھا۔ اس وقت نیویارک کے حلقے کے مدار المہام جوہر میر،عتیق صدیقی اور اشرف میاں تھے۔ لیکن اباسین آرٹس کونسل پشاور کی تقریب کے بعد ستیہ پال آنند سے پھر طویل عرصہ ملاقات نہ ہو سکی، البتہ کرسچیئن لٹریری سوسائٹی سے جڑے پشاور کی کم و بیش ہر تقریب میں بہت ہی محبت سے شریک ہو نے والے شاعر،ادیب یونس صابر ہر ملاقات میں ان کا ذکر کرتے رہتے، یونس صابر مسلسل یہ یاد دہانی بھی کراتے رہتے کہ آپ میرے گرائیں ہیں۔ کیونکہ میں دریائے کابل کے کنارے نو شہرہ میں پیدا ہوا ہوں اور اسی دریا کے کنارے آبادچھے سات میل پرے آباد اکوڑہ خٹک، آپ کا آبائی گاؤں ہے،اور پھر اسی سانس میں کہتے کہ نوشہرہ ستیہ پال آنند کی جنم بھومی نہ سہی مگر ان کا بچپن یہیں گزرا ہے، میں یونس صابر کو یاد دلاتا کہ حضور! اردو کے محبوب اور طرحدار شاعر احمد فرازبھی نوشہرہ میں پیدا ہوئے، سچی بات یہی ہے کہ پہلے پہل مجھے یونس صابر کی زبانی معلوم ہوا کہ ستیہ پال آنندکا بچپن نوشہرہ چھاؤنی میں گزرا ہے۔ نوے کی دہائی میں جب میں ایک معاصر روزنامہ کا ادبی صفحہ ترتیب دیتا تو ستیہ پال آنند کی دو ایک نظمیں یونس صابر کی وساطت سے ملیں۔میں نے شائع کیں تو یونس صابر انہیں ادبی صفحہ پوسٹ کر دیا کرتا تھا۔ لیکن جب میں روزنامہ آج سے جڑا ۔ اور ادب سرائے کا ڈول ڈالا گیا تو محض ایک ہی صفحہ ترتیب دے سکا، پھر ایک دوست کی محبت آڑے آگئی، مگر جلد ہی پھر سے ادب سرائے میں بس گیا تو اب یہ وہ زمانہ تھا کہ انٹر نیٹ نے اپنے قدم مضبوط کرنا شروع کر دئیے تھے اور مختلف ویب سائٹس اور ای میل نے رابطہ تیز کر دئیے تھے،ستیہ پال آنند کی دوستوں کی تعداد تو شاید خود انہیں بھی معلوم نہ ہو مگر امریکہ میں مقیم تین پشاوری دوستوں سے ان کی دوستی بے مثال ہے، ان میں ایک پاکستان ٹیلی ویژن پشاور کے معروف و مقبول ہدایتکار و پروگرام منیجر، ممتاز اردو،انگریزی کالمسٹ سیاسی تجزیہ کار اور دانشورعتیق احمد صدیقی، عالمی سطح پر پہچانے والے شاعر و افسانہ و ناول نگار ارشاد صدیقی او ر ممتاز و معروف ادیب، اردو، انگریزی کالمسٹ،محقق اور اردو و انگریزی زبان کی کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر سید امجد حسین شامل ہیں ان چاروں دوستوں میں ادبی مکالمہ مسلسل جاری ہے اور یہ تینوں پشاور ی دوست محبت اور احترام سے ستیہ پال آنند کو ”گرو جی“ کے نام سے پکارتے ہیں اور کئی دہائیوں سے سال میں ایک دو بار ان کا کسی بھی دوست کے گھر ایک اکٹھ ہو تا ہے جو کئی دنوں پر محیط ہو تا ہے، ادب سرائے میں بھی مسلسل ان کی محبت نظر آتی۔ ایک آدھ بار کچھ متنازعہ حوالے بھی سامنے آئے، مگر کار ادب میں یہ بھی روزمرہ کی سر گرمی ہو تی ہے۔اسی لئے تو غالب کو کہنا پڑا تھا،
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے
ویسے بھی وہ سلسلہ ڈاکٹر امجد حسین کی ” معقول مداخلت “ سے جلد ہی ختم ہو گیا، ستیہ پال آنند کے غزل کے حوالے سے تحفظات کو ادبی حلقوں میں زیادہ پزیرائی نہیں مل سکی۔ تاہم ان کی نظموں افسانوں اور تنقیدکی کتب کو پزیرائی حاصل ہوتی رہی، ان کی یہ تصانیف، اردو، پنجابی،ہندی اور انگریزی زبان میں شائع ہوتی رہیں، اور سال میں دو ایک بار ان کا پشاوری دوستوں کے ساتھ اکٹھ بھی جاری رہا، پھر کوئی سات برس قبل 2013 میں ان چار درویشوں کا اکٹھ امریکہ کی ریاست اوہائیو کے شہر ٹولیدو میں ڈاکٹر امجد حسین کے گھر ہو نا قرار پا یا مگر متفقہ فیصلہ یہ ہوا کہ اب کے اس میں پانچواں درویش بھی شامل کر لیا جائے سو ’قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند‘ کیونکہ ان دنوں میں امریکہ کے ادبی دورے پر تھا۔ اور نیو یارک کی تقریبات اور مشاعروں کے بعد دوست مہرباں عتیق احمد صدیقی کے پاس بنگ ہیمٹن میں تھا جہاں نیو میکسیکو سے ار شاد صدیقی بھی آ پہنچے تھے، ( اس سے قبل جب مرحوم ظہور اعوان امریکہ میں ہوتے تب بھی یہ قصہ پانچ درویشوں کا ہو جایا کرتا تھا) بنگ ہیمٹن کے بہت ہی خوشگوار موسم میں ہم تینوں کے شب و روز گزر رہے تھے، ڈاکٹر امجد حسین کو علم ہوا تو انہوں نے اس اکٹھ کا اہتمام کیا،واشنگٹن سے ستیہ جی کو دعوت دی گئی،مگر اچانک عتیق صدیقی اور ذکیہ بھابی جان کو اپنے بیٹے ارتقا صدیقی کے پاس کیپ کاڈجانا پڑ گیا،اور ارشاد صدیقی اور میں ٹولیڈو چلے گئے، اور پانچ درویش والی بات نہ بن سکی، مگر جس وقت ہم دو گھنٹے کی فلائٹ سے ڈیٹرائٹ ائیر پورٹ پہنچے تو مجھے بچپن کے دوست،گرائیں اور درجن بھر سے زیادہ عمدہ شعری مجموعوں کے خالق خالد رؤف قریشی کا فون آ یا، وہ ٹورینٹو (کینیڈا) میں ہوتے ہیں اور نامی گرامی انجینئر ہیں، دنیا بھر کے بڑے پراجیکٹس کے ساتھ ساتھ پشاور کی زرعی یونیورسٹی اور اسلام آباد سے لاہور موٹر وے بھی ان کی نگرانی میں بنے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے ملنے بنگ ہیمٹن آ رہے ہیں۔میں نے کہا میں تو ٹولیڈو آ گیا ہوا اور ہفتہ بھر قیام ہو گا،کیا یہاں آسکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ اپنے میزبان سے پو چھ لو انہیں میری موجودگی دخل در معقولات نہ لگے تو وہاں آ جاؤں گا۔ مجھے خالد اور ستیہ پال آنند کی دوستی کا بھی علم تھا، میں نے کہا وہ بھی آ رہے ہیں۔ سو سارے مراحل کے بعدہم ایک بار پھر پانچ درویش اکٹھے ہو گئے تھے، ٹولیڈو میں گرو جی (ستیہ پال آنند )کے ساتھ ہمارے شب و روز شعر و ادب اور علم و آ گہی سے شرابور گزرنے لگے۔ ستیہ جی کا صرف کام ہی نہیں بے پناہ مطالعہ بھی حیران کن ہے، پھر اسلام،قران حکیم اور سیرت نبویﷺ سے ان کا گہرامطالعہ، عقیدت اور نعتیہ کلام لمحوں میں ان کا گرویدہ بنا گیا تھا اور میں بھی انہیں باقی احباب کے طرح گرو جی کہنے لگا، مگر ایک دن انہوں نے بڑی محبت سے مجھے کہا ’سید جی آپ مجھے گرو جی مت کہا کریں۔‘ ایک دن میں اور ارشاد صدیقی پول کے کنارے بیٹھے تھے کہ وہ اپنی یاد داشتوں پرمبنی تازہ تصنیف ”کتھا چار جنموں کی“ جو انہی دنوں شائع ہوئی تھی اپنے کمرے سے لے کر آئے، ہم نے مبارک باد دی پہلے ارشاد جی اور پھر میں نے ورق گردانی شروع کی تو فلیپ پر ان کی ایک نظم کی چند سطریں درج تھی،ان میں سے کسی ایک سطر پر (چھوٹا منہ اور بات بھی شاید چھوٹی ہی تھی،) میں نے اپنی رائے کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس مصرع کی فضا دو زبانوں کے الفاظ کی شاید متحمل نہیں ہو سکتی، گرو جی نے کتاب لے کر اسے پڑھا مسکرائے اور پھر کتاب واپس کر دی، یہ کتاب ان کی ادبی یاد داشتوں کی کتھا ہی نہیں ایک مکمل ادبی تاریخ بھی ہے جو ستیہ پال آنندکا مکمل تعارف بھی ہے، تلوک چند محروم سے ابتدائی سکشا سے لے کر بڑے بڑے ادبی معرکوں کی کہانی بھی ہے، بہت سے، معروف اور قد آور شعرا کے ایک دوسرے کے بارے خیالات جان کر قدرے دکھ بھی ہوا خصوصا فیض کے بارے میں اخترالایمان کی رائے اور پھر بشیر بدر کی امریکہ میں خالصتاََ ’نوشہرو ی لب و لہجے‘ میں خبر لینا، (دو دن قبل اقبال حسین افکار نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ ستیہ پال آنند پشتو زبان بھی جانتے ہیں، تو مجھے یاد آیا کہ گرو جی بزبان پشتو ہی بشیر بدر کی خبر لی تھی۔) اور اتفاق سے یہ واقعہ بھی ڈیٹرائٹ میں ایک خاتون کے گھر پیش آیا، اس کتھا میں شاید ہی کوئی بڑا شاعر ادیب ان کی تنقید سے بچ نکلا ہو،رواں دواں اور بلا کی دلچسپ اس کتھا کو شروع کیا جائے تو کتاب رکھنے کو جی نہیں کرتا، میں ان کی ادبی فتوحات کے ساتھ ساتھ ان کی ایک بڑائی کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا کہ جس دن پول کنارے ان سے نظم کے ایک مصرع پر بات ہوئی تھی یہ اس کے تین چار دن بعد کی بات ہے جب ہم ٹولیڈو کے ایک معروف لبنانی ریستوران میں عشائیہ کے لئے یک جا تھے اور گرو جی اور میں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے گپ شپ چل رہی تھی تو اچانک گرو جی نے قدرے جھک کرمجھے کہا،اگر یوں ہو جائے تو کیسا ہے، میں نے حیرانی سے انہیں دیکھا تو انہوں نے ایک مصرع کہا،اب مجھے پول کنارے کی بات یاد آئی تو ایسا لگا کہ ایک چھوٹے منہ کی بات کو گرو جی نے پزیرائی بخش کر اپنا قد اتنا بڑھا دیا تھا کہ ان کے سامنے مجھے اپنا آپ ’بونا‘ لگنے لگا۔ کل 24اپریل کو ستیہ پال آنند کی 89 ویں سالگرہ ہے۔ گرو جی بہت مبارک، بہت دعائیں اور آپ ہی کی ایک نظم ”اگلا سفر طویل نہیں“ کے آخری چارمصرعے آپ کے نام ۔
علیل جذبے ہیں ان سے ہمار ا کیا رشتہ
کہوں کہ آج بھی صبح ِ شب وصال کے گل
ہماری روح میں کھلتے ہیں ۔ آؤ ساتھ چلیں
پکڑ کے ہاتھ کہ اگلا سفر طویل نہیں

Image may contain: Satyapal Anand, eyeglasses

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں