جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستئ اشیا مرے آگے
۰۰۰۰۰
(اس نظم میں ایک تجربے کے طور پر دو بحور کے امتزاج کو روا رکھا گیا)
(ایک) ہے مسترد ، خارج شدہ میرے لیے وہ شے
جو قطع نظر ‘نام’ کے متشکل نہیں ہے
جس کا بناؤ، جس کی بُنت، جس کی بناوٹ
ہو ‘نام’ کے ہی’ نام’ سے تالیف، وہ عالم
میرے لیے تو تشنۂ تکمیل ہے، یعنی
ایسا جہان کندۂ بد شکل رہے گا!
(دو) یہ صورت عالم ہے بھلا کیا، ذرا دیکھیں
بے ربط اکائیوں کا مرقع، قطار بند؟
آہنگ سے، ترتیب سے عاری ، تہ و بالا
کج مج، عبوس، بے تُکی اشکال کی تدوین
کچھ تو ہو خوش ترتیب، نستعلیق، برابر
سانچے میں ڈھلا، احسنِ تقویم کا حامل!
اس نا تراش مرکز ِ اشکال کے لیے
"جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور!”
(تین) "جز وہم نہیں”… وہم ؟ افاعیل ، تفاعیل؟
بے ہودہ، لغو، بے تکا ، ہذیان، خرافات؟
مفہوم سے خالی؟
نو ٹنکی کا اک کھیل؟
(چار) اور "ہستئ اشیا” کا بھلا کیا ہے تصور؟
اک شکلی و صوری و نظامی شبیہہِ ذات؟
اشکال کی فی الواقع ترتیب؟
یا ملک، دیس، مضمرو پیوست جگہ، شہر؟
ہاں ، ہستئ اشیا کا اگر یہ ہے تصور
’’جزوہم نہیں ہستئ اشیا‘‘ مرے آگے!
………………………………………
نوٹ: بظاہر تو یہ شعر سادہ، سلیس اور نستعلیق ہے، لیکن "صورتِ عالم "اور "ہستئ اشیا” میں شاعر
نے جن معانی کا احاطہ کیا ہے، ان پر دفتر کے دفتر سیاہ کیے جا سکتے ہیں۔ (س ۔پ۔آ)