تنقید

ڈاکٹرجوازجعفری کی نظم ’’یہ محبت نہیں عزاکے دن تھے!‘‘ : یونس خیال

یہ محبت نہیں عزا کے دن تھے ! 
میں نے لامحدود خزانوں پہ کھڑے ہو کر
اسے آواز دی
اور خاموشی کا زہر آلود خنجر
اپنے سینے میں اتار لیا
میں نے تنہائی کے گہرے کنویں سے اسے پکارا
میری آواز
نارسائی کا دکھ سہہ کر
میری سماعت کی دیوار سے آ لگی
میں نے جان لیا
خالی دامن سے بڑھ کر کوئی ناداری نہیں
یہ محبت نہیں عزا کے دن تھے !
میں نے سرسوں کے پھول کی چٹکی بھر زردی
اپنے اداس چہرے پہ مل لی
میرے لہو میں شکستہ چراغ پھڑپھڑائے
میں شہرِدرد کے نواح میں آباد ہوا
اس نے رات کے پچھلے پہر
آئنےکے روبرو
اپنے سنری بالوں میں کنگھی کی
آئینہ اپنی یاداشت کھو بیٹھا
میرے چاروں اور
بانس کے سیاہ جنگل پھیلنے لگے
اور میں خواب سے واپسی کا رستہ
بھول گیا

یہ محبت نہیں عزا کے دن تھے !
میں نے زمیں کے دسترخوان سے
کانٹوں کا لقمہ اٹھایا
دم توڑے دریا نے
میری تشنگی بجھانے سے انکار کر دیا
اس نے میری خوابیدہ پیشانی پر
زندگی کا طویل ترین بوسہ دیا
اور میرے خواب سے رخصت ہو گئی
اسے جاتے دیکھ کر
میں اپنے خواب کی باڑ پر اکیلا رہ گیا
میرے خواب کی ویرانی دیکھ کر
میری خواب گاہ کے آئنے
اس کا سراپا دہرانے لگے !
’’ یہ محبت نہیں عزا کے دن تھے ! ‘‘میں اترنے سے پہلے جوازجعفری کی نظموں کا مجموعی فکری جائزہ لیاجائے تواس کے ہاں دورویے کھل کرسامنے آتے ہیں۔ ’’چاہنا اور پھر اسی شدت سے چاہے جانے کی خواہش‘‘ اور’’ دنیاکوخوب صورت اورپُرامن دیکھنے کا خواب ‘‘ ۔ اگرغورکیاجائے تویہ دونوں رویے ایک ہی سکے کے دورُخ ہیں۔ اس کے ہاں محبت کی یہ خواہش اس کی ذات کی سطح تک محدودنہیں بلکہ اس نےاس کوبطورفلسفہ پیش کرکےاسےانسانیت کے احترام کی بنیادقراردیاہے۔ وہ اپنے طرز کی بستی بسانے کا خواب اپنے کاندھوں پر دھرے گلیوں میں گھومتا ہے۔ دروازوں پر دستکیں دیتاہے لیکن نئی بستی بسانے کی خواہش میں اکیلے ہجرت پرآمادہ بھی نہیں ہے ۔ وہ اپنے خوابوں کی تعبیرکے لیےموجودہ بستی ہی کی نئی تشکیل کاخواہاں ہیں۔ اس عمل میںدوسروں کو شامل کرنے کے لیےاس کے ہاں کوئی چیخ نہیں ، پکار نہیں۔ بس ایک ایسی بستی کی تشکیل کی خواہش۔۔۔ جہاں محبت کا صلہ محبت اورپھردائمی امن اورخوشحالی ۔
اسی خواہش کی تکمیل میں ناکامی اورمسلسل تنہائی کےاحساس کے بطن سے نظم ’’ یہ محبت نہیں عزا کے دن تھے ! ‘‘نے جنم لیاہے۔لیکن انفرادیت یہ ہے کہ وہ اس ناکامی یا تنہائی کوقبول کرنے کی بجائےاپنے ’’ خواب سراپا‘‘ کودہرانے میں مصروف ہوجاتاہے۔
میں اپنے خواب کی باڑ پر اکیلا رہ گیا
میرے خواب کی ویرانی دیکھ کر
میری خواب گاہ کے آئنے

اس کا سراپا دہرانے لگے !
اس طرزکافکری تسلسل ہی کسی بڑے فنکارکی میراث ہوتاہےاور جواز جعفری اس صف میں ہمت کے ساتھ کھڑانظرآتاہے۔
کسی تخلیق کو بنیادبناکر’’ تخلیق کار کی دریافت کاعمل‘‘ اگرچہ مشکل کام ہے۔لیکن ہوپائے تو تخلیق کار کے فکری اور نفیساتی جہان تک رسائی کے مراحل آسان ہوجاتے ہیں ۔تخلیق کی پرتیں ، حسی رویے یاحدودکے تعین میں قاری کے نظری زاویے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن اچھےتخلیقارکا عکس کسی نہ کسی طورتخلیقی حُسن میں جھلکتاضرورہے ۔ ’’ یہ محبت نہیں عزا کے دن تھے ! ‘‘کا شاعربھی اپنی نظم پوری طرح دکھائی بلکہ سنائی دیتاہے۔ معاشرتی ناہمواری،جبر ، بھوک اورلاچارانسانیت کی ترجمانی کرتے ہوئے وہ ایک منفرد علامتی جال بناتاہے۔
میں نے زمیں کے دسترخوان سے
کانٹوں کا لقمہ اٹھایا
دم توڑے دریا نے
میری تشنگی بجھانے سے انکار کر دیا
’’ زمین کا دسترخوان‘‘ ،’’ کانٹوں کا لقمہ‘‘ اور ’’ دم توڑتا دریا‘‘ کسی ایک فردکا المیہ نہیں ، پوری انسانیت کاکرب ہے۔دم توڑتی اخلاقی اقدار اور ہوس زدہ معاشرے میں بسنے والے مجبورلوگوں کی ایک چیخ ہےلیکن شاعرکااس ’’ لقمے‘‘ کو خود اٹھانااوراس کی اپنی ’’ تشنگی ‘‘ کانہ بجھ پانا اس کی نظم کی آفاقیت ہے۔
نوے کی دھائی میں زندہ نظم کہنے ،لکھنے والوں میں ڈاکٹرجواز جعفری ایک اہم اور تواناآوازبن کرابھرا۔مسلسل ریاضت ، تجربے اورنظم کےفطری رحجان کی وجہ سے اب وہ اپنے ہم عصروں میں منفرد اورممتازنظرآرہاہے۔
وہ محبت کے خزانوں کا وارث ہے۔وہ بولتاہے لیکن جب اسے سننے والے میسرنہیں آتے توچُپ اوڑھ لیتاہے ۔ لیکن یہ چُپ ہزاروں سسکتے انسانوں کی چیخوں پر بھاری ہے۔
میں نے لامحدود خزانوں پہ کھڑے ہو کر
اسے آواز دی
اور خاموشی کا زہر آلود خنجر
اپنے سینے میں اتار لیا
میں نے تنہائی کے گہرے کنویں سے اسے پکارا
میری آواز
نارسائی کا دکھ سہہ کر

میری سماعت کی دیوار سے آ لگی
’’ یہ محبت نہیں عزا کے دن تھے !‘‘ ایک زندہ اوراپنے عہدکی ترجمان نظم ہے۔ڈاکٹرجوازجعفری فکری حوالے سے مشکل راستے اپنانے والا تخلیق کار ہے ۔ جسے کھوجنے کےلیے ایک نظم نہیں بلکہ اس کے ہر لفظ میں اترنے کی ضرورت ہے۔

younus khayyal

About Author

4 Comments

  1. یوسف خالد

    اکتوبر 25, 2020

    بہت خوب آپ نے جواز جعفری کی نظم کا عمدہ تجزیہ کیا ہے یوں قاری کے لیے شاعر کے عقبی دیار تک رسائی آسان ہو گئی ہے – بہت خوب
    ایک عمدہ نظم پڑھنے کو ملی شکریہ

  2. گمنام

    اکتوبر 25, 2020

    عمدہ نظم پڑھوانے کا شکریہ ساتھ بےبہا دانش ورانہ تشریح

  3. DuaAzeemi

    اکتوبر 25, 2020

    عمدہ نظم پڑھوانے کا شکریہ ساتھ بےبہا دانش ورانہ تشریح

  4. Muhammad anees razzaq

    اکتوبر 25, 2020

    استادِ محترم ڈاکٹر جواز جعفری صاحب کی عظمت کو سلام

یوسف خالد کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں