ڈاکٹرجوازجعفری کی نظموں کانیامجموعہ” کہانی ایک شہرکی “ طویل نظموں پرمشتمل ہے۔تینوں نظمیں (کہانی،سرگزشت اورکتھا) بنیادی طورپرایک ہی داستان کےتین پڑائوہیں جن میں شاعرانسان سےجُڑی تاریخی اورنفسیاتی سچائیوں کوکمال مہارت سےاپنے قارئین تک پہنچانے میں کامیاب نظرآتاہے۔ایسی چھوٹی بڑی سچائیاں جن پریقین رکھنے کے باوجودہم نظراندازکردیتےہیں۔تخلیقی اعتبارسے اس مضبوط شاعرکے اُسلوب میں اتنادم ہے کہ بعض مقامات پران سچائیوں سے آنکھ ملانے کاحوصلہ نہ ہونے کے باوجودقاری کااس سے انحراف ممکن نہیں ہوتا۔
جوازجعفری کااندازاس قدردھیما،دل کش اورپراثرہے کہ ہم بغیرکچھ سوچےاس کے ساتھ ان گلیوںبازاروںکوچل نکلتے ہیں جہاں وہ سماج میں چلتی پھرتی خوب صورتیوں اورپردے میں چھپی بدصورتیوںکاتعارف بڑی سہولت کےساتھ کرواتے ہوئےایک گلی سے دوسری گلی میںمُڑ جاتاہے۔اسے یہ غرض نہیں کہ پڑھنے والاکس حدتک اس کی فکری بارش کاشکارہواہےیاکس قدربھیگاہے۔ایسااعتمادبہت کم تخلیق کاروں کے حصے میں آتاہے۔
بظاہریہ تین نظمیں ہیں لیکن غورسے دیکھاجائے توہرایک نظم کے اندربھی کئی چھوئی نظمیں موجودہیں۔وہ ایک ماہرداستان گوکی طرح اردگردکی چھوٹی چھوٹی سچائیوں کی تصویریں جوڑکرنہ صرف اپنی نظم کادامن وسیع کرتاہےبلکہ اس نے جدیداردونظم کےدامن کوبھی وسعت بخشتی ہے۔کچھ مثالیں دیکھیے۔
(۱)
گملوں میں اُگائے گئے سیاست کار
شہرکی نمائندگی سے قاصرہیں
میں اپنے فیصلے خودکروں گا
۔۔۔
(۲)
سورج کومرےآج تیسرادن ہے
شہرکےچوک میں
روشنی کی قبرپرپھول چڑھانے والاکوئی نہیں
۔۔۔۔
(۳)
شہرکےسیاہ آسمان پر
اندھے سورج کاانجام قریب ہے
مین اپناروشن دان آپ ایجادکروں گا
۔۔۔۔
(۴)
لوگ میرے اردگرد
خداکاگھرجلانے کے لیےآگ جمع کررہے ہیں
میں خشک دریاکے کنارےبیٹھااپناپھٹاہوامشکیزہ سینے کاجتن کرتاہوں
۔۔۔۔
(۵)
میں نےپرندوں کی چہکارمیں تجھے تلاش کیا
اورتیرے نام کابوسہ
باغِ جناح میں کھلے گلاب کی اوٹ میںچھپادیا
۔۔۔
(۶)
روشنی میں گندھے میرےخدوخال
مجھےآزارکی سرحدوں تک لے گئے
مجھے آئنہ روعورتوں کے ہمراہ انسانی منڈی تک کھینچاگیا
میری ماں کی مٹھی میں میرے پیراہن کی بُورہ گئی
مجموعے میں شامل نظموں کے مختلف حصوں سےمنتخب کیے گئے ان ٹکروں کواگران کے موضوعات کے مطابق عنوانات میسرآ جائیں تویہ مختصرنظموں کی عمدہ مثالیں ہیں۔نظم کےکچھ شاعروں کے ہاں پہلے سے ایسی مثالیں توموجودہیں لیکن جوازجعفری کاانفرادیہ ہےکہ اس نےیہ اندازمحض داستان کوطویل کرنےیاشعوری کوشش کے تخت اختیارنہیں کیابلکہ اپنے مخصوص اسلوب اورفنی مہارت کے زیراثرغیرمحسوس طریق سے اپنایاہے۔
اچھے تخلیق کاروں جیسایہی انداز۱۹۹۰ءمیں چھپے،اس کےپہلےشعری مجموعے ”دہلیزپہ آنکھیں “میں شامل نثری نظموں،” پھرکوئی بھیج دعامیرے لیے “اور”مجھے تم سےکچھ کہناہے “میں بھی موجودہے۔اب فرق اگرہے صرف اتناہے کہ وہ جوازجعفری کی ابتداتھی اورآج پینتیس برس بعدہمارایہ فنکارفنی اورفکری سطح پربہت آگے نکل چکاہے۔
”محبت “اور” عورت “ کی خوشبوکالطیف احساس قاری کواس مجموعےکی نظموں سےمیسرآتاہےاوروہ شاعرکےمزاج اورفنی مہارت سےشناسائی کےعمل سے گزرنےکےبعدخودکوبھی اس داستان کاایک کردارہی تصورکرتا ہے۔کسی تخلیق کار کی یہ بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ جوازجعفری نےجس شہرکی کہانی بیان کی ہےوہ اسے وہ ٹوٹ کرچاہتاہے۔اس کہانی میں کہیں اس شہرکی روایات ٹوٹنے کانوحہ ہے اورکہیں اس کےاینٹ گارے کے بکھرنے پرگہرے دکھ کی کیفیات۔کہیں وہ جانے والوں کوآوازیں دیتادکھائی دیتاہے اورکہیںاس کی یادگاروں سے محبت کااظہارکرتاہے۔
جوازجعفری کی نظموں میںعورت ایک تواناعلامت کےروپ میں سامنےآتی ہے۔ان نظموں میں یہ انسانی دنیاکی ایسی خوب صورت ترین تخلیق دکھائی دیتی ہےجس کےبغیرمسرت ،زرخیزی ،ذہانت اورخوش حالی کے خوابوں کی تعبیرکسی طورممکن نہیں۔ زمین کےاس اصل زیور کوشاعرنےاتنے خوب صورت ناموں سے پکاراہےکہ اردوادب میں شایدہی کوئی مثال ملتی ہو۔چاندنی سےبنی عورت/آئنے سے وفادارعورت/سرسبزعورت/گلابی عورت/روشنی سےبنی عورت/کانچ سے بنی عورت/کنعانی انگورسےبنی عورت/دارچینی سے بنی عورت/ سنہری عورت/گندم کی بالیوں سے بنی عورت اورزعفران کےپھولوں سے تراشی عورت جیسےالقابات نہ صرف شاعرکی ذہنی لطافت اوروسعتِ نظری کاپتہ دیتےہیںبلکہ خواتین کے وقار میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔شاعرکاتخلیقی سطح پرکمال یہ ہےکہ اس نےاپنی نظموں میںعورت کوجوبھی نام اورکرداردیا فطری اورداستان کی ضرورت کے مطابق ہے۔یہاں اس کی نظموں کےکچھ ٹکڑے دیکھیے:
(۱)
آئینے سےوفادارعورت شہرکاچہرہ تھی
اس کی مٹھی میں
بابل کی مقدس کسبیوں کےنسب کاسنہری سکہ ہے
۔۔۔
(۲)
اس گلابی عورت نے
رخصت ہوتی شام کےکنارےمجھے سیاہ گلاب کاتحفہ دیا
اورزمین کےآخری کناروں کی طرف پروازکرگئی
۔۔۔
(۳)
وہ سرسبزعورت
سرمہ بن کرمیری آنکھوں سے بہہ گئی
۔۔۔
(۴)
میرے دل کادروازہ کھلا
وہ روشنی سے بنی عورت باہرآئی
اورجنگ میں معذورہونے والوں میں
مصنوعی اعضابانٹنے لگی
۔۔۔
(۵)
میں نے گندم کی بالیوں سےبنی عورت سے بسترالگ کیا
اسےاپنےبیٹے سمیت دورافتادہ چشمے کی پناہ میں دیا
اوررات ہونے سے پہلےاپنے خیمےمیں لوٹ آیا
جہاں کانچ سے بنی وہ عورت
انتظارکےچرخےپرمیراخواب کات رہی تھی
جوازجعفری کی نظموں میںعورت کی علامت اور اس کےمختلف رُوپ ایک الگ اورمکمل موضوع ہے۔مجھےامیدہےکہ اس شاندارتخلیق کارکاکوئی نقاد اس موضوع پرضرورکام کرے گااوراس خاص عورت کا کھوج لگانے میںبھی کامیاب ہوگاجس کی مختلف رنگوں کی تصویریں بناتے بناتے شاعرنے اپنی نظموں کامزاج بدلااوراس کردارکوامرکردیا۔
(یونس خیال)