محمد حمید شاہد
صاحب افسانے کے باب میں جو مسائل مجھے پریشان کرتے ہیں ان میں سے ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ اب آپ افسانے کو لمحہ رواں کے آشوب سے کنی کاٹ کر نہ تو لکھ سکتے ہیں نہ اس کی ادبی قدر کو طے کر سکتے ہیں۔ پھر اس لمحہ گزراں کی نیرنگیاں اور ستم ظریفیاں اتنی عجب ہیں کہ انہیں گرفت میں لینے بیٹھو تو روایتی صلاحیت والا آدمی پل بھر میں اتھلا ہو کر ننگا ہو جاتا ہے۔ میں اس پر زور دیتا آیا ہوں کہ تخلیقی عمل کے دوران لکھنے والا اکیلا ہو جایا کرتا ہے۔ اور اب اس باب میں یہ وضاحت کرنا پڑ رہی ہے کہ یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے جتنی سہولت سے میں نے کہہ دی تھی۔ دیکھا جائے تو انفرادی شعور کسی نہ کسی سطح پر ثقافتی شعور کی لہروں سے غذا پا رہا ہوتا ہے۔یہ بات گرہ میں باندھنے کی ہے کہ یہ ثقافتی کروٹیں محض کسی جواں سال بیوہ کے بستر کی سلوٹیں نہیں ہوا کرتیں کہ انہیں تہذیبی شعور بہر حال اپنے زیر اثر رکھتا ہے۔ جی میں اسی تہذیبی شعور کی بات کر رہا ہوں جو بظاہر غیر فعال ہو رہا ہوتا ہے۔ اس سب پر مستزاد وہ تہذیبی اور ثقافتی لین دین ہے جس سے اجتماعی شعور روح عصر میں ڈھلنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ تماشا جو ناقد کی کھلی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے اور جسے وہ نئے زمانے میں افسانے کے تانے بانے کا حصہ بنتے صاف دیکھ رہا ہوتا ہے کیا وہ اسے افسانے کی تنقید سے الگ رکھ کر ادبی سطح پر درست نتیجہ اخذ کر سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس باب میں اگر اس کا تنقیدی اور ادبی شعور تازہ نہیں ہے تو اسے افسانہ اور افسانے کی تنقید سے پہلے اپنی حسیات کی تربیت اور تازگی کا اہتمام کرنا چاہیے ورنہ بہت خرابی ہو گی۔
خرابی ہو گی؟۔۔۔۔کیا کہا صاحب؟ ہماری سدھائی ہوئی حسیات نے کیا اب تک افسانے کی تنقید کو کج راہ نہیں کر رکھا۔ ذرا ان صاحب کو دیکھنا جو نئے شعور کو افسانے کا حصہ بنتے دیکھ کر بھونچکے وہیں کے وہیں کھڑے ہیں بلکہ رخ بدل کر ماضی کی کہانیاں نئے شعور کے تازہ پانیوں سے دھوئے ادھر لڑھکاتے ہوئے کہے جاتے ہیں، حیرت ہے بھئی حیرت ہے۔
میرے لیے تو یہ حیران کن بات ہے کہ جب وہ معتبر لکھنے والا، جس نے ایک ادبی روایت کی طرح ڈالی ہو اپنا شمار نہ صرف اوپر والے حیرت زادوں میں کرے اس کا باقاعدہ ڈھنڈورچی بھی بن جائے۔ کسی زمانے میں یہ بات بھلی لگتی تھی کہ جب تک منظر آنکھ اوجھل نہیں ہو جاتا، چیزیں پرانی نہیں ہو جاتیں، واقعات ماضی کی دھول میں دفن نہیں ہو جاتے اور کردار مر مرا نہیں جاتے انہیں ادب نہیں بنایا جا سکتا۔ مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ نئی صورت حال نے اس تصور تخلیق میں شگاف ڈال دیے ہیں۔ ہماری تنقید کو بھی یہ بات سمجھ لینا ہو گی۔ اس نئے تناظر میں ناقد کی ذمہ داری یوں بڑھ جاتی ہے کہ اسے افسانے کی ادبی قدر کا ادراک کرنے کے لیے اپنی حسوں کو نئے جمالیاتی بعد سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ گزرے وقتوں میں جمالیاتی بعد کی عدم موجودگی یوں کھلتی نہ تھی کہ تب کہانی کا لوکیل ماضی میں رکھ کر فاصلاتی بعد سے قاری کو غچہ دینا آسان بلکہ کارگر فارمولا تھا۔ نئے عصر کی تیز بوچھاڑ میں بھیگتی ہوئی کہانی کو جانچنے والا جب تک یہ نہیں سمجھے گا کہ کسی بھی فن پارے میں جمالیاتی بعد محض اور صرف فاصلاتی بعد نہیں ہوتا تو وہ فن کار کے باطن سے کشید ہو کر فن پارے کی روح ہو جانے والی اس مقناطیسیت کو گرفت میں لے پائے گا جو اس تخلیق کا آہنگ بنا رہی ہوتی ہے۔ یاد رہے یہ آہنگ زبان کی سطح پر بھی کام کر رہا ہوتا ہے اور اس کے باطن میں معنیاتی سطح پر بھی۔