مجید امجد کی نظم اردو تنقید کا ایک باقاعدہ موضوع بننے میں تو کامیاب ہو گئی ہے مگر ان کی غزل کی طرف اردو تنقید کا رویہ بے توجہی سے زیادہ سرد مہری کا ہے۔ کیا اس لیے کہ مجید امجد نے غزلیں کم اور نظمیں زیادہ لکھی ہیں ؟ خواجہ محمد زکریا کے مرتبہ کلیات میں ستاون غزلیں اور تین سو چوالیس نظمیں شامل ہیں۔ اس طرح مجید امجد کے یہاں غزل و نظم کی نسبت ایک اور چھ کے لگ بھگ بنتی ہے، مگر مجید امجد کی شاعری پر لکھی گئی تنقید میں غزل و نظم پر مضامین کی شرح ایک اور سو سے بھی کم ہو گی۔ مجید امجد کے اہم ترین نقادوں نے ان کی غزل کو موضوع گفتگو ہی نہیں بنایا۔ ساری توجہ ان کی نظم کو دی ہے۔ لے دے کے انور سدید کا ایک مقالہ (جو تعارفی و توضیحی نوعیت کا ہے ) محمد کلیم خان کا ایک سرسری مضمون یا پھر نظم پر بعض مضامین میں چند سطریں ان کی غزل پر ملتی ہیں۔ ان تحقیقی مقالات کو اس بحث میں لانا لا حاصل ہے، جن میں ضرورتاً ایک آدھ باب مجید امجد کی غزل پر باندھا گیا ہے۔ یہ صورت حال اس انوکھی منطق کی پیداوار لگتی ہے کہ چونکہ مجید امجد نے غزل پر نظم کو ترجیح دی ہے، اس لیے ان کی جملہ تخلیقی توانائی ان کی نظم میں ظاہر اور مجسم ہوئی ہے اور اسی بنا پر نظم ہی زیادہ توجہ کی مستحق ہے، مگر یہ منطق مجید امجد کی غزل کی طرف سرد مہری روا رکھنے کے لیے گھڑ لی گئی ہے۔ بجا کہ مجید امجد نے نظم کو غزل پر ترجیح دی ہے، مگر یہ ترجیح مقداری ہے، اقداری نہیں۔ مجید امجد کی شاعری میں غزل و نظم کا جو اقداری شعور رواں اور ان کی غزل و نظم کو مخصوص رنگ میں ڈھالتا ہے، وہ کسی ایک کو برتر یا کم تر (قدری سطح پر) قرار نہیں دیتا۔ کم تر قرار دینے کی صورت میں مجید امجد سے ڈھنگ کی ایک غزل بھی تخلیق نہ ہو سکتی جب کہ انہوں نے اول درجے کی کئی غزلیں اردو شاعری کو دی ہیں۔ اشیاء کے کم تر و برتر ہونے کا اقداری شعور، ان اشیاء کی طرف ہمارے رویے ان کو برتنے کے طریقوں اور ان کے معنی و مقصد کے طے کرنے کے عمل پر شدت سے اثر انداز ہوتا ہے۔
یہاں یہ سوال بجا طور پر اٹھایا جا سکتا ہے کہ اگر مجید امجد غزل و نظم کو اقداری سطح پر کم تر و برتر قرار نہیں دیتے تھے تو پھر غزل و نظم کی شرح ایک اور چھ کیوں ہے ؟زیادہ نظمیں تخلیق کرنے کا سیدھا سادہ مطلب نظم کو زیادہ اہمیت دینا ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ مجید امجد کی غزلیں ان کی نظموں کے مقابلے میں کم ضرور ہیں، مگر یہ بہرحال معقول مقدار میں ہیں اور ایک معقول ضخامت کا پورا مجموعہ خالد شریف نے ان سے تیار کر کے شائع کر دیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ مجید امجد غزل و نظم میں اقداری فرق نہیں کرتے تھے، مگر شعریاتی فرق ضرور کرتے تھے اور اسی فرق کا لحاظ کرنے کی بنا پر انہوں نے نظمیں زیادہ اور غزلیں کم کہی ہیں۔
شعریاتی فرق ہی یہ واضح کرتا ہے کہ غزل و نظم کے صنفی امتیازات کیا ہیں، کون سے ضابطے اور رسمیات کو ایک غزل اور دوسری کو نظم بناتے ہیں۔ دونوں کے جداگانہ حدود اور نقطہ ہائے اشتراک کا علم بھی شعریات سے ہوتا ہے اور یہ علم کسی تخلیق کار کو یہ فیصلہ کرنے میں سہولت دیتا ہے کہ اسے کس صنف میں زیادہ اور کس میں کم اظہار کرنا ہے۔ تاہم واضح رہے کہ یہ فیصلہ وہی تخلیق کار کر سکتا ہے جو ایک طرف اپنے تخلیقی سیلف میں مضمر تخلیقی توانائی کی ’’جہات‘‘ اور اصناف کی شعریات کا یکساں علم رکھتا ہو، اور دوسری طرف تخلیقی توانائی کی ’’جہات‘‘ کے لیے موزوں اصناف کے شعور سے بہرہ ور ہو۔ ابتدا میں صنف کا انتخاب رواداری اور تقلید کا معاملہ ہوتا ہے، مگر بعد میں ایک گہرا سنجیدہ مسئلہ! مجید امجد نے خواجہ زکریا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’میری ابتدا کی جتنی چیزیں ہیں، نظم میں ہیں، غزل کے ساتھ بھی کچھ عرصہ میرا لگاؤ رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ میں ہر روز غزل کہتا تھا پھر نظم اور اس کی مختلف اشکال کی طرف میری توجہ ہوئی۔‘‘ (67) مجید امجد اپنی شاعری (اور زندگی) سے متعلق کھل کر اظہار خیال کرنے کے عادی نہیں تھے، تاہم ان کے اس بیان سے یہ بات بہرحال واضح ہے کہ نظم اور اس کی مختلف اشکال کی طرف ان کی توجہ درحقیقت نظم و غزل کے شعریاتی فرق کے شعور کا ہی نتیجہ تھی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ان کی تخلیقی توانائی کی ’’غالب جہات‘‘ کے لیے نظم موزوں ہے اور تخلیقی توانائی کی بعض جہات کے لیے غزل مناسب ہے۔ تاہم نظم و غزل دونوں کی تخلیق میں مجید امجد نے یکساں سنجیدگی اور ارتکاز کا مظاہرہ کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ تخلیقی توانائی کی ’’جہات‘‘ اپنے ہدف اور ’’پھیلاؤ‘‘ کے اعتبار سے یکساں ہوتی ہیں یا نہیں ؟ یہ سوال عمومی طور پر اہم ہے تو مجید امجد کی غزل کی جہات کو سمجھنے کے لیے اہم ترین ہے۔ سادہ لفظوں میں کیا نظم اور غزل میں مجید امجد کی تخلیقی توانائی کی ظاہر ہونے والی جہات یکساں ہیں یا مختلف ہیں ؟ اور سادہ ترین لفظوں میں کیا وہی موضوعات و مسائل غزل میں مجید امجد ظاہر کرتے ہیں، جنہیں وہ نظم میں منکشف و مجسم کرتے ہیں یا؟ غزل کے لیے مختلف موضوعات و مسائل کا انتخاب کرتے ہیں ؟ یہ سوال ایک طرف شخصیت کے اجزاء کے ارتباط و انفعال سے متعلق ہے تو دوسری طرف اصناف کی شعریاتی گنجائشوں کی بابت ہے۔ نظری طور پر صنف کے موضوعات وسائل مختلف ہوتے ہیں، اس لیے کہ صنف کی رسمیات اور ضابطے مختلف ہوتے ہیں۔ رسمیات اور ضابطے محض صنف کی ہیئت کو ہی تشکیل نہیں دیتے، ان میں ظاہر ہونے والے موضوعات کی نوعیت اور حدود پر بھی فیصلہ کن انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں، مگر عملاً مجید امجد کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی غزل بعض مقامات پر ان کی نظم کے زیر اثر ہے اور دوسرے مقامات پر آزاد و مختار ہے۔
مجید امجد کی غزل پر خود انہی کی نظم کے اثر کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ان کی غزل دوسروں کے اثرات سے آزاد ہے۔ مجید امجد کے اہم معاصرین میں حسرت، اصغر، فانی، جگر، فراق، ناصر، فیض ایسے شعراء شامل ہیں، مگر مجید امجد نے ان میں سے کسی کا اثر قبول نہیں کیا۔ ہر چند مجید امجد کی دوچار غزلیں دوسرے شعراء کی زمینوں میں ہیں ان کی پہلی غزل ’’عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگ جاں ہو گئیں‘‘ اور 1973ء کی ایک غزل:’’بچا کے رکھا ہے جس کو غروب جاں کے لیے‘‘ غالب کی زمین میں ہیں۔ مگر مجموعی طور پر ان کی غزل نہ صرف معاصرین اور پیش روؤں کے اثرات سے آزاد ہے بلکہ معاصر غزل کی حسیت میں بھی ان کی غزل شریک نظر نہیں آتی۔ کلاسیکی غزل کا سایہ بھی سوائے ابتدائی دو ایک غزلوں کے کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ (68) حقیقت یہ ہے کہ جس نوع کی انفرادیت ان کی نظموں میں ہے، اسی نوع کی انفرادیت ان کی غزلوں میں بھی ہے۔ ان کی غزل پر ان کی نظم کے اثر کی ایک صورت یہ بھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں مجید امجد نظم کی تخلیق میں جس فنی اہتمام کا مظاہرہ کرتے ہیں، اسے غزل میں بھی روا رکھتے ہیں۔
مجید امجد کی غزل پران کی نظم کے اثر کی دوسری مگر اہم صورت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی غزل کے متعدد اشعار میں کم و بیش یہی تمثالیں استعمال کی ہیں۔ ان کی نظمیہ تمثالوں کا اختصاص یہ ہے کہ یہ تقلیدی نہیں اختراعی ہیں۔ مجید امجد نے معاصر اور ماقبل شاعری سے تمثالیں اخذ کرنے، انہیں بعینہ یا بہ ترمیم استعمال کرنے کے بجائے اپنے ارد گرد سے منتخب کی ہیں۔ یہی اختراعی رویہ ان کی غزلیہ تمثالوں میں بھی موجود ہے۔ بیشتر مقامات پر ان کی نظم، بیش تر غزل میں تمثالیں دہرائی گئی ہیں۔ (68)دوسری طرف ان کی بعض نظمیں غزل کے بہت قریب ہیں۔ مثلاً نظم مسافر کا اگر عنوان ہٹا دیں تو وہ غزل ہے۔
مجید امجد کی نظمیہ تمثالوں کی طرح ان کی غزلیہ تمثالیں کہیں بھی آرائشی نہیں ہیں۔ یوں بھی مجید امجد کی شاعری (کچھ ابتدائی نظموں کو چھوڑ کر) آرائشی اور غیر ضروری عناصر سے پاک ہے۔ وہ ہر لفظ کے سیاق اور مقام سے متعلق مثالی آگاہی رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ شعری تجربے کے ضمن میں انفرادیت پسندی، روایت میں عدم تسلسل اور پیرایہ اظہار میں تجربہ پسندی کے قائل تھے، جو ایک جدید رویہ ہے مگر شاعرانہ زبان کی طرف ان کا رویہ کلاسیکی تھا۔ وہ زبان کے استعمال اور زبان کے امکانات کی تلاش کے عمل میں اسی حزم و احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں، جو ہمارے کلاسیکی شعراء سے مخصوص ہے۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے کلاسیکی ادب سے زبان مستعار لینے سے زیادہ زبان کی طرف رویہ مستعار لیا تھا۔ اس سے بہت فرق پڑا یعنی ان کی غزل کی زبان میں اجنبیت یا مانوسیت کے عناصر ظاہر نہیں ہوتے۔ چونکہ ان کی تمثالیں آرائشی نہیں ہیں اس لیے وہ تجربے، خیال، تصور یا منظر سے اسی طرح جڑی ہیں، جس طرح رنگ کسی تصویر سے جڑے ہوتے ہیں۔
مجید امجد کی غزل میں تین قسم کی تمثالیں ملتی ہیں : حقیقی استعاراتی اور علامتی تمثالوں کی یہی تین قسمیں ہیں جو اہم شاعری میں برتی گئی ہیں۔ حقیقی تمثالیں وہ ہیں جو روزمرہ کے کسی حقیقی منظر کی لسانی باز آفرینی کرتی ہیں۔ ان تمثالوں پر مبنی شعر یا نظم کا مطالعہ کرتے ہوئے فوری دھیان حقیقی منظر کی طرف جاتا ہے۔ بیش تر شعرا اسی نوعیت کی تمثالیں کام میں لاتے ہیں کہ یہ ایک سہل کام ہے۔ ہم حیاتیاتی اور ثقافتی جبر کے تحت باہر کی زندگی سے زیادہ جڑے ہوتے ہیں، اس لیے ہمارے مشاہدے، حافظے اور تصور میں باہر کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان کی باز آفرینی ہمارے لیے فطری ہے اور اسی بنا پر آسان ہے۔ مجید امجد حقیقی تمثالوں میں بھی اختراعی رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ محض منظر کشی یا پرانی اصطلاح میں محاکات کے ساتھ ساتھ نکتہ طرازی سے بھی کام لیتے ہیں۔ یہ نکتہ طرازی کہیں کسی استفہامیہ کلمے، کہیں لفظوں اور مثالوں کے تلازماتی محرک اور کہیں ڈرامائی بیان کے ذریعے کی گئی ہے۔ یہ اشعار دیکھیے :
یہ بدلیوں کا شور، یہ گھنگھور قربتیں
بارش میں بھیگتے یہ دو رہگیر کون ہیں ؟
جب اک چراغ رہگزر کی کرن پڑے
ہونٹوں کی لو لطیف حجابوں سے چھن پڑے
تنہا گلی، ترے مرے قدموں کی چاپ، رات
ہر سو وہ خامشی کہ نہ تاب سخن پڑے
اس منور پر ابھی جسے دیکھا ہے، کون تھا؟
سنبھلی ہوئی نگاہ تھی، سادہ لباس تھا
دو طرف بنگلے، ریشمی نیند میں
اور سڑک پر فقیر اک نانگا
استعاراتی تمثالیں بھی حقیقی منظر یا واقعے سے متعلق ہوتی ہیں، مگر وہ اس منظر کی لسانی باز آفرینی کے بجائے اس کی معنیاتی توسیع کرتی ہیں۔ منظر یا واقعہ اپنی جسمیت کو قائم رکھتا ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ کسی اور شے کا قائم مقام بھی بن جاتا ہے۔ چنانچہ استعاراتی تمثالوں سے عبارت شعر یا نظم پڑھتے ہوئے قاری دو سطحی تجربے سے گزرتا ہے۔ وہ ایک سطح پر روزانہ کی حقیقی اور مانوس تجربات کی دنیا کا نئے سرے سے تجربہ بھی کرتا ہے اور دوسری سطح پر ایک تخیلی اور نامانوس معنیاتی فضا بھی محسوس کرتا ہے۔ استعاراتی تمثالوں میں معنیاتی فضا چونکہ نامانوس ہوتی ہے، اس لیے فوری متوجہ کرتی ہے۔ ہر اجنبی چہرہ اور منظر فوری توجہ کھینچتا ہے۔ یہ عمل بڑی حد تک حقیقی اور مانوس تجربات کی دنیا سے اوپر اٹھنے اور اسے کچھ اس طور عبور کرنے سے عبارت ہوتا ہے کہ یہ دنیا ٹریس کی صورت موجود رہتی ہے۔ مجید امجد کے یہاں استعاراتی تمثالوں کے علمبردار کئی اشعار مل جاتے ہیں۔ یہاں بھی انہوں نے اپنی اختراع پسندی سے کام لیتے ہوئے نئی اور انوکھی تمثالیں وضع کی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے :
صبح کی دھوپ ہے کہ رستوں پر
منجمد بجلیوں کا اک دریا
پھر کہیں دل کے برج پر کوئی عکس
فاصلوں کی فصیل سے ابھرا
شفق کے رنگ آنکھوں پر، سحر کی اوس پلکوں پر
نہ آئے پھر بھی لب پر چرخ نیلی فام کے شکوے
افق افق پر زمانوں کی دھند سے ابھرے
طیور، نغمے، ندی، تتلیاں، گلاب کے پھول
دلوں کی آنچ سے تھا، برف کی سلوں پہ کبھی
سیاہ سانسوں میں لتھڑا ہوا پسینہ بھی
استعاراتی تمثالوں میں اگر مانوس تجربات کی دنیا کے ٹریس موجود رہتے ہیں تو علامتی تمثالوں میں ٹریس غائب ہو جاتے اور ان کی جگہ محض سپیس پیدا ہو جاتی ہے، جس میں کچھ طے نہیں ہوتا، مگر کئی باتیں، خیالات، تصورات، معانی طے کرنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ علامتی تمثالیں اگرچہ دیگر تمثالوں کی طرح ارد گرد کی دنیا سے ہی لی جاتی ہیں، مگر انہیں کچھ اس انداز اور کچھ ایسے سیاق میں لایا جاتا ہے کہ وہ اپنے منبع سے کٹ جاتی مگر ممکنات کے کئی منابع سے جڑ جاتی ہیں۔ استعاراتی تمثالوں میں مانوس دنیا سے اوپر اٹھنے کا تجربہ قاری کرتا ہے، جب کہ علامتی تمثالوں میں یکسر نئی دنیا میں اترنے کا تجربہ اسے حاصل ہوتا ہے۔ اس وضع کی تمثالیں ہمیشہ بڑی شاعری میں پائی جاتی ہیں۔ انہیں وہی شاعر تخلیق کر سکتا ہے جو کیٹس کے لفظوں میں Negative Capabilityکا حامل ہو۔ یعنی وہ لا یقینیت، اسرار، تذبذب کی حالت میں رہنے کی اہلیت رکھتا ہو اور اسے روز مرہ کی حقیقتوں اور منطق کی طرف پلٹنے کی خواہش بے چین نہ کرتی ہو۔ (70) دوسرے لفظوں میں مذکورہ پلٹنے کی خواہش مثبت صلاحیت ہے اور اس کے برعکس منفی صلاحیت ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس شاعری میں پلٹنے کی محض مذکورہ خواہش ہی موجود ہو، وہ حقیقی یا زیادہ سے زیادہ استعاراتی تمثالوں کو تخلیق اور پیش کرنے کی اہل ہوتی ہے اور اس نوع کی شاعری اوسط درجے کی شاعری ہی ہوتی ہے۔
مجید امجد کی پوری غزل علامتی تمثالوں کے علمبردار تو نہیں مگر خاصی تعداد میں ایسے اشعار موجود ہیں، جن کی تمثالیں علامت کے درجے کو پہنچ گئی ہیں۔ ان کی نظموں میں علامتی تمثالوں کی کارفرمائی کہیں زیادہ ہے۔ بہرکیف کچھ اشعار دیکھیے :
باگیں کھنچیں، مسافتیں کڑکیں، فرس رکے
ماضی کی رتھ سے کس نے پلٹ کر نگاہ کی
سانس کی رو میں، رونما طوفاں
تیغ کی دھار پر بہے دھارا
کیا رو تھی جو نسیب افق سے مری طرف
تیری، پلٹ پلٹ کے، ندی کے بہاؤ سے
ان ریزہ ریزہ آئنوں کے روپ میں بتا
صدیوں کے طاق پر، فلک پیر، کون ہیں ؟
بکھرتی لہروں کے ساتھ ان دنوں کے تنکے بھی تھے
جو دل میں بہتے ہوئے رک گئے، نہیں گزرے
غزل کو عام طور پر ریزہ خیالی سے عبارت قرار دیا گیا اور اسے غزل کا ہیئتی اور مزاجی لوازمہ شمار کیا گیا ہے۔ نیز یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ غزل میں کوئی دوسری صورت ممکن نہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف دوسری صورت ممکن ہے بلکہ غزل کے لیے احسن بھی ہے۔ ریزہ خیالی کا مطلب مختلف اور متنوع خیالات ہیں۔ ایک ہی غزل ہجر کے رونے اور وصال کی سرشاری کو یا زمانے کی ناقدری کی شکایت اور زمانے سے بے نیازی ایسے متضاد مضامین پیش کر سکتی ہے اور اس خوبی پر فخر بھی کر سکتی ہے کہ وہ زندگی کے تضاد اور تنوع کی نمائندگی کر رہی ہے اور اس کا یہ جواز بھی پیش کر سکتی ہے کہ غزل گو محض اپنی ذات اور اپنے تجربات کا اظہار نہیں کرتا، دیگر لوگوں کے دیگر تجربات کو بھی زبان دیتا ہے جو اس کے تجربات سے یکسر مختلف ہو سکتے ہیں۔ اس لیے غزل کی ریزہ خیالی، شاعر کے انتشار فکر اور باطنی بے نظمی کی ترجمان نہیں۔ یہ سب بجا، مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ ریزہ خیالی، خیالات کے ایک پیٹرن یا تجربات کے ایک نظام کے قیام کی اس خواہش کا منہ چڑاتی ہے جو سنجیدہ ادب کے صاحب نظر نقاد کے دل میں لازماً پیدا ہوتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ غزل کی ریزہ خیالی ایک متھ ہے، جسے اوسط اور دوسرے درجے کے غزل گوؤں نے تشکیل دیا ہے تاکہ ان کی باطنی بے نظمی پر پردہ پڑا رہے۔ صف اول کے غزل گوؤں کے یہاں ریزہ خیالی کی متھ ٹوٹ گئی ہے اور ان کی غزل ایک باقاعدہ ساخت، خیالات کے پیٹرن یا تجربات کے ایک نظام کی علمبردار ہے۔ تاہم واضح رہے کہ یہ ساخت یا پیٹرن نظم کی ساخت یا پیٹرن کی مانند نہیں ہے، جس کے اجزاء میں ارتقائی تنظیم ہوتی ہے۔ غزل کی ساخت میں نظم کی ساخت ایسا کساؤ اور گٹھا ہوا نظم نہیں ہوتا۔
مجید امجد کی غزل کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہ ریزہ خیالی کی تہمت سے محفوظ ہے۔ واضح رہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی غزل کے تمام اشعار میں موضوعاتی ربط ہے۔ اگر ایسا ہو تو یہ مسلسل غزل ہو گی، جو اصلا نظم کے قریب ہوتی ہے۔ مجید امجد کے یہاں بعض غزلیں ایسی مل بھی جاتی ہیں۔ (71) اصل یہ ہے کہ مجید امجد کی غزل میں تجربات کا تضاد اور خیالات کی تردیدی صورتیں نہیں ہیں، تجربات کا تنوع اور خیالات کی کثرت (ایک حد تک) ضرور ہے (بعض لوگ ناروا طور پر تجربات کے تضاد کو تجربات کے تنوع کا نام دے دیتے ہیں ) مگر ان میں داخلی ربط ہے۔ داخلی ربط اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب خیالات، تجربات ایک دوسرے کی تکذیب کے بجائے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے اور ایک دوسرے کی نمو میں مدد دیتے ہوں۔ ایک خیال اپنے مقام کے لیے دوسرے کا محتاج اور دوسرا اپنے جواز کے لیے پہلے کا دست نگر ہو! مجید امجد کی غزل خیالات کے جس پیٹرن کو جنم دیتی ہے، اس کا مرکزہ ’’انسانی انا‘‘ ہے۔ اثبات اور فعالیت اس پیٹرن کے اجزاء ہیں۔ اب اس اجمال کی تفصیل ملاحظہ کیجئے :
مجید امجد کی غزل میں ’’انسانی انا‘‘ کا باقاعدہ فلسفیانہ تصور موجود نہیں ہے۔ ان کی شاعری سے اس بات کی تائید نہیں ہوتی کہ وہ فلسفے کے باقاعدہ قاری تھے، تاہم سائنس (بالخصوص فلکیات) کے بعض تصورات سے آگاہی کی شہادت ان کی شاعری سے ضرور ملتی ہے۔ انسانی انا کا جو تصور مجید امجد کی غزل میں ظاہر ہوا ہے، وہ بڑی حد تک جدید مغربی ادب کے تصور انا سے مماثلت رکھتا ہے۔ جدید مغربی ادب انسانی انا کی خود مختاری کے تصور کو اپنے پس منظر میں لیے ہوئے ہے۔ (انسان مرکز فلسفے یعنی ہیومن ازم اور ماڈرنیٹی نے اس نظریے کو فروغ دیا تھا) دوسرے لفظوں میں مجید امجد کی غزل میں خیالات کا جو پیٹرن موجود ہے، وہ اردو غزل کی روایت سے ماخوذ نہیں ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی غزل کا کوئی رشتہ اردو غزل کی روایت سے نہیں ہے۔ سچ یہ کہ ان کے یہاں بعض مضامین اردو غزل کی روایت کے تتبع میں ضرور مل جاتے ہیں، مگر ان مضامین کی وجہ سے ان کی غزل نہ تو ممتاز ٹھہرتی ہے نہ منفرد مثلاً یہ اشعار دیکھیے :
پیار کی پہلی نظر سے تو نے جب دیکھا مجھے
تلخیاں سب زندگی کی لطف ساماں ہو گئیں
چراغ بجھ چکے، پتنگے جل چکے، سحر ہوئی
مگر ابھی مری جدائیوں کی رات، رات ہے
اک طرفہ کیفیت، نہ توجہ، نہ بے رخی
میرے جنون دید کو یوں آزمانا تھا
قاصد مست گام، موج صبا
کوئی رمز خرام، موج صبا
دونوں کا ربط ہے تری موج خرام سے
لغزش خیال کی ہو کہ ٹھوکر نگاہ کی
یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ اشعار اپنے مضامین اور اسلوب ہر دو حوالوں سے اردو غزل کی عمومی روایت سے وابستہ ہیں۔ ان اشعار میں مجید امجد کی آواز منہا ہو گئی اور اردو غزل کا روایتی آہنگ بلند ہو گیا ہے۔ راقم کے نزدیک اس وضع کے اشعار مجید امجد نے رسماً لکھے ہیں یا پھر اردو غزل کی شعریات کے اس دباؤ کے تحت لکھ گئے ہیں، جو غزل کی فارم اختیار کرنے کے ساتھ ہی ہر غزل گو پر پڑتا ہے۔ تاہم مقام مسرت ہے کہ ایسے اشعار کی تعداد مجید امجد کے یہاں کم ہے، جس کا مطلب ہے کہ مجید امجد مذکورہ دباؤ سے آزاد ہو گئے ہیں۔ یہ دباؤ جتنا فطری ہے اس سے آزادی اتنی ہی ضروری ہے۔ جن اشعار کی بناء پر مجید امجد کی غزل قابل اعتنا ہے انہیں غیر روایتی اور جدید کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ان اشعار کی صورت اور ساخت مختلف اور نئی ہے۔ یہ اشعار رسماً نہیں، باطنی ضرورت کے تحت لکھے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، اس لیے خیالات کے قابل شناخت پیٹرن کو تشکیل دیتے ہیں۔
مجید امجد غزل میں انسانی انا کے اظہار و انکشاف، اثبات اور فعالیت کی باہم دگر مربوط صورتیں ملتی ہیں۔ ایک سطح پر وہ فقط انا کا اظہار و انکشاف کرتے ہیں۔ کہنے کو یہ اظہار ہے مگر حقیقتاً یہ انا سے متعارف ہونے کا ایک مرحلہ ہے۔ انا کے بعض پہلوؤں سے ان کا تعارف ہوتا ہے اور کچھ ان کہے رہ جاتے ہیں اور یہی ان کہی انہیں انا کے اثبات اور بعد ازاں اس کی فعالیت کے تصور کی طرف لے جاتی ہے۔ اگر انا ان کے یہاں ایک فلسفیانہ تصور کے طور پر موجود ہوتی تو ’’کہی‘‘ میں ’’ان کہی‘‘ یا ایک مرحلے کے بعد دیگر مراحل موجود نہ ہوتے۔ یہ مراحل ہمیشہ شعری اظہار میں ہوتے ہیں۔ فلسفیانہ تصور مکمل ہوتا اور اس کے تمام اجزاء ایک ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو اسے فلسفیانہ تصور قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم مجید امجد کے یہاں انا کو ظاہر و منکشف کرنے کے پس پردہ یہ تصور ضرور کار فرما ہے کہ انا خود مختار ہے۔ اس تصور کے بغیر نہ تو انا کے اظہار کی ضرورت ہوتی ہے نہ اس کا اظہار ممکن ہوتا ہے۔ تاہم واضح رہے کہ ان کے یہاں انا خود مختار ضرور ہے، خود سر نہیں ہے۔ انا کے نام پر اپنی شخصیت کے منفی اور غیر تہذیب یافتہ گوشوں کا متکبرانہ اظہار نہیں کیا گیا۔ نیز مجید امجد کے لیے انا، شخصیت کے مترادف بھی نہیں ہے، اس لیے انا کا اظہار شخصیت کا اظہار بھی نہیں بنا۔ شخصیت، انسان کے روزمرہ اعمال میں ایک انفرادی اسلوب کے طور پر ظاہر ہوتی ہے اور اپنے روز مرہ کے ہر عمل کو کائنات کا منفرد واقعہ قرار دینے کے دھوکے کا شکار ہوتی ہے۔ مجید امجد نے اپنے اشعار میں روز مرہ کی شخصی و نجی ڈائری پیش نہیں کی۔ ان کے لیے انا، ایک خالص انسانی یافت ہے جو زندگی، سماج اور کائنات پر آزادانہ سوالات قائم کرتی، اس راستے میں ملنے والے تمام دکھوں اور الجھنوں کا با وقار انداز میں سامنا کرتی اور شکست قبول کرنے کو اپنی توہین قرار دیتی ہے۔ مجید امجد کے یہاں انا اولین سطح پر اپنے اظہار کے لیے تنہائی کو بطور تناظر قائم کرتی ہے۔
مثلاً یہ اشعار دیکھیے :
جس کو دیکھو اپنے سفر کی دنیا بھی، اپنے سفر میں تنہا بھی
قدم قدم پر اپنے آپ کے ساتھ ہے اور اپنے آپ سے اوجھل ہے
تیری آہٹ قدم قدم اور میں
اس معیت میں بھی رہا تنہا
ڈھلتے سایوں میں تیرے کوچے سے
کوئی گزرا ہے بارہا تنہا
خود اپنے غیب میں بن باس بھی ملا مجھ کو
میں اس جہان کے ہر سانحے میں حاضر بھی
مجید امجد کے بعض نقادوں نے تنہائی کا سبب ان کی ذاتی زندگی میں تلاش کیا ہے۔ اسے نقادوں کی سہل پسندی کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے ! انہوں نے تنہائی کا افسوس ناک حد تک محدود تصور قائم کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ مجید امجد نے چونکہ خانگی زندگی بسر نہیں کی، اس لیے تنہا تھے نیز چونکہ بڑے شہروں سے دور رہے اور کم آمیز تھے، اس لیے بھی تنہا تھے۔ اس ضمن میں ایک بات تو یہ ہے کہ مجید امجد کا چنیدہ حلقہ احباب تھا جس سے ان کی میل ملاقاتیں اور رابطے مسلسل تھے۔ وہ مردم بے زار ہرگز نہیں تھے۔ دوسری بات یہ کہ خانگی زندگی بسر کرنے کے باوجود بھی آدمی تنہا ہو سکتا ہے۔ خود مجید امجد کا شعر ہے :
روح کے دربستہ سناٹوں کو لے کر اپنے ساتھ
ہمہماتی محفلوں کی ہاؤ ہو میں گھومیے
اصل یہ ہے کہ مجید امجد کی غزل میں (اور نظم میں بھی) تنہائی کا ایک مگر اہم سبب یہ ہے کہ اس کے بغیر انا کی خود مختاری کا تصور قائم ہی نہیں کیا جا سکتا۔ انا اگر خود مختار ہے تو لازماً تنہا بھی ہے۔ دوسرا ہماری خود مختاری کو چیلنج کرتا ہے۔ مجید امجد کے یہاں دوسرے کی موجودگی کا احساس موجود ہے۔ اپنی انا کی خود مختاری کا پرچم بلند کرتے ہوئے، دوسرے کی موجودگی کا احساس رکھنا سخت کٹھن مرحلہ ہے۔ اس ضمن میں دو رویے ممکن ہیں یا تو دوسرے کو اپنا جہنم سمجھا جاتا ہے (جیسا کہ وجودیوں نے سمجھا) یا پھر اس کی خود مختاری کو بھی قبول کر لیا جاتا ہے، مگر آخری صورت میں اسی وقت ممکن ہوتی ہے، جب دوسرے کی خود مختاری کی حدود طے کر دی جائیں۔ مجید امجد کے یہاں دوسرے کی حدود طے کرتے ہوئے اس کی قبولیت کا رویہ موجود ہے۔ یہ اشعار اس صداقت کے گواہ ہیں :
تیرے فرق ناز پہ تاج ہے، مرے دوش غم پہ گلیم ہے
تری داستاں بھی عظیم ہے، مری داستاں بھی عظیم ہے
شاخ ابد سے جھڑتے زمانوں کا روپ ہیں
یہ لوگ جن کے رخ پہ گمان چمن پڑے
میلی چادر تان کر اس چوکھٹ کے دوار
صدیوں کے کہرام میں سو گئے کیا کیا لوگ
گٹھڑی کالی رین کی سونٹی سے لٹکائے
اپنی دھن میں دھیان نگر کو گئے کیا کیا لوگ
مجید امجد کے یہاں تنہائی کے تناظر میں انا کی خود مختاری کا تجربہ شدید کرب سے عبارت ہے۔ یہ کرب اتنا واضح اور اتنا شدید ہے کہ مجید امجد کے ہر قاری کو فی الفور محسوس ہوتا ہے اور پھر ہر قاری نقاد اس کی من مانی توجیہہ بھی کرتا ہے۔ مثلاً انور سدید کا خیال ہے کہ ’’مجید امجد کا غم کسی عالمگیر اندوہ کا حصہ نظر آتا۔‘‘ (72) گویا ان کا غم نجی غم تسلیم کر لیں تو اسے معمولی ہونا چاہیے۔ انسان کی نجی زندگی کائنات گیر تناظر میں از حد معمولی واقعہ ہے، اس لیے اس سے وابستہ خوشی و غم بھی معمولی ہو گا۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی تخلیق کار کے یہاں ظاہر ہونے والے غم کا محرک نجی ہو، مگر جب تک غم نجی زندگی کے محدود دائرے کو توڑنے اور آفاق گیر تناظر سے وابستہ ہونے میں کامیاب نہ ہو، یہ غم نہ تو بامعنی ہو سکتا ہے نہ غیر معمولی! مجید امجد کی شاعری میں رواں غم غیر معمولی ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے مجید امجد کی تنہائی اور غم کو وجودیت سے جوڑا ہے جبکہ ان کی غزل میں وجودی تجربے یا وجودی فلسفے کے بین نقوش نہیں ملتے۔ مجید امجد کی غزل میں تنہائی اور وجودی تجربے یا فلسفے میں تنہائی کی موجودگی، یہ رائے دینے کی بنیاد نہیں بن سکتی کہ مجید امجد وجودی شاعری ہیں۔ تنہائی ایک عالمگیر موضوع ہے، وجودیت میں یہ موضوع ایک خاص فلسفیانہ پس منظر میں آتا ہے۔ ان کی غزل میں یہ پس منظر نہیں ملتا۔ بایں ہمہ مجید امجد کی نظم وجودی نقطہ نظر سے معرض بحث میں لائی جا سکتی ہے، اس غرض سے کہ وجودی تنہائی میں فرق کی حدیں کہاں ہیں۔ بہرکیف مجید امجد کے غم کی نوعیت سمجھنے کے لیے یہ اشعار دیکھیے :
غموں کی راکھ سے امجد وہ غم طلوع ہوئے
جنہیں نصیب اک آہ سحر گہی بھی نہ تھی
رستوں پر اندھیرے پھیل گئے، اک منزل غم تک شام ہوئی
اے ہم سفرو! کیا فیصلہ ہے، اب چلنا ہے یا ٹھہرنا ہے
جہان گریہ شبنم سے کس غرور کے ساتھ
گزر رہے ہیں، تبسم کناں گلاب کے پھول
سلگتے جاتے ہیں، چپ چاپ، ہنستے جاتے ہیں
مثال چہرۂ پیغمبراں، گلاب کے پھول
میں اک پل کے رنج فراواں میں کھو گیا
مرجھا گئے زمانے میرے انتظار میں
گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر
سینے پہ ایک درد کی سل رکھ کے بات کر
یہ سوز دروں، یہ اشک رواں، یہ کاش ہستی کیا کہیے
مرتے ہیں کہ کچھ دن جی لیں ہم، جیتے ہیں کہ آخر مرنا ہے
مجید امجد کے غم کو جو چیز غیر معمولی بناتی ہے، وہ ہے غم کو پوری استقامت اور قابل رشک انسانی وقار کے ساتھ قبول کرنا۔ یہ غم نہ نجی ہے نہ سماجی بلکہ ایک سطح پر تقدیر انسانی کا دیا ہوا غم ہے اور دوسری سطح پر یہ اپنی انا کی خود مختاری کو درپیش حتمی خطرے کے حقیقی احساس کا پیدا کردہ ہے۔ یہ حقیقی خطرہ فنا ہے۔ مجید امجد کے یہاں یہ احساس یقینی اور قوی ہے کہ انسانی انا کی خود مختاری بس اس چلتی سانس تک ہے، یہی دو چار صبحیں اور دو چار شامیں ہیں۔ اس حقیقت کو انہوں نے اس شعر میں جس عمدگی سے سمیٹا ہے، تعریف سے بالاتر ہے :
انہی حدوں تک ابھرتی، یہ لہر جس میں ہوں میں
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا
اس حقیقت کا ترجمان یہ شعر بھی دیکھتے چلیے :
اک سانس کی مدھم لو تو یہی، اک پل تو یہی، ایک چھن تو یہی
تج دو کہ برت لو دل تو یہی، چن لو کہ گنوا دو دن تو یہی
یہ غم یعنی، حقیقی اور حتمی ہے۔ جب خود مختار انا اس کا سامنا کرتی ہے تو یہ غم شدید ہو جاتا ہے اور اس میں گہرائی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر انا خود کو ایک دوسری وسیع انا کا حصہ تصور کرے، یعنی اپنی خود مختاری میں یقین کی حامل نہ ہو تو اس غم کو آسانی سے سہارا جا سکتا ہے۔ پھر فنا، انا کے لیے خطرہ نہیں، نوید ہوتی ہے، ایک نئے جنم کی ! اس کی اہم مثال صوفیانہ مسلک ہے، جو جز (انائے محدود) کو کل (انائے محدود) پر منحصر اور اس کا حصہ قرار دیتا ہے۔
اسے مجید امجد کے تخلیقی ظرف کا کمال کہنا چاہیے کہ وہ اتنے بڑے غم کا سامنا کر کے بھی انفعالیت، انجماد اور بے بسی کا شکار نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ایک خاص طرز کی فعالیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے یہاں انا لازمی فنا کی حد تک، اپنی حد کا عرفان حاصل کر کے شدید غم سے تو دوچار ہوتی ہے، مگر نہ تو میسر لمحہ موجود سے لاتعلق ہوتی ہے اور نہ خود تر حمی کی ذلت آمیز حالت میں مبتلا ہوتی ہے۔
یہاں ایک نکتے کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے۔ مجید امجد کی غزل کے مذکورہ مسائل اور موضوعات کے پیش نظریہ اعتراض کی جا سکتا ہے کہ ان کی غزل سماجی اور عصری شعور سے عاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی غزل میں وہ سماجی و عصری شعور تو بالکل نہیں ہے، جو ہر فرد کو محض اس بناء پر حاصل ہوتا ہے کہ وہ سماج کا حصہ ہے۔ اس نوع کے شعور کے لیے کسی کاوش کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ خود کار طریقے سے آدمی کی شخصیت کا جز بن جاتا ہے۔ اکثر لکھنے والے تو بس اسی سطح کے شعور کو منظوم کرتے رہتے یا کہانی کے پیرائے میں اگلتے رہتے ہیں۔ اگرچہ زندگی، کائنات اور تقدیر کے مسائل پر توجہ کرنے سے متعدد سماجی مسائل غیر اہم محسوس ہونے لگتے ہیں اور آدمی یا تو ان مسائل سے اوپر اٹھ کر سوچنے لگتا ہے پھر ان سے لاتعلق ہو جاتا ہے۔ مجید امجد کے یہاں ایک اور صورت ملتی ہے۔ انہوں نے سماج سے لاتعلقی نہیں، ایک فاصلہ اختیار کیا ہے اور اس فاصلے سے انہیں اپنے عصر کے واقعات و مسائل اور طرح سے دکھائی دیے ہیں۔ یہ فاصلہ دراصل ایک وژن ہے جو زندگی، انجام زندگی اور عرصہ زندگی سے متعلق ایک خاص قسم کی آگاہی سے عبارت ہے۔ مجید امجد نے اپنے عصر کے واقعات اور سانحات کو اپنی غزل کا موضوع بنایا ہے۔ تاہم مذکورہ وژن کے تحت انہوں نے کسی واقعے کی اہمیت کا ایک الگ تصور قائم کیا ہے، اور پھر یہ وژن اس واقعے پر شعری رد عمل میں گہرے طور پر سرایت کر گیا ہے۔ اس کی مثال1971ء کی جنگ کے واقعے پر ان کے لکھے ہوئے اشعار ہیں :
جنگ بھی، تیرا دھیان بھی، ہم بھی
سائرن بھی، اذان بھی، ہم بھی
سب تری ہی اماں میں شب بیدار
مورچے بھی، مکان بھی، ہم بھی
تیری منشاؤں کے محاذ پہ ہیں
چھاؤنی کے جوان بھی، ہم بھی
فنا کی حد تک اپنی حد کا عرفان، مجید امجد کے یہاں شدید غم کو تو جنم دیتا ہے مگر یہ غم ان کی کمزوری نہیں بنتا، ان کے قلب کو مضمحل اور طرز فکر کو یاسیت سے دو چار نہیں کرتا۔ مجید امجد کے یہاں یاسیت کی عموماً نشان دہی کی گئی ہے، وہ اصلاً تمکنت آمیز افسردگی ہے، جو زندگی اور انا کی حقیقی صورت حال کے کشف کا لازمی نتیجہ ہے۔ یاسیت اور افسردگی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا بے عملی اور عمل میں ہے۔ مجید امجد کی غزل انفعالیت، انجماد اور بے بسی و بے عملی کے بجائے ایک برتر سطح کی سنجیدگی اور فعالیت کے مضامین پیش کرتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مجید امجد نے غالب کی طرح زندگی کی حقیقی صورت حال کا مضحکہ نہیں اڑایا اور اپنی انا کے اثبات کے لیے دوسرا رویہ اختیار کیا ہے۔ زندگی کی حقیقی صورت حال، غالب کی انا کے درپے ہوتی ہے تو وہ خوف زدہ ہونے یا جھکنے کے بجائے، اس کا مضحکہ اڑاتے ہیں جو اپنی انا کے اثبات کی ہی نفسیاتی حکمت عملی ہے۔ یہ حکمت عملی داخلی طور پر منظم و مستحکم شخص ہی اختیار کر سکتا ہے۔ امجد نے ایک دوسری قسم کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔
مجید امجد کی غزل میں ان کی فعالیت کی ایک صورت وہ ہے جس میں انا اپنے مرکزے کو قائم رکھتے ہوئے اپنی حدود وسیع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ ایک یکسر غیر صوفیانہ طریق ہے۔ صوفیانہ طریق میں انا اپنے مرکزے کو تحلیل کرتی ہے اور انائے مطلق میں گم ہو جاتی ہے، جب کہ مجید امجد کے یہاں انا اپنی مرکزیت کی استواری و توسیع کے لیے کوشاں ہوتی ہے۔ اور یہ کوشش دراصل ’’دور زماں کی ہر کروٹ‘‘ کو گرفت میں لینے سے عبارت ہے۔ ا نا وقت کی گردشوں اور کروٹوں کو اپنے عرفان کے محیط میں لا کر، لمحہ موجود کی محدودیت (جس میں خود انا اسیر ہے) سے آزادی پاتی ہے۔
مری نگاہ میں دور زماں کی ہر کروٹ
لہو کی لہر، دلوں کا دھواں، گلاب کے پھول
ایک نئی صبح، ایک نئے دن کی تلاش بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔ تاریخ اور حافظے میں محفوظ وقت کی تمام کروٹوں کو محیط میں لانے پر انا کی سیری نہیں ہوتی۔ وہ ایک ایسے دن اور ایسی صبح کا تخیل بھی باندھتی ہے، جو آج تک طلوع نہیں ہوا۔ دوسرے لفظوں میں انا زماں کی اس تخلیقی قوت سے ہم رشتہ ہونے کی کوشش کرتی ہے، جو تمام تغیرات شب و روز کی ذمے دار ہے۔
عمروں کے اس معمورے میں ہے کوئی ایسا دن بھی، جو
روح میں ابھرے، پھاند کے سورج کے سیال سمندر کو
جو دن کبھی نہیں بیتا، وہ دن کب آئے گا
انہی دنوں میں اس اک دن کو کون دیکھے گا
اس ایک دن کو۔ ۔ ۔ ۔ جو سورج کی راکھ میں غلطاں
انہی دنوں کی تہوں میں ہے۔ ۔ ۔ کون دیکھے گا
مجید امجد کے یہاں انا کی فعالیت کی دوسری صورت کائنات میں انا کی مرکزیت کا اعلان ہے۔ یہ اعلان محض اپنی انا کی برتری و خود سری کا کھوکھلا نعرہ نہیں ہے، بلکہ عناصر اور متھ کے تناظر میں جاری کیا گیا فیصلہ ہے۔ کائنات اور فطرت کے عناصر کے مقابلے میں، ان کی قوت تخلیق کے مقابلے میں انا کی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت کا اعلان کیا گیا ہے یا پھر ا س متھ کے تناظر میں یہ اعلان سامنے آیا ہے، جو انا کی خود مختاری اور تخلیقی فعالیت کے تصور کو ہی محال بناتی ہے یہ متھ انسانی ارادے اور جوہر کو تشکیل دینے کا عقیدہ قائم کرتی اور پھر اسے انسانی انا سے تسلیم کرواتی ہے۔ انا اگر اسے تسلیم کر لے تو وہ ایک طرف اپنی آزادانہ حرکت سے محروم ہو جاتی ہے جو اس کی نامعلوم جہات میں تخلیقی فعالیت کے لیے لازم ہے اور دوسری طرف ان ذمے داریوں سے آزاد ہو جاتی ہے، جو اپنی آزادانہ حرکت سے اس پر عائد ہوتی ہیں۔ تسلیم سے انا میں ایک اطمینان ضرور پیدا ہوتا ہے، جو اصل میں مجہول ہوتا ہے۔ جب کہ دوسری صورت میں انا ایک دشت غم کے سپرد ہو جاتی ہے، مگر یہ دشت غم ایک نا مختتم تخلیقی اضطراب سے عبارت ہوتا ہے۔ مجید امجد کے یہاں اس متھ کو توڑا گیا ہے اور جس آہنگ اور اسلوب میں توڑا گیا ہے، وہ بے مثال ہے۔ صرف دو شعر ملاحظہ کیجئے :
مرے نشان قدم دشت غم پہ ثبت رہے
ابد کی لوح پہ تقدیر کا لکھا نہ رہا
طلوع صبح کہاں ہم طلوع ہوتے گئے
ہمارا قافلہ بے درا روانہ رہا
اگر حمید نسیم زندہ ہوتے تو ان کی خدمت میں یہ اشعار ضرور پیش کرتا جنہوں نے فتویٰ صادر فرمایا تھا کہ مجید امجد کے یہاں غزل میں کوئی تازہ آہنگ اور تازہ مضمون نہیں۔
مجید امجد کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ شاعری میں آرٹ اور کرافٹ کو یکساں اہمیت دیتے ہیں۔ اس بنا پر انہوں نے نظم میں ہیئت کے متعدد تجربات کیے، مگر کہیں بھی ان تجربات کو مقصود بالذات نہیں بنایا۔ یہ تجربات نظم کے موضوع، تھیم مواد کو نظر انداز کرنے کی قیمت پر نہیں کیے گئے۔ اس نوع کے تجربات مجید امجد نے غزل میں نہیں کیے۔ اس زاویے سے ان کی غزل ان کی نظم کے اثرات سے آزاد ہے۔ تاہم انہوں نے اپنی غزل کو یک رنگ نہیں بننے دیا۔ انہوں نے بعض غزلیں گیت کے انداز میں لکھی ہیں تو ایک آدھ غزل دوہے کی بحر میں بھی لکھی ہے (73)(مگر واضح رہے کہ اسے غزل کا ہیئتی تجربہ قرار نہیں دیا جا سکتا) اسی طرح ان کی بعض غزلوں کے اسلوب پر فارسی تراکیب حاوی نظر آتی ہیں تو کچھ غزلوں میں ہندی الفاظ بھی موجود ہیں اور آخری دور کی غزلوں میں تو نہ فارسیت ہے نہ ہندیت، خالص اردو کا رنگ غالب ہے۔ (74) نیز یہ غزلیں نثر اور بول چال کی زبان کے بہت قریب ہو گئی ہیں۔ مجید امجد کی غزل کا اسلوبی تنوع اگر ایک طرف ان کی قدرت بیان کا مظہر ہے تو دوسری طرف ایک اپنے اور منفرد اسلوب کی تلاش و تشکیل کی کوشش سے بھی عبارت ہے۔ اس کوشش میں ان کی کامیابی ہر شک سے بالاتر ہے۔ آ کر میں چند اشعار جن پر مجید امجد غزل گو کے دستخط ثبت ہیں۔ یہ اشعار مجید امجد کے نمائندہ اشعار تو ہیں ہی اردو غزل کے ناقابل فراموش اشعار بھی قرار دیے جا سکتے ہیں۔
ڈھلتے سایوں میں تیرے کوچے سے
کوئی گزرا ہے بارہا تنہا
دل سے ہر گزری بات گزری ہے
کس قیامت کی رات گزری ہے
ہائے وہ لوگ خوب صورت لوگ
جن کی دھن میں حیات گزری ہے
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے
امجد طریق مے میں ہے یہ احتیاط شرط
اک داغ بھی کہیں نہ سر پیرہن پڑے
ہے جو یہ سر پہ گیان کی گٹھڑی
کھول کر بھی اسے کبھی دیکھا؟
امجد ان آنسؤں کو آگ لگے
کتنا نرم اور گراں ہے یہ دریا
وہ ایک ٹیس جسے تیرا نام یاد رہا
کبھی کبھی تو میرے دل کا ساتھ چھوڑ گئی
کسی کی روح تک اک فاصلہ خیال کا تھا
کبھی کبھی تو یہ دوری رہی سہی نہ تھی۔