تنقید

لمس لازم ہے محبّت میں

اس امیج کا "ALT" ٹیگ نہیں ہے. اور اس کی فائل کا نام image-968x1024.png ہے

مجموعہ غزل :نیلی آنچ (نیلم ملک)
مضمون : جناب حسن عسکری کاظمی

شاعری انسان کے اندر کا موسم تبدیل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ انسانی جذبوں کی ترجمانی کا فریضہ انجام دینے پر قادر ہو دوسرے یہ کہ خود قاری میں ذوقِ مطالعہ اس کی رہنمائی پر آمادہ ہو۔
شاعری ہر دور کے رجحانات کا آئینہ ہوتی ہے۔ اردو زبان کی نگہداشت اور پرداخت میں دہلی، لکھنؤ اور لاہور کا کردار نمایاں رہا اور تقسیمِ ہند کے بعد شاعری میں پہلے دو مرکز کمزور پڑ گئے جبکہ لکھنؤ اور دہلی کے بعد لاہور کا دبستانِ شاعری اپنی درخشاں روایات کو آگے بڑھانے میں سرگرم عمل ہے۔ بھارت میں اردو کے رسم الخط کو بھی تبدیل کر دیا گیا، وہاں ادیبوں اور شاعروں کے قارئین بھی اردو رسم الخط سے بیگانہ ہو چکے ہیں اور وہاں شاعری محض تفریح کے حصول کا ذریعہ بنتی جا رہی ہے۔ وہاں مشاعروں میں گنے چنے شاعروں پر داد کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں جو اداکاری اور مزاحیہ اندازِ اظہار اپنا چکے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان میں شاعری خصوصاً غزل کا معیار بلند ہے اور مشاعروں میں سامعین باذوق اور سخن فہم ہونے کے ناطے معیاری اشعار پسند کرتے ہیں۔ غزل کی مقبولیت میں اضافہ برابر دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ کلاسیکی غزل کی تخلیق کے پہلو بہ پہلو جدید غزل کی تخلیق یا دونوں کا رنگ و آہنگ معیار کے اعتبار سے ہمارے ذوقِ سماعت کی تسکین کا سبب بنتا ہے مگر بعض شعراء جدت کے جنون میں سامعین کو چونکانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ روش خود ان کے حق میں نامناسب ہے۔ مجموعی طور پر ہم بلاخوفِ تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج غزل عصرِ حاضر کے فنی اور معنوی تقاضوں کا لحاظ رکھنے میں اپنا جواب آپ ہے۔
غزل کہنے کی خاطر قوافی اور ردیف کا حسن اپنی جگہ اسی طرح جدید اور قدیم بحر کا انتخاب بھی اپنی جگہ شاعر کے تجربے اور ذہنی اپچ کا مظہر ہوا کرتا ہے مگر شعر میں معنوی خصائص کا ادراک کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ موضوعات کی فراوانی ، انہیں برتنے کا سلیقہ اور غزل کی دلکشی اس کی معنویت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ اس کی مثال ایک پیکرِ جمال سے دی جا سکتی ہے کہ سراپا ، خطوطِ بدن اور موزونیت میں کوئی جھول نہیں مگر ذہنی پستی، کم علمی اور محدود معلومات کے سبب اس کا ظاہری حسن بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔
غزل میں حسنِ تراکیب، الفاظ کی در و بست ، اور موزوں اوقاف کے سبب لہجے کی انفرادیت کے باوجود معنوی اعتبار سے برتا ہوا موضوع یا نفسِ مضمون عمومی ہو گا تو باذوق آدمی لطف نہیں اٹھاتا۔ ایسی غزل زندہ نہیں رہتی۔
آج بھی غزل کے وہ اشعار جو زبان زدِ خلائق ہیں اس معیار کی شہادت دیں گے کہ اشعار کے ظاہری و باطنی معنی، الفاظ کا چناؤ ور موضوع کی آفاقی سچائی نے ان اشعار کو ابد آشنا بنا دیا ہے۔ ہم شاعر سے زیادہ شعر کے بارے میں باخبر ہو جاتے ہیں۔ ہر بڑے غزل گو کے دو، چار، دس اشعار اپنے اور آئندہ زمانوں میں یاد رہ جاتے ہیں۔ بعض اوقات صرف مصرع یاد رہتا ہے جبکہ دوسرا مصرع یاد دلانے پر دہرایا جاتا ہے۔ ایسے آوارہ مصرعے بہت بڑی حقیقت کی نمائندگی کرتے ہیں اور سدا بہار پھول کی طرح نظر آتے ہیں۔
ہمارے عہد میں شاعروں کے ساتھ شاعرات بھی یہ کام انجام دے رہی ہیں کہ اب پرانے زمانے کے برعکس وہ غزل میں اپنا مافی الضمیر ، مشاہدہ، تجربہ اور نظریہ بے خوفی کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ پاکستان میں خواتین کو آزادی حاصل ہوئی۔ عہد غلامی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بیشتر خواتین تو روائتی شاعری پر انحصار کرتی ہیں مگر تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانوں کی خواتین خصوصاً اردو لٹریچر پڑھنے والی خواتین نے غزل میں وہ حقائق بھی بیان کیے جنہیں نام نہاد رسوائی کے ڈر سے چھپایا جاتا تھا۔ فہمیدہ ریاض، کشور ناہید اور پروین شاکر نے محبت، ناکامی، نامرادی ، محبوبِ نظر کی بیوفائی اور زمانے کی ستم ظریفی کے واقعات کو غزل اور نظم دونوں ہیئیتوں میں پیش کیا۔ موجودہ نسل میں اظہار کی جرات پیدا کرنے میں ان تینوں شاعرات کا بڑا کردار ہے۔ آج لاہور اور مضافات میں ایسی شاعرات موجود ہیں جو اپنی وارداتِ محبت اور دیگر احساسات کو غزل میں بیان کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں ۔ ان میں فی الوقت نیلم ملک ہمارے پیشِ نظر ہے کہ اس نے کم عمری میں بڑے اور چونکانے والے تجربے کیے اور غزل کو ثروت مند بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے مشاہدے کی آنکھ کھلی رکھ کر اپنے مخصوص زاویہ ٔ نظر کو شعریت میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی۔ اپنے منفرد اسلوب کو بحال رکھا اور غزل کی نزاکت کا لحاظ رکھتے ہوئے جو بات کہی اسے قاری کے فہم و ادراک کے حوالے کر دیا

ہم نے مانگا ہے ہر گھڑی تجھ کو
اس یقیں سے کہ پا نہیں سکتے
۔۔
پر سلامت ہیں بظاہر پھر بھی اڑ سکتا نہیں
اک پرندہ کینوس پر کب سے ہے بیٹھا ہوا
۔۔
باہر سے جب کھولتے ہیں تو کھلتا ہے بس دروازہ
اندر سے کھل جائے اگر تو سارا گھر کھل جاتا ہے
۔۔

نیلم ملک کی غزل میں فطرت سے گہرے لگاؤ اور مظاہرِ فطرت سے استعارے اور تشبیہات کام میں لانے کا عمل قاری پر سحر طاری کر دیتا ہے۔ وہ ارادتاً ایسا نہیں کرتی بلکہ یہ تخلیقی کارگزاری کی صورت غزل میں جلوہ نما ہوتا ہے اور اس اندازِ اسلوب کی بدولت شعر میں معنوی وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے ہاں رات، صبح، سورج، زمین، عرش، زمان و مکاں حقیقی اور مجازی معنوں میں برتنے کا سلیقہ غزل میں نئے امکانات سے باخبر ہونے کا سبب بنتا ہے۔
نیلم ملک جذبوں کے اظہار میں جرآت مندانہ رویہ اپنانا پسند کرتی ہے۔

اگرچہ غزل میں موضوعات کا شمار ممکن نہیں، عہدِ موجود میں ذاتی مسائل کے بجائے قومی، ملکی اور بین الاقوامی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ غزل میں یہ سب مسائل اظہار پا چکے ہیں مگر غزل کی زبان کا لحاظ رکھنا اور ایجاز و اختصار یعنی دو مصرعوں میں موضوع کو سمونا آسان نہیں ہے مگر غزل کہنے کا ہنر اور موضوع پر دسترس رکھنے کا عمل نیلم ملک کی پہچان بن گیا ہے۔ وہ ایک ذاتی تجربے سے آفاقی تجربے تک کا شعری سفر طے کرتے ہوئے حسن و خوبی سے قاری تک رسائی حاصل کرنے میں بامراد نظر آتی ہے۔

مرے کمرے میں اک تصویر ہونی چاہیے تیری
اسے میں جب بھی دیکھوں تب لڑکپن سی محبت ہو
۔۔
آئی تھی ترے واسطے جنّت سے زمیں پر
اب یہ بھی ٹھکانہ مرے مطلب کا نہیں ہے
۔۔
لمس لازم ہے محبت میں، سبھی مانتے ہیں
اس حقیقت کی حمایت نہیں کرنے دیتے
۔۔
تیری کھیتی پہ میرا گزارا نہیں، بھوک مٹتی نہیں
جی میں آتا ہے اب بیچ کھاؤں تجھے مختصر زندگی
۔۔

ہم نے کِیا ہے شب کی سیاہی سے انحراف
کاغذ پہ اک شبیہہ ستارے کی چھاپ کے
۔۔
کب یہ چاہا راتوں میں صبحوں سا نور گُھلے
لیکن کب تک صبحوں پر پھیلے گی کالی رات
۔۔
چھانے لگا زمان و مکاں پر عجب سکوت
میں نے کِیا جو شور مچانے کا فیصلہ
۔۔
کب زمیں کی تہوں میں اتریں گے
کب ملیں گے، بتا نہیں سکتے
۔۔

نیلم ملک ایک باشعور، زیرک اور نسائی جذبوں سے سرشار شاعرہ ہونے کے ناطے اپنا تشخص برقرار رکھنا ضروری خیال کرتی ہے اور شدت سے ایک احساس اس کے اندر یہ اعتماد پیدا کر چکا ہے کہ وہ ایسے معاشرے میں سانس لے رہی ہے جہاں آہ و فغاں بھی رزقِ ہوا اورکربِ آگہی سماعت سے محروم رہتا ہے مگر وہ اپنا وجود اور اس کے تقاضوں کی تکمیل پر پختہ یقین رکھتی ہے۔ اسے جھکنے کی بجائے جھکانا آتا ہے۔ اس نے طبقۂ نسواں کی محرومیوں کا رونا نہیں رویا بلکہ شاعری کو وسیلۂ اظہار بنا کر اپنے "عزمِ جہاد” کا اعلان کیا ہے۔
۔۔
وہ ربّ ہے سو وہ بخش بھی دیتا ہے خطائیں
یہ میں ہوں، مرے سامنے رہیے گا ادب سے
۔۔
وہ غیر معمولی تجزیاتی فکر اور حقیقت پسندانہ طرزِ اظہار کو اپنی غزل میں جگہ دیتی ہے۔ اس کی غزل میں لہجہ کی تلخی سے بڑھ کر اپنے اندر کی "نیلی آنچ” سے ماحول کو پگھلانے کا عمل اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی غزل میں روائتی اور روایت سے بغاوت بنامِ جدت طور طریقے اپنانے سے گریز کرنا اور اپنا راستہ خود بنانے کی خواہش سے نئی ردائف اور نئے قوافی تخلیق کرنا نمایاں ہے۔
اس کی مثال ظفر اقبال کے شعری رویوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ تجربے مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوئے اسی طرح نیلم ملک کے ہاں بھی غزل کا یہ منظرنامہ قاری کے لیے اچھوتا اور بعض جگہ مغائرت کا سبب بنتا ہے۔

نیندوں پہ میری آج بھی شب خون مارنے
یاد آئی خواب زار کی دیوار ٹاپ کے
کمرے کی یہ فضا کا پتہ دیں گے آپ کو
دھبّے سے آئینے پہ پڑے ہیں جو بھاپ کے
۔۔
نوچ کر آسماں سے تاروں کو
پھر انہیں تار تار کرنا ہے
جائیے آپ آسماں سے پرے
ہم نے اک دل کو پار کرنا ہے
۔۔
ایسے اشعار میں نیلم ملک اپنے اندر کا موسم بیان کرنا چاہتی ہے۔ اس موسم کے بارے میں قاری کے پاس کوئی تجربہ نہ ہو تو اسے پریشانی لاحق ہو جاتی ہے جیسے ناصر کاظمی کا شعر ہے کہ ۔۔
۔۔
"چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں
جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا”
۔۔
اسے وہی سمجھ سکتا ہے جسے وحشت سے سابقہ پڑا ہو۔ بظاہر تو یہ شعر سادہ سا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ناصر کاظمی نے یہ شعر روا روی میں کہا ہو گا مگر ایسا نہیں بلکہ اس تجربے سے گزرنے والا بتائے گا کہ وحشت میں عقل و خرد سے بیگانہ فرد یہی کچھ کرتا ہے۔
نیلم ملک نے زندگی میں جتنے تجربے کیے وہ سب کے سب انوکھے اور ماورائے عقل و خرد ہیں، ایسا نہیں بلکہ اس نے غزل میں غزل کی روایت سے اپنی وابستگی اور تازہ کاری میں جدید غزل کا حسن و جمال پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس کا یہ کہنا درست ہے کہ "ہمیں اپنی روایت کی ہی تشکیلِ نو کرنی ہے” بلکہ بات آگے بڑھاتے ہوئے یہ خیال گوش گزار کیا ہے کہ ” اگر ہم اپنی روایات کو مکمل طور پر فراموش کرتے ہوئے مغرب کے یا دیگر اقوام کے ادبی رجحانات کو اپناتے ہیں تو ہماری رہی سہی انفرادیت جس میں غزل سرِ فہرست ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی” ۔
روایت پسندی اور اس کا اظہار غزل کو ثروت مند بناتا ہے۔ غزل کی نزاکت اپنی جگہ لیکن مضمون میں ندرت اور تخیّل کی کارفرمائی سے غزل کا شعر ابد آشنا ہوتا ہے۔ جدید غزل میں نیلم ملک نے ریاضتِ فن کی بدولت نئے تجربات، نئے موضوعات، نئے خیالات اور نئے رجحانات کو اس طرح شامل کیا ہے کہ وہ اپنی روایت سے بھی جُڑی ہوئی نظر آتی ہے۔

نہ فقیہہ کوئی سمجھ سکا، نہ ہی تُو صنم
کہ خُدا سے میرے معاملات عجیب ہیں
۔۔
جسم زنداں ہی سہی سوچ مگر بارہ دری
جس طرف چاہوں کسی در سے نکل جاؤں میں
۔۔
یہ نیلی آنچ یا نیلم پری ہے
ہوا کی تال پر جو ناچتی ہے
مرا کمرہ مثالِ دشتِ وحشت
جہاں رم خوردہ ہِرنی کھو گئی ہے
وہاں تھا آج گُل کھلنے کا امکاں
جہاں کل رات ہی بجلی گری ہے
۔۔
نیلم ملک کا اپنی ذات پر اعتبار اور تخلیقی زاویۂ نظر کی صحت پر کامل بھروسہ اس کی شخصیت کا وہ جوہر ہے جو شاعرات میں کم دیکھا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ وہ اپنی غزل میں اشعار کے در و بست ، حسنِ تراکیب اور الفاظ کے چناؤ میں فطری اور بے روک ٹوک انتخاب پر یقین رکھتی ہے۔ شاید کسی کا صائب مشورہ بھی قبول کرنے میں پس و پیش سے کام لے لیکن ازخود کسی مصرع میں رد و بدل کر کے شعر مکمل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
ہر بڑا شاعر دیدہ ریزی، باریک بینی اور فنی و معنوی ریاضت کے نتیجے میں شعر کا حلیہ بدلتا ہے مگر نفسِ مضمون یا موضوع وہی رہتا ہے دوسرے پوری غزل میں موڈ کی ہم آہنگی اور مجموعی فضا ایک ہونا لازمی ہے۔ نیلم ملک نے ان سب امور کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ "نیلی آنچ” میں اس کے اشعار واقعی دھیمی آنچ پر پکے ہوئے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ "سہج پکے سو میٹھا” مراد یہ کہ تاثیر یا ذائقہ صبر و استقامت سے آتا ہے جبکہ ریاضت اور خود آگاہی شاعری میں تخلیقیت کے فروغ کا سبب بنتی ہے۔
شہزاد نیّر نے نیلم ملک کی غزل سے متعلق پتے کی بات کہی ہے کہ "اس کے مضامین اس کے احساس کی دین ہے۔ اس نے غزل کی خاطر خواہ ریاضت کی ہے۔فنی امور میں اچھی خاصی دستگاہ پیدا کی، اس نے اپنی تفہیم پر بھروسہ رکھا اور ہمہ وقت سیکھنے پر کمربستہ رہی” ۔
اس رائے کی اہمیت کے پیشِ نظر ثبوت کے طور پر آخر میں یہ اشعار قارئین کے زیرِ مطالعہ آنا چاہئیں۔ یہ سب اشعار سہل ممتنع کہلائیں گے۔

ہمیں علم ہے ماورائے تصوّر!
ترا جرم ہو گا، دھرے جائیں گے ہم
۔۔
اس لیے بے طلب کیا خود کو
ہم اسے آزما نہیں سکتے
۔۔
جو کسی کا ہُوا ہی نہیں
جانیے وہ جِیا ہی نہیں
۔۔
تجھ کو اپنا گواہ رکھا ہے
آج ہونا ہے فیصلہ تیرا

بے خیالی میں کہہ دیا ہو گا
ہم بُھلا دیں گے سب کہا تیرا
۔۔
تجھے محبّت نے ڈس لیا نا
یہ نیل سب کچھ بتا رہا ہے

۔۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں