از: ڈاکٹر عاصم بخاری
قمر رضا شہزاد کا تعلق شعراء کی اس قبیل سے ہے جو حروف کو جوڑ کر لفظ بنانے، لفظوں کی ترتیب سے مصرعے کو تشکیل دینے اور مصرعے کو کاریگری سے شعر کے قالب میں ڈھالنے کے فن پر نہ صرف مکمل دسترس رکھتے ہیں بلکہ اس ہنر میں اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے باعث اپنی ایک منفرد پہچان بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کلام میں تازگی وپرکاری ، شعوری امکانات، فکری دروبست، امتزاجی انداز فکر ، جمالیاتی حسیات ، فنی اٹھان ، بلند پروازی ء تخیل ، عمدہ اسلوب ، وسیع کینوس اور منفرد ڈکشن جیسی خصوصیات کے ذریعے اپنے اظہار کو وسعت اور بلندی عطا کر دی ہے۔ وہ بیک وقت درون اور برون محاذوں پر کامیابی سے نبرد آزما نظر آتے ہیں۔
ذات اور کائنات یقینا ایسے موضوعات ہیں جن پر تمام قدیم اور جدید شعراء نے مختلف حوالوں اور زاویوں سے قلم فرسائی کی ہے مگر قمر رضا شہزاد کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے کائنات سے ذات یا ذات سے کائنات کا سفر کرنے کی بجائے ذات اور کائنات کو ایک اکائی کے طور پر مجسم کر دیا ہے۔ یہ اکائی اپنے اندر کثیرالجہت اشاریے سمیٹے ہوئے عمدہ اسلوبیاتی لہجے کے ساتھ انسانی شعور کو کائناتی اقدار ، خیروشر کے مابین تعلق ، مذہبی رجحانات ، تخلیقی عظمت اور ساختیاتی تغیرات جیسے عوامل سے روشناس کرواتی ہے۔
انہوں نے داخلی و خارجی دونوں سطحوں پر روایت و جدیدیت کے بیرونی مباحث میں پڑنے کی بجائے اپنے اندر کی آواز پر بھروسہ کیا ہے جو نہ صرف اپنی وجودی لطافت کے اعتبار سے سماعتوں میں رس گھولنے کا مکمل سامان رکھتی ہے بلکہ ان عصبیاتی واسطوں سے گزر کر شعوری راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے کی صلاحیت سے بہرہ ور بھی ہے۔اس لیے بصد یقین کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شعری واردات داخلی ہوتے ہوئے اجتماعیت کے شعور سے لبریز ہے۔
وہ اپنے اندر کے صوفی کو ہمہ وقت تحیر کے عمل میں مصروف رکھتے ہیں۔ مگر یہ صوفی اپنے فکر و عمل میں خاصا جارح مزاج دکھائی دیتا ہے۔ شاید یہ ان کی خاندانی عظمت کا مظہر ہے یا پھر گہرے اور کندن یافتہ مجاہداتی ریاضتوں کا شاخسانہ ہے۔ اسباب جو بھی ہوں یہ صوفی علامہ اقبال کی تبلیغی مساعی حجرہ و معرکہ کا پرلطف عکس نظر آتا ہے۔ بیک وقت مختلف الوجود صفاتی پہلوؤں نے کسی بھی طور ان کی شاعرانہ کاوشوں کو پیچیدگی سے ہمکنار نہیں ہونے دیا بلکہ ان کے الفاظ کو آفاقیت کا چولا پہنا دیا ہے۔ خاک اور افلاک کے مابین جو فکری تعلق لغوی و معنوی انداز سے ان کے ہاں بیان ہوا ہے اس کی عہد جدید میں کوئی دوسری مثال ملنا تو درکنار سوچنا بھی محال محسوس ہوتی ہے۔
ان کے کلام کا مطالعہ یقینا وجدان کے لئے نہ صرف نئی منازل کا پتہ دیتا ہے بلکہ خلق و خالق کے درمیان ایقانی رشتے کی مضبوطی کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ انا، خواب، جنگ، مٹی، شہر ، مکان، فصیل، قرض ، کمان، شکست ،شجر وغیرہ ان کے کلام کے ایسے استعارے ہیں جن کو نئی اور اثر آفریں معنویت کے ساتھ انہوں نے اپنی وجدانی کیفیات کے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔ ان کے خوبصورت کلام کو دیکھتے ہوئے یہ امکان بصد یقین ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ ان کا شعری سفر یقینا اردو ادب کے ذیل میں ایک خوبصورت اضافہ ہوگا جس کے اثرات صدیوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ چند حوالہ جاتی اشعار کے ساتھ اجازت کا طالب ہوں۔
نمونہ ء کلام
ہمیں برہنہ کیا تو نے ہر زمانے میں
زمیں پہ تو بھی کبھی خود کو بے حجاب اتار
میں لخت لخت ہوا آسماں سے لڑتے ہوئے
مگر یہ خاک پر احسان بھی نہیں میرا
یہی محنتوں کا صلہ رہا تو پھر اے خدا
مجھے لطف رزق حلال میں نہیں آئے گا
اجرت عشق بہت کم تھی سو ہم نے شہزاد
دل کو اس تنگی ء افلاک سے باہر رکھا
ابھی تک کھل نہیں پایا کہ تیری داستاں میں
ہمارا کون سا کردار ہونا چاہیے تھا
محبت تیرا میرا مسئلہ ہے
زمانے کو شریک کار مت کر
کشادہ رستوں، کھلے جہانوں سے آرہا ہوں
میں خاک کی سمت آسمانوں سے آرہا ہوں
کہانی کار تجھے کیا خبر ! یہ شہر دکھی
ترے فسانہ ء غمناک سے زیادہ ہے
ابھی تو دنیا کی سرد مہری سے لڑ رہا ہوں
سلوک پرور دگار بھی دیکھنا ہے اک دن
میں اپنا ماتم بھی خود ہوں اور اپنا تعزیہ بھی
مرے علاوہ کوئی مرا غم گسار مت کر
مرے بدن کی شکستہ ہے چار دیواری
مگر انا کے سبھی دائرے سلامت ہیں
جمی ہوئی ہے مری طرف کسی کی چشم حیرت
خبر نہیں آسمان میں کون جاگتا ہے
ایک لا حاصل سفر کا سلسلہ اپنی جگہ
گھر کی جانب واپسی کا راستہ رکھا تو جائے
کھلے گا اک روز ساتواں در یقینا
اگرچہ اس انتظار میں ہم نہیں ہیں
ترے لہو میں سچائی بولتی ہے بہت
تجھے بھی میری طرح بے زبان ہونا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عاصم بخاری