تنقید

غالب کی جدیدیت اور انگریزی استعمار : ڈاکٹر ناصرعباس نیّر

ناصرعباس نیر
ڈاکٹر ناصرعباس نیّر
       بیسویں صدی میں عام طور پرغالب کو اردو کا پہلا جدید شاعر تسلیم کیاگیاہے۔مثلا ً یوسف حسین خاں کے بقول :’’غالب اردو زبان کے پہلے جدید شاعر ہیں۔۔۔۔ان کی غزل اور نثر دونوں نے جدید اردو ادب کی ابتدا کی ‘‘۱۔ ان سے پہلے حالی ، عبد الرحمٰن بجنوری ، میراجی، راشداور چند دوسرے لوگ بھی غالب کی جدیدیت کی نشان دہی ایک یا دوسرے طریقے سے کر چکے تھے۔ اسی طرح منٹو کو غالب سے غیر معمولی دل چسپی تھی ۔بعد میں غالب کی جدیدیت کو وزیر آغا، شمس الرحمٰن فاروقی اور شمیم حنفی نے واضح کیا۔
مرزا اسداللہ خاں غالب (۱۷۹۷ء ۔ ۱۸۶۹ء)کا بچپن آگرہ میں ،باقی عمر دہلی میں گزری۔ غالب چودہ پندرہ برس کی عمر میں جس وقت دہلی پہنچے ہیں ، اس وقت ایک فقرہ کثرت سے دہرایا جاتا تھا:’’ خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا، حکم کمپنی بہادرکا‘‘۔اس کا سیدھا سادہ مطلب تھا کہ خلق خدا ،بادشاہ اور ملک تینوںاسی کے رحم وکرم پر ہیںجس کا حکم چلتا ہے ۔پندرہ سالہ شادی شدہ مرزا نوشہ، اسداللہ جب(۱۸۱۲ء) دہلی آئے ہیں تو اس کے تخت پر اکبر شاہ ثانی متمکن تھے ،سکہ بھی انھی کے نام کا چلتا تھا ،مگرحکم کمپنی بہادر کے نمائندے چارلس مٹکاف کا چلتا تھا ۔غالب کے لیے اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں تھی۔ دہلی میں غالب کے لیے یہ بات دل چسپ موازنے کا باعث ضرور رہی ہوگی ،مگر حیرت انگیز نہیں کہ بادشاہِ دہلی بھی ان ہی کی مانند انگریزی حکومت کے وظیفہ خوار تھے ۔بعد میں غالب کی زندگی جس ڈھب سے گزری ، وہ بڑی حدتک ’بادشاہ دہلی،اور قلعہ معلی‘ کی زندگی سے مماثل تھی!
غالب کے چچا نصر اللہ بیگ (جنھوں نے ان کے والد کے انتقال کے بعد ان کی پرورش کی،اور جومغلوں نہیں مرہٹوں کی ملازمت میں تھے ) آگرہ کے قلعہ دار تھے ، انھوں نے ’’بغیر لڑائی کے آگرہ کا قلعہ جنرل لیک کے حوالے کردیا تھا ‘‘۲۔ نصراللہ بیگ نے لڑنے کے بجائے ہتھیار ڈالنے ،اورکمپنی بہادر سے ا نعام پانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ ان کا ’ذاتی یعنی شخصی ،انفرادی ‘ فیصلہ نہیں تھا، بلکہ اس زمانے کے اشراف کے عمومی انتخاب کی ہو بہو نقل تھا ،جنھیں اپنی بقا، انگریزوں یا مرہٹوں میں سے ایک کی سرپرستی میں نظر آتی تھی ۔نصرا للہ بیگ کو نواب احمد بخش ،والی لوہارو فیروزپور جھرکہ کی طرف سے پیغام بھیجا گیا تھا ، جس میں مزاحمت نہ کرنے کی تاکید کی گئی تھی۔نو اب احمد بخش، نصر اللہ بیگ کے بہنوئی تھے ،اور غالب کے سسر نواب الہیٰ بخش معروف کے بڑے بھائی تھے۔ اس ’خدمت‘ کے صلے میں نصراللہ بیگ کو چارسوسوار کی رسالدار ی، سترہ سو ماہانہ مشاہرہ اور جاگیریں ملی تھیں۔راجہ بختاور سنگھ ، والی الور نے غالب اور ان کے چھوٹے بھائی یوسف بیگ کے لیے روزینہ مقرر کیا تھا ،اور دو گائوں ان کے نام کیے تھے۳۔نصراللہ بیگ کے انتقال کے بعد جنرل لیک نے جاگیریں واپس لے لیں اور ان کے خاندان کی پنشن مقرر کردی تھی۔جس نواب احمد بخش کے پیغام پر نصراللہ بیگ نے آگرے کا قلعہ لیک کے حوالے کیا تھا، نصراللہ بیگ کے انتقال کے بعد انھی سے جنرل لیک نے کہا کہ جاگیروں کے بدلے ان کے خاندان کو دس ہزار وپے سالانہ پنشن ملا کرے گی۔نواب صاحب نے پنشن کی رقم نہ صرف نصف کردی ،بلکہ نصر اللہ بیگ کے پس ماندگان میں خواجہ حاجی نامی ان کے ملازم کو بھی شامل کردیا ،جس کے لیے دوہزار روپے کی رقم سالانہ مختص کی،جب کہ غالب اور نصراللہ بیگ کی بیوہ کے لیے ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار مقرر کی۔یہ وہ اینٹ تھی جو ٹیڑھی رکھی گئی ،اور غالب کی آئندہ زندگی کا سب سے بڑا روگ بنی۔غالب نے اپنے باپ دادا کی مانند سپاہیانہ زندگی کا انتخاب کرنے کے بجائے، انھی کی پنشن پر گزارا کرنے کا فیصلہ کیا،اور یہ پنشن ہی تھی ،جو انگریزوں سے ان کے تعلق کا واحد سبب اور وسیلہ تھی!
غالب کو وراثت میں ایک طرف انگریزوں کی جاری کی ہوئی خاندانی پنشن ملی ،اور دوسری طرف انگریزی حکومت کی طرف داری ۔غالب خود کہتے ہیں:’’ بچپن سے انگریزی حکومت کے نان ونمک سے پرورش پائی ہے ،اور جب سے منھ میں دانت نکلے ہیں ،ان فاتحین عالم کے دستر خوان کا ریزہ چین ہوں‘‘۴۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب نے انگریزی حکومت کے علاوہ ،انگریزی پنشن پر گزارہ کرنے والی مغل حکومت کا نان و نمک بھی کھایا،اور جہاں سے نان و نمک کی امید ہوسکتی تھی ،وہاں کوششیں کیں۔غالب جب دہلی آئے ہیں تو ان کی سب سے بڑی آرزو مغل دربارتک رسائی ،اور استاد شاہ بننے کی تھی ،جو کہیں تیس سال بعد ، ذوق کے انتقال (۱۸۵۴ء) کے بعد پوری ہوئی۔اپنے زمانے کی مقتدر قوتوں تک رسائی،تاکہ ان سے اپنے شاعرانہ مرتبے کی سند بہ صورت اعزاز وخطاب وخلعت حاصل کی جاسکے:یہ تھی غالب کی زندگی کی عملی جدوجہد ۔ انھوںنے ملکہ معظمہ ، شاہ دہلی اور بادشاہ اودھ کی خدمت میں قصائد ارسال کیے۔ سب کا مضمون ایک تھا: انعام واعزازو خطاب و خلعت کی آرزو۔
حقیقت یہ ہے کہ غالب کی یہ دونو ں آرزوئیں،نہ محض ایک شاعر کی عمومی آرزوئیں ہیں، نہ انیسویں صدی کے اشراف طبقے سے تعلق رکھنے والے اس شخص کی آرزوئیں ہیں جسے اپنا وقار اور اپنی معاشی بقا دونوں خطرے کی زد پر محسوس ہورہی تھیں،بلکہ یہ آرزوئیں ،ایک عظیم نصب العین کی اس تخفیفی صورت کو بیان کرتی ہیں، جس کی زد پر قلعہ معلی تھا۔غالب کی شاعری مغل جمالیات کو پیش کرتی ہے ، بالکل بجا ،مگر غالب کی زندگی عظیم مغلیہ سیاسی نصب العین کے انحطاط سے حیرت انگیز طور پر مماثل ہے۔ پنشن میں اضافے اور تیموری وقار کی بحالی کی درخواستیں ۔۔۔۔۔ شاہ عالم ثانی سے بہادر شاہ ظفر تک سب تیموری’بادشاہوں ‘ کی مساعی انھی دو باتوں تک سمٹ گئی تھیں۔یہ درخواستیں انگریز ریزیڈنٹ ،گورنر جنرل اور انگلستان کی مرکزی حکومت تک (رام موہن رائے ،جنھیں راجہ کا خطاب لال قلعے نے دیا تھا، یہ درخواست لے کر گئے تھے )پہنچائی جاتی رہیں۔یہی کام غالب بھی کرتے رہے۔ جو سلوک غالب کی پنشن سے ہوا، وہی سلوک لال قلعے کے مکینوں کی درخواستوں سے ہوتا رہا۔ شروع میں انگریز ریزیڈنٹ مغل دربار کے آداب کا لحاظ کرتا رہا ،یعنی نذر پیش کرتا رہااور تسلیم بجا لاتا رہا، بعد میں انھیں بھی ترک کردیا گیا۔ انیسویں صدی کے شاہان مغلیہ کی قلعہ معلی کے اندر حکمرانی برقرار تھی۔’’ قلعے کے بازار کے مکین بادشاہ کے محکوم تھے،اور شاہی خاندان کی فوج ظفر موج کو شاہی سفارتی استثنا حاصل تھا۔ شاہی آداب کا پاس کیا جاتا تھا، عظیم مغل بادشاہوں کے خطابات اور زبان برقرار تھی ۔۔۔۔اگرچہ پورے ہندوستان میں مغلوں کو پنشن یافتہ کہا جاتا تھا ، مگر قلعے کے اندر انھیں خود مختاری حاصل تھی‘‘۵۔ اگر ہم قلعہ معلی کی تمثیل کوغالب کی زندگی کو سمجھنے کی کلید بنالیں تو کہہ سکتے ہیں کہ جو خود مختاری تیموری شاہان کو قلعے کے اندر حاصل تھی ، اسی سے ملتی جلتی خود مختاری غالب کو اپنی شاعری میں حاصل تھی۔ بس ایک اہم فرق تھا دونوں میں۔ قلعے کے اندر کی دنیاکی خود مختاری ’معمائی ‘ یعنی Problematicتھی؛ اسے مغل بادشاہوں نے تین صدیوں کی بہترین عسکری اور ثقافتی پالیسیوں کی مدد سے تخلیق کیا تھا، لیکن وہ پہلے مرہٹوں اور اب انگریزوں کے رحم و کرم پر تھی۔ حقیقت میں یہ خود مختاری، ایک نہایت کمزور سمجھوتے کے سہارے قائم تھی،جسے شاہ عالم ثانی تا بہادر شاہ ظفر انگریزوں سے کرتے چلے آرہے تھے،اور جس میں ۱۸۰۳ء سے لے کر ۱۸۵۷ء (سوائے سوروزہ آزاد حکومت کے )کے عرصے میں بس ایک ہی تبدیلی دیکھنے میں آئی تھی؛یہ کہ خود مختاری مسلسل سکڑتی جارہی تھی۔دوسری طرف غالب کی شاعری کی خود مختار دنیامیں انگریز کا عمل دخل نہیں تھا۔نا م کے مغل شاہان دربار کے آداب ہوںکہ اپنے جاں نشین مقرر کرنے کی روایات ۔۔۔۔ان میں سے کسی شے کی حفاظت نہ کرسکے ۔ اس عہد میں واحد غالب تھے ،جنھوں نے مغل ہندوستانی جمالیات اور شعریات کی نہ صرف حفاظت کی ،بلکہ ان کی داخلی تخلیقی صلاحیت کو منتہاے کمال تک پہنچایا۔
دہلی میں غالب کے شب وروز وہی تھے جو ہندوستانی اشراف کے تھے۔ حویلی، ملازمین، عمدہ لباس، عمائدین شہر سے بہ اہتمام ملاقاتیں؛ کھیل، علمی مجالس ،مشاعرے اورشراب۔ یہی طبقہ اشراف ایک طرف اپنی وضع داری قائم رکھتا تھا ،اور دوسری طرف نئے خیالات، نئے بندوبست، نئے مواقع سے استفادے پر ہمہ دم مائل رہتا تھا۔ غالب نے نودس برس کی عمر میں شاعری شروع کی تھی۔ کلکتہ جانے سے پہلے تک وہ اردو ہی میں لکھتے رہے ،سوائے چند فارسی رباعیات کے۔ہم غالب کے انگریزوں اور یورپی کلچر سے تعلق کو سمجھنے کی جو کوشش کررہے ہیں ،اس کے تناظر میں دیکھیں تو اردو شاعری غالب کے لیے اطمینا ن کا باعث ہوگی۔انگریزوں کی طرف سے خالص سیاسی مصلحتوں سے نہ صرف رفتہ رفتہ فارسی رخصت کی جارہی تھی،بلکہ اس کی جگہ اردو کی سرپرستی کی جارہی تھی۔دہلی میں قلعے سے باہر کچھ اہم تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔ ۱۷۹۲ء میں مدرسہ غازی الدین حیدر سے شروع ہونے والا،اور۱۸۲۵ء میںکالج بننے والا، دہلی کالج ،ان تبدیلیوں کا ایک مرکز تھا۔اردو قارئین کے حافظے میں’’ دہلی کالج علامت ہے ،انگریزوں اور ہند مسلم کلچر کے مابین رابطے کی ،جو اردو کے ذریعے قائم ہوا‘‘۶۔ اردو مئورخوں نے مبالغے سے کام لیتے ہوئے اس کالج کو مغرب ومشرق کے درمیان رابطے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اصل سوال یہی ہے کہ مذکورہ رابطے کی نوعیت کیا تھی؟ کیا یہ ایک ایسا ادارہ تھا ،جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی استعماری حکمت عملی کے کارفرما ہونے کی راہ مسدود کردی تھی ، اور جہاںیورپی اور مشرقی علوم قدری اور افادی سطحوں پر برابر سمجھے گئے تھے ،اور جس تحقیر ی رویے کا اظہار لارڈ میکالے کی یادداشت میں ہوا ،اس کا شائبہ یہاں موجود نہیں تھا؟دوسرے لفظوں میں یہ کالج اردو میںمنتقل ہونے والے جدید یورپی علوم کے ذریعے ثقافتی برتری کا احساس دلانے کا منشا رکھتا تھا یا اس جدیدیت کی روشنی پھیلا نا چاہتا تھا جس کے علم بردار برطانوی حکام تھے؟ اکثر مئورخوں نے ان سوالوں سے صرف ِ نظرکیا ہے۔تاہم مذکورہ سوالوں کے جواب چند حقائق سے مل سکتے ہیں۔۱۸۱۳ء میں ایسٹ انڈیاکمپنی کے چارٹر کی تجدید کرتے وقت یہ شق شامل کی گئی کہ وہ ایک لاکھ روپیہ ’’علم و ادب کے احیا،ہندستانی علما کی حوصلہ افزائی اور علم و سائنس کو ہندستان کے برطانوی مقبوضات کے باشندوں میں رائج کرنے ‘‘ پر خرچ کرے گی۷۔دس سال تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ جب عمل در آمد شروع ہوا تو دہلی کالج کے لیے پانچ سو روپیہ ماہانہ مقرر کیا گیا جس میں ایک سو پچہتر روپے(بعد میں تین سو روپے) پرنسپل کی تنخواہ ، ایک سو بیس روپے ہیڈ مولوی کی تنخواہ اور دو دو مولوی پچا س پچاس روپے کے رکھے گئے۸۔بعد میں دیسی مولویوں کی تنخواہیں دس روپے تک رہیں۔ ۱۸۲۹ء میں نو اب اعتمادلدولہ سید فضل علی خان بہادر وزیر اودھ نے ایک لاکھ ستر ہزار کی رقم سے کالج کے لیے وقف قائم کیا۔ یہ رقم اس وعدے کے ساتھ لے لی گئی کہ نواب صاحب کے نام سے پروفیسروں کا تقرر ہوگا اور اور طلبا کے لیے وظائف جاری ہوں گے۔ ایک سال بعد نواب صاحب کا انتقال ہوگیا مگر یہ رقم کالج پر کبھی خرچ نہ ہوسکی۔ ۱۸۳۵ء میں طے ہوا کہ ’’آئندہ [رقوم]دیسی لوگوں میں انگریزی زبان کے ذریعے انگریزی علم ادب اور سائنس کی اشاعت میں صرف کی جائیں‘‘۹۔
یہاں تفصیل سے اس موضوع پر بحث کی گنجائش نہیں۔ ہم خود کو غالب کے ضمن میں اٹھائے گئے اس سوال تک محدود رکھنا چاہتے ہیں، جو غالب کی جدیدیت کے ضمن میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب کے لیے دہلی میں اگر واقعی کچھ نیا تھا تو اس کا تعلق اسی کالج سے تھا۔ غالب کے چند قریبی احباب اس کالج سے وابستہ تھے۔ امام بخش صہبائی، مفتی صدرالدین آزردہ۔لیکن یہ حضرات اس کالج میں اپنے روایتی علوم کی تدریس پر مامو ر تھے،یعنی ان کے پاس جو کچھ ’نیا ‘ تھا وہ یورپی الاصل نہیں ،مشرقی الاصل تھا ۔اسی کالج میں غالب کو فارسی کے استاد کی پیش کش ہوئی۔غالب نے یہ پیشکش ٹھکرادی ۔اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ غالب کا استقبال نہیں ہوا۔خود غالب نے بھی اپنے خط میںیہی وجہ بیان کی ہے۔ لیکن کیا واقعی وجہ صرف یہی تھی؟غالب کے انکار کو محض ان کی انانیت سے تعبیر کرنے کے بجائے، کچھ اور باتوں کو بھی ملحوظ رکھنا مناسب ہوگا۔ پہلی بات یہ کہ دہلی کالج کے بارے میں مسلمانوں میں یہ رائے عام تھی کہ وہ ایک خیراتی ادارہ ہے۔ مولوی عبد الحق نے دہلی کالج کے پرنسپل مسٹر ٹیلر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’مسلمان شرفا ،نواب اور سلاطین دلی کالج کو ایک خیراتی درس گاہ تصور کرتے تھے ،اور اس بنا پر اپنے بچوں کو وہاں تعلیم کی غرض سے نہیں بیٹھنے دیتے تھے ‘‘۱۰۔جس خیراتی ادارے میں مسلمان شرفا اپنے بچوں کو داخل نہیں کراتے تھے، ا س میں ’شریف غالب‘ کیسے پڑھانا پسند کرسکتے تھے؟نیز اگردہلی کالج واقعی مشرق ومغرب کے درمیان یا کم ازکم انگریزوں اورمسلمانوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھا تو غالب کو اور کیا چاہیے تھا؟
دہلی میں مغربی اثرات سے جو ایک نئی چیز رفتہ رفتہ وجود میں آرہی تھی ،اور دہلی کی ثقافتی ،ذہنی زندگی میں تبدیلی لارہی تھی ،وہ دہلی سے جاری ہونے والے اردواخبارات تھے ،اور لیتھو پریس تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ اخبارات کا اجرا دہلی کالج کے اساتذہ اور سابق طلبا کا مرہون ہے۔ ۱۸۳۵ء میں دہلی میں پہلا سنگی مطبع قائم ہوا،اور دو برس بعد دہلی کالج کے فارغ التحصیل مولوی محمد باقر نے دہلی اردو اخبار کے نام سے اخبار جاری کیا۱۱۔بعد میں دہلی کالج کے پرنسپل شپرنگر(قران السعدین) اور اسی کالج سے تعلیم یافتہ ماسٹر رام چند ر(فوائد الناظرین، محب ہند) نے بھی اخبارات جاری کیے تھے۔ بہ قول طاہر مسعود ’’ اردو اخبارات کے اجرا وترقی میں انگریزوں اور اس کے افسروں کی امداد ،تعاون اور سرپرستی کاخصوصی دخل تھا‘‘۱۲۔ اس کا ایک اثر دہلی کی ثقافتی زندگی پر یہ پڑا کہ ایک نیا اجتماعی تخیل پیدا ہونا شروع ہوا،جس کی باگ ڈور اخبارات کے ہاتھ میں عمومی طور پر اور چھپے ہوئے لفظ کے ہاتھ میں خصوصی طور پر تھی ۔یہیں سے چھپے ہوئے لفظ پر اختیار کی کش مکش بھی شروع ہوئی ۔ غالب نے اپنا دیوان۱۸۳۳ء میں مرتب کیا تھا مگر اس کی اشاعت ۱۸۴۱ء میں مطبع سید الاخبار سے ہوئی تھی۔ غالب کے لیے دیوان کی اشاعت ایک نیا تجربہ تھا، جسے یورپی ٹیکنالوجی نے ممکن بنایا تھا۔اس کے ذریعے ان کا کلام ان لوگوں تک بھی پہنچا ،جن سے غالب آشنا نہیں تھے۔
دہلی میں غالب کی گزر بسر انگریزی پنشن پر تھی ،تاہم وہ قلعہ معلی سے تعلق استوار کرنے کے لیے مسلسل کوشاں رہے ۔ شاید اسی بنا پرخلیق انجم نے لکھا ہے کہ’’ ان [غالب ]کی وفاداری بھی منقسم تھی ۔وہ ایک طرف تو بادشاہ سے قربت حاصل کرنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کرتے نظر آتے ہیںاور دوسری طرف قصیدے لکھ لکھ کر انگریز افسروں کو بھی خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۱۳۔غالب کی معاشی جدوجہدکے سلسلے میں ’وفاداری ‘ کا لفظ شاید مناسب نہیں،البتہ’ طرف داری ‘کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔خود غالب نے کہہ رکھا ہے :
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو
اسی سے ملتی جلتی بات میر نے بھی کہی ہے:
مررہیں اس میں یا رہیں جیتے
شیوہ اپنا تو ہے وفاداری
گویا وفاداری میں استورای ، استقلال کے ساتھ جاں کو نثار کرنے کا وافر جذبہ بھی ہوتاہے۔ غالب بہ طور شاعر وفاداری کے معنی سے واقف ہی نہیں تھے، اس معنی کو پر شکوہ بنانے کے بھی قائل نظر آتے ہیں،نیز اپنے خاندان ،اپنے بھائی، اپنے نوکروں اور اپنے احباب کے ضمن میں وہ وفاداری کے جذبات رکھتے تھے، مگر مقتدر لوگوں کے سلسلے میں نہیں۔لہٰذا یہ بات غلط نہیں کہ ’’جب تک ہندوستان کا پلہ بھاری رہا ،غالب قلعے جاتے رہے،اور جب ہندوستانیوں کو شکست ہو گئی تو غالب انگریزوں کے ساتھ ہوگئے‘‘۱۴۔اپنے خاندانی بزرگوں اور اس زمانے کے اکثر اشراف کی مانند غالب کے لیے سیاسی وفاداری کا تصور،استواری کی شرط نہیں رکھتا تھا۔ان کے خاندان کی تلوار کی طرح ، ان کی تیغ ِ مدح کو اپنا ممدوح اور سرپرست تبدیل کرنے میں عار نہیں تھا۔وہ شاعری میں تقلید بزرگاں کے قائل نہیں تھے، مگر عملی زندگی میں تھے۔
اپنے قصائد اور دستنبو میں غالب نے جس طرح بڑھ چڑھ کرانگریزوں کی طرف داری کی ہے ، اور اپنی طرف داری کو حق پر مبنی ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے، وہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ پہلے دستنبو سے کچھ اقتباسات دیکھیے:
اس جہاں سوز منحوس دن میرٹھ کی کینہ پرور فوج کے کچھ بد نصیب اور شوریدہ سپاہی شہر میں آئے ۔یہ سب بے حیا اور مفسد اور نمک حرامی کے سبب انگریزوں کے خون کے پیاسے ۔شہر کے مختلف دروازوں کے محافظ جو ان فسادیوں کے ہم پیشہ اور بھائی بند تھے،بلکہ کچھ تعجب نہیں کہ پہلے ہی ان محافظوں اور فسادیوں میں سازش ہوگئی ہو، شہر کی حفاظت اور ذمے داری اور حق نمک ہر چیز کو بھول گئے ۱۵۔
اے انصاف کی تعریف کرنے والے اور اور ظلم کو برا کہنے والے حق پرستو! اگر ظلم کی مذمت اور انصاف کی تعریف میں تمھاری زبان اور تمھار ادل ایک ہے تو خدا کے واسطے ہندوستانیوں کا طرز عمل یاد کرو ۔اس کے بغیر کہ پہلے سے دشمنی کی کوئی بنیاد اور عداوت کا کوئی سبب ہو(ان ہندوستانیوں نے) اپنے آقائوں کے مقابلے میں تلوا ر اٹھائی جو گناہ ہے۔۔۔۔۔سب جانتے ہیں کہ اپنے آقاسے بے وفائی کرنا گناہ ہے(اس کے مقابلے میں ان انگریزوں کو دیکھو کہ جب دشمنی (کا بدلہ لینے) کے لیے لڑنے اٹھے اور گناہگاروں کو سزادینے کے لیے لشکر آراستہ کیا ،چوں کہ (وہ) شہر والوں سے بھی برہم تھے تو اس کاموقع تھا کہ ( شہرپر ) قابض ہونے کے بعد کتے بلی (تک کو ) زندہ نہ چھوڑتے ۔(اگرچہ ) ان کے سینے میں غصے کی آگ بھڑک رہی تھی ،لیکن انھوں نے ضبط کیا ۱۶۔
غالب نے ’جنگ آزادی ‘کو بغاوت ہی کا نام نہیں دیا، ہندوستانی فوج کی سخت ترین الفاظ میںمذمت بھی کی۔ اسے کینہ پرور، بے حیا، مفسد،نمک حرام کہا۔ اسی پر بس نہیں کی۔ ظلم و انصاف کو سمجھنے والوں اور ظلم کو برا کہنے والوں کومخاطب کرکے یہ باور کرانے کی کوشش بھی کہ ہندوستانی تلوار اٹھا کر بے وفائی کے مرتکب ہوئے ،اور گناہ کیا۔دوسرے لفظوں میں ستاون کی رستخیز میں غالب ،ہندوستانیوں کے ساتھ نہیں ، انگریزوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ غالب کو اپنے ترک سلجوقی ہونے پر فخر تھا، مگر ان کی روح ہندوستانی تھی؛وہ روح جس کا اظہار ان کی شاعری میں ہوا ہے،اور ان کی عام اخلاقی سماجی زندگی میں ہوا ہے۔ پھر غالب نے ان ’کافر فرنگیوں ‘ کا دفاع کیوں کیا ، جنھوں نے ہندوستان کی دولت وحشمت کھینچ لی تھی،اور جس کا اثر خود غالب پر بھی پڑا؟[بہ قول مصحفی: ہندستاں میں دولت وحشمت جو کچھ کہ تھی؍کافر فرنگیوںنے بہ تدبیر کھینچ لی] ۔ اس کا جواب آسان نہیں۔تاہم جواب تلاش کرنے کی کوشش کرنے میں حرج نہیں۔
غالب کی انگریزوں کی طرف داری کا دفاع نہیں کیا جاسکتا ۔ صرف اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے کہ ایک ایسا شاعر جو انسانی ہستی کے رموز کا عارف ہو، جو اشیا کے عارضی پن کا عرفان رکھتا ہو،جس کی نظرِ تخیل میں دنیا بازیچہ اطفال ہو، جو دنیا ، سماج ، مذہب کے کبیری بیانیوں پر استفہام قائم کرنے کی جرأت رکھتا ہو، وہ کیوں کر استعمار کار کی حمایت میں رطب اللسان ہوتا ہے؟ زیادہ تر لوگوں نے اس ضمن میں غالب کی کہن سالی اور ضعف کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے،لیکن یہ کافی کمزور اور سادہ لوحی پر مبنی دلیل ہے۔ اوّل یہ کہ کیا ضعیفی اور کہن سالی مزید جینے کے لالچ کا دوسرا نام ہے؟دوم، اس دلیل میں جسمانی طاقت اور اخلاقی جرأت کو گڈ مڈ کردیا گیا ہے۔ سقراط سے برٹرینڈرسل تک کئی بوڑھوں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر اخلاقی جرأت کا مظاہر ہ کیا۔گما ن غالب ہے کہ غالب عدم تحفظ کے نفسیاتی عارضے کا شکار تھے،جو معاشی طور پر منحصر ہونے کی اس حقیقت کا نتیجہ تھا جو برابر غیر یقینی کا شکار تھی۔یہی وہ عارضہ تھا جو انھیں پنشن کی بحالی کو زندگی کی بڑی جدوجہد بنانے کی تحریک دیتا تھا۔غالب کی حقیقی زندگی میں ہم جس عملی جدوجہد کو دیکھتے ہیں،اور اس دوران میں ان کی مایوسی ، ناکامی ، انا کی شکست ،مصائب پر مصائب کو آشکار ہوتا دیکھتے ہیں، وہ سب پنشن کے اس قضیے سے پھوٹتا ہے،جس کا تعلق انگریزی حکومت سے تھا۔غالب کی اس جدوجہد میں وہی سرگرمی، جرأت ،اور اپنی بہترین جسمانی وذہنی توانائیوں کو صرف کرنے کا عمل دکھائی دیتا ہے جو ایک عظیم جدوجہد کے تصور کے بغیر ممکن نہیں۔ سب سے عظیم جدوجہد ’بقا‘ کی ہے۔ غالب کے لیے بقا بہ یک وقت معیشت اورآبرو کا مفہوم رکھتی تھی۔غالب اشراف کے طرززندگی اوراعتراف عظمت کے طور پر خلعت وخطاب کے لیے جدوجہد کررہے تھے۔
علاوہ ازیں یہی وہ عارضہ تھا جو انھیں قومی سطح کے واقعات کو بھی خالص شخصی نظر سے دیکھنے پر مجبور کرتا تھا۔ دستنبو ہی میں غالب نے لکھا ہے کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ اگر ہندوستان کا نظم ونسق (غد رمیں )تباہ نہ ہوتا اور ناخداترس اور ناشکرے سپاہیوں کے ہاتھوں عدالتیں نہ اجڑجاتیں تو گلستان انگلستان سے ایسا فرمان صادر ہوتا جس سے مرادیں پوری ہوجاتیں اور میری آنکھیں اور میرادل دونوں ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ‘‘۱۷۔ ہندوستان کی تاریخ وتقدیر کو بدل کر رکھ دینے والے واقعے کی بابت یہ رائے وہی شخص دے سکتا ہے جسے اپنے تحفظ کا خوف بے بس کردینے والا ہو۔اپنے تحفظ کے خوف کا شکا ر شخص ، سماجی زندگی میں فعال کردار ادا نہیں کرسکتا۔ چوں کہ وہ تباہی کے ڈر سے برابر دوچار رہتا ہے ،ا س لیے جیسے ہی تباہی کے مناظر دیکھتا ہے تو اس کا دل بری طرح افسردہ ہوجاتا ہے۔دہلی کی تباہی پر غالب کی افسردگی کو اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
دل ہے ،پتھر یا لوہے کا ٹکڑا نہیں،کیسے نہ بھر آئے؟ آنکھیں ہیں،روشندان یا دیوار میں سوراخ نہیں کہ آنسو نہ بہائیں۔ہاں حکمرانوں کی موت کا غم منانا چاہیے اور ہندوستان کی ویرانی پر رونا چاہیے ۱۸۔
بعض نے غالب کی طرف داری کی توجیہہ میں اشتراکی دلیل سے کام لیا ہے ۔ ان کے مطابق غالب جس طبقے سے تعلق رکھتے تھے، ا س کے مفادات انگریزوں سے تھے۔ مثلاً شمیم طارق کہتے ہیں کہ غالب نئے روشن خیال طبقے کے فر دتھے،جن کی دولت وسماجی حیثیت کا دارومدارانگریزوں کی دولت پر تھا،اس لیے انھوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا ۔شمیم طارق کا یہ بھی خیال ہے کہ غالب کی کسی تحریر سے واضح نہیں ہوتا کہ انھوں نے ’’عزت کی زندگی کے لیے ملک کی آزادی کو ضروری سمجھا ہو،حالاں کہ ان کے سامنے احیا پسند مجاہدین اور حریت پسندسپاہیوں کے علاوہ ایسے لوگ بھی تھے ،جو انگریزوں سے مصالحانہ رویہ اختیار کرنے کے باوجودان کی مخالفت یاان سے بیزاری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے‘‘۱۹۔ان میں مفتی صدرالدین آزردہ اور امام بخش صہبائی قابل ذکر ہیں۔دونوں غالب کے دوستوں میں شامل تھے۔ اس دلیل میں وزن ہے۔ بایں ہمہ چند دوسری باتوں کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ ایک یہ غالب کی فرنگیوں کی حمایت کاجائزہ اس قومی شعور کے تحت لیا گیا ہے جو انیسویں صدی ہی میں پیدا ہوا تھا،اور سب سے پہلے بنگال میں۔ ادیب و دانش ور کی ذمہ داری کا سوال بھی اسی قومی شعور کی راست پیداوار ہے۔انیسویں صدی کے بعد سے قوم پرستی، قومی شعور، قومی احساس، حب الوطنی آسیب کی طرح ہماری ہر فکر پر چھائے ہوئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ غالب ہی کے زمانے میں قومی شعور بیدار ہونے لگا تھا، مگر غالب اس میں شریک نہیں تھے۔بجا کہ غالب جب کلکتہ گئے ،تب وہاں راجہ رام موہن رائے کی اصلاحی تحریک چل رہی تھی۔یہ بھی درست کہ غالب کی دلی پر جس سال(۱۸۰۳ء) لارڈ لیک نے قبضہ کیا ،اسی سال دہلی کے شاہ عبدالعزیز نے ہندوستان کے دارلحرب ہونے کا فتویٰ دیا تھا۔اسی طرح غالب ہی کے ہم عصر مومن نے سید احمد شہید کی تحریک میں باقاعدہ شرکت کی غرض سے مثنوی لکھی۔۔۔۔لیکن غالب ان سب سے دوررہے۔
قصہ یہ ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر سے ہم نے ادیب وشاعر ودانشور کی شخصی اور ذہنی زندگی دونوں کے سلسلے میں ایک اصول تسلیم کرلیا ہے کہ اس نے’قو می وسماجی ‘ ذمہ داری کس حد تک ادا کی۔یہ اصول نو آبادیاتی اصلاحی تحریکوں (جن کی نمائندگی اردو میں انجمن پنجاب اور علی گڑھ تحریک نے کی ،اوربیسویں صدی میں اشتراکی منشور کے ساتھ ترقی پسند تحریک نے کی ) کی دین ہے ،جنھوں نے ادیب کی شخصی اور ذہنی زندگی کو سماجی زندگی،اور اس سے بھی بڑھ کر اس ڈسکورس کے تابع کرنے کا بیڑہ اٹھایا، جسے نو آبادیاتی جدیدیت کا نمائندہ بنا کر پیش کیا گیا تھا ۔ایک اور بات بھی تھی ۔ یہ اصول نہ تو اس علمیات سے اخذ کیا گیا تھا ،جو شاعری کی تفہیم کے لیے صدیوں سے چلی آتی تھی ،اور جسے غالب نے بھی جذب کر رکھا تھا ،اور نہ اس نفسیاتی عمل میں یہ اصول جڑیں رکھتا تھا ،جو شاعری کا محرک ہوتی ہیں۔البتہ اس میں لکھے ہوئے لفظ کی اس طاقت کا ادارک ضرور موجود تھا، جس کی ضرورت کا احساس تازہ تازہ ظہور میں آنے والی قوم پرستی نے دلایا تھا اور جس کے لیے کچھ ضعیف سی شہادتیں قدیم عربی شاعری سے حالی کو ملی تھیں۔ ہمیں یہ کہنے میں باک نہیںغالب کے لیے یہ اصول سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔وہ جس شعریات کے تحت شاعری تخلیق کررہے تھے، وہ مادی وذہنی زندگی ، یا دنیویت و مابعد الطبیعیات میں تفریق نہیں کرتی تھی۔
دہر جز جلوہ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
ہرزہ ہے نغمہ زیر وبم ہستی و عدم
لغو ہے آئنہ فرق جنون و تمکیں
ْْْْْْْْْْْاس ضمن میں ایک اور نکتہ بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ غالب کو قومی انقلابی خیالات سے عاری ثابت کرنے کے لیے ان کی نثر کو بنیاد بنایا گیا ہے،اور شاعری سے بہت کم تعرض کیا گیا ہے، سوائے ا ن دو چار اشعار کے۔
بس کہ فعال مایرید ہے آج
ہر سلح شور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہر ہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہر دہلی کا ذرہ ذرہ خاک
تشنہ خوں ہے ہر مسلماں کا
ان اشعار کا مضمون وہی ہے جسے غالب اپنے اردو خطوط اور دستنبو میں بھی پیش کر چکے ہیں۔ دہلی کی تباہی پر ملال کا اظہار۔ دہلی کی تباہی اس استعماری عمل کا نقطہ ء عروج کہی جاسکتی ہے، جس کا باقاعدہ آغا زغالب کی پیدائش سے کم و بیش پچاس پہلے ہوچکا تھا،اور جسے ایک یا دوسرے طریقے سے غالب اپنی معاشی جدوجہد میں بھگت رہے تھے۔
غالب،یا کسی بھی شاعر کے لیے اس کی شاعری ان سب سوالوں سے نبر دآزما ہونے کا تخیلی میدان ہوتی ہے جو اسے حقیقی طور پر درپیش ہوتے ہیں، اسے دعوت مبارزت دیتے ہیں، اس کی بشری استعداد کا امتحان ہوتے ہیں،اس کے شعور کی حدوںکو پگھلانے لگتے ہیں، اور اس کے سماجی رشتوں اور بندھنوں کے بنے بنائے تصورات پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ تخیلی میدان ، حقیقت سے مکالمے ،حقیقت کو پلٹانے، حقیقت سے گریز اور حقیقت کی نئی تشکیل اورنئی حقیقت کی تخلیق کا ذریعہ ہوتا ہے۔اگر تخیل محدود ہو، یعنی محض شخصی نظر سے اوجھل چیزوں کا ،یا سنی سنائی باتوں کا خیال منفعل انداز میں باندھ سکتا ہویا تصور کرسکتا ہو تو وہ حقیقت کی تشکیل تو دور کی بات ہے ،وہ حقیقت سے مکالمہ کرنے کی صلاحیت ہی سے محروم ہوتا ہے ؛ لیکن جس شاعر کا تخیل وسیع ہو، یعنی تاریخ اور اجتماعی یادداشت سے اوجھل چیزوں کا فعال انداز میں تصور کرسکتا ہو، اور ان میں نئی ترتیب پیدا کرسکتا ہو، اور تاریخ و یادداشت میں موجود چیزوں کے باہمی رشتوں کو توڑ کر ،ان میں نئے رشتوں کو جنم دے سکتا ہو، وہ حقیقت کے سلسلے میں وہ سب کرسکتا ہے ،جس کی طرف اشارہ اوپر کیا گیا ہے۔تخیلی میدان میں حقیقت سے مکالمہ لازماً تاریخی جہت رکھتا ہے۔یعنی شعری تخیل اور سماجی وتہذیبی حقیقت کے بیچ ’تاریخیت‘ موجود ہوتی ہے ۔تاریخیت کو ہم مخصوص تاریخی لمحے یا صورتِ حال سے شاعر کی اس کشمکش ،مصالحت ،زیر ہونے یا پلٹانے جیسے متضاد رویوں کا نام دے سکتے ہیں ،جس سے وہ اپنی شاعری میں نہ صرف معنی پیدا کرتا ہے، بلکہ معنی کو استحکام بھی دیتا ہے،اور وہ مستحکم معنی ، اس مخصوص تاریخی لمحے کے اندر اپنا جواز حاصل کرتا ہے۔
غالب کی شاعری کو اس تناظر میں دیکھیں تو وہ تین طرح سے اس استعماری تاریخی لمحے (جو رفتہ رفتہ بننے کے عمل سے نقطہ عروج تک پہنچا)سے نبردآزما ہوتی ہے۔ یعنی تین طرح کی حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ پہلی حکمت عملی ’سپر نہ ڈالنے ‘ سے عبارت ہے۔ غالب انگریزی طور طریقوں کی تعریفیں کرنے کے باوجود ،انگریزی شاعری ،اور یورپی فکر کو سمجھنے کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ وہ جس انگریزی آئین کو ’جدید‘ سمجھتے تھے، اور جسے اپنے زمانے کی حقیقت قرار دیتے تھے ، اور یہ بھی خیال کرتے تھے کہ وہ ایک سیل کی طرح ہندوستانی آئین کو بہالے جانے والی ہے، اسے انھوں نے اپنی شعریات کا حصہ نہیں بنایا۔ وہ سرسید کو تو اس جانب متوجہ کرتے ہیں ،مگر خود اپنے ذہن کو اس سے الگ رکھتے ہیں۔کیوں؟ غالب کا شعری تخیل جب اس نئی تاریخی حقیقت سے دوچار ہوتا ہے تو سپر نہ ڈالنے کا فیصلہ کرتا ہے،اور اس لیے کرتا ہے کہ اس کے پاس سپر ہے ،یعنی اپنی جدید شعریات! غالب کو اپنی شعریات کے قدیم ہونے کا احساس سرے سے تھا ہی نہیں۔ غالب خودکو خود اپنے پیش روفارسی واردو شعراسے الگ سمجھتے تھے۔
ہم یہ تصور نہیں کرسکتے کہ غالب کی شاعری جس تہذیب کی پیداوار تھی ،اور جس کی نمائندگی ان کی شاعری میں ہورہی تھی ،غالب اس تہذیب پراستعماری یلغار کو محسوس نہ کرتے ہوں،اور اس کے ضمن میں ایک خاص طرز عمل اختیار کرنے کی انھیں فکر نہ ہو۔ غالب سماجی ومعاشی سطح عدم تحفظ کا شکار ضرورتھے، مگر شعری تخیلی سطح اور شعریات کی سطح پر کسی کمزوری کا شکار نہیں تھے؛وہ بلا شبہ غیر معمولی وسیع تخیل کے حامل تھے۔ کہنے کا مقصود یہ نہیں کہ غالب نے شاعری میں اپنی نثر کے برعکس لکھا ہے ،اور انگریزوں کی مذمت کی ہے۔ اگر ایسا کرتے تو اپنی شاعری کی قربانی دیتے۔
غالب نے انگریزوں کی طرف داری کی ،انگریزی آئین اور دخانی تہذیب کی بھی تحسین کیا ، لیکن کیا خود بھی انگریزی ؍یورپی تہذیب سے بھی استفادہ کیا؟ مغربی جدیدیت کی طرف سرسید کو متوجہ کرنے کے سلسلے میں غالب کے سفر کلکتہ کا ذکر خاصا کیا جاتا ہے۔غالب کے اس سفر کا محرک ، اپنی خاندانی پنشن کی بحالی کی امید تھی۔اکبر شاہ ثانی کی دلی میں بھی اگرچہ حکم کمپنی بہادر کا چلتا تھا ،مگر کمپنی کے بڑے صاحب بہادر کلکتہ میں تھے ،جو انگریزی حکومت کا صدر مقام تھا ۔ غالب ۲۰ ء فروری ۱۸۲۸ء کو’’‘فیروز پور،کان پور،۔لکھنئو ، باندہ ،الہ آباد ،بنارس ،عظیم آباد اور مرشد آباد سے ہوتے ہوئے، کلکتہ پہنچے‘‘۲۰۔یہ ایک طویل صعوبت بھر ا سفر تھا،اور غالب کو کچھ ایسے ’معارف ‘ سے آگا ہ کرنے کا وسیلہ بنا ،جن سے اکتیس سالہ غالب بے خبر تھے۔اسی سفر کے دوران میں غالب پر یہ حقیقت روشن ہوئی کہ شاعرکومعاشی وسماجی زندگی کے تلخ حقائق کے ساتھ ساتھ اپنی ادبی برادری سے بھی معرکہ درپیش ہوتا ہے،اور وہ آدمی کی کمر توڑ سکتا ہے۔ اس معرکے کی یاد گار مثنوی بادمخالف ہے۔یہ وطن سے دور ایک بڑے شاعر کی طرف سے آشتی کا پیغام تھا۔اسی سفر کے دوران میں غالب نے چراغ دیر تصنیف کی ا ور گل رعنا(فارسی و اردو شاعری کا انتخاب) مرتب کیا۔دہلی میں غالب نے فارسی میں بہت کم لکھا ،سفر کلکتہ کے دوران میں انھوں نے فارسی میں زیادہ لکھا ۔ مکاتیب اور شاعری دونوں۔فارسی کو ذریعہ اظہار بنانے کا فیصلہ بھی بے حد اہم تھا۔پنشن کے حوالے سے یہ سفر کچھ کامیاب نہیں ہوا، مگر تخلیقی حوالے سے اس کے ثمرات زیادہ تھے۔شاید اسی لیے کلکتہ غالب کے یہاںرنج و راحت کے ان جذبات کی یا د بن گیا،جنھیں ایک دوسرے سے الگ کرنا مشکل ہوتا ہے ۔
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
اس میں شک نہیں کہ غالب نے آئین اکبری کی تقریظ میں سرسید کو یورپ کی دخانی تہذیب کا احساس دلایا، مگر سوال یہ ہے کہ خود غالب اس تہذیب کی روح سے متاثر ہوئے تھے ،اور کیا اس امر کی شہادت ان کی شاعری سے ملتی ہے؟ پہلے یوسف حسین خان کا اقتبا س دیکھیے ،جس میں غالب کی جدیدیت کو مغربی الاصل ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
میرے خیال میں اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں جب کہ دہلی والوں کو انگریزوں سے براہ راست واسطہ پڑا، غالب ان چندلوگوں میں شامل تھے جنھوں نے انگریزی عمل داری اور اس کی کارگزاری کو خیر وبرکت خیا ل کیا،اور مغربی تہذیب کے بنیادی اصول کا خیر مقدم کیا۔یہ اصول انیسویں صدی کے شروع میں لبرل ازم کے ساتھ ہم آمیز تھے،جن کی تہ میں آزادی ،انفرادیت،قانونی مساوات ،انسان دوستی ،رواداری اور علمی تنقید کی لہریں انسانی ذہن کو سیراب کررہی تھیں۔یہ سچ ہے کہ غالب کا خاندان اور وہ خود انگریزوں سے وابستہ تھے ،لیکن ان کی یہ وابستگی افادی ہونے کے ساتھ ذہنی بھی تھی ۔غالب کی فراست نے یہ بات محسوس کرلی تھی کہ انگریزی عملداری جن انتظامی اور علمی اصولوں پر قائم ہے ،وہ شاہی اور جاگیرداری نظام سے اعلا و ارفع ہے۲۱۔
یوسف حسین خان نے یہ تو درست کہا ہے کہ غالب کی انگریزی حکومت سے وابستگی افادی تھی ، مگریہ کہنا درست نہیں کہ ذہنی بھی تھی ۔انھوں نے غالب کی شعریات میں مغربی عناصر کی نشان دہی نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ دہلی میں ملک واقعی بادشاہ کا تھا اور حکم کمپنی بہادر کا۔ غالب کا دلی تعلق بادشاہ کے ملک دہلی سے تھا۔ دہلی میں انگریز ریزیڈنٹ ضرور موجود تھا؛ انگریزوں نے دہلی کالج بھی قائم کردیا تھا جہاں انگریزی و اردو میں نئے علوم کی تعلیم دی جارہی تھی۔ قلعے کے معاملات میں کمپنی کا عمل دخل مسلسل بڑھ رہا تھا،اور غالب کا گزارہ کمپنی کی پنشن اورفرنچ وائن پر تھا،مگر اسی دہلی کی ثقافت، فن تعمیر،مدارس، مشاعرے، خانقاہیںوہی تھیں جن کی تعمیر مغل جمالیات سے ہوئی تھی۔ غالب نے انگریزوں کے نمک خوار ہونے کا ذکر جابجا کیا ہے، ان کا ۱۸۵۷ء میں دفاع بھی کیا(جس کا تفصیلی جائزہ ہم لے چکے ہیں)، مگر انھوںنے پنشن کی جدوجہد کے بعد دوسری جدوجہد استاد شاہ بننے کے سلسلے میں کی۔ غالب کی شخصیت اور طرزندگی اپنی اصل میں مغل اشراف کا تھا۔ غالب نے قیام دہلی میں انگریزی آئین کی تعریف نہیں کی۔ جب وہ کلکتہ پہنچے ہیں تو انھیں وہ شہر دہلی سے مختلف نظر آیا۔کلکتے ہی نے انھیں اس ثنویت سے مطلع کیا جو گورے اور کالے، کولونیل شہر اور ہندوستانی شہر، انگریزی تہذیب وآئین اور مغلیہ ہندوستانی تہذیب و آئین سے عبارت تھی۔ دہلی میں وہ مٹکاف برادران سے ملتے رہے،کلکتے کے سفر کے بعد ولیم فریزر نے انھیں دہلی کالج میں فارسی استاد بننے کی پیش کش بھی کی، مگر انھیں دہلی میں رہتے ہوئے یورپی تہذیب کا قصیدہ لکھنے کا خیال نہیں آیا۔ انھوںنے دہلی کا مرثیہ ضرور لکھا، جسے دخانی تہذیب والوں نے برباد کیا۔ کیا یہ غور طلب بات نہیں کہ اپنی مشہور تقریظ میں نئی دخانی تہذیب کی طرف سرسید کو متوجہ کرنے کے باوجود ،خود اس کی طرف راغب نہیں ہوئے؟
دہلی میں بھی غالب کا واسطہ انگریزوں ، ان کی تہذیب کے مظاہر، انگریزی اداروں (دہلی کالج) سے پڑتا رہا، ۱۸۵۷ء میں انھوں نے ان کی اسی طاقت کا بھیانک چہرہ بھی دیکھا ،جس کی ستائش انھوں نے سفر کلکتہ میں کی تھی، مگر ان کی شاعری پر نئی یورپی تہذیب کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ جس شعریات کے حامل تھے ، اس کی عظمت اور خود مختاریت کا کوئی نہ کوئی تصور ضرور رکھتے تھے ۔ اگرا یسا نہ ہوتا تو ان کے یہاں ایک کمی ،ایک خلا، ایک شگاف کا ضرور احساس پیدا ہوتا ،جسے وہ اس جدیدیت سے باقاعدہ استفادے یا استفادے کی آرزو کی مدد سے پورا کرتے ، جس کی نمائندگی دہلی کالج کررہا تھا ۔ایک اور بات بھی پیش نظر رکھنے کی ہے کہ عام طور پر نئے رجحانات ،نئے نظریوں اور نئی تہذیبی روشوں کو سب سے پہلے اشرافیہ قبول کرتی ہے ،اور غالب کا تعلق اسی اشرافیہ سے تھا۔ دستنبو میں انگریزوں کی تعریف کرنے کے باوجود اگر انھوں نے اپنی شاعری میں انگریزی اثر نہیں آنے دیا تو اس کا سبب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ ان کی شعریات اس جدیدیت کے سلسلے میں خو دکفیل ہونے کے یقین سے سرشار تھی ، جس کی وکالت ان کے دوست اور شاگرد ،ان کی زندگی ہی میں کرنے لگے تھے۔
نو آبادیاتی جدیدیت سے ارود شعرا کا تعلق دو جذبیت کا تھا؛ وہ اس کی طرف کھنچتے بھی تھے ،اور اس سے بھاگتے بھی تھے۔وہ ایک دبدھے میں گرفتار تھے۔ جب وہ نو آبادیاتی جدیدیت کی طرف لپکتے تھے تو ایک طرف اس کا نیاپن (جویورپی علوم و ٹیکنالوجی کے شکوہ کا تاثر بھی لیے ہوتا تھا)انھیں اپنی طرف کھینچتا تھا،اور دوسری طرف وہ خود اپنی مقامی دنیا و روایت سے بے دخل اور معزول ہوتامحسوس کرتے تھے۔اگرچہ مقامی دنیا وروایت کے ’پس ماندہ، تاریک، قبل جدید‘ ہونے کا حاوی بیانیہ ،انھیں وقتی طور پر اس سے بے دخل ہونے کا جواز فراہم کرتا تھا، مگر اس حاوی بیانیے کے ساتھ مصیبت یہ تھی کہ وہ یادداشت کی گم شدگی کی بنیاد پر استوار تھا،اور گم شدہ یادداشت کے لوٹ آنے کا احتمال رہتا تھا۔( خاص طور پر انیسویں صدی سے شروع ہونے والی احیا پسندی کی تحریکیں گم شدہ یادداشت کو واپس لانے کی محرک بن جاتی تھیں)۔یادداشت کی واپسی ان کی ثقافتی بے دخلی کے تجربے کو ایک شدید نفسیاتی بحران میں تبدیل کردیتی تھی۔ ایسے میں وہ نو آبادیاتی جدیدیت سے گریز اختیار کرتے تھے ،اور طوفان میں گھرے جہاز کے مسافروں کی طرح انھیں ایک محفوظ لنگر کی تلاش ہوتی تھی۔ یہ لنگر غالب نے فراہم کیا۔یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کا شاید ہی کوئی نقاد اور تخلیق کار ہو جس نے غالب کی جدیدیت کو نہ سراہا ہو!سوائے ان چند نقادوں نے جنھوں نے ’مابعد الطبعیاتی روایت‘ کا علم بلند کیا، جن میں حسن عسکری، سلیم احمد اور جیلانی کامران شامل ہیں۔
حوالہ جات :
۱۔ یوسف حسین خاں، غالب اور آہنگ غالب، غالب اکیڈمی ، نئی دہلی، ۱۹۷۱ء (۱۹۶۸ء)ص۵۳
۲۔ ایضاً، ص ۲۲
۳۔ ایضاً
۴۔ غالب، دستنبو (ترجمہ شریف حسین قاسمی ،غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، ۲۰۰۷ء، ص ۷۸
۵۔ پرسیول سپیئر،Twilight of Mughal،اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی ۱۹۷۳ء،ص ۳۸
۶۔ مارگریٹ پرنائو،The Delhi College،اوکسفرڈ،ص ۱
۷۔ مالک رام، قدیم دلی کالج، ص۲۲
۸۔ مولوی عبد الحق، مرحوم دہلی کالج، انجمن ترقی اردو، ہند،دہلی ،۱۹۸۹ء،ص ۱۶
۹۔ ایضاً،ص ۲۸
۱۰۔ ایضاً،ص ۶۵
۱۱۔ طاہر مسعود، ،اردو صحافت انیسویں صدی میں،مجلس ترقی ادب ، لاہور، ۲۰۱۶ء ص ۱۶۳۔۱۶۴
۱۲۔ ایضاً، ص ۱۶۹
۱۳۔ خلیق انجم ، غالب اور شاہانہ تیموریہ ،غالب انسٹی ٹیوٹ ، دہلی، ۲۰۰۹ء (۱۹۷۴ء)ص۲۱
۱۴۔ ایضاً
۱۵۔ غالب ، دستنبو، ص ۸۰
۱۶۔ ایضاً،ص ۱۰۵
۱۷۔ ایضاً،ص ۱۰۳
۱۸۔ ایضاً،ص ۸۳
۱۹۔ شمیم طارق ، غالب اور ہماری تحریک آزادی ،انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ،ممبئی،۲۰۰۷ء (۲۰۰۲ء)ص۲۹
۲۰۔ ڈاکٹر خلیق انجم ، غالب کا سفر کلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ ، غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی ،ص۷۵
۲۱۔ یوسف حسین خان،غالب اور آہنگ غالب، ص ۲۰۔۲۱

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں