دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
۔۔۔ یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
غالبؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا طالب علم ۔
دونوں جہان کیا ہیں ذرا یہ تو بتائیں
دنیا و مافیہا ہیں کیا؟ یا اور بھی کچھ ہیں؟
دوسراطالب علم ۔
محسوس و لا محسوس سمجھنے کی کیفیت؟
یا خاکی و عرشی ہیں، فقط ارض و فلک گیر؟
یا زیر زمیں سمک ہے، یعنی کوئی پاتال؟
ستیہ پال آنند (استاد)
کون و مکاں کہیں کہ سماوا ت ارض و د َیر
روئے زمین، زیرِ فلک، ساری کائنات
پہلا طالبعلم ۔
شاعر کے تصور میں فقط حاضر و موجود؟
یا مخفی و پنہاں بھی ہے اس اپنے جہاں سے؟
ــ’’سمجھے‘‘ـ سے کیا مقصود ہے، اک صاف ، سیدھی بات؟
یا صرف شُبہ، صرف تاثر، غلط؟ درست؟
دوسراطالب علم ۔
’’وہ ـ‘‘کون ہے جو جمع کے صیغے میں ہے مرقوم
کیا ایک ہے یا ایک سے زائد ہے یہ موصوف؟
ستیہ پال آنند (استاد)
یہ کیسے سوالات ہیں؟ اللہ مجھے بخش
تسلیم، اعتراض ہیں دونوں صحیح و راست
خالق کے لیے ـجمعـ کا صیغہ نہیں ہوتا
(اللہ فقط ایک ہے اور ایک رہے گا)
شاید ـسمجھنےـ سے ہی کھلے ـیہ نیا عقدہ
دوسراطالب علم ۔
اپنی نحیف عقل میں تو کچھ نہیں پڑتا
سمجھائیں کچھ تفصیل سے، اے محترم استاد
ستیہ پال آنند (استاد)
دہلی کے گلی کوچوں کی ٹکسالی زباں میں
’’ــوہ سمجھے ہےـ‘‘ شاید ہو یہ جملے کا مخفف
دوسراطالب علم ۔
اک گردش ِ معکوس ہے جملے کی حقیقت
پہلا طالب علم ۔
کیا واقعی یہ صیغہ واحد میں ہے، استاد؟
ستیہ پال آنند (استاد)
اب کیا کہوں میںخود بھی پریشان ہوں، بچو
بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں غالب کی زباں میں
ـ’’گنجینہٗ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے‘‘
پہلا طالب علم ۔
گویا کہ جو بھی سمجھیں ، سبھی نا درست ہے
دوسراطالب علم ۔
یا جو بھی سمجھیں ایک وہی ہے صحیح و راست
ستیہ پال آنند (استاد)
چھوڑو بھی اب یہ مسخرہ پن، کھیل، تفرج
اچھی نہیں ہےحضرتِ غالبؔ سے چھیڑ چھاڑ ِ
دوسراطالب علم ۔
فرمائیں آپ، ہم ہمہ تن گوش رہیں گے
ستیہ پال آنند (استاد)
اب آئیں، ذرا دیکھیں یہ آسان سے الفاظ
جانچیں تو ذرا ’’شرم‘‘ اور ’’تکرار‘‘ کی قیمت
نو زائدہ انساں ، کہ اک مسکین سی مخلوق
خالق کے سامنے کھڑا یہ خاک کا پُتلا
کیسے بھلا ’’تکرار‘‘ کی حامل ہو یہ مورت؟
تھا ضبط و متانت کی اک تصویر سراسر
اللہ سے خیرات کا طالب، یہ بھکاری
اس وقت تو خاموش رہا، سہما ہوا سا
ہاں چار عناصر کا دھڑکتا ہوا یہ بُت
اللہ کا ہی روپ تھ ا، یہ بھولتا کیسے؟
(بس ’’نور‘‘ــ فقط ’’نورــ‘‘کی تھی اس کو ضرورت)
دوسراطالب علم ۔
ہے آدمی کا پُتلا، برافگندہ، بے نقاب
اللہ کے حضور میں ،بے پردہ، ، سر جھکائے
پہلا طالب علم ۔
وہ چاہتا تو اپنا سر ِ ِ عجز جھکاتا
تعظیم سے پھر کہتا، ’’یہ کافی نہیں، مولا
دونوں جہان؟ ہاں مگر یہ خاک بسری تو
مجھ آدم ِ خاکی کے لیے کچھ بھی نہیں ہے
کچھ ’’نور‘‘ کا عنصر بھی مجھے دیں، مرےمعبود‘‘
ستیہ پال آنند (استاد)
کیا خوب! خوشا ! نام ِ خدا! واہ، مرے بچو
لیکن،ضرور یاد رہےیہ ادائے خاص
آدم سے کہلوائی ہے غالب نے کیسی بات
یاں آپڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اس نظم میں دو بحور کا اشتراک اور اس پر مبنی استعمال روا رکھا گیا)