از يوسف خالد
شکیب جلالی
—————-
ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی مسائل کا سبب بنتا ہے-جب سوچنے سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت چھن جائے تو تہذیبی و تمدنی اعتبار سے قومیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں-زوال پذیرمعاشرے کے افراد زندگی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے اور یوں انفرادی سطح کا یہ المیہ اجتماعی صورت اختیار کر کے ایک انتہائی تاریک منظر پیش کرنے لگتا ہے-شاعر چونکہ معاشرے کا حد درجہ حساس فرد ہوتا ہے ایسی صورت میں وہ شدید ذہنی و نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے-
شکیب جلالی مرحوم کی زندگی کے اوراق کا اگر مطالعہ کی جائے تو یہ بات صاف عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ ایک ایسا تخلیق کار تھا جو ایک طرفہ مٹتی ہوئی اقدار کا نوحہ لکھ رہا تھا تو دوسری جانب نئی سحر کے خواب دیکھ رہا تھا-اس کے سامنے غزل کی شکل میں ایسی شاعری کا انبار لگا ہوا تھا جس میں جا بجا غیر حقیقی منظر نامہ کی جھلک نظر آتی تھی-زندگی کے اصل مسائل،انسانوں کے دکھ،اور انسانوں کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دینے والی اذیتوں کا ذکر شاعری میں بہت کم تھا-ان حالات میں شکیب نے اپنا شعری سفر شروع کیااور اپنے خوبصورت اور توانا لہجے سے اردو غزل کو نئی زندگی دی،فکر و خیال کو نئے ڈھنگ اور اسلوب سے انفرادیت بخشی مگر خود شکیب جلالی جس کی بدولت اردو غزل کو نیا بانکپن ملا،انتہائی تکلیف دہ حالات سے دو چار رہا-وہ زندگی کی خوبصورتیوں ،رعنائیوں اور خوشبوؤں سے اپنی تخلیقی قبا کو مزین کرنا چاہتا تھا-وہ عمر عزیز کے چند سال ہی خوش دلی سے گزار سکا-
اس کی غزل کی اٹھان اور دلکشی یوں شعری پیکر میں ڈھلی-
اس گل بدن کی بوئے قبا یاد آ گئی
صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آگئی
یہ کون زندگی میں نشہ گھولنے لگا
کس کی ادائے ہوش ربا یاد آگئی
یاد آگئے کسی کے تبسم خراش لب
کھلتے ہوئے کنول کی ادا یاد آگئی
شکیب کا شعری سفر نئی منزلوں کی کھوج میں جاری تھا-نئے جہانوں کی ان دیکھی تصویریں اور مناظر اس کے ذہن کے کینوس پر ابھر رہے تھے اس کا قلم بے صدا ماحول کو صدا بخش رہا تھا اور اردو غزل کا دامن مالا مال ہو رہا تھا کہ دوستوں اور رشتہ داروں کی بے رحم تعلق داریوں نے اس کے حساس دل کو چھلنی کر دیا اسے زخموں سے چور چور کر دیا اور یوں نغمات محبت رقم کرنے والا شکیب زندگی کا نوحہ گر بن گیا-
جاتی دھوپ اپنے پروں کو سمیٹ کر
زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کر
میں ہاتھ کی لکیریں مٹانے پہ ہوں بضد
گو جانتا ہوں نقش نہیں یہ سلیٹ کے
شکیب بڑی خاموشی سے تنہائیوں کی دلدل میں اترتا چلا گیا اور ایک آہِ سرد بھر کر اپنی داستاں رقم کر گیا-
بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے
ہم دل کے سلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں
–
یہی دیوارِجدائی ہے زمانے والو
ہر گھڑی کوئی مقابل میں کھڑا رہتا ہے
سارے در بند ہوئے شہر میں دیوانے پر
ایک خوابوں کا دریچہ ہی کھلا رہتا ہے
—
شکیب کی غزلوں کا اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ حساس فنکار اپنوں کی بے حسی کے سامنے خود کو مربوط نہ رکھ سکا اور ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتا رہا-اور اپنا درد بیان کرتا چلا گیا-
دوست داری کا تقاضا ہے کہ میں کچھ نہ کہوں
آستینوں کے مکیں ہیں مجھے ڈسنے والے
—
شکیب جلالی غزل کی آبرو تھا اس نے نئی تراکیب اور خوبصورت لفظیات سے غزل کا پیکر سنوارا مگر خود ریزہ ریزہ ہوتا چلا گیا-اس کے اشعار سے اس کی ذہنی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے-زمانہ کی ناقدری نے اس بے ضرر انسان کو اتنی کچوکے لگائے کہ اس کا پیرہنِ زیست تار تار ہو گیا اور اسے زندگی موت سے بھی بد تر نطر آنے لگی-ان حالات میں شکیب نے اپنا مستقبل جان لیا تھا اور شاید وہ پوری جرآت کے ساتھ موت کو گلے لگانے کے لیے تیار ہو گیا تھا اس کی خودکشی کسی وقتی ابال یا جذباتی فیصلے کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ ایک سوچی سمجھی ایسی کوشش تھی جسے اس نے بے حس معاشرہ کو بیدار کرنے کے لیے آخری کوشش کے طور پر اختیار کیا تھا اور اس خیال سے وہ آگے بڑھا کہ میرے بعد کسی اور شکیب سے یہ زمانہ بے اعتنائی نہ کر سکے گا اس نے موت کو گلے لگا یا اور امر ہو گیا-
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدودِوقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
یوسف خالد