سید نصیر شاہ نے نظم کی تمام مروجہ اصناف خصوصاًمثنوی ،قطعہ بند،آزاد اور معرانظم نگاری میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے پہلے شعری مجموعہ ”گھر سے نکلے تو۔۔۔“میں بیشتر نظمیں شامل ہیں۔کتاب کے سرورق پر١۹۴٦تک کے دستیاب کلام کا انتخاب،لکھا گیا ہے مگر اس میں۲۰۰١ءاور اس کے بعد کی چند نظمیں بھی شامل ہیں۔ اسے نیازمانہ پبلی کشنز لاہور نے ۰۱۰۲ءمیں شائع کیا تھا۔شاہ صاحب کی نظموں کا دوسرامجموعہ”ہمیں سن لو“ کے نام سے نیا زمانہ پبلی کیشنز لاہور نے۲۱۰۲ءمیں شائع کیاتھا۔اس میں بعد کے دور کی نظمیں شامل ہیں۔
”گھر سے نکلے تو “ میں زیادہ تر پابند نظمیں ہیں۔اس مجموعے میں شامل نظموںسے اس زمانے کے ان طبعی میلانات اور ادبی رجحانات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے جنسے شاہ صاحب آگاہ اور متاثر تھے۔شاہ صاحب نے جب پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں نظم کہنا شروع کی تو اردو نظماپنا ایک عہد مکمل کر چکی تھی۔اس دورمیں الطاف حسین حا لی اور محمد حسین آزادسے شروع ہونے والی اردو نظم چکبست،اقبالؒ،جوش،حفیظ،ساغر،اختر شیرانی اوراحسان دانش تک کا سفر بڑی تیزی سے طے کرتی ہوئی ن م راشد،میرا جی ،فیض،ندیماور دوسرے ترقی پسند شعرا کے دروازوں پر دستک دے رہی تھی ۔یہ شعراآئندہ کی نظممیں نئے امکانات تلاش کر کے کام شروع کر چکے تھے۔احسان دانش تک مکمل ہونےوالے اس دور میں نظم میں سیاسی شعور بیدار ہوا،حب وطن کے جذبے نے فروغ پایااورقومی و ملی شاعری ہونے لگی۔نظم میں حسن و عشق کی باتیں بھی ہوئیں اورزندگی کے
تلخ حقائق بھی بیان ہوئے اور انقلاب کے نعرے کی صدائیں سنائی دینے لگیں۔اردو نظم کا یہ نیا دور جس کی بازگشت شاہ صاحب کو سنائی دینے لگیتھی۔موضوع اور تکنیک دونوں سطحوں پر بغاوت کا دور تھا ۔اس دور میں فنی سطح پراردو نظم میں نت نئے تجربے کئے گئے۔اردو نظم میں ہندی عروض(پنگل )متعارفہوا۔مغربی شاعری سے استفادہ کیا گیا۔چنانچہ غیر مقفٰی نظم(BLANK VERSE) لکھیگئی۔نظمِ معریٰ اور آزاد نظموں کے تجربے ہوئے۔موضوعی سطح پر ن م راشد اور میراجی کے ہاں جنس نگاری کا رجحان پیدا ہوا۔انقلاب کی اٹھنے والی آوازیں ترقی پسند ادبکی تحریک میں شامل ہوگئیں۔مزدور ترقی پسند ادب کے اہم کردار کے روپ میں سامنےآیا اور نظم و غزل میں زندگی کے تلخ حقائق کے بیان اور مقصدیت کو اولیت دی جانےلگی۔
اس وقت میانوالی کی ادبی فضا میں تازہ ہوا کے جھونکے کم کم ہی آتے تھے۔لیکنایک سچے محقق اور شاعر تک پہنچنے کے لیے یہ جھونکے راہ ضرور پا لیتے تھے۔چنانچہ شاہ صاحب پرعلامہ اقبال کے بعد سب سے زیادہ اثرات ترقی پسند تحریک کےمرتب ہوئے۔شاہ صاحب کی مطبوعہ نظموں کا مطالعہ ان کی نفسیات اورفن کے متعدد
پہلووٴں کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ شاہ صاحب کی ایک نظم ان کے پورے علمی وادبی کامکا جامع تعارف ہے۔یہ نظم،غزل کی ہیئت میں ہے۔ اس میں تعلّی کے انداز میں انہوں نےاپنے پورے علمی وادبی کام کا جامع تعارف کرایا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ان کے سوچنےاور لکھنے کا انداز ہمیشہ الگ رہا ہے اور وہ ان راہوں پر کبھی نہیں چلے جنہیں لوگوںنے پامال کیا ہو:۔
گھر سے نکلے تو یہی رختِ سفر اپنا تھا
منفرد ذہن تھا،انداز نظر اپنا تھا
سوچ منت کش اغیار نہیں تھی اپنی
اور لوگوں سے الگ سوچ نگر اپنا تھا
پشت افکار پہ پشتارہٴاوہام نہ تھا
بس یہی جراٴت تحقیقِ ہنر اپنا تھا(۱)
علم کا سفر کیسے اور کہاں شروع ہوا۔اس بارے میں کہتے ہیں:۔
شب گذر جاتی ستاروں کی تلاوت کرتے
اور پھر دفترِ انوارِ سحر اپنا تھا
فلسفہ اخذ کیا کچے گھروں کی چھت سے
سارا ماحول ہی تو خاک بسر اپنا تھا
نظم کے بقیہ اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاہ صاحب نے فطرت کا مطالعہ کیااوراس انسان کے دکھ سمجھنے کی کوشش کی جو تیسری دنیا کی دکھوں بھری زندگیبسرکر رہا تھا۔جس کی تہذیب خاک بسر اور تمدن نگو ںسار تھا۔شاہ صاحب کے بقولکاغذ کے گھروں میں رہنے والا تیسری دنیا کا یہ انسان جو اپنے آپ سے برسر پیکار ہے
۔بغاوت نہیں ،خود کشی کر سکتا ہے:۔
اپنی تلوار کی زد میں رہی گردن اپنی
اپنے تیروں کا ہدف بھی تو جگر اپنا تھا
عمر بھر غیر پہ کنکر بھی نہ پھینکا ہم نے
کس طرح پھینکتے کاغذ کا ہی گھر اپنا تھا
یہ تو ہم خود ہی اسے دار پہ رکھ آئے ہیں
دوش پہ بار تھا کوئی تو یہ سر اپنا تھا
اسی مزاج کی ایک اور نظم”میری شاعری “ (۲)ہے۔اس طویل نظم میں انہوں نےبتایا ہے کہ ان کی شاعری مقصدیت کی علمبردار ہے اور ادب برائے زندگی کی نقیبہے ۔شاہ صاحب اپنی گفتگو میں اس بات کے قائل ہیں کہ کوئی ادب برائے ادب کا قائل ہویا ادب برائے زندگی کا اس کی تخلیق کو پہلےً ادب ہونا چاہیے۔اسی اصول کے تحتہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کہیں ان کی شاعری محض پروپیگنڈا تو نہیں بن جاتی۔نظم”میری شاعری“میں انہوں نے اپنی ذات کے کچھ گوشوں پر سے نقاب کشائی کی ہے اوراپنی شاعری کا رخ متعین کرنے کی کوشش کی ہے مگر یہ اس دور کی نظم ہے جب وہجماعت اسلامی کے”اسلامی ادب“ کی تحریک سے متاثر تھے۔یہ نظم مثنوی کی ہیئت میںلکھی گئی ہے۔اس کی تمہید کچھ یوں ہے :
یہ مانا ناچتے ہیں میکدے ان کی نگاہوںمیں
نہ مانگو مجھ سے سجدے حسن کی ان بارگاہوں میں
نہ مانگو مجھ سے نازک شاعری بے نام خوابوں کی
گلوں کی ،بلبلوں کی اور طاوٴسوں ربابوں کی
نہ مانگو یہ شباب وشعر کے رنگین افسانے
کہ میں ہر گام پر ٹھکرا دیا کرتا ہوں پیمانے
میں زلفوں کی گھنیری چھاوٴں میں سستا نہیں سکتا
جو چاہوں بھی تو ہونٹوں کے قصیدے گا نہیں سکتا
ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟وہ آگے چل کر اس کا جواب دینے کی کوشش کرتےہیں۔ناممکن کو ممکن بنانے اور آگ میں کود کر اسے گلزار بنانے کی کوشش،پیہمجدوجہد کا تقاضا کرتی ہے اوریہ جدوجہد جوانی میں ہی ممکن ہے ۔جوانی عزم وعمل پراکساتی ہے ۔اس کے لیے گرجتی توپوں اور دھاڑتے طوفانوں سے ٹکرا جانا ایک کھیلہے۔جس آدمی کے پاس جوانی جیسا شعلہ، در دست اور آتش بداماں سامان ہو وہ شراب وشباب میں بھلا کیوں ڈوبے:
میں اس شعلے کو غرقِ جامِ و مینا کر نہیں سکتا
مجھے معذور سمجھو میں بتوں پر مر نہیں سکتا
اگلے بند میں اپنے علم کی طاقت اور طاقتور قلم کی بات کرتے ہیں۔وہ طاقتور قلمجو چاہے تو سنگ وآہن کا کلیجہ چیر ڈالے:
قلم پامال کر سکتا ہے شان کجکلاہی کو
الٹ سکتا ہے اپنی جنبشوں سے تخت شاہی کو
قلم جو کھیل سکتا ہے شہنشاہوں کے تاجوں سے
جفا کی آمریت سے ستم کے سامراجوں سے
ان اشعار میں شاعر پر آئندہ وارد ہونے والے ترقی پسندانہ شعور کی دھمک صافسنائی دے رہی ہے۔اگلے بند میں بھی وہ اپنے تخیل کی بلند پروازی کا دعویٰ کرتےہوئے کہتے ہیں کہ یہ وہ تخیل ہے جو صرف خوابوں میں مدہوش نہیں رہتا بلکہ اس میںاتنی قوت ہے کہ یہ اپنے خوابوں کو خود تعبیر دے سکتا ہے ۔شاعر اسے کسی قیمت پرگل وبلبل کی فرسودہ شاعری میں ڈبونے کو تیار نہیں ہے :
میں اس کو وقفِ خالِ روئے تاباں کر نہیں سکتا
خدا کا یہ عطیہ نذرِ شیطاں کر نہیں سکتا
یہ زنگ آلودہ سی نغمہ سرائی ہو نہیں سکتی
شہنشاہ تخیل سے گدائی ہو نہیں سکتی
شاہ صاحب نے حمد بھی کہی۔”حمدِرب ذوالجلال “کا یہ شعر کتنا پیارا اور انوکھاہے:
”ملکہ ہانس “ میں وارث شاہ کو بخشے بھاگاں بھریاں تو
پیر فرید کو روہی میں دے”پیلو چنتی پریاں تو
اللہ اللہ اللہ ھو۔۔۔لا الہ الا ھو
مدح رسولﷺ میں شاہ صاحب منفرد راہ اپناتے ہیں۔”حمدمحمدﷺ“ (۳)کے نام سےنعت کے اشعار دیکھیے:
تجھ سے دلاسے مانگ رہے ہیں سب بھوکے انسان
پیٹ پہ پتھر باندھنے والے دو جگ کے سلطان
میری خاطر رونے والے میں تیرے قربان
دنیا بھر کے کمزوروں کو تیرے زور کا مان
نبی جی ۔۔اللہ اللہ ہو ۔۔لا الہ الاھو
پرجا کے دکھ درد سمیٹے تیرا سندر راج
سب کی راہ کے کانٹے چن کر تو نے بنایا تاج
قیصر و کسریٰ ہوں تیرے درویشوں کے محتاج
اور بلالوںؓ کو کر ڈالے شاہوں کا سرتاج
نبی جی ۔۔اللہ اللہ ہو ۔۔لا الہ الاھو
شاہ صاحب کے ہاں،نعت کا یہ انداز عام طور پر کہی گئی نعتوں سے مختلفہے۔واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ وہ نعت کے انداز میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔اسسلسلے کی ایک نظم”کہکشاں“ ہے،جس میں پہلے حضورﷺ کی ایک حدیث کا ترجمہ آیاہے اور پھر اس کے انقلابی پہلووٴں کو اجاگر کرنے کے لیے ایک دو شعروں میںاختصار اور جامعیت سے بات کہ دی گئی ہے۔
شاہ صاحب کی چار نظمیں خلفائے راشدینؓ کے وہ خطبات ہیں جو انہوں نے خلیفہیا امیرالمومنین مقرر ہونے پر دیے تھے۔یہ ان خطبات کا منظوم لفظی ترجمہ نہیں ہےبلکہ مفہوم کی فصیح و بلیغ ترجمانی ہے۔جناب صدیق اکبر کا فرمان مبارک کچھ انالفاظ میں منظوم کرتے ہیں۔(۴)
مجھ کو جو منصب ملا میں نے کبھی مانگا نہ تھا
زندگی جس موڑ پر آئی کبھی سوچا نہ تھا
میرے سر پر کیوں یہ کہسارِ امانت رکھ دیا
ناتواں کندھوں پہ کیوں بارِ امانت رکھ دیا
جانشینی اور وہ بھی احمدِمختار کی
مجھ سے کب تقلید ہو پائے گی اس سرکارکی
اڑ چکے شہباز جن میں، کل، بصد عزو وقار
ان فضاوٴں میں مگس کو کب ملا ہے اعتبار
پھر بھی میرے دوستو ہوں گی یہ میری کوششیں
کوئی کوتاہی نہ آجائے کبھی پرواز میں
نقش پائے مصطفی میرے بھی ہوں گے رہنما
رہبری میری کرے گا وہ مقدس پیشوا
اس کے بعد کے اشعار میں امیر المومنین لوگوں سے کہتے ہیں کہ وہ ان پر کڑینظر رکھیں اور کھل کر تنقید کریں تاکہ وہ راہ حق سے بھٹک نہ جائیں ۔اس نظم کےآخری دو اشعار درج ذیل ہیں۔
آو مل کر ختم کر ڈالیں جہاں سے ظلمتیں
آو ہر بستی میں سچائی کے سورج بھیج دیں
دوستو مل کر دعا مانگو یہ میرے واسطے
رب کرے آسان مجھ پر حق کے مشکل راستے
حضرت عمر فاروقؓ (۵)کے خطبہ میں آپ کا جلا ل لفظوں میں منتقل ہوا ہے۔حضرت عمر فاروقؓ کے بعد چونکہ مسلمانوں میں افتراق واختلاف راہ پا گیا تھا اور ا سفتنہ کی انتہا حضرت عثمانؓ کی شہادت پر ہوئی، اس لیے حضرت علی کے خطبہ کےالفاظ میں اس کی عکاسی نظر آتی ہے۔(٦)چنانچہ مسلمانوں کے زوال کا عکس خطبہ میںپوری طرح منعکس ہے ۔
ہو گیا ہے آج خورشید اخوت سر نگوں
اے مدینہ تیری ارضِ محترم اور غسلِ خوں
کس کی شامت آگئی ہے کس کے سر پہ بن گئی
کیوں کلیجا تیرا کٹ جاتا نہیں ارضِ عرب
دین پر یہ کیسے دن افتاد بن کر آپڑے
کس کی شہ رگ پہ یہ کس کے دانت آکر گڑ گئے
بھائی بھائی کا ہے دشمن دیکھ اے بطحا کی خاک
اب اخوت کی قبا ہر چوک پر ہوتی ہے چاک
حضرت علیؓ کی خلافت کا آغاز ہی مشکل حالات میں ہوا تھا۔چنانچہ خطبہ علیالمرتضیٰ میں کہتے ہیں:
اور ان حالات میں مجھ کوخلافت کا خراج
سج رہا ہے میرے بوڑھے سر پہ انگاروں کا تاج
اس خطبہ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اس وقت معاشرہ زر پرستی میںمبتلا ہو گیاتھااور مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب سرمایہ دارانہ جذبات کا معاشرہ پرمسلط ہو جانا تھا۔یہ زوال جو شہادتِ حسین سے شروع ہوا ،بڑھتا ہی چلا گیا اور اس کیانتہا اس وقت ہو گئی جب باطل فوجیں جنابِ حسینؓ کے خلاف صف آرا ہوئیں۔جبر کے طوفان گھٹا کر کے آئے اور حق اور سچ کا چراغ بجھا دینے کی کوشش کی۔
شاہ صاحب نے ایک طویل نظم میں جناب امام حسین ؓکی بارگاہ میں منظوم ہدیہء عقیدت بھی پیش کیا ہے۔ امام عالی مقامؓ پر مختلف زبانوں میں اتنی نظمیں کہی گئی ہیں کہ ا گر ان سب کو جمع کیا جائے تو میرا خیال ہے، لائبریریوں کا ایک بڑا شہر آباد ہو جائے گا ۔صرف اردو زبان میں اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ کئی کمرے بھر سکتے ہیں۔پھر یہ موضوع اتنا عظیم ،اتنا وسیع اور زرخیز ہے کہ غالباً کبھی اس کا احاطہ نہ ہو سکے۔اس موضوع پر شاعر بے پناہ مبالغہ کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر مبالغہ ہیچ ہے۔مبالغہ پیچھے رہ جاتا ہے اور موضوع اس سے بہت آگے تک پھیلا ہو تا ہے ۔ بلاشبہ تاریخ میں حق و صداقت کے لیے قربانیاں دینے والوں کی تعداد بے شمار اور لا انتہا ہے مگر سب قربانیاں جناب حسینؓ کی قربانی کے سامنے ہیچ نظر آتی ہیں۔کیونکہ لوگوں نے تو محض اپنی جانوں کے عظیم نذرانے پیش کئے مگر جناب حسین ؓ نے اپنے بچے ،بہن ،بھائی اور اپنے خاندان کے اکابرو اصاغر تک ذبح کرا دیے۔بلاشبہ یہ قربانی ”ذبح عظیم “تھی اورذبح عظیم“ ہے ۔پھر اس قربانی کی بے مثالیت،ا سکی لاثانیت،اور اس کا یگانہ پن دیکھئے کہ قاتل قولِ حسین کے منکر اور دشمن نہیں۔وہ بھی وہی کلمہ پڑھ رہے ہیں جس کے اعلااور علو کے لیے حسین ؓخاندان ذبح کرا رہے ہیں۔ان کی زبانوں پر بھی حسینؓ کے پاک نانا ﷺکا کلمہ ہے ۔وہی کلمہ جسے پڑھ لینے کے بعد ایک کافر، مومن بن جاتا ہے۔یہ وہ موضوع ہے جو دنیا بھر کے لکھنے والوں کے لیے چیلنج ہے۔ یہ موضوع اعلان کر رہا ہے کہ اے شعرائے عالم لکھو جو لکھ سکتے ہو ۔مبالغہ میں تمہارا خیال جہاں تک جاسکتا ہے،پرواز کر جائے۔اور اپنی زبان میں تمہارے پاس جتنے ارفع الفاظ ہیں،وہ سب استعمال کردو مگر میرا حق ادا نہیں کر سکو گے۔اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ہر شاعر نے اپنی بلند خیالی کی انتہا کر دی مگر ´حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ۔شاہ صاحب نے اس موضوع پر جو کچھ لکھا ہے اس میں
انفرادیت ہے۔اپنی ایک طویل نظم” فلسفہ کربلا“ (۷)کی ابتدا یوں کرتے ہیں۔
کربلا،پانی،حسین
دھوپ،صحرا اور تپاں تشنہ لبی
قبضہ اعدامیں دریائے فرات
یہ کہانی اتنی سادہ تو نہیں
اے مورخ روک دے اپنا قلم
تجھ پہ واضح ہی نہیں ہے کربلا کا فلسفہ
لے کے مفروضات کے انبار کو
کس لیے دفتر کے دفتر لکھ دیے
وقت کے سیلِ رواں سے پوچھ لے
اس قبیلے کے لیے
کیا رہا پانی بھی کوئی مسئلہ
اس قبیلے کا حوالہ دے کے لوگ
مانگتے تھے، رب سے بارش کی دعا
میرا تو ایمان ہے میرا حسین
آسماں کو حکم دے دیتا اگر
وہ وہیں ارشاد کی تعمیل میں
ساگروں کو بادلوں میں ڈھالتا
اور سب رحمت کی بھوری بدلیاں
ہدیہ حسنِ عقیدت کی طرح
ایک لمحہ میں وجود اپنا بھی کردیتیں نثار
اور وہ لکھا تھا جس نے حکم آب نیل کو
کہ رہا تھا کل وہی حسنین سے
مجھ کو دستاویز لکھ دیجے حضور
یہ کہ میں ہوں آپ کا ادنیٰ غلام
میرا تو ایمان ہے میرا حسین
گریہ کہ دیتا کہ اے نہر فرات
میرے خیموں میں کہیں پانی نہیں
مضطرب موجیں تڑپ کر توڑ کر ساری حدود
کرکے غرقِ آب، افواج غنیم
آکے خیموں کی طنابیں چومتیں
شاہ صاحب کی نظم اپنے اظہار کی اس بلندی پر میر انیس کی ہمنوائی کرتی نظر آتی ہے جنھوں نے کہا تھا۔
پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی
دریا سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی
یہاں شاہ صاحب، اس طرح ان تمام روایات کی شاعرانہ نازک خیالی کی تاریخی تصدیق سے استدلال کرکے بڑی روانی سے پانی کی کہانی کی تکذیب کرتے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔اب ایک اور واقعہ کو شہادت میں لا کر شاعر کی رفعتِ ِخیال کا نادر انداز ملاحظہ کیجیے:
اس قبیلہ کے کسی معصوم بچے کو اگر
چھیڑ دیتی ہے کبھی بھی تشنگی
مارتا ہے اپنی ریشم ایڑیوں کی ٹھوکریں
اور زمیں زمزم اگل کر فخر سے
مسکرا کردیکھتی ہے عرش کو
میرا تو ایمان ہے اصغر اگر
اس روایت کو عطا کرتا ذرا سی تازگی
اک نئے زمزم سے پھر سرشار ہوجاتی زمیں
شاہ صاحب اس طرح ”پانی کی کہانی “ ختم کر کے” دھوپ کی شدت “ کے موضوع کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔یہاں بھی تاریخی روایت سے استدلال کر کے ”عام کہانی“ سے اختلاف کیا گیا ہے:
داستاں گو دھوپ کی شدت بھی کوئی چیز ہے
اس قبیلہ کے جواں تو آگ سے ڈرتے نہیں
یہ چتا میں بے تامل کود کر
ڈھال لیتے ہیں ا نگاروں کے گلاب
اور سورج بھی تو ہے ان کے اشاروں کا غلام
ان کی انگلی کا اشارہ پائے گر
بھول جاتا ہے نظام دہر کی پابندیاں
ڈوب کر پھر سے پلٹ آتا ہے وہ
اک نماز عصر آخر کیسے ہو جائے قضا
کربلا میں بھی تو سورج تھا وہی
کیا مجال اس کی تمازت اتنی گستاخی کرے
اس کے بعد شاعر اس بات کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ کیا عام روایت کی طرح یہ کوئی امتحان تھا ؟
یہ بھی کہتے ہو کہ دشت ِ کربلا تھا امتحاں
کیا کہوں مجھ کو بھی اس سے ہے صریحاًاختلاف
تم کو بھی یہ علم ہے اور مجھ کو بھی معلوم ہے
ان نصابوں کا تو ہے خود ممتحن میرا حسین
حشر تک ہے خود حسینیت ہی ایماں کا نصاب
پھر یہ کیسا امتحاں اور پھر یہ کس کا امتحاں
حسینیت نصاب ہے اور اس نصاب کے امتحان کا ممتحن خود حسینؓ ہے ۔پھر خدا کس کا امتحان لے رہا ہے ۔شاہ صاحب نے یہاں کئی روایتی باتوں کی شاعرانہ استدلال سے تردید کی ہے۔مگر جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں یہ استدلال اس طرح کی روایت سے کیا گیا ہے جس طرح کی روایت عام طور پر کربلا کے باب میں بیان کی جاتی ہے ۔لیکن یہ واقعہ تو ہوا۔شاہ صاحب کے نزدیک اس حادثہ کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی کوئی خاص حکمت تھی۔
میں سمجھتا ہوں کہانی ہے بہت ہی مختلف
کوئی حکمت تھی وگرنہ کون کہتا ہے محمدﷺ کا خدا
اس قدر صبرو سکوں سے اتنے محشر دیکھتا
اشکِ صغریٰ کی طرح سورج ڈھلکتا چرخ سے
کب یہ ہمت تھی کہ زینب کا کھلا سر دیکھتا
اس سے آگے کہتے ہیں:
میں تو کہتا ہوں کہ ساری دولتِ کونین بھی
غمزدہ زینب کے اک آنسو کی قیمت بھی نہیں
ان اشعار کے بعد شاعر کوشش کرتا ہے کہ اس گنجھل راز کا کوئی تارعلیحدہ کر سکے:
بس یہ حکمت تھی کہ یہ تھا فدیہ ذبح عظیم
جس کے اسرارو معارف کو ابد تک آدمی
استطاعت بھر سمجھتا جائے گا
تب سے میرے عہد کے انسان تک
بس یہی مفہوم ہو پایا عیاں
خونِ اہل بیت سے میرا حسین
لکھ گیا انسان کی خاطر ایک منشور ِحقوق
آمریت پر بھی کر دی ثبت مہرِ اختتام
دے گیا آزادیء فکر وضمیر
سوچ اور اظہار کے الفاظ کو
حرمتوں سے بہرہ ور کرتا گیا
آدمی کو برملا تکریم اور توقیر سے
بختور کرتا گیا اور تاجور کرتا گیا
میں نے دیکھا
مشرق ومغرب میں آزادی کی ہر تحریک کا
قائدِ اول ہے اور سالار اعظم ہے حسینؓ
کل کے انساں پر یہی معراجِ تسلیم ورضا
منکشف کرتی چلی جائے گی اپنے اور اسرارو رموز
شاہ صاحب نے ”CANTICALS“(۴۲)کے نام سے چند دعائیہ نظمیں بھی کہی ہیں۔”CANTICALS“مختصر دعائیہ نظموں کو کہتے ہیں،مگرشاہ صاحب کی ان نظموں میں انسانیت کا دکھ سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔اس سلسلہ کی ایک نظم دیکھیے:
اے خداوند! اے خدائے رحیم
کھردرے ہاتھ جن کی فنکاری
بُن رہی تھی حسین دوشالے
پوستینوں سے کانپ کر نکلے
بستیاں ہیں عذاب کی زد میں
تو بچالے انہیں اے ربِ کریم
شاعر کے ذہن میں کشمیر کے اور دنیا بھر کے مظلوم انسانوں کی چیخیں گونج رہی ہیں:
اے خدا وندِ قادر وقیوم
ہے چناروں کے لالہ زاروں میں
رقص وحشت مآب شعلوں کا
پھول بادام کے کفن بردوش
سنگ وآہن کی بارشیں پیہم
زلزلوں سے چٹختی دھرتی
کرب زار ہچکیوں کے زیر وبم
ہائے عادو ثمود جیسے تو
میرے مولا کبھی نہیں تھے ہم
تو تو کہتا ہے ہم کو حاصل ہے
ایک ملجائے رحمتِ عالم
کر نہ رحمت سے تو ہمیں محروم
ان نظموں میں طرزِ بیان کی جدت بھی ہے اور فکر کی روشنی بھی صاف دکھائی دے رہی ہے۔صاف محسوس ہو رہا ہے کہ شاعر ترقی پسندانہ شعور کی دنیاوں میں داخل ہو رہا ہے ۔مندرجہ بالا تمام نظموں سے واضح ہے کہ شاہ صاحب زندگی کی محرومیوں اور درماندگیوں پر ماتم کناں ہرگز نہیں بلکہ اپنے قاری کو تسلی اور دلاسا دے کر اندھیروں سے جنگ کرنے اور روشنیوں میں غسل کرنے کی جدوجہد پر اکسار ہے ہیں۔اسی طرح بدامنی،وحشت خیز دہشتیں اور عدم تحفظ کا کانپتا احساس جب معاشرے پر اپنے منحوس سائے پھیلا دیتا ہے تو شاہ صاحب کے الفاظ آنسو بن کر آنکھوں سے بہنے لگتے ہیں۔ایک CANTICAL دیکھیے:
اے خدا وند
خوف کے عفریت
پھر رہے ہیں گھروں میں ،گلیوں میں
بے سکوں ہیں دماغ پھولوں کے
بے اماں دہشتیں ہیں کلیوں میں
اے خداوند بستیوں میں کب
تیری رحمت کا نور برسے گا
CANTICALSکے بعد شاہ صاحب نے ایک اور صنف LABIALS میں بھی طبع آزمائی کی ہے LABIALS))
یہ مختصر دعائیہ نظموں کا ایک اور سلسلہ ہے ) ۸ (اس انگریزی لفظ کے معنی ”گھٹی گھٹی چیخیں“ ہے۔ان نظموں میں ان ذہنوں کے چند عجیب وغریب سوالات ہیں جو خدا کی حکمت کو سمجھ نہیں سکتے:
اے خدا وند سارے کوزہ گر
بال بچوں کا واسطہ دے کر
ملتجی ہیں کہ روک لے بادل
ٹال دے بارشیں بچا محنت
اب جو ہلکی پھوار بھی برسی
رائگاں جائے گا لہو اپنا
رزق کھل کے بنے گا پھر مٹی
ہم ٹھٹیروں پہ، ہم تھپیروں پہ
رحم کر محنتیں نہ غارت کر
اے خدا وند
کمتریں دہقاں
ملتمس ہیں کہ بارشیں برسا
کھیت پیاسے ہیں فصل جلتی ہے
سوکھتی بالیوں کو پانی دے
اے خدا وند محنتیں ساری
ہوں نہ برباد مہربانی کر
اس طرح کی ایک اور نظم دیکھیے:
ہیرو شیما کو ناگا ساکی کو
اے علیم وخبیر دیکھا ہے
اے سمیع وبصیر دیکھا ہے
یاد ہوگا ترے فرشتوں نے
خاک آدم میں تو ازل کے روز
وحشتوں کا خمیر سونگھا تھا
خونِ انساں کی باس سونگھی تھی
سب فسادِ ضمیر سونگھا تھا
یہ فراست بھی ان فرشتوں کو
خود تری ذات نے عطا کی تھی
تو نے خاموش کر دیا ان کو
اپنی حکمت سے تو ہی واقف ہے
میری دھندلی بصیرتوں پہ ابھی
تیری حکمت نہ ہو سکی روشن
ایک اور LABIAL دیکھیے:
بھولی بھیڑوں کے ریوڑوں پہ اور
بکریوں کے تمام گلوں پر
خود ہی چوپان حملہ آور ہیں
کھا لیا گوشت اور کھالوں سے
پوستینیں بنا کے بیچی ہیں
وہ دساور انہوں نے بھیجی ہیں
بھیڑیے بھوک سے پریشاں ہیں
رزق ان کا کہاں سے آئے گا
فطرت میں ایک جانور کی موت میں دوسرے جانور کا رزق اور زندگی پوشیدہ ہوتی ہے۔بڑی مچھلی چھوٹی کو نگل جاتی ہے ۔چیتا ہرن پر رحم کرے تو خود بھوکا مر جائے گا اور شیر اپنے شکار کے بغیر کتنے دن جی پائے گا ۔شاہ صاحب اسی موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک نظم میں کہتے ہیں:
دعائیں مورِ بے مایہ کی بادل گھیر لائی ہیں
بڑی ہی مضحکہ آمیختہ مسکان کی صورت
پھواریں بادلوں کی دامنِ شفقت سے گرتی ہیں
زمیں کی قوتِ تخلیق میں کوئی اضافہ تو نہیں ہوتا
مگر عاجز مکوڑوں کو پرِ پرواز ملتے ہیں
وہ اٹھتے ہیں کہ لطف اندوزہوں اپنی اڑانوں سے
ابابیلیں،ممولے،پیری جن،چڑیاں بہت خوش ہیں
اچانک ان کو اس کثرت سے ایسارزق ہاتھ آیا
کہ جس کی دستیابی کا تصور بھی نہ تھا ان کو
اسی سلسلے کی ایک اور نظم ملاحظہ ہو:
ہوا کی دوستی ہے آگ سے اور آگ کو دیکھو
ہوا کے زور پر ہی سارا جنگل چاٹ جاتی ہے
مگر اک تھر تھراتا سا دیا بھی تو ہوا نے ہی بجھا ڈالا
ضعیفوں اور کمزوروں کا ساتھی کون ہوتا ہے
ترقی پسندانہ سوچ اپنانے کے بعد کچھ عرصہ تک شاہ صاحب کے ذہن پر ساحر ،فیض اور ندیم چھائے رہے ،مگر بہت جلد انہوں نے اپنی منفرد طرز ادا اپنا لی۔اس دور کی ایک اہم نظم ”چاند پرجانے والوں سے “(۹)ہے۔اس نظم میں پہلے تو سائنسدانوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے اور ان کی عقلِ رسا کی کامرانیوں اور فتح مندیوں کا بڑے احترام سے اعتراف کیا گیا ہے پھر گریز سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں :
لیکن میں پوچھوں گا تم نے دھرتی کے مسائل سلجھائے
کیا عظمت ِآدم جاگ اٹھی کیا کم ہیں تشدد کے سائے
لاریب تمہاری حکمت نے تاروں کو فلک سے نوچا ہے
انسان کے دکھی سینے کا کیا تم نے مداوا سوچا ہے
اس نظم کے اختتامی شعر دیکھیے:
انسان کو تم نے کیا بخشا ماضی کی کہانی پوچھتی ہے
بتلاو¿ کہ ہیرو شیما کی برباد جوانی پوچھتی ہے
یہ علم تمہارا تھا جس نے وحشت کا بھی استقبال کیا
بدبخت زمیں کے چہرے کو تم نے ہی لہو سے لال کیا
ہوں تم کو مبارک پروازیںہاں چاند پہ پرچم لہراو
لیکن میں یہ کہتا ہوں پہلے دھرتی کے مسائل سلجھاوٴ
اس دور کی ایک اور نظم” بہت کچھ دیکھا“(١۰)ہے۔اس میںاپنے معاشرہ پر نگاہ ڈالی گئی ہے:
میں نے جمہور نوازوں کی حکومت دیکھی
ہائے وہ سانپ جو جمہور کا خوں پیتے ہیں
اپنے ہاتھوں سے انہیں زخم عطا کرتے ہیں
اور پھر آگ کے شعلوں سے انہیں سیتے ہیں
میری بد بخت نگاہوں نے بہت کچھ دیکھا
میرے محبوب وطن کی یہ جواں سال زمیں
اپنے موسم پہ ہرے کھیت اگلتی ہی رہی
اور یہ بھوک کی ماری ہوئی بے بس جنتا
سنگ ریزوں کو چباتی ہی نگلتی ہی رہی
میری بدبخت نگاہوںنے بہت کچھ دیکھا
یہ مرے دیس کی پرشور سی پرکار ملیں
روز کپڑوں کے کئی ڈھیر لگا دیتی ہیں
اور مجبور اجیروں کی ہی مائیں بہنیں
اپنی بانہوں سے ہی سینوں کو چھپا لیتی ہیں
میری بدبخت نگاہوںنے بہت کچھ دیکھا
یہ نظم معاشرتی ناسوروں پر بندھی ہوئی رنگین پٹیاں ہٹا ہٹا کرعفونت خیز گھاودکھاتی اور سماجی رویوں کا بھدا پن بے نقاب کرتی چلی جاتی ہے اور جگہ جگہ قاری کو اکساتی ہے کہ ان غلاظتوں کے خلاف جہاد کیا جائے اور انسانیت کو ان زخموں سے نجات دلائی جائے۔شاہ صاحب چونکہ کچھ عرصہ ساحر اور فیض سے بھی متاثر رہے، اس لیے چند نظموں میں متذکرہ شعرا کے رنگ وآہنگ کے اثرات اور خیالات اور طرزِاحساس کی یکسانی بھی ملتی ہے۔ان نظموں میں لفظوں کی مرصع کاری بھی ہے اور تشبیہات واستعارات پر بھی زور دیا گیا ہے:
تری نور پیشانی پہ زلفوں کے وہ پیچ و خم
کہ جیسے جوئے سیمیں کے کنارے ناگ جا بیٹھے
یا جیسے ارتقا کی ایک الٹی چال سے یک دم
شبِ دیجور بھی نورِ سحر کے پاس آ بیٹھے
ساحر کے خیال کا پرتو ایک نظم ”راگ اور آگ “(١١)میں دیکھیے:
گماں ہوتا ہے دنیا کو مرے باغی ترانوں سے
کہ نفرت ہے مجھے الفت کے رقصندہ فسانوںسے
مری للکار جب عشرت کدوں سے جا الجھتی ہے
تو دنیا مجھ کوذوق ِ حسن سے عاری سمجھتی ہے
وہ اکثر اوقات عشق کی قلبی واردات کو پر شوکت الفاظ میں ملفوف کر کے بیان کرتے ہیں کہ قاری کا ذہن اصل خیال سے ہٹ کر لفظوں کے جمال میں کھو جاتا ہے۔ایک نظم”ان کی یاد آتی ہے“ کے چند شعر ملاحظہ ہوں:
بہاروں کی برافگندہ بہار آوارہ مستی سے
فضا جب جھوم جاتی ہے تو ان کی یاد آتی ہے
کبھی ساون کی میٹھی انتظار انگیز راتوں میں
گھٹا آنسو بہاتی ہے تو ان کی یاد آتی ہے
شفق جب ان کے ہونٹوں کے ادھورے نقش بن بن کر
افق پر مسکراتی ہے تو ان کی یاد آتی ہے
کسی گیسو بریدہ شام کی پر ہول ویرانی
اکیلے میں ڈراتی ہے تو ان کی یاد آتی ہے
کوئی دلبر کہانی خواب کے رنگیں دریچوں کو
جو ہولے سے ہلاتی ہے تو ان کی یاد آتی ہے
مگر شاہ صاحب کا آزاد اور تقلید گریز دماغ بہت جلد ،فیض ،ندیم اور ساحر کے سحر سے آزاد ہو گیا اور وہ خود جدا اسلوب کے مالک بن گئے۔مجموعی طور پر شاہ صاحب کی نظموںکی بنیادی خصوصیت فکر کی گہرائی اور شاعری میںدانش کا حسین امتزاج ہے۔انہوں نے جو کچھ بھی لکھا خوب سوچ کر لکھاہے۔ان کے الفاظ پرُ جمال ہیں اوراندازِبیان میں دلکشی ہے۔موضوع کتنا ہی خشک اور غیر شاعرانہ کیوں نہ ہو ان کے زیر قلم آتا ہے تو اس میں شعریت کی مٹھاس بھر جاتی ہے۔بڑے بڑے شعرا جب کوئی حکیمانہ بات کر تے ہیں تو شاعری ،شاعری نہیں رہتی بلکہ ”کلامِ موزوں“بن کر سپاٹ ہو جاتی ہے،مگر شاہ صاحب کے یہاں لہجے کا بانکپن اور طنطنہ بھی ہو توآواز اور الفاظ میں شیرینی اور محبوبیت قائم رہتی ہے۔ایک اور چیز جو شاہ صاحب کی نظموں میں واضح طور پر محسوس ہوتی ہے،وہ مذہب سے قوت لینا ہے۔شاہ صاحب جب جماعت اسلامی کی ”تحریک ادب اسلامی“ سے وابستہ تھے تواس دور میں ان کی نظمیں اس طرح کی ہوتی تھیں:
جہاں کی سلطنت پہ ہے رواں سکہ بطالت کا
لغت سے مٹ چکا ہے لفظ فرسودہ صداقت کا
حضور حسن کیوں اپنے قلم کو رہن رکھوں گا
مجھے احساس ہے اللہ کی پاکیزہ امانت کا
ہماری روز و شب کی کاوشوں کا منتہا یہ ہے
وطن کا کوچہ کوچہ دلکشا منظر ہو جنت کا
بڑی شرمندگی سے چاند نے گردن جھکائی ہے
مرے دل پر جو دیکھا داغ مولا کی محبت کا
ابھی لا تقنطو کے زمزموں کی گونج باقی ہے
کھلا ہے در ابھی رب دو عالم تیری رحمت کا
جماعت اسلامی میں شاہ صاحب کا پڑاوعارضی تھا۔وہ بچپن سے ہی اقبالؒ متاثر تھے۔انہیں اقبالؒ کی وسعت اور ہمہ گیری کا ادراک بہت پہلے ہو چکا تھا۔چنانچہ اقبالؒ ہی کی ترقی پسندانہ سوچ اور رجائی لہجہ انہیں ترقی پسند تحریک کے نزدیک لے گیا۔اب شاہ صاحب کے سامنے موضوعات بہت سے اور جہات وسیع تھیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
ً زندگی نے ادب کے سامنے ایک بڑامقصد رکھ دیا تھا۔آگے بڑھنا، ترقی کرنا،انسانیت کا مستقبل منور کرنا،ذہن کو نور سے آراستہ کر نا ،فرد کو اجالے پھیلانے کے لیے وقف کر دینا،آدمی کو جہالت اور جاہلانہ توہمات سے نجات دلا کر زندگی کو خوبصورت بنانے کی جدوجہد پر ابھارنا،معاشی و معاشرتی انقلاب برپا کرنا،انسان کو امن ،مساوات اور انصاف سے سرشار کرنا،انسان سے محبت کرنااور اسے دکھوں سے نجات دلانے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں وقف کر دینا۔اس طرح مجھے زندگی کو ترقی پسند حوالوں سے سمجھنے کا موقع نصیب ہو ا اور میں نے کوشش کی کہ اپنے رفیق پیدا کروں۔ )١۲ (
شاہ صاحب کے ہاں ترقی پسندی اور رجائی لہجہ تو پیدا ہوا لیکن پھر شاہ صاحب نے وہ تمام شاعری بھی مسترد کر دی جس میں خدا کی وحدانیت گونج رہی تھی اوراس دور کے دوسرے ترقی پسندوں کی طرح بے باکانہ انداز اپنایا۔
میرے خیال میں یہ بے باکی شاید مارکسزم اور ترقی پسند ادب کے فوری مطالعہ اور اس کے اثرات کا نتیجہ تھی۔ ان کی فطرت اور جبلت میں خدا کا انکارموجودنہ تھا۔کیونکہ ان کی رگوں میںسچے مواحداوردرد دل رکھنے والے عالم دین خاندان کا خون دوڑ رہا تھا۔ دنیا جہان کے علوم کے گہرے مطالعے نے ان کے اندر سچائی تک جانے اورحقیقت کا شعور پانے کی آرزو پیدا کی تھی،شاید اسی لیے ادب کا مطالعہ انہیں معروضی حقائق سے دور لے گیا اور وہ نظریاتی طور پرعقلیت پسندی کی طرف راغب ہوگئے۔ان کی ترقی پسند شاعری کا بھی یہی پس منظر ہے لیکن چونکہ وہ ایک علمی اور مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے اور دین و مذہب کا مطالعہ بھی گھٹی میں پڑا تھا، اس لیے بیشتر نظموں پر دینی اثرات بھی دو چند دکھائی دیتے ہیں۔ان کی شاعری میں ایک طرف اگر تشکیک اور بے یقینی کی سرحدوں پر دستک موجود ہے تو دوسری طرف مذہب کا اقرار بھی ہے اور وہ اپنی تمام تر ترقی پسندی کے باوجود نظموں میں مذہب سے قوت حاصل کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اگرشاہ صاحب کے مقام ومرتبے کا تعین بھی کیا جائے تو وہ پہلے عالم دین اور دانشور ہیں اور بعد میں شاعر۔اسی لیے ان کی نظموں میں خدا کے ذکر کی دھمک اکثر سنائی دیتی ہے اور وہ اسلامی تہذیب و تاریخ اور قرآن وحدیث سے تلمیحات بڑی فراوانی سے لیتے دکھائی دیتے ہیں ۔مثال کے طور پر قرانِ حکیم میں ارشاد ربانی ہے۔” ہم نے امانت زمین وآسمان کے سامنے رکھی مگر انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا ۔مگر انسان نے اسے اٹھا لیا ۔بے شک انسان ظلوم و جہول(زیادتی کرنے والا اور جاہل) ہے۔میر تقی میر نے بھی اس واقعے کو تلمیح بنایا ہے۔
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
شاہ صاحب نے اس تلمیح کواس انداز سے نبھایا ہے کہ اس ”بار امانت “ کے تقاضے پورے کرنے کی انسان کی کوشش کی وضاحت بھی ہو گئی ہے:
بہت ہی تھک چکا ہوں خستگی ڈستی ہے شریانیں
خدایا مجھ سے یہ بارِ امانت اٹھ نہیں سکتا
میں صدیوں چل چکا اس بال سے باریک رستے پر
مگر اب اک قدم بہر مسافت اٹھ نہیں سکتا
زمیں تا کہکشاں رنگوں کے سارے ذائقے چکھے
ادھر شمس و قمر ذرے ،ستارے چھان مارے ہیں
نقابیں نوچ لیں،لاکھوں فسوں پروردہ رازوں کی
کنائے کھوج ڈالے استعارے چھان مارے ہیں
خلش زائیدہ کانٹے اپنے تلووں پر سمیٹے ہیں
کئی ناآفریدہ جنتوں کی پرورش کی ہے
توانائی کے پوشیدہ دفینے کھود لایا ہوں
جہانِ روشنی کی ساری خوشبو قید کر لی ہے
اسی طرح سورہ بقرہ میں بیان کردہ واقعہ تخلیق آدم کی طرف اشارہ دیکھیے:
طنابیں کھینچ لیں،دھرتی کی یوں بعد ِ مکاں ٹوٹا
اڑانوں کو ملی آواز سے بھی تیز جولانی
ہیں اب مٹھی میں لمحے،وقت بھی صید زبوں ٹھہرا
فرشتوں میں مسلم ہو گئی میری ہمہ دانی
تری رازوں بھری دنیا کی ہر پاتال میں اترا
ترے قول ِ انی اعلم کا بھی آخر مان رکھنا تھا
میں مسجودِ ملائک ہوں میں فی الا رض ِ خلیفہ ہوں
سرِاشیائے عالم علم کا احسان رکھنا تھا
شاہ صاحب کی نظموں میں دین و مذہب کے ساتھ ساتھ سائنسی شعور اور حکمت و دانش کی باتیں بھی ملتی ہیںلیکن ان کی خوبی یہ ہے کہ حرف وبیاں کی ساری فصاحتیں اور بلا غتیں تمام تر حسن وجمال اور شعریت کے ساتھ معجز نما ہوتی ہیں ۔فنی لحاظ سے بھی شاہ صاحب کی نظمیں،انفرادیت کی حامل ہیں۔انہوں نے نظم کی ہر ہیئت میں طبع آزمائی کی ہے اور کمال مہارت سے کچھ نئے ہیئتی تجربات بھی کیے ہیں۔مثال کے طور پر اپنی پابند نظموں” حمد خدائے ذوالجلال“ اور” خلفائے راشدین کے خطبات“ میں نظم معرا کا پیوند لگا دیا ہے۔اور یہ پیوند ،نظم کی خامی نہیں بلکہ خوبی بن گیا ہے۔اسی طرح نظم معرا لکھتے ہوئے کہیں کہیں پابند اشعار کا پیوند بھی نظر آجاتا ہے جو نظم کی دل کشی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
حوالہ جات
(۱)سید نصیر شاہ، گھر سے نکلے تو۔۔۔۔۔،لاہور, نیا زمانہ پبلکیشنز۴۱ بی ٹیمپل روڈ،۲۰١۰ء ص۲۸
(۲)ایضاً ص۳۰ تا ۳۲
(۳)ایضاً ص۱۸
(۴)ایضاً ص١۰۴
(۵)ایضاً ص١۰۷
(٦)ایضاً ص١١۳
(۷)ایضاً ص١١۵
(۸)ایضاً ص١۴۸
(۹)ایضاً ١۴۷
(١۰)ایضاً ص١۴٦
(١١)ایضاً ص١۵۴
(١۲)ایضاً ص١۵