۱۸۵۵ء میں سرسید نے اکبر اعظم کے زمانے کی مشہور تصنیف ”آئین اکبری” کی تصحیح کرکے اسے دوبارہ شائع کیا۔ مرزا غالب نے اس پر فارسی میں ایک منظوم تقریظ (تعارف) لکھا۔ اس میں انھو ں نے سر سید کو سمجھایا کہ ’’مردہ پرورن مبارک کارِنیست‘‘ یعنی مردہ پرستی اچھا شغل نہیں بلکہ انھیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کومسخرکرکے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ انھوں نے اس پوری تقریظ میں انگریزوں کی ثقافت کی تعریف میں کچھ نہیں کہا بلکہ ان کی سائنسی دریافتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف مثالوں سے یہ بتایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ غالب نے ایک ایسے پہلو سے مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی، جو اگر مسلمان اختیار کرلیتے تو آج دنیا کی عظیم ترین قوتوں میں ان کا شمار ہوتا۔مگر بدقسمتی سے لوگوں نے شاعری میں ان کے کمالات اور نثر پر ان کے احسانات کو تو لیا،مگر قومی معاملات میں ان کی رہنمائی کو نظر انداز کردیا۔
دہلی کے جن نامور لوگوں کی تقریظیں آثارالصنادید کے آخر میں درج ہیں انھوں نے آئینِ اکبری پر بھی نظم یا نثر میں تقریظیں لکھی تھیں مگر آئین کے آخر میں صرف مولانا صہبائی کی تقریظ چھپی ہے۔ مرزا غالب کی تقریظ جو ایک چھوٹی سی فارسی مثنوی ہے وہ کلیاتِ غالب میں موجود ہے مگر آئینِ اکبری میں سرسید نے اس کو قصدا ً نہیں چھپوایا۔ اس تقریظ میں مرزا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ابوالفضل کی کتاب اس قابل نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر کوشش کی جائے۔
سرسید کا نقطہ نظر تھا کہ مسلم قوم کی ترقی کی راہ تعلیم کی مدد سے ہی ہموار کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اور دوسری اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انھوں نے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ مسلمانوں کے لیے جدید علوم کے حصول کی سہولتیں بھی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی۔ انھوں نے سائنس? جدید ادب اور معاشرتی علوم کی طرف مسلمانوں کو راغب کیا۔ انھوں نیانگریزی کی تعلیم کو مسلمانوں کی کامیابی کے لیے زینہ قرار دیا تاکہ وہ ہندوؤں کے مساوی معاشرتی درجہ حاصل کر سکیں۔
علامہ اقبال کے معاصر دانش وروں اور ناقدین اقبال کی یہ متفقہ رائے ہے کہ ’بانگِ درا‘ میں شامل اقبال کی نظم ’سید کی لوحِ تربیت‘ عملی سطح پر سر سید احمد خان کے پیغام کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں ان کے افکار و نظریات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ سر سیّد احمد خان کے افکار و نظریات کے پس منظر کے بارے میں ڈاکٹر شمس الدین صدیقی لکھتے ہیں:
’’۱۸۵۷ء ہماری تاریخ کا وہ موڑ ہے جس نے نہ صرف سیاسی و اقتصادی حیثیت سے مسلمانوں کو شدید دھچکا پہنچایا بلکہ ذینی، فکری اور تہذیبی لحاظ سے بھی انھیں کشمکش اور تذبذب میں مبتلا کر دیا۔ انگریزی حکومت اور انگریزی تعلیم کے ساتھ مغربی افکار و اقدار کا سیلاب، اس تیزی اور قوت سے آیا کہ برصغیر کے باشندوں کے طرزِ فکر، طرزِ احساس اور طرزِ عمل کو برق رفتاری سے بدلنے لگا۔‘‘(۱)
سر سیّد احمد خان نے ایسے پُر فتن دور میں مسلمانانِ ہند کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ چناں چہ مصلح کی حیثیت سے انھوں نے جو نظریہ پیش کیا، اس کے پیش نظر تفرقے بازی کی فضا کو اتحاد و یک جہتی میں بدلنے کی بھرپور کوشش کی۔ اقبال نے سر سیّد احمد خان کے پیش کردہ یگانگت اور یک جہتی کے اصولوں کو بہ زبان لوحِ تربت تمثیلی انداز میں پیش کیا ہے۔ لہذا اقبال دینی اتحاد کی خاطر تفرقے بازی سے بچنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرقہ آرائی کو ہنگامۂ محشر سے تعبیر کرتے ہیں:
مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیمِ دیں
ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چُھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تر تحریر سے
دیکھ ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
محفلِ نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جواب نہ آئیں ان افسانوں کو نہ چھیڑ(۲)
اقبال نے سر سیّد کے نظریات میں سے مدبّر اور سیاست دان طبقے کے بارے میں بلیغ اشارے کیے ہیں۔ سر سیّد تحریک کے بنیادی طور پر تین زاویے تھے۔ ان کے پہلے زاویے یعنی دینی اور تعلیمی زاویے کے بارے میں درج بالا بحث کی گئی ہے۔ سر سیّد تحریک کا دوسرا بڑا زاویہ سیاسی حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ سر سیّد کی سیاسی بصیرت کے بارے میں ڈاکٹر ابو سعید نور الدین لکھتے ہیں:
’’سر سیّد کا یہ دور سماجی کشمکش اور معاشرتی آویزش میں گھرا ہوا ہے اور اس سے آزادی حاصل کرنے کے لیے وہ ہمہ تن مصروف معلوم ہوتے ہیں۔ مسلمان اس وقت سیاسی اور سماجی اعتبار سے حکمران طبقہ سے برسرِ پیکار تھے۔ ان کی آپس میں کشیدگی گھٹنے کے بجائے روز بروز بڑھ رہی تھی۔ یہ صورت حال مسلمانوں کے حق میں بہت ہی برے نتائج لانے والی تھی لیکن بد قسمتی سے وہ اس بات کو سمجھ نہیں رہے تھے۔ وہ تعصب اور ناعاقبت اندیشی کے باعث کوتاہ اندیشی میں مبتلا تھے۔ اس لیے انھوں نے برسرِ اقتدار قوم سے صلح و آشتی کے بجائے اس سے نبرد آزما ہونے کو ترجیح دی۔ سر سیّد اس وقت یکایک میدان میں نکل آئے اور بڑی ہمت، جرأت اور استقلال کے ساتھ حالات سے نمٹنے کا تہیہ کر لیا۔ اس کے لیے انھوں نے تحریر، تقریر اور عمل سب سے بیک وقت کام لیا۔‘‘(۳)
علامہ اقبال کی نظم ’سیّد کی لوحِ تربیت‘ تاریخی اور نظری حوالے سے سر سیّد خان کے متذکرہ بالا تینوں زاویوں کا محاکمہ کرتی ہے۔ سر سیّد کے سیاسی زاویے کے پیش نظر علامہ اقبال نے مدبّر اور سیاست دان طبقے سے جرأت مندی اور دلیری کا تقاضا کیا ہے۔ وہ ملکی اور قومی مفادات کی جنگ میں سیاست دان طبقے سے حقیقت پسندی اور راست بازی کے اظہار کے خواہش مند ہیں۔ لہذا کھوکھلی نعرے بازے کی بجائے سیاست دانوں کی تقریر اگر حقیقی ادراک اور راست بازی پر مبنی ہو تو وہ ضرور اپنے مقصد اور منشور میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ گویا ملت کی دوستی ان کے نزدیک بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حق گوئی میں بے باکی کا راز پوشیدہ ہے۔ حکمران طبقہ خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو حق گوئی اور بے باکی کو سر سیّد ان کے لیے جزوِ لا ینفک قرار دیتے ہیں۔ سر سیّد میں حریتِ فکر کے جذبات موجز ن تھے۔ اسی حریتِ فکر کے بارے میں پروفیسر محمد زمان لکھتے ہیں:
’’سر سیّد نے حریتِ فکر کی جو شمع روشن کی تھی، وہ ان کے خلوص، ایثار، جدوجہد اور ہم مشرب رفقا کے تعاون کی بدولت بدستور روشن رہی اور وہ مخالفت کے باوجود آزادیٔ رائے، اجتہاد اور عقل پرستی کو رواج دینے میں کامیاب ہو گئے۔ علما کے مقتدر طبقہ کی مخالفت کے باوجود سیاسی حوالے سے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی میں انقلاب لانے میں کامیابی سے ہمکنار ہو گئے۔ سر سیّد کو یہ راستہ اختیار کرتے وقت ماضی کی بہت سی فرسودہ روایات سے بغاوت کرنی پڑی۔ چناں چہ اس غیر معمولی کام کے حصول کے لیے انھوں نے کسی کی بھی پرواہ نہیں کی، آخر کار وہ ان عزائم میں کامیاب ہو گئے۔‘‘(۴)
آزادی رائے، اجتہاد اور عقل پرستی کی یہی تعلیمات وہ سیاست دانوں کے ہاں دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
تو اگر مدبّر ہے تو سن میری صدا
ہے دلیری دستِ ارباب سیاست کا عصا
عرضِ مطلب ہے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے
نیک ہے نیت تیری تو کیا پرواہ تجھے
بندۂ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے
قوتِ فرماں روا کے سامنے بے باک ہے(۵)
اقبال نے اربابِ سیاست کے لیے بندۂ مومن کی ترکیب استعمال کی ہے۔ یعنی بندۂ مومن کا دل ہر طرح کے خوف و ریا کاری سے پاک ہوتا ہے اور حاکموں کے سامنے بھی بے خوف و خطر اور راست باز ہونا ہے۔ اقبال نے اس نظم میں سر سیّد کے تیسرے زاویۂ فکر یعنی ادبی زاویے کو بھی شعرا کے ضمن میں بیان کی ہے۔ ڈاکٹر انور سدید، سر سیّد تحریک کے ان تینوں زاویوں کے بارے میں مختصر مگر بلیغ انداز میں لکھتے ہیں:
’’سر سیّد نے جو تحریک پیدا کی وہ ہمہ جہت، متنوع اور کثیر المقاصد تھی۔ سیاسی زاویے سے اس تحریک نے مسلمانوں کی تہذیبی بقا، سیاسی ترقی اور معاشرتی برتری پیدا کرنے کی کاوش کی۔ مذہبی زاویے نے ادہام پرستی کے ازالے اور نئے علوم کی روشنی میں دینِ فطرت کی توضیح اور ادبی زاویے سے اردو زبان کے فروغ و ارتقا میں گراں قدر حصہ لیا۔‘‘(۶)
علامہ اقبال نے سر سیّد خان کی حیات اور کارہائے نمایاں سے یہ بہ حیثیتِ مصلح جو اثرات قبول کے انھیں تین حوالوں سے مختلف زاویوں کی شکل میں بہ زبانِ لوحِ تربت بیان کیا ہے۔ سر سیّد ہر حوالے سے مقصدیت کے قائل تھے۔ ادبی حوالے سے تصنیف و تالیف میں بھی ان کی نیچر پسندی اور مقصدیت یکساں نظر آتی ہے۔ اقبال نے ادبی حوالے سے سر سیّد کے اس نظریے کی توضیح کی ہے کہ شعرا کو ہجو گوئی، مذمت اور خوشامد سے پاک ہو کر حقیقت نگاری کے ذریعے انسانی زندگی کے مسائل کا حل پیش کرتے ہوئے قوم کو بیدار کرنا چاہئے۔ اگر شعرا کا کلام قومی بیداری اور تحرک سے عاری ہوگا تو اس کی بے وقعتی کی دلیل مبالغہ اور ہجو گوئی کے ساتھ بدگوئی ہوگی۔ سر سیّد ادبی حوالے سے انھی خیالات کے پیام بر تھے۔ پروفیسر محمد فرمان تاریخی حوالے سے سر سیّد کو انسان دوست ادیب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ادبِ اردو کو عام زندگی کا ترجمان بنانا اور مسائلِ حیات پر تنقید کا ایک ذریعہ قرار دینا، مسائلِ حیات پر تنقید کرتے وقت موجود الوقت ترقیوں سے استفادہ کرنا، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے پہلے انسان دوست ادیب کہلانے کے مستحق ہیں۔‘‘(۷)
اقبال نے شاعروں کو مخاطب کرتے ہوئے سر سیّد کے ادبی زاویے میں نظریہ شعر کی بابت شعرا کے فکر کے لیے خامۂ معجز رقم کی ترکیب استعمال کی ہے۔ وہ انھیں تلمیذ الرحمان قرار دیتے ہیں۔ اقبال سے قبل بھی شعرا کے لیے فکری حوالے سے افلاطونی نظریے کے زیرِ اثر اخلاقیات کی پیش کش اور ترسیل میں شاعری اور ادب کو بہ طور آلۂ کارجانا جاتا رہا ہے۔ افلاطون نے اپنی مثالی سلطنت سے شعرا کو اسی لیے برخاست کر دیا تھا کہ ان کی شاعری سے قوم کے اخلاق خراب ہو رہے تھے۔ سر سیّد بھی قومی حوالے سے شاعری سے پیامبری اور اخلاقیات کے فروغ میں مثبت کردار ادا کرنے کے آرزو مند ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی سے اسی جذبے کے زیرِ اثر ’مسدسِ مدّو جزرِ اسلام‘ لکھوا کر اپنے اعمال حسنہ میں شامل کرنا ان کے نظریہ شعر کی عکاسی کرتا ہے۔ گویا سر سیّد شعرا سے قومی اور ملی شاعری کا تقاضا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سہیل احمد خان قومی اور ملی شاعری کے درپردہ شاعر کے اجتماعی شعور اور طرزِ احساس کی کارفرمائی کو مخصوص تمدن کی آواز قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شاعر کے لہجے اور اس کی فکر کی تشکیل میں اس کے انفرادی روّیوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی شعور اور اجتماعی لاشعور بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے شاعری کو ایک مخصوص تہذیب اور تمدن کی آواز بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس نظریے کی روشنی میں اردو شاعری کی مدد سے ہندی مسلمانوں کے اجتماعی شعور کی مختلف تبدیلیوں اور طرزِ احساس کے مختلف پیرایوں کی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔ اس وسیع تر مفہوم میں تمام اردو شاعری کسی نہ کسی طرح قومی اور ملی شعور سے منسلک ہے۔‘‘(۸)
سر سیّد تحریک کے زیرِ اثر حالی کی شاعری تہذیبی آشوب کی علامت بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ وہ شہرِ آشوب کو قوم و ملت کے آشوب کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں نئی شعریات کے کے وجود کو ان کے جوہر پر تقدیم حاصل ہوئی۔ حالی نے سر سیّد کے نظریات کی ترسیل کے لیے قومی اور اخلاقی نقطۂ نظر کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔ چناں چہ سر سیّد کے نزدیک اس پُر آشوب دور میں شاعری اخلاقی اقدار اور نیک نیتی کی تبلیغ کے لیے بہ طور آلۂ کار استعمال ہوئی ہے۔ اقبال نے ’سیّد کی لوحِ تربت‘ میں انھی نظریات کو بیان کیا ہے۔ سر سیّد کے نزدیک معاشرتی اصلاح کا محور تعلیم ہے۔ وہ مسلمانوں کی اصل پسماندگی کا سبب جہالت کو قرار دیتے ہوئے انگریزی تعلیم کے ذریعے علمی منصوبہ تیار کرتے ہیں تا کہ زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ مسلم قوم کو چلایا جا سکے۔
ڈاکٹر سہیل احمد خان، سر سیّد کے انھی جذبات کے حوالے سے تاریخی شواہد پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ جلسے عہدِ سر سیّد میں قومی مزاج کے مختلف پہلوؤں کے عکاس ہیں۔ ان جلسوں میں پڑھی گئی نظمیں قومی اور ملی شعور کی آئینہ دار ہیں۔۔۔ ان جلسوں میں پڑھی جانے والی نظموں میں ظاہر ہے کہ مقصدیت کا غلبہ ہے۔ ان نظموں کی تخلیق ہی اصلاحی مقاصد کے تحت ہوئی۔۔۔ بہت سی نظمیں ایسی بھی ہیں جن کا فنی پہلو کمزور ہے اور صرف قومی درد اور نیک نیتی ان کی خصوصیات ہیں۔‘‘(۹)
سر سیّد کے زیرِ اثر مولانا حالی قومی مسائل پر نظمیں لکھنے والوں میں سرفہرست ہیں۔ انھوں نے سر سیّد تحریک کے مشن کے لیے اپنی شاعری کا رخ ہی تبدیل کر دیا تھا۔ اس تحریک کے مقاصد حالی کے لیے دائمی صورت میں اسلوب زیست بن چکے تھے۔ مولانا حالی کی شاعری سے اردو شاعری میں قومی شاعری کا آغاز ہوتا ہے۔ اسی سلسلے میں ’مسدسِ حالی‘ قومی اور اخلاقی شاعری کے باب میں مطلع اوّل کی حیثیت رکھتی ہے۔
اقبال نے سر سیّد کے نظریۂ ادب کی وضاحت کرتے ہوئے شاعر اور ادیب سے منافقت اور ریا کاری سے بچنے اور خلوص و نیک نیتی برتنے کا تقاضا کیا ہے۔ شعرا کو وہ فطرت کے شاگرد ٹھہراتے ہیں اور ان سے لب و لہجے کی آبرو اور آن بان کے خواست گار ہیں۔ اقبال کے مطابق ہجو گوئی اور حکما کے مفاد کے لیے مدحت سرائی شعرا کو اصل مقصد سے گمراہ کرتی ہے جس سے طبقہ بہک جاتا ہے۔ شاعر کو چاہئے کہ وہ اپنی آواز سے قوم کو بیدار کرے اور اپنے یپغام سے ساحری کا کام لیتے ہوئے شعلہ نوائی کے ذریعے باطل کے کھلیان کو آتش دیدہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ تعلیم کے میدان میں یہ قومی اور ملی فریضہ شاعر اور ادیب ہی قلم کے ذریعے انجام دے سکتے ہیں۔ سر سید کے نظریہ شاعری اور ادب کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے:
ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامۂ معجز رقم
شیعۂ دل ہو اگر تیرا مثال جامِ جم
پاک رکھ اپنی زباں ، تلمیذِ رحمانی ہے تو
ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو
سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
خرمنِ باطل جلا دے شعلۂ آواز سے(۱۰)
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے انقلاب کے بعد سر سیّد مسلمانوں کے سیاسی اور مادی حوالے سے پشت پناہ تھے۔ اقبال سر سیّد کی اصلاحی تحریک اور قومی امور کو انجام دہی سے متاثر تھے۔ اس لیے انھوں نے سر سیّد کی لوحِ تربت کی زبان سے ان کی تحریک کے تین بنیادی زاویوں کے ذریعے ان کے نظریات کو زیرِ نظر نظم میں بیان کیا ہے۔ علامہ اقبال کے نظریات بھی سر سیّد کی طرح وہ قوم کو نصیحت کرتے ہیں کہ علما کو چاہئے کہ دینی تعلیمات کے ساتھ دنیاوی تعلیمات کو بھی طلبہ کے ذہنوں میں جاگزیں کریں۔ تفرقہ بازی سے اجتناب کیا جائے۔ کیوں کہ اس سے قومی تباہی اور اخلاقی تنزلی ہوتی ہے۔ سر سیّد کے دوسرے بڑے نظریے کے تحت مدبرین کو دلیری اور اخلاقی جرأت کی تعلیم دی گئی ہے۔ شعرا کو ناصحانہ انداز میں صاف گوئی اور صداقت کے ساتھ واقعیت اور قومی شاعری کے ذریعے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ تاریخی تناظر میں اقبال نے اختصار سے جنگ آزادی کے بعد کے حالات اور سر سیّد کے نظریات کو بڑے مؤثر پیرایے میں بیان کیا ہے۔ شعرا قوموں کی زندگی کے مکمل عکاس ہوتے ہیں۔ وہ آپ بیتی اور جگ بیتی کے ذریعے قوموں کی تاریخ مرتب کرتے ہیں۔ اسی حوالے سے ’بانگِ درا‘ میں اقبال نے قومی اور ملی جذبات سے آراستہ شاعری کی جامع خصوصیات کو نظم ’شاعر‘ کے زیرِ عنوان بیان کیا ہے۔ یہاں اقبال کو پورا جسم اور افراد کو اس کے اعضا قرار دیتے ہوئے منزل صنعت کی رہ پیما و دست و پائے قوم کو قرار دیتے ہیں۔ انصرامِ حکومت کے ذمے دار حکمرانوں کو اقبال نے چہرۂ زیبائے قوم کا سزاوار ٹھہرایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر رنگیں نوا کو وہ دیدۂ بینائے قوم قرار دیتے ہیں۔ اس مختصر نظم میں استعارے کے حسین التزام کے ذریعے اقبال نے شاعر کی قومی حیثیت کو موضوع بحث بنایا ہے۔ قومی اور ملی حوالے سے اقبال نے شاعر کے فریضہ کی نشان دہی اپنے نظریاتِ شعری کے عین مطابق کی ہے۔ اقبال نے بڑے خوب صور ت انداز میں شاعر کو قوم کی آنکھ سے تشبیہ دی ہے۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی اس مختصر نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے قومی اور ملی تناظر میں لکھتے ہیں:
’’اقبال نے اس نظم میں ’شاعر‘ سے حقیقی مراد لی ہے جس کا دل قوم کی ہمدردی سے لبریز ہوتا ہے، نہ کہ وہ شاعر جو شاعری کو گزر اوقات کا ذریعہ بناتا ہے اور خوشامد اور ضمیر فروشی سے اپنا پیٹ پالتا ہے۔‘‘(۱۱)
اقبال کے نزدیک شعرا قوم کا انتہائی حساس طبقہ ہوتا ہے اس لیے ہر کسی کے درد و کرب کو محسوس کرتے ہوئے پیکرِ شعری میں ڈالتا ہے۔ قوموں کے لیے شاعر اس آنکھ کا فریضہ انجام دیتا ہے جس کے بغیر زندگی کا اصل حسن متاثر ہوتا ہے۔ شاعر کا وجود قومی حوالے سے فطرت کے نغموں سے لطف اندوزی کا باعث ہوتا ہے۔ بقول اقبال:
قوم گویا جسم ہے ، افراد ہیں اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
محفل نظمِ حکومت ، چہرۂ زیبائے قوم
شاعرِ رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم
مبتلائے درد کوئی عضو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ(۱۲)
مسلمانوں کے معیارات، اقدار اور زاویہ ہائے نظر کا تعین درج بالا حالات سے پہلے روحانی زندگی اور انفرادی و داخلی واردات کے حوالے سے ہوتا تھا نہ کہ خارجی اور مادی دنیا کے حوالے سے وہ معیارات کا تعین کیا کرتے تھے۔ چناں چہ مغربیت کے زیرِ اثر عقلیت، نیچر پسندی، سائنس، مادیت، ارضیت، افادیت اور اجتماعیت کو دورِ جدید میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا۔ مسلمانوں میں مزاحمت کے باوجود سرسید احمد خان نے ابتدا میں مفاہمتی پالیسی اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کو جدید تہذیب و تمدن اور انگریزی زبان کی تعلیم کے حصول کا درس اوّلین دیا۔ سر سیّد خان نے جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمانوں کو مذہب، تاریخ، روایات، ثقافت اور روحانی اقدار سے مضبوط رشتہ استوار کرتے ہوئے جدید سائنسی علوم، عقلیت، نیچر اور اجتماعیت سے ہمہ گیری کا درس دیا۔ انھوں نے مسلمانوں کو جس ڈگر پر ڈالنے کی کوشش کی، اس میں وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اس دور میں سر سیّد خان کی تحریک اور نظریات سے اختلاف رکھنے والاایک طبقہ ایسا بھی تھا جو ترقی کی راہ میں بے جا رکاوٹیں حائل کر رہا تھا۔ چناں چہ ایسے طبقے کی قدامت پرستی کے بارے میں ڈاکٹر شمس الرحمان صدیقی لکھتے ہیں:
’’اسی زمانے میں جب کہ سر سیّد تحریک اپنے عروج پر تھی، ایک طرف قدامت پرست علما سر سیّد کے اجتہادی اور مذہبی تصورات پر نکتہ چینی کر کے انھیں حلقۂ اسلام سے خارج کر رہے تھے اور دوسری طرف ’اودھ پنج‘ کے لکھنے والے ان کی تحریک کے ہر پہلو کو اور خود ان کی شخصیت کو نشانۂ طنز و تضحیک بنا رہے تھے۔ یہ دونوں طبقے سر سیّد تحریک کی مخالفت، ان کی مغربی تہذیب و معاشرت اور مغربی افکار و اقدار سے وابستگی کی وجہ سے نہیں بل کہ ان کی ماضی پرستی، قدامت پسندی اور تقلید دوستی جو ہر نئی چیز سے بھڑکتی تھی، محض اس کے نئے پن کی وجہ سے اسے مسترد کر رہے تھے۔‘‘(۱۳)
سر سیّد خان نے لاکھ مخالفت کے باوجود اپنا جدیدیت پر مبنی مشن جاری رکھا اور اختلافات کی ذرہ برابر پرواہ نہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ نئے تعلیم یافتہ اور صاحب بصیرت مسلمان طبقے نے مغربی افکار اور سر سیّد کے نظریات کا عمیق ناقدانہ اور حقیقت پسندانہ مطالعہ کیا تو ان پر اصل حقائق منکشف ہوئے۔ ان بالغ نظر لوگوں میں بیسویں صدی کے اوائل میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ اقبال مسلمانوں کے ان نمائندوں میں سے ایک تھے جنھوں نے مغرب کی اندھی اور کورانہ تقلید نہیں کی بل کہ انھوں نے مغرب میں رہتے ہوئے وہاں کا ناقدانہ اور حقیقت پسندانہ مطالعہ کیا اور مغربی علوم و فنون اور اخلاقیات پر تنقیدی نگاہ ڈالی۔ سر سیّد خان نے ایک مصلح کی حیثیت سے جو کردار ادا کیا تھا علامہ اقبال نے بیسوی صدی میں مسلمان قوم کی غلامانہ ذہنیت سے انھیں آزادی دلا کر خود اعتمادی اور قومی تشخص کے جذبات پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اقبال مغربی تہذیب کے از خود ناقد بھی تھے، اس لیے ان کے افکار میں اسلامی فکری نظام کے دھارے پھوٹتے نظر آتے ہیں۔ قومی امور میں مسلمانوں کی رہ نمائی کے حوالے سے وہ سر سیّد احمد خان کے حامی نظر آتے ہیں۔ اسی لیے زیرِ نظر نظم میں وہ سر سیّدکے افکار و نظریات کی نشان دہی تمثیلی انداز میں ان کی تربت کے کتبے سے استفساریہ اور بیانیہ انداز میں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر حمید یزادنی اس نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’سر سیّد احمد خان کی تعلیمات کو علامہ نے ان کی لوحِ تربت کی زبان سے اپنے لفظوں میں بیان کیا ہے۔ اس حوالے سے علما سے یہ کہا گیا ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ قوم کو دنیا کی تعلیم حاصل کرنے کی بھی ترغیب دلاؤ۔ فرقہ بندی سے قوم کو روکو اور اس تباہی سے بچاؤ جو باہم پھوٹ پڑنے یا نا اتفاقی کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ سیاسی لیڈروں سے کہتے ہیں کہ سچے مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ وہ بزدل نہں ہوتا اور ہر موقع پر اخلاقی جرأت سے کام لیتا ہے، ریا کاری اور نفاق کے نزدیک بھی نہیں جاتا۔ شاعروں کو ہجو بد گوئی سے بچنے، جھوٹے قصیدے نہ کہنے اور قوم کی اصلاح کے لیے اپنی شاعری کو وقف کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔‘‘(۱۴)
اقبال کی تعلیمات کے مطابق علمائے حق کا بنیادی فریضہ تعلیم کا فروغ ہے نہ کہ رہبانیت کی تعلیم کے ذریعے لوگوں کے اندر دنیائے عمل سے کنارہ کشی اختیار کرانا۔ کیوں کہ دین و دنیا میں کامیابی کے لیے دینی اور دنیوی تعلیم ناگزیر ہے۔ تفرقہ بازی کی فضا اسی دور میں پروان چڑھ رہی تھی جس کی اقبال نے نفی کی ہے اور سر سیّد احمد خان نے مصلحت اندیشی کے ذریعے اس دور پُر فتن کے ہنگامۂ عشر سے مسلمان قوم کو چھٹکارا دلانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر ابوسعید نور الدین نے ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’سر سیّد ایک طرف تو معذرت کے لہجے میں انگریزوں کے دل سے ان تمام غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے کوشش کرتے رہے جو سوء اتفاق سے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد پیدا ہو گئی تھیں اور دوسری طرف خود اپنے ہم قوم مسلمانوں کے غم و غصہ کو بھی دور کرنے کے لیے افہام و تفہیم کا مسلک اختیار کیا۔‘‘(۱۵)
اقبال نے سر سیّد احمد خان کے باہم ہمدردی اور میل ملاپ کے نظریے کو زیر نظر نظم میں دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول کے ساتھ مشروط ٹھہرایا ہے۔ اقبال نے علمائے حق کی گفتار میں شیرینی اور لطافت کا وہی انداز بیان کیا ہے جس نظریے کا سر سیّدپرچار کر رہے تھے۔ وہ عہدِ کہن کے فسانوں سے علما کے گریزاں ہونے کے خواہاں ہیں۔ ایسی داستانیں قوت عمل اور عزم و حوصلے کی تعلیمات کے لیے زہرِ ہلاہل کے مصداق ہیں۔ فرقہ واریت کی آگ سے دامن کشاں صرف تعلیم کے دینی اور دنیوی انصمام سے ہوا جا سکتا ہے۔ سر سیّد احمد خان کے نظریہ تعلیم میں فرقہ واریت کی آگ کو صرف اس وقت کا پڑھا لکھا طبقہ بجھا سکتا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد چوہدری کے مطابق:
’’سر سیّد کا یہ پختہ یقین تھا کہ برصغیر کے مسلمان اس وقت تک اپنی پسماندگی اور زبوں حالی کو دور نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ تعلیمی میدان میں ترقی نہ کریں۔ چناں چہ سر سیّد نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ اس ضمن میں سکولوں، سوسائٹیوں اور تحریکوں کے حوالے سے مسلمان قوم کی ترقی میں کوشاں رہے۔‘‘(۱۶)
اگر سر سیّداحمد خان کے عصری تقاضوں، سیاسی اور دینی فضا کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انھوں نے جدید تعلیم کے حصول پر زور دیا اور دینی تفرقے بازی سے ٹوٹے پھوٹے اتحاد کو بچانے کی کوشش کی۔ انھوں نے بیک وقت مختلف محاذوں پر لڑ کر انگریزوں کی غلط فہمیوں کا تدارک بھی کیا اور عیسائی مشنریوں کی اسلام دشمنی اور بانئی اسلام کی تعلیمات پر اعتراضات کا مدلّل جواب دیا۔ اس ضمن میں پروفیسر محمد فرمان سر سیّد کی خدمات کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’سر سیّد نے اپنی طویل اور مصروف زندگی میں بہت سے مفید کام کیے۔ مسلمانوں پر سے ’غدر‘ کا الزام دور کیا۔ مسلم معاشرے کی اصلاح کی جسے مسلمانوں کے متوسط طبقے نے قبول کیا۔ فطرت کی پیروی اور عقل پسندی کے ذریعے مذہبی مسائل کی توجیہہ کی۔ ان کے دو کارنامے بنیادی قدر و منزلت کے متقاضی ہیں اور انھی کی بدولت وہ اپنی کئی اجتہادی غلطیوں، توجیہی لغزشوں اور بشری خامیوں کے باوجود ایک ایسے مصلح ہیں جن کے احسانات سے مسلم معاشرہ آج تک فیض یاب ہو رہا ہے۔ انھوں نے ادبِ اردو کو عام زندگی کا ترجمان اور مسائل حیات پر نقد کا ذریعہ بنایا۔ دو قومی نظریے پر اعتماد اور مسلمانوں کو اپنے علا حد و وجود کے بقا کی تلقین کی۔‘‘(۱۷)
غرض اقبال نے سر سیّد احمد خان کے افکار و نظریات متذکرہ نظم میں عملی پیغام کی حیثیت سے پیش کیے ہیں۔ سر سیّد نے جنگ آزادی کے بعد مسلمانانِ ہند کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ وہ مسلم اتحاد اور یگانگت کے علم بردار تھے۔ اقبال نے افکارِ سر سید کے دینی، سیاسی اور ادبی تینوں زاویوں کو بہ طریقِ احسن بیان کیا ہے۔ دینی تناظر میں وہ تفرقے بازی کی مذمت کرتے ہوئے فرقہ آرائی کو ہنگامۂ محشر قرار دیتے ہیں۔ طبقۂ علما کو دینی تعلیمات کے ساتھ دنیاوی تعلیمات کے روغ میں حقیقت پسندانہ روّیہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ نیز اقبال نے علمائے حق سے رہبائیت اور خلوت گزینی کی تعلیمات سے اعتزاز برتنے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ عہدِ سر سیّد سماجی کشمکش اور معاشرتی آویزش سے بھرپور تھا۔ اس لیے سر سیّد کے سیاسی زاویے کے پیشِ نظر اقبال مدبّر اور سیاست دان طبقے سے جرأت مندی، حقیقت پسندی، راست بازی اور دلیری کے بھی متقاضی ہیں۔ بقول اقبال سر سیّد نے مسلمانوں میں حریتِ فکر کی شمع روشن کی ہے۔ ادبی اعتبار سے اقبال نے سر سیّد کی نیچر پسندی اور مقصدیت کو بیان کیا ہے۔ چناں چہ وہ شعرا سے قومی بیداری کی تعلیمات کی توقع رکھتے ہیں۔ اقبال خود بھی شعرا کے خامۂ معجز رقم سے پیامبری اور اخلاقیات کے فروغ کے خواہش مند تھے اسی لیے وہ شعرا و ادبا کو خلوص اور نیک نیتی برتنے کا درس دیتے ہیں۔ لہذا یہ کہناد رست ہوگا کہ اقبال نے متذکرہ نظم میں سر سیّد کے دینی، سیاسی اور ادبی نظریات کو صراحت سے بیان کیا ہے۔ یہ نظم فکری حوالے سے سر سیّد احمد خان کے نظریات کا تمتمہ ہے۔
حوالہ جات
۱۔ ڈاکٹر شمس الرحمان صدیقی، تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، جلد سوم، پنجاب یونیورسٹی، لاہور، بار دوم، ۲۰۱۰ء، ص۳۰
۲۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ، طبع دوم، ۲۰۱۱ء، ص۸۴
۳۔ ڈاکٹر ابو سعید نور الدین، تاریخ ادبیات اردو، حصہ اوّل، مغربی پاکستان اکیڈمی، لاہور، ۱۹۹۷ء، ص۱۴۰۔۱۳۹
۴۔ پروفیسر محمد فرمان، سر سیّداحمد خان: مشمولہ تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، جلد چہارم، پنجاب یونیورسٹی، لاہور، بار دوم، ۲۰۱۰ء، ص۲۹
۵۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص۸۴
۶۔ ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب کی مختصر تاریخ، عزیز بک ڈپو، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص۲۸۰
۷۔ پروفیسر محمد فرمان، تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، جلد چہارم، ص۷۳
۸۔ ڈاکٹر سہیل احمد خان، قومی اور ملی شاعری، مشمولہ تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، جلد چہارم، پنجاب یونیورسٹی، لاہور، طبع دوم، ۲۰۱۰ء، ص۲۳۲
۹۔ ایضاً، ص۲۳۴
۱۰۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص۸۵
۱۱۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی، شرح بانگ درا، مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، س ن، ص۹۶۔۹۷
۱۲۔ علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اُردو)، ص۹۳
۱۳۔ ڈاکٹر شمس الرحمن صدیقی، تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، جلد سوم، ص۳۰۔۳۱
۱۴۔ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی، شرح بانگ درا، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۲ء، ص۷۸۔۷۹
۱۵۔ ڈاکٹر ابوسعید نور الدین، تاریخ ادبیات اردو، حصہ اوّل، ص۱۳۹
۱۶۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اعظم چوہدری، تحریک پاکستان کی سرگزشت، عبداللہ برادرز، لاہور، ۲۰۱۱ء، ص۱۲۸
۱۷۔ پروفیسر محمد فرمان، سر سید احمد خان، مشمولہ تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، جلد چہارم، ص۷۳
ڈاکٹر افضل حمید
نومبر 15, 2020بہت خوب، شاندار تجزیہ
Zabit Saeed Badar
نومبر 15, 2020مدلل انداز اور انتہائی سلاست کے ساتھ بہت عمدہ….ماشاءاللہ
گمنام
نومبر 15, 2020Mashallah
زارے حسن
نومبر 15, 2020مدلل انداز بیاں ۔۔۔۔ماشااللہ