تنقید

راجندر کرشن : کلیم احسان بٹ

میں نے گجرات میں اردو شاعری کے عنوان سے انیس سو نوے میں ایک کتاب لکھی جس میں1592سے1990تک کے اردو شعرا کا تذکرہ تھا۔یہ کتاب1996 میں شائع ہوئی بلکہ اسے کتاب کی تلخیص کہنا چاہیے۔
بہت سے شعرا اس وقت کتاب میں اپنی کم علمی کے باعث شامل نہ کر سکا۔اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی ضرورت بہت جلد محسوس ہونے لگی لیکن آج تک اس کی نوبت نہ آ سکی۔
اب جبکہ بہت سے دیگر نوجوان شعرا کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔لہذا دوسرا ایڈیشن ازسرنو کتاب لکھنے کے مترادف ہے اس لیے اسے نوجوان محققین کے لیے چھوڑتا ہوں۔
کچھ عرصہ قبل اشفاق شاہین کالج تشریف لائے تو جلال پور جٹاں کے ایک ہندو شاعر کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس کا تذکرہ آپ کی کتاب میں شامل نہیں ہے۔یہ شاعرراجندر کرشن تھے۔ جو فلمی گیت نگاری کی وجہ سے مشہور و مقبول ہوئے۔
8 اگست 2020 کو نوائے وقت کے ایک کالم میں سلیمان کھوکھر نے ان کا ذکر کیا اور لکھا کہ راجندر کرشن کے بارے میں شاید جلال پور جٹاں میں کوئی نہیں جانتا۔
سو میسر معلومات حاضر خدمت ہیں
راجندر کرشنن 6جون 1919 کو جلال پور جٹاں میں پیدا ہوئے۔ان کا پورا نام راجندرا کرشن دگل تھا۔ان کی والد کا نام جگن ناتھ دگل اور والدہ کا نام پاروتی تھا۔ان کے تین بھائی اور ایک بہن تھی۔سب سے بڑے بھائی کا نام مادھو لال دگل دوسرے بھائی کا نام ہرگوبند دگل اور تیسرے بھائی کا نام پنواری لال تھا۔انہوں نے ابتدائی تعلیم جلال پور جٹاں ہی میں حاصل کی۔شاعری سے دلچسپی پانچویں چھٹی جماعت میں سکول کے زمانے سے ہی ہو گئی۔ان کے اپنے بیان کے مطابق پانچویں چھٹی جماعت میں امتحان کے دنوں میں وہ لالٹین جلا کر کتاب آگے رکھ لیتے لیکن دراصل شعر وشاعری یا افسانوں کی کتابیں پڑھ رہے ہوتے تھے۔ آٹھویں جماعت تک خود شعر کہنا شروع کر دیے۔پندرہ برس کی عمر میں اچھے اچھے مشاعروں میں پڑھنا شروع کر دیا ۔ان کےسب سے بڑے بھائی مادھو لال دگل شملہ میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔تیس کی دہائی کے اواخر میں یہ بھی شملہ بھائی کے پاس چلے گئے۔بھائی نے ان کی اچھی تعلیم کے لیے بہت کوشش کی لیکن انہوں نے گریجویشن کے بعد عملی زندگی کا آغاز شملہ میں ایک کلرک کی حیثیت سے کیا۔ان کی شادی یہیں شملہ میں سمترا نامی لڑکی سے ہوئی۔ان کے فرزند راجیش دگل کے مطابق ان کی والدہ جلا ل پور جٹاں کے قریبی گاؤں دھول چوپالہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ن دنوں وہ فراق گورکھ پوری اور احسان دانش سے بہت متاثر تھے۔یہاں پہلی دفعہ آل انڈیا مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا جس کی صدارت جگر مراد آبادی نے کی۔ غزل کے مطلع پر جھولیاں بھر بھر کر داد ملی
کچھ اس طرح وہ مرے پاس آئے بیٹھے ہیں
کہ جیسے آگ سے دامن بچائے بیٹھے ہیں
انہوں نے ہندی فلموں میں گیت لکھنے کا فیصلہ کیا اور اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف بیوی بچوں کو بھائی کے پاس چھوڑ کر صرف سو روپے جیب میں ڈال کر قسمت آزمانے بمبئی پہنچ گئے۔ جب وہ بمبئی پہچے تو یہاں ساحر لدھیانوی مجروع سلطان پوری اور شکیل بدایونی جیسے بڑے گیت نگار موجود تھے۔ان کے لیے انڈسٹری میں جگہ نظر نہیں آتی تھی۔یہاں تک کہ مایوس ہو کر بمبئی کی سڑکوں پر جرابیں اور رومال بیچتے رہے۔1948 میں مہاتما گاندھی کی وفات پر انہوں نے ایک گیت ” سنو سنو اے دنیا والو باپو جی کی امر کہانی” لکھا جس سے ان کی ہندوستان بھر میں شہرت کا آغاز ہوا۔یہ گیت محمد رفیع نے گایا تھا۔پھرفلمی دنیا میں 1949 میں فلم بڑی بہن کا گیت” چپ چپ کھڑے ہو ضرور کوئی بات ہے” بہت مشہور ہوا۔اس کے بعد مقبول گیتوں کا ایک تسلسل ہے جن میں
بالموا نادان
یوں حسرتوں کے داغ محبت نے دھو دیے
میں پاگل میرا منوا پاگل
میرا قرار لے جا دل بے قرار کر جا
جیون کا سہارا تیری یاد ہے
ہم سے آیا نہ گیا تم سے بلایا نہ گیا
کون آیا میرے دل کے دوارے پائل کی جھنکار لیے
ہم پیار میں جلنے والوں کو چین کہاں آرام کہاں
شکریہ اے پیار تیرا شکریہ
بہاریں پھر بھی آئیں گی مگر ہم تم جدا ہوں گے
پھر وہی شام وہی غم وہی تنہائی ہے
یہ زندگی اسی کی ہے وہ جو کسی کا ہو گیا
تن ڈولے میرا من ڈولے
مرا دل یہ پکارے آ جا
اے دل مجھے بتا دے تو کس پہ آ گیا ہے
میں چلی میں چلی دیکھو پیار کی گلی
چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ
بھولی ہوئی یادو مجھے اتنا نہ ستاؤ
اک وہ بھی دیوالی تھی
میں اک بادل آوارہ
وہ بھولی داستاں
قدر جانے ناں میرا بالم بے دردی
پل پل دل کے ساتھ تم رہتی ہو
میرے پیا گئے رنگون
اینا مینا ڈیکا
تمہی میرے مندر تمہی مری پوجا
جیسے مقبول گیت شامل ہیں۔ان کے گیت سادہ۔ تخلیقیت سے بھرپور اور معنویت سے لبریز ہوتے تھے۔وہ غزل گیت بھجن نظم سب یکساں مہارت اور سہولت سے لکھتے تھے۔ان کے گیت طلعت محمود۔ مکیش۔ محمد رفیع لتا مبگیشتراور کشور کمار جیسے بڑے گلوکاروں نے گائے۔
راجندرا کرشن نے تقریبا چالیس سال تین سو پچاس ہندی فلموں کے لیے کام کیا۔ ان کے لیے گیت لکھے سکرین پلے اور مکالمے لکھے۔1960 کی دہائی ان کی شہرت کے عروج کا زمانہ ہے۔ اسی زمانے میں ان کا46 لاکھ کا جیک پاٹ لگ گیا جس کے بعد شہرت کے ساتھ کافی دولت بھی ان کے پاس آ گئی۔اسی زمانے میں انہیں فلم خاندان کے لیے تمہی میرے مندر جیسے گیت پر فلم فیئر ایوارڈ ملا اور وہ اپنے وقت کے مقبول ترین اور امیر ترین فلمی گیت نگار بن گئے۔
اتنی مقبولیت کے باوجود وہ فلمی شاعری کو اچھی شاعری نہیں سمجھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ فلمی شاعری نے ان کی اصلی شاعری کے جوہر کو چمکنے نہیں دیا۔فلم میں وزن بے وزن سب چل جاتا ہے۔ایک مصرع سیر کا تو دوسرا پاؤ بھر کا۔راجنرا کرشن چونکہ سکرین پلے اور مکالمے بھی لکھتے تھے سو کوئی نہ کوئی سچویشن ایسی نکال لیتے جس میں وطن سے محبت کا گیت شامل کیا جا سکے۔
میرے وطن سے اچھا کوئی وطن نہیں ہے
ایسا گیت تھا جو بہت سے سکولوں میں قومی ترانے کی طرح پڑھا جاتا تھا۔پاک بھارت چپقلش کے حوالے سے فلم سکندر اعظم کے لیے ایک گیت لکھا
اے ماں تیرے بچے کئی کروڑ
ان کی دوسری دلچسپی مذہب کے ساتھ تھی سو انہوں نے فلموں کے لیے کئی بھجن بھی لکھے۔کچھ گیتوں میں سوشلزم کا پیغام بھی دیا جیسے آدھی تم کھا لو آدھی ہم کھا لیں۔ سماج سدھار کے لیے گیت جیسے ماں باپ کا احترام مگر مزاجا وہ غزل گو یا ہندی گیت کے زیادہ قریب تھے اس لیے عشق و محبت سے لبریز شاعری پر اثر بھی ہے اور اس کا سوز و ساز فلمی کہانیوں سے مطابقت بھی رکھتا ہے۔
راجندر کرشن ایک بھر پور اور کامیاب زندگی گزار کر23 ستمبر1983 کو 68 سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک کے سبب بمبئی کے ایک ہسپتال میں حیات و موت کی سات روزہ کشمکش کے بعد وفات پا گئے۔ان کے بچے بھی ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہیں اور کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں