’’ ذوقِ حضوری ‘‘ نعتیہ شاعری کی روایت میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ڈاکٹرمسعوداقبال ساجدؔ اس بات پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اُن کا شمار آپ ﷺ پر شعر کہنے والے شاعروں کے اس خاندان میں ہورہاہے جس کی ابتدا حضرت ابوطالب اور بعض روایات کے مطابق آپ کے داداحضرت عبدالمطلب سے ہوئی۔یہ سعادت اللہ پاک کی خاص رحمت اور سرکار ﷺ کی عطاکے بغیرہرگز ممکن نہیں ہوتی۔ڈاکٹر ماجد دیوبندی نے درست کہا کہ:
ذکرِ رسول کر نہیں سکتے زبان سے
توفیق جب تلک نہ ملے آسمان سے
(ڈاکٹر ماجد دیوبندی)
نعتیہ شاعری کی تاریخ جتنی قدیم ہے فنی و فکری اعتبار سے یہ صنفِ شاعری اتنی ہی مشکل بھی ہے کہ ہر لفظ کاادب واحترام،مضامین کی پاکیزگی اور منصبِ نبوت کے معیار کے مطابق ہونا ضروری ہوتاہے۔عام طور پردیکھا گیا ہے کہ نعت کے شاعر آپ ﷺکو مخاطب کرتے ہوئے ’’تم‘‘ ، ’’ تو ‘‘ اور ’’تیرا ‘‘کے الفاظ استعمال کرجاتے ہیں جو زیادہ مناسب نہیں ۔یہاں میرامقصدکسی کی نیت پرشک کرنا نہیں صرف ادب واحترام کے لیے لفظوں کے بہتر چناو کی طرف توجہ دلانا ہے۔
ڈاکٹر ساجدؔ نے نعت میں آپ ﷺ سے عشق کی مستی موجود ہونے کے باوجود الفاظ کے چناو میں بہت احتیاط اور ہوش مندی سے کا م لیاہے ۔ ’’ ذوقِ حضوری‘‘ حرف حرف محتاط طریق سے پروئے موتیوں کی مالا ہے جس میں آپ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے زیادہ تر ’’ آپ‘‘ او ر’’ اُن‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیںجو شاعر کی شعری ریاضت ، فکری پختگی اور آپ ﷺ سے گہری محبت کا ثبوت ہے۔
یہ کائنات آپ ہی کی جستجو میں ہے
آیا ہوں میں بھی ایک طلبگارکی طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان کر آپ کو یہ جان لیا
ابتداکیاہے، انتہا کیا ہے
’’ ذوقِ حضوری‘‘ کے اشعار سے معلوم ہوتاہے کہ ڈاکٹرصاحب کی حضور ﷺ سے نسبت اور پھر اس تعلق کے اظہار کے سلیقے میں شائستگی اور احترام کا خاص انداز ،کسی صاحب نظر کی خاص تربیت اور راہنمائی کی وجہ سے نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے۔اور اب ہماراشاعر شعوری پختگی کے ساتھ نعت میں احترام کے تقاضوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔
خداکے نام سے پہلے زباں کو پاک کرو
پھر اس کے بعد حبیبِ خداکی بات کرو
ڈاکٹر مسعود اقبال ساجدؔ کا شعری رزق آپ ﷺ کی محبت سے کشید ہے اور یہی نسبت اُن کی شاعری کوکمال کا درجہ عطاکرتی ہے ۔محبت کے اس عظیم جذبے میں دُھلا اُن کا شعری فن نہ صرف قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتاہے بلکہ سبزروشنی کی ایک لکیراُس کے اندردھیرے سے اتاردیتاہے ۔مستی کی اس کیفیت میں قاری کے لبوں پربھی درود و سلام کے نغمے پُھوٹ پڑتے ہیںاور وہ ڈاکٹر صاحب کے لیے مزید ترقی کے لیے دعا ئیں مانگتاہے ۔
اِ س میں شک نہیں کہ شعری پختگی اور بالخصوص نعت کے موضوع پر اتنے عمدہ اشعارنکالنا ایک طویل شعری ریاضت کامتقاضی ہوتا ہے لیکن جب عشق سمندر میں ڈوبنے ،اُبھرنے کا سلیقہ آجائے تو پھرہیرے مُوتیوں سے ہمیشہ دامن بھرارہتا ہے۔ڈاکٹرساجدؔ اپنی ریاضت سے زیادہ آپ ﷺ سے نسبت کو اپنے فکروہنر کی بنیاد قرار دیتے ہیں اور یقینا یہ بات ایسے ہی ہے ۔اُن کی عطاکے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔ ہم سب سوالی ہیں اور اپنے اپنے دامن پھیلائے اُ سی در کی طرف دیکھتے ہیں ۔ یہاں مجھے اپنے مرحوم دوست پروفیسر غلام جیلانی اصغر کا ایک شعر یاد آرہا ہے ۔
مانگتاہے تجھ سے الفاظ و معانی کا شعور
اے مرے اُمی لقب، اک بے ہُنر ایسابھی ہے
(غلام جیلانی اصغر)
ڈاکٹر ساجدؔ کے ہاں بھی اسی طرزکی عاجزی کی اداجابجا نظر آتی ہے۔
میرے فکروشعرمیں روئیدگی ہے آپ سے
میرے ناپختہ خیالوں کے نگہباں آپ ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گفتکواُن کی ، تذکرہ اُن کا
فکروفن کی اساس ہوتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرشتوں نے سلیقہ گفتگو کا آپ سے سیکھا
فصیحِ شہرنے پائی فصاحت ،آپ کے در سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فکروفن،شعرسخن،مال ومنال ورزقِ جاں
بالیقین میرایہ سب کچھ ہے عطائے مصطفی
’’ذوقِ حضوری‘‘ بہت شاندار نعتیہ اشعار سے مزین ہے اور ڈاکٹر صاحب نے کائنات اور وجہ ء تخلیقِ کائنات کے حوالے سے واقعی نعت کے کمال اشعارنکالے ہیں۔
قمر بھی نورلینے کو کھڑاہے باادب درپر
چلاہے شمس لینے کو تمازت ،آپ کے درسے
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
چاند،سورج،پھول،شبنم،نورونکہت کی دلیل
خوش ادا نے استعاروں کو منور کر دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضورآئیں گے لاریب میری بستی میں
درود و نعت کی محفل میں اب سجاتاہوں
مجھے معلوم ہے کہ ڈاکٹر مسعوداقبال ساجدؔپر میری یہ گفتگو ادھوری ہے۔ان کے اس مجموعہ پر اور پھر نعت کے حوالے سے بہت کچھ لکھاجانا چاھیے تھا لیکن مجھ پرقرض ہے۔اور ویسے بھی ڈاکٹر صاحب سفر ابھی جاری ہے ہم ان کے اگلے مجموعے کا انتظار کریں گے ۔وہ خود بھی نعت گوئی کی مزید بلندیوں تک رسائی چاہتے ہیں اور دعامانگتے ہیں کہ۔
لکھوں میں آپ کی مدحت کہ عرش کوچھولے
خدا وہ لوح وقلم دے،وہ روشنائی دے