ڈاکٹرشوکت محمود
جب آنگن میں بیری کے پیڑ پتھر کے عذاب سہنے لگیں ، جب محبوب کی یاد غزل کے بے معنی حرفوں میں معنی بھرنے آئے ، جب ٹوٹا ہوا پتا اور بکھرا ہوا خواب درد کی جوت لگائے ، جب آفتاب مثالِ ماہ شبِ سیاہ کا سفر اختیار کرے ، جب آنکھوں میں کسی خیال کی خوشبو سے وصلِ یار کے خواب جاگنے لگیں ، جب انسان کی سلگتی سوچتی نسلوں کو پہچان کا غم کھانے لگے ، جب کسی کی باتوں اور یادوں کی خوشبو سے تنہائی کا شہر بسایا جانے لگے ، جب دل کے ٹھنڈے میٹھے چشمے پر اِک دوشیزہ پانی بھرنے آئے ، جب کسی کے فیضِ نگاہ سے شہر بھر میں پذیرائی ملنے لگے ، جب محبوب کے ہجر کی تیز ہوا سے کوئی پتا پتا بکھر جائے، جب فکر وخیال کی مشعل کو دامنِ شعر ہوا دینے لگے ۔۔۔ محبت کے پرانے راگ کو کوئی استاد گانے لگے ، شجر پکے پھلوں کو پھینکنے لگیں ، اندھی سوچوں کے ہاتھ پر کوئی اُجلے حرفوں کا عصاءرکھنے لگے تو یہ سارے تصویری پیکر ”کفِ ملال“ جیسے شعری مرقعے کو وجود میں لانے کا سبب بن جاتے ہیں۔
جس طرف اقبال کی شاعری کا محور و مرکز ”اسلام کا نشاةثانیہ “ فیض کا ”اشتراکیت“ ن۔ م راشد کا ”جنس “ ، ناصر کاظمی کا ”ہجرت“ مجید امجد کا ”ہمدردی “ او ر افتخارعارف کا ”واقعہ کربلا اور اہل بیت کی محبت“ ہے اسی طرح ”کفِ ملال “ کے نرم دمِ گفتگو ، گرم دم ِ جستجو خالق ” خورشید ربانی “ کا سرچشمہ تخلیق اور مرکز ِفکر و احساس” تنہائی “ ہے جس سے دیگر ضمنی احساسات ، تصورات اور استعارات یعنی اُمید و بیم ، یاد آوری ، خواب اور چراغ وغیرہ کے سوتے پھوٹتے ہیں۔
یہ حقیقت تو آئینہ ہے کہ ہجر کی کلفتوں یا وصال کی راحتوں کو وجود میں لانے کا واحد سبب ”محبت کا جذبہ “ ہے۔ کفِ ملال کے بلاستعیاب مطالعے سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہنے پاتی کہ خورشید ربانی کے نہاں خانہ دل میں کئی شخصیات ۔۔۔(پیغمبر آخر الزمان، اہلِ بیت و شہدائے کربلا، بنی نوع انسان ، نسوانی پیکر) سے محبت کے چراغ روشن ہیں ۔ آخر الذکر شخصیت جسے کبھی وہ ”شاہزادی“ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں ، اس ساری شعری کائنات کو خلق کرنے کی باعث ہے ہمارے شاعر کو تنہائی کا تحفہ اور ہجر کی سوغات اُسی نے بخشی ہے جسے پانے یا نہ پانے کی آس اور یاس پہ مبنی نفسی کیفیات سے شاعر اِ س تخلیقی سفر کے دروان گزرتا ہے لیکن ”کفِ ملال “ کے خاتمے پر یہ اندوہناک انکشاف ہوتا ہے کہ دائمی جدائی تو شاعر کا مقدر ہو چکی ہے ایسے میں واحد سرمایۂ ہستی کے طور پر اُس کے پاس اُس پیکرِ ناز کی ”یادیں “ رہ جاتی ہیں جن کی رنگین و شوخ پنسلوں سے تخیل کے کینوس پر خوش منظر تصویریں (Images)کھینچنے میں ہی شاعر کو اپنی بقا کے آثار نظرآتے ہیں اور اس عملِ مصوری کو انہوں نے ”کفِ ملال“ کے صفحات میں ”خواب“ سے تعبیر کیا ہے۔
یہ کہانی کا وہ ذرا سا پلاٹ ہے جسے اُنہوں نے بڑی چابکدستی اور مہارت سے 124صفحات پر پھیلا کر 12منظومات ، 10ہائیکو اور غزل کے263اشعار کے ذریعے ہم تک پہنچانے کا جتن کیا ہے ۔ اب وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ:
قلم کی نوک سے پتھر تراش کر ہم نے
یقین جانئیے ہیرے کی قدر کم کر دی
ویسے تو انسان کی تقدیر میں ازل ہی سے احساسِ تنہائی لکھ دیا گیا ہے مگر اکثر مادہ پرست ذہنوں کو تعیشات دُینوی میں انہماک کے باعث اِ س کا احساس و ادراک نہیں ہوتا مگر حساس لوگوں کا معاملہ اِ س کے برعکس ہے اُنہیں قدم قدم پر اُس ازلی و سرمدی تجرید و تفرید کا ناگ ڈستا رہتا ہے جو اِ س زیاں خانۂ ہستی میں حضرتِ آدمؑ کے ساتھ اُترا تھا۔مولانا روم ؒ نے بھی بانسری کے منہ سے یہی صدائے درناک سنی تھی:
بشنو از نے چُو حکایت می کند
وز جدائی ہا شکایت می کُند
یہ تو اربابِ صفا اور مردانِ حق کا معاملہ تھا بعض عاشقانِ صادق اور روشن دِلانِ حباب صفت کے درُون میں یہ احساس تب جاگتا ہے جب اُن کی نظروں کا کسی پیکر ِخوش اندام کی نظروں سے حسین تصادم ہوتا ہے۔ خورشید ربانی کے ہاں اِسی تصادم سے جنم لینے والی”تنہائی “ کے نقوش دیکھنے کو ملتے ہیں:
تنہائی کا دُکھ سہتا ہوں
شب کے جنگل کا رستہ ہوں
پھر یہ احساسِ تنہائی اِ س درجہ روح میں راسخ و جاگزیں ہو جاتا ہے کہ مظاہرِ کائنات میں بھی اِس کی تجسیم ہونے لگتی ہے:
چاند بھی شبِ شہر میں
مجھ جیسا ہے تنہا
تنہائی میں گم رہتا ہے
دریا صحرا ہو یا جنگل
ہائیکو کی ہیئت میں ”تنہائی“ یوں جلونُما ہوتی ہے:
چنتا رہتا ہوں
تنہائی کے آنگن میں
یادوں کے پتے
جب تنہائی کا مرض روح کا روگ بن جاتا ہے کہ اُس کا مداوا شاعر یوں کرتا ہے:
اِک دن مری تنہائی کے زخموں کو
سرد ہوا مستانی بھرنے آئی تھی
تنہائی کا یہ روگ کسی نسوانی پیکر کے ہجر کا زائیدہ ہے:
تیرے ہجر کی تیز ہوا میں
پتا پتا بکھر گیا ہوں
ہجر کی یہ تیز ہوا کسی خزاں دیدہ محبت کی موجودگی پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ نہ لگے ہاتھوں”کفِ ملال“ کی منڈیر پر موجود محبت کے ٹمٹماتے جھلملاتے چراغوں کا جائزہ بھی لیتے چلیں۔
آندرے موروا نے محبت کے لازوال و نفیس موضوع پر بات کرتے ہوئے اپنی کتاب ”جینے کا قرینہ “ میں لکھا ہے کہ
”محبت ہمارے خیالوں اور خوابوں کو اُسی طرح منور کرتی ہے جس طرح مذہبی عقیدہ یا فن کے شاہپارے اُنہیں تجلیوں سے بھر دیتے ہیں۔“
یہ تو خیر ایک مغربی دانشوار کا تصورِ محبت تھا ہر چند کہ خورشید ربانی کے اشعار میں بھی محبت کی یہی تجلیاںعکس فگن ہیں۔ میں ذاتی طور پر مذہبی و روحانی عقیدت کو بھی محبت کی دھنک کا ایک شوخ و خوشنما رنگ تصور کرتا ہوں چنانچہ مجھے مختار مسعود کے آوازِ دوست میں بیان کردہ اس تصور میں زیادہ صداقت ، گہرائی اور گیرائی نظر آتی ہے کہ ”قائداعظم ؒ کا قول ہے کہ رُوح کی بالیدگی تین تصورات سے عبارت ہے یعنی عشق، ایمان اور حب الوطنی“خورشید ربانی کی” کفِ ملال “میں عشق اور ایمان کے مظاہر و مناظر تو با افراط دیکھنے کو مل جاتے ہیں تاہم حب الوطنی کے وطن دوست نظاروں کے لیے اُن کی کتاب” ملت کا پاسبان ہے محمد علی جناح“ کا مطالعہ از بس ضروری ہے۔
خورشید ربانی کے شعری آنگن میں محبت کے کئی دلآویز اور عطر بیز پھول کھلے نظرآتے ہیں۔ جس میں شب سے خوش رنگ گلاب نبی کریم سے عشق و محبت کا ہے۔ جس کے گرد عقیدت و احترام کی بھینی بھینی مہک نے احاطہ کیا ہوا ہے جو کتاب کا پہلا صفحہ اُلتے ہی ہماری روحوں میں گداز پیدا کرنے لگتے ہے ۔ محبت کا یہ گلاب خورشید ربانی کے خیابانِ سخن میں یوں مہکا اور عقیدت کا یہ ماہِ مبین اُس کے آسمانِ شعر پہ یوں چمکا ہے:
توہمات کی تاریکیاں مٹانے کو
مرے حضور کو ماہِ مبیں بنایا گیا
مرے حضور تیرے نام کے وسیلے سے
اثر کو حرفِ دُعا کا امیں بنایا گیا
اسی طرح اہلِ بیت اور شہدائے کربلا سے شیفتگی اور فریفتگی بھی خورشید ربانی کے دل کی دھڑکن ہے جبھی تو اِ ن صاحبانِ صدق و صفا کی جلالت ِ شان کو اُنہوں نے یوں سلام کیا ہے:
فراتِ صبر کی موجیں گواہی دیتی ہیں
کہ دشتِ زار میں پیاسوں کا خواب چمکا ہے
میں اُن شہیدوں کی خدمت میں ہوں سلام گزار
کہ جن سے صدق و صفا کا نصاب چمکا ہے
بیسوی صدی کے عظیم دماغ لارڈ برٹرینڈرسل نے اپنی شہرئہ آفاق اور عام فہم کتاب”تسخیرِ مسرت“ میں محبت کی عظیم ترین عطا کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”اپنی اعلیٰ ترین صورتوں میں محبت ان اقدار کو انسان پر منکشف کرتی ہے جو اس کے علاوہ کسی بھی طرح ظاہر نہیں ہو پاتیں“ خورشید ربانی جو مروت کی موُرت اور اخلاص کے پُتلے ہیں اُنہوں نے رابندرناتھ ٹیگور کے ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے” زندگی کے چراغ کو محبت کی آگ سے روشن کیا ہے“ جبھی تواُن پر عروسِ محبت پوری طرح بے نقاب ہوئی اور اُن پر رسل کی طرح انسان دوستی کی اعلیٰ اقدار منکشف ہوتی چلی گئیں:
تیرا میرا یہی دُکھ مشترک ہے
ہمیں انسان کا غم کھا گیا ہے
”کفِ ملال“ کے اوراق پر ہمیں کسی نسوانی پیکر کی پرچھائیں بھی چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں جسے کبھی ”شاہ زادی“ اور کبھی ”دوشیزہ “ کے القابات سے نوازا جاتا ہے:
شاہ زادی تیرے خیال کی ضو
دل کی باسی رہے گی کتنی دیر
مرے دل کے ٹھنڈے میٹھے چشمے پر
اِک دوشیرہ پانی بھرنے آئی تھی
آخر آخر جب ”تنہائی “ اور ”یاس “ کا نقش زیادہ گہرا ہوجاتا ہے اور اُس ”شہزادی “ و ”دوشیزہ “ کے حصول کے تمام راستے شاعر پر بند ہوجاتے ہیں تو ایسے میں شاعر کے دل کے رُخسار پر اُس پیکر ِ عشوہ و ناز کی یادیںآکر ہاتھ رکھ دیتی ہیں جس سے شاعر کی روح تک میں تاثیرِ مسیحائی سرایت کرتی ہوئی نظرآنے لگتی ہے ۔ محبوب کی یادیں ، ہجر کے دکھوں کا مداوا ، غزل کے شعروں میں معنی ، اور اُس کی عدم موجودگی کی تلافی کرتے ہوئے زیست کی کھٹن راہوں کو کیسے ہموار کرتی ہیں اِ س کا نظارہ نہ صرف ہمارے شاعر ”خورشید ربانی “ کی نفسی کیفیات کی پردہ دری کرنے لگتا ہے بلکہ ہمارے ادبی ذوق کے رُوبرُو مائدۂ جمالیات بھی چُن دیتا ہے:
اس کی باتوں اُس کی یادوں کی خوشبو سے
تنہائی کا شہر بسایا جاسکتا تھا
میری غزل کے بے معنی سے حرفوں میں
تیری یاد معانی بھرنے آئی تھی
کوئی خورشید مرے دشتِ گماں میں آ کر
فکر کے پھول کھلاتا ہی چلا جاتا ہے
فضائے زخمِ محبت میں آگیا تو کھُلا
کہ تیری یاد سے کتنا نکھرتا جاتا ہوں
امریکی فلسفی ول ڈیورانٹ نے اپنی گراں قدر تصنیف ”نشاطِ فلسفہ“ میں لکھا ہے کہ ”شباب میں انسان کو مستقبل سے ، کہولت میں حال سے جبکہ پیری میں ماضی سے شغف ہوتا ہے۔“ میں اس قولِ زریں (Epigram)کی تفسیر یوں کرتا ہوں کہ جب حال میں کسی انسان کے آگے بڑھنے کے امکانات ختم ہو جائیں تو کبھی کبھی عین جوانی میں بھی انسان ماضی کی طرف مراجعت(Regression)اختیار کرتے ہوئے ماضی گرفتگی (Nostolgia)کا شکار ہو جاتا ہے۔
خورشید ربانی کے ساتھ بھی عین یہی کچھ ہوا کیونکہ جب عید کا دن بھی اس نازنیں پیکر کی ”یاد “ سے دل کو بہلاتے ہوئے کٹ جاتا ہے جس دن سالوں کے بچھڑے ہوئے بھی آکر مل جاتے ہیں تو وہ اِ س چوراہے سے یُوٹرن لیتے ہوئے ماضی (خوشگوار یادوں) کی طرف کسی ننھے بالک کی طرح ہُمکنے اور لپکنے لگتے ہیں اور یوں ”تنہائی“ کے ازالے کی صورت نکل آتی ہے:
شہرِ خوابِ دلِ برباد میں کٹ جائے گا
عید کا دن بھی تیری یاد میں کٹ جائے گا
اس منزل تک پہنچ کر وہ یادوں کے رنگین دھاگوں سے قبائے ”خواب“ بننے میں لگ جاتے ہیں۔
ارسطو نے کہا تھا ”شاعری استعارہ ہے۔“ یعنی شاعری جو کچھ کہنا چاہتی ہے وہ استعاروں میں کہتی ہے ۔ ایک ریڈیائی مصاحبے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے راقم نے سنا تھا کہ ”عظیم شاعری استعاراتی ہوتی ہے۔“ اِسی لطیف نکتے سے آگہی کے سبب شاید امریکی شاعرو نقاد ایزراپاؤنڈ نے شاعروں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ساری عمر میں ایک ہمہ گیر امیج تخلیق کرنا دیوان تحریر کرنے سے بہتر ہے۔ “ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر خلّاق اور جینؤن شعراءکے یہاں ہمیں بعض ہمہ گیر امیجز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثلاً عمر خیام کا ہمہ گیر امیج”کوزہ “ ، اقبال کا ”شاہین “ فیض کا ”قفس “مجید امجد کا ”شجر یا برف“ پروین شاکر کا ”خوشبو“ مقبول عامر کا ”دیا“ ہے۔ یہ تو پہلے تجزیاتی و تحلیلی مطالعے کی روشنی میں واضح کیا جاچکا ہے کہ خورشید ربانی کی شاعری کا اساسی جذبہ ”تنہائی “ ہے اسی طرح اُن کا ہمہ گیر امیج یا مرکزی و بنیادی استعارہ ”خواب“ ہے ۔ کیونکہ 124صفحات کی کتاب میں یہ 38بار نت نئے سیاق و سباق اور گوناگوں احساسات و تصورات کی تجسیم و تمثیل کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے۔
”خواب“ سے وابستہ تلازمات و تراکیب کی تفصیل کچھ یوں ہے:
”خواب و امید ، پیاسوں کا خواب ، خوابوں کا دامن ، بکھرا ہوا خواب، ستارہ خواب کا ، خسارہ خواب کا ، شرارہ خواب کا ، استعارہ خواب کا ، ابر پارہ خواب کا ،خواب کے جزیرے، درِ خواب ، خیال و خواب ، خوابوں کا رکھوالا ، خواب کے دھیان ، خواب کی سرحد، خواب کا سفر ، پیکرِ خیال و خواب، قرار کے خواب ، اعتبار کے خواب ، بہار کے خواب ، وصلِ یار کے خواب ، ریگزار کے خواب ، دور پار کے خواب ، خواب جزیرے ، خواب کی فصیل ، خواب کی پہنائی ، حصارِ خواب ، خوابوں کا انجان سفر ، شہرِ خواب ، شبِ خوش خواب ، خواب نگر ، خوابوں کا دائرہ ، آنکھیں خواب بنتی ہیں ، خوابوں کی تعبیر ۔“
”خواب“ ہماری غزل کی شاعری کا ایک زرخیز اور توانا استعارہ رہا ہے جس نے اپنے دامن میں تمنا ، اُمید ، خوش فہمی ، خوشگوار مستقبل ، نظامِ عدل و مساوات ، موہومیت اورایسے کئی دیگر مفاہیم کو سمیٹ رکھا ہے۔خورشید ربانی کے ہاں اس معنوی پرتوں اور کروٹوں کو جاننے کے لیے میں نے ”خوابوں“ کے مزاج و خواص کے ضمن میں کی گئی ماہرینِ نفسیات کی تحقیقات سے مدد لی۔ جن سے نہ صرف اشعارکی گھتیاں ایک ایککرکے سلجھتی چلی گئیں بلکہ انہوں نے بقول شان الحق حقی ”شاعر کے دل کا چور پکڑنے میں “ بھی میری بھرپور مدد کی ۔
”تین بڑے نفسیات دان“ میں ڈاکٹر سلیم اختر رقمطراز ہیں:
”ہنری برگساں کے خیال میں انسان کا تمام ماضی یا داشت کی صورت میں محفوظ رہ جاتا ہے بیداری کے عالم میں تو انہیں دبا کر رکھا جاتا ہے لیکن جوں ہی شعور خوابیدہ ہو جاتا ہے تو یاداشت پر مبنی خیالات و تصورات جیل کے قید یوں کی مانند لاشعور کے زندان سے نکل بھاگتے ہیں اور ذہن میں اُودھم مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ ۔۔یہی خواب ہے!“
خورشید ربانی کے ہاں بھی یادوں کے خوابوں میں ڈھلنے کے عمل میں یاداشت کا کردار واضح ہے:
دل کی جھیل میں یادوں کے جب کنکر پھینک کے دیکھا تو
دائرہ تیرے خوابوں کا کچھ اور ہی بڑھتا جاتا تھا
”مقالات ِ جلالپوری“ میں علی عباس جلالپوری لکھتے ہیں:
”فرائیڈ نے تخلیق ِ فن کے عمل کو روز خوابی سے مماثل قرار دیا ہے اُس کا خیال ہے کہ عورت کی محبت ، حکومت اور دولت سے محروم ہو نے کے باعث فنکار اختلالِ نفس کے مریضوں کی طرح روز خوابی کا شکار ہو جاتا ہے اور آرٹ کی صورت میں اِن ناآسودہ خواہشات کی تشفی کی کوشش کرتا ہے جن کی تسکین روزمرہ کی عملی دنیا میں اُس کے لیے ممکن نہیں ہوتی۔“
”کفِ ملال“ کا مطالعہ ہم پر یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ خورشید ربانی کسی ”نودروازوں والے شہر کی شہزادی ” کے ”پیار میں پاگل“ رہ چکے ہیں:
کس کے پیار میں پاگل ہو تم بھولے سے اِک دن مجھ سے
نو دروازوں والے شہر کی شہزادی نے پوچھا تھا
جسے پانے کی آرزو اُنہیں خواب و خیال کی بات لگتی ہے ۔ گمان غالب ہے خورشید ربانی کی روز خوابی اُسی ” شہزادی اور دوشیزہ “ کے ہجر کی تلافی بن کر شعری پیکروں میں برافگندہ نقاب ہوئی ہے:
کبھی کبھی مری آنکھوں میں جاگ اٹھتے ہیں
کسی خیال کی خوشبو سے وصلِ یار کے خواب
حسرتیں دل کی بڑھاتا ہی چلا جاتا ہے
خواب میں جب کوئی آتا ہی چلا جاتا ہے
خورشید ربانی کا ”خواب“ خواہشات کی تکمیل کے لیے تخیلاتی رنگین فضا کو تخلیق کر دیتا ہے مگر خواب کے خمیر میں شعور کی رو(Stream of Consiousness)اور آزاد تلازمِ خیال (Association of Ideas) کا عمل گُندھا ہوا ہے اس لیے اِ س رنگین ماحول میں محبوب کے ہجر و جفا کی تلخ یادیں بھی دبے پاؤں در آتی ہیں۔
ف۔ س ۔ اعجاز اپنی کتاب ”خواب ایک نفسیاتی و سائنسی تجزیہ “ میں اِ س مظہر پہ مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
”دورانِ نیند جب دماغ کا شعوری حصہ بے عمل ہو جاتا ہے اس وقت لاشعور ایک وسیع مواد کی تیاری کرتا رہتا ہے نئے حقائق ، حالات ، ماضی کے تجربات ، غیر حل شدہ مسائل ، قوت ، خواہشات اور بہت کچھ ۔ یہ دماغ کے عمیق ترین شگافوں میں سے جذبات کو برآمد کرتا ہے۔“
خورشید ربانی کے خوابوں میں جذباتِ درد و غم کی در اندازی کانقشہ دیکھیں:
کوئی ٹوٹا ہوا پتا کوئی پکھرا ہوا خواب
ددر کی جوت جگاتا ہی چلا جاتا ہے
خورشید ربانی ”خواب“ کے استعارے میں ایک نئے مفہوم کا اضافہ کرتے ہوئے اس کا دامن تاریخ سے بھی جوڑتے ہیں۔ برصغیر میں 1857کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد مسلمانانِ ہند کا مقدر بننے والی غلامی کی ”سیاہ رات“ پھر دانائے راز کا ایک ”خوش منظر خواب“ ، اور اس کے نتیجے میں طلوع ہونے والی آزادی کی ”روشن صبح“ اس ایک صدی کے قصے کو خورشید ربانی نے ”خواب“ کے استعارے کی مدد سے شعر کے دو مصرعوں میں قید کر لیا ہے اس پر لفظ” خورشید“ کا رعایتی استعمال مستزاد ہے!
روشن صبح ملی تھی رستے میں خورشید
جب ہم ایک شبِ خوش خواب سے گزرے تھے
”خواب “ کا علامتی و استعاراتی سفر یہاں آکر رکتا نہیں بلکہ آگے بھی جاری رہتا ہے ۔ دورِ حاضر کے War & Terrorکے ہولناک عالمگیر منظر نامے میں عالمی طاقتوں کی یہ ہرزہ سرائی کہ اکیسویں صدی کے ربع اول کے عالمی نقشے میں پاکستان کا جغرافیہ دکھائی نہیں دے رہا ۔نیز دوست نما دشمن حلیفوں کا یہ ُغرّہ کہ پاکستان عنقریب ”خواب و خیال “ ہونے والا ہے ایسے مایوس کن حالات میں خورشید ربانی کا تائید ِ ایزدی و امدادِ ربانی پہ بھروسے کا ایقان نیز پاکستان کے اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہونے پہ اعتماد و اعتبار کے پس منظر میں اُمید کا پرچار اور پاکستان کو ایک بڑی حقیقت کہنا بڑا جرات مندانہ اقدام لگتا ہے:
میں ہوں اِک پیکرِ خیال و خواب
اور کتنی بری حقیقت ہوں!
خوابوں کی خصوصیات پہ روشنی ڈالتے ہوئے کرامت حسین نے ”مبادیات ِ نفسیات“ میں ان کی ”بے ربطگی ، بے جوڑ پن ، تیز رفتاری ، علامتیت ، ڈرامائیت اور ادغامیت وغیرہ“ کا ذکر کیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی خوابوں کی بعض دیگر خصوصیات ہیں جن کو پرکھتے ہوئے خوابوں کی ایک اور قسم کا تعین و انکشاف کیا گیا ہے یعنی خواب بیداری (Fantacy)اِس قسم کا کسی قدر ذکر علی عباس جلالپوری نے”روز خوابی“ کے عنوان سے کیا تھا۔ اِ س کی مزید وضاحت ”نفسیات کا انسائیکلو پیڈیا“ میں سید اقبال امروہوی یوں کرتے ہیں کہ ”جاگتے میں خواب دیکھنا، تصورات اور خیالات میں اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنانا اور اُن سے لطف اندوز ہونا۔۔۔یہ تلافی کی ایک صورت ہے ۔“ یہ گویا ایک رومانوی رویہ ہے اور اکثر آدرش پرست حالات کی سنگینی سے اُکتا کر خوابوں کے بہشتی رنگ محل میں کھو جاتے ہیں ہمارے ہاں شاعر ، عاشق اور فلسفی وغیرہ اکثر اس کا شکار ہوتے دیکھے گئے ہیں اور کبھی تو معاملہ اتنی سنگین صورت اختیار کر جاتا ہے کہ وہ مجسمِ خواب بن جاتے ہیں۔ خورشید ربانی تنہائی کی تلافی کرتے ہوئے شہزادی کی یادوں میں اتنے دور نکل گئے ہیں کہ خود پیکرِ خواب و خیال میں تحلیل ہو گئے ہیں اِسی نفسیاتی کیفیت کو انہوں نے شعروں میں بھی ”خواب“ سے تعبیر کیا ہے۔
خواب اور خیال ہو گیا ہوں
میں خود پہ عذاب ہو گیا ہوں
خواب کی فصیلوں میں
چن دیا گیا ہوں میں
ختم ہو نہیں سکتا
خواب کا سفر ہوں میں
”خواب“ کے بعد خورشید ربانی کے ہاں جو استعارہ کثرت و تواتر کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے وہ ہے ”چراغ “ ! اُن کی شاعری کے اساسی عناصرِ ترکیبی یعنی ”تنہائی “ ”خواب “ اور ”چراغ“ میں بھی ایک ربطِ باہم دکھلائی پڑتا ہے وہ یوں کہ تنہائی تخلیق ، انکشاف اور الہام کا سرچشمہ ہے اکثر شاعر رات کو تنہائی میں فکرِ شعر کرتے ہیں بالفاظ دیگر خوابوں کے تانے بانے بنتے ہیں اِس دوران اُن کا تنہا ساتھ چراغ ہوتا ہے ۔ تنہائی تخلیق کی ماں ، خواب جہانِ نو کے اِنکشاف کا منبع اور چراغ جہانِ تازہ کی عملی تعبیر کے لیے علامت ِ اُمید !
پروفیسر وائٹ ہیڈ نے کہا تھا ” ہر تجربہ یا واردہ اپنی ساخت خود لے کر آتا ہے۔“ خورشید ربانی کے تنہائی کے تجربات و وردات نے جس طرح ”خواب اور چراغ“ کے استعاروں میں خود کو نئے نئے رنگوں میں دریافت کیا ہے اُن میں نہ صرف تخلیقی شان جلوہ گر ہے بلکہ ایک فطری و منطقی ربط بھی نقاب کُشا ہے۔ آخر الذکر وہ استعارۂ مجید ہے جسے قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اپنے نور ِ دائمی کی توضیح کے شرف سے بھی سرفراز فرمایا ہے۔
(اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا، اُس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کے ہے جس میں چراغ ہو۔)
یہ بات ماہرینِ نفسیات اور دانشور حضرات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر نہایت کثرت سے دہراتے نظرآتے ہیں کہ عہدِ حاضر کی تمام نفسیاتی الجھنوں اور معاشرتی و اخلاقی پریشانیوں کا واحد علاج مثبت سوچ) (Positive Thinkingمیں مضمر ہے چنانچہ ہمیں بے ریا محبت ، بے لوث خدمت ، جغرافیائی اور لسانی عصبیتوں سے آزاد انسان دوستی کی اقدار کو فروغ دینا چاہیے ۔ یہی نفسیاتی و اخلاقی نعرہ (Slogan)خورشید ربانی کی شاعری میں ”چراغ“ کے توسط سے بے مثال شعروں میں ڈھل گیا ہے:
طاقِ اخلاص میں جلتا ہوا اِک ایک چراغ
تیرگی دل کی مٹاتا ہی چلا جاتا ہے
چمکتی سوچ پہ شب خون مارنے والو !
یہی چراغ ہے جو آندھیوں میں جلتا ہے
یہی ”چراغ“ کہیں پیامبرِ ِ امید بن کر چمکا ہے تو کبھی منبعِ نور کے رُوپ میں جلوہ آراءہوا ہے:
چراغِ امید جل اُٹھا ہے مگر میرے دل
سیاہ تر داغِ بدگمانی کا کیا کروں میں
نزولِ شام سے پہلے سنبھال رکھتے ہیں
وہ اِک چراغ کہ جو رات بھر چمکتا ہے
اور کبھی خورشید کے احساس کی علامت بن کر ہمارے دلوں کو بھی احساس کے نور سے اُجال دیتا ہے:
ہم نے طاقِ غزل میں اے خورشید
اپنے احساس کا دیا رکھا
شاعر اس جہانِ سوُد زیاں میں آکر صرف غمِ ذات ہی نہیں سہتے بلکہ غمِ کائنات بھی بھوگتے ہیں جسے عرفی نے ” دردلِ غمِ ما غمِ دنیا غمِ معشوق شود“ غالب نے ”غم ِ عشق گرنہ ہوتا غمِ روزگار ہوتا“ اصغر گونڈوی نے” جو غم ملا اُسے غمِ جاناں بنا دیا“ مرزاہادی رُسوا نے ”آپ بیتی کہوں تو جگ بیتی “ اور فیض نے ”اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا“ سے تعبیر کیا ہے۔ شاعر گویا ذاتی دکھوں کے آئینے میں کائناتی دکھوں کے عکس کا نظارہ بھی کرلیتے ہیں اُن کے دریچۂ سخن سے ہم نہ صرف اُن کے ذاتی المیوں کے مناظر دیکھتے ہیں بلکہ آشوبِ دہر کے وہ خونیں سانحات بھی دیکھ لیتے ہیں جن کا شاعر اور اُس کا عہد شکار ہوا تھا ۔”کفِ ملال“ کے مطالعے کے دوران ہمیں آشوبِ ذات کے پہلو بہ پہلو فتنۂ کائنات کے دل دکھا دینے والے واقعات کے متعلق شاعر کے تاثرات و تجزیات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جرمنی کے ادیب و تنقید نگار Marcel Reich Renikyنے کہا تھا کہ ”دنیائے ادب میں دو ہی موضوعات ہیں۔۔۔محبت اور موت!“ میں انسان دوستی کو بھی بحرِ محبت کی ایک شفیق و مہربان موجِ تہہ نشین قرار دیتے ہوئے یہ کہوں گا کہ معاشرتی المیوں پر” کفِ ملال“ کے صفحات میں خورشید ربانی کے دلی کرب و غم کی موجودگی اُن کے انسان دوست ہونے کی زبردست مظہر ہے:
جب ہوا نے شاخ سے پتوں کو توڑا ہے تو پھر
اُس ہوا کے ساتھ پتے کھیلتے رہتے ہیں کیوں
اخلاقی میدان میں بھی ہمارا مشرقی معاشرہ تمام دیرینہ اچھی اقدار سے تہی دست ہوا جاتا ہے ۔ رشتون کی پامالی ہو کہ تعلقات کی بے توقیری ، رشتوں اور تعلقات کو دولت اور مفاد کی عینک سے دیکھے جانے کی نفسیاتی وبا ہو کہ منصب و اقتدار کی بے جا پوجا ، ہر کہیں دیکھنے کو مل جاتے ہیں یورپ کے برعکس ہمارے ہاں تو بڑے بوڑھوں کے قدر منزلت اور وقار و احترام کی بڑی مستحکم و درخشاں روایت پر پچھلے ہر دور میں تواتر کے ساتھ موجود رہی ہے جو بدقسمتی سے آج کی زر ، زن ، زمین ، منصب اور عہد کی چمک دمک (Glamour)کے پیچھے دیوانوں کی طرح دوڑتی بھاگتی نژادِ نو کے ہاتھوں پامال ہوتی جارہی ہے اس منفی و مذموم اخلاقی قدر کے پنپنے اور پروان چڑھنے پر خورشید ربانی کی رگِ حمیت ، یوں لودے اٹھی ہے:
آج تک خورشید ہم یہ فلسفہ سمجھے نہیں
یہ شجر پکے پھلوں کو پھینکتے رہتے ہیں کیوں
کسی حساس اور درد مند شاعر کے لیے اُس معاشرے سے محبت و مروت جیسے لازوال ، بے مثال جذبے کے خاتمے سے بڑا معاشرتی المیہ اور روحانی کرب اور کوئی نہیں ہو سکتا قصباتی اور دیہاتی فضامیں دوپہر کی تیز دھوپ نہ سہی اس کی شفق تو دیکھنے کو مل ہی جاتی ہے لیکن خورشید ربانی چونکہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں مقیم ہیں اس لیے وہاں کے درد نا آشنا ماحول میں اِس گوہرِ نایاب کی عدم دستیابی اُنہیں شدت سے جھنجوڑ گئی ہے:
محبت اِک پرانا راگ ہے جو
کسی اُستاد کا گایا ہوا ہے
کئی صدیوں پر پھیلی ایک گہری و سلسلہ وار سازش کے تحت ہم تعلیمی ، تہذیبی اور سیاسی میدانوں میں جس جس طرح اپنے اسلامی و پاکستانی تشخص و کردار ، قومی و اجتماعی طرزِ فکر و احساس ، اور اپنی مشرقی روایات واقدار سے دُور ہوتے ہوئے بے چہرہ بے یقین اور بے اُمید قوم بنتے جارہے ہیں اِ س کا خورشید ربانی کو شدت اور دل کی گہرائیوں سے احساس ہے جبھی تو ایسے درد بھرے شعری راگ الاپ الاپ کر ہماری قومی غیرت اور ملی حمیّت کو بیدار کرکے ہمارے اذہان و قلوب کو امید کی مشعل سے درخشاں و فروزاں کرنا چاہتے ہیں:
سلگتی سوچتی انساں کی نسلیں
جنھیں پہچان کا غم کھا گیا ہے
ہم نے طاقِ غزل میں اے خورشید !
اپنے احساس کا دیا رکھا
مایوسی کے عالم میں بھی اے خورشید
ہم نے اِک اُمید کا رستہ پہن لیا ہے
معاشرتی و اجتماعی المیوں سے جنم لینے والے درد آمیز اشعار نہ صرف خورشید ربانی کی فکری و نظری کُشادگی (Broad Vision)کے مظہر ہیں بلکہ اُس کی عصری حِسیت(Modren Sensibility)کے غماز بھی ہیں۔
مضمون کے تمام پچھلے مندرجات و نکات کو ذہن میں رکھ کر خورشید ربانی کے فنِ شعر پہ کوئی حتمی و آخری رائے دینے سے پیشتر کیوں نہ علی عباس جلالپوری کی علم دوست اور نکتہ شناس محفل میں چند لمحے گزار لیے جائیں جہاں وہ تخلیقی عمل کے مدارج و مراحل بیان کرنے والے ہیں:
”عمل تخلیق ِ فن کے چار مراحل سمجھے جاتے ہیں پہلے کو تیاری کا نام دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شاعر کسی موضوع کا تعین کرکے اُس کے تمام پہلوﺅں پر اچھی طرح غور و فکر کرتا ہے دوسرا مرحلہ خفتگی کا ہے جب اُس موضوع کے متعلقات ایک عرصے تک حالتِ خواب و بیداری میں اُس کے ذہن میں مچلتے رہتے ہیں تیسرے مرحلے کو اِنشِرَاح کہا جاسکتا ہے جب یہ موضوع متشکل ہو کر تصویری پیکروں کی صورت اختیار کر لیتا ہے آخری مرحلے کو اِثبات کہیں گے جب فن کار اِ ن تصویری پیکروں کو الفاظ ، آواز یا رنگ کی گرفت میں لے لیتا ہے۔“(مقالات جلالپوری)
”کفِ ملال“ کے بالاستعیاب اور خوردبینی فنی و فکری مطالعے کے بعد بِلا خوفِ تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ خورشید ربانی اپنی تخلیقات کو انہی مذکورہ بالا چاروں مراحل سے نہایت کامیابی کے ساتھ گزار کر ساحل ِ مراد تک لے آئے ہیں۔ اُن کے کلام میں حقائق کی بے کیف و بے رس اور احساس کی سپاٹ و بے روح ترجمانی کی جگہ اُن کا تمثیلی ، علامتی اور تخلیقی ، جمالیاتی و جذباتی طرزِ اظہار و ابلاغ دیکھنے کو ملتا ہے اُن کے ہاں پیکر تراشی اور تمثال آفرینی کی رنگارنگی کو دیکھ کر بے اختیار وہ الہامی جملہ یاد آتا ہے جو ڈاکٹر انور سدید نے مجید امجد کی شاعری کے متعلق ارشاد فرمایا تھا کہ ” وہ تصویروں میں سوچتے ہیں“ یہ لطیف نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ خورشید کا مرکزی استعارہ ” خواب“ ہے جس کا تعلق چشمِ تخیل سے ہے اِسی لیے اُن کے اکثر و بیشتر امیجز بصری (Visual)ہیں۔
ڈاکٹر وزیر آغا اپنی کتاب ”تخلیقی عمل “ میں فنونِ لطیفہ کی اساسی قدر ”آہنگ“ کو قرار دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ
”آہنگ فنونِ لطیفہ کے لیے اساسی حیثیت رکھتا ہے جب اس پر جسم حرکت کرتا ہے تو فن کی صورت رقص کہلاتی ہے جب آواز حرکت کرتی ہے تو موسیقی جنم لیتی ہے جب خطوط اپنے اندر اِس آہنگ کو سمو لیتے ہیں تو تصویر اُبھرتی ہے اور جب الفاظ اور تصورات (Images)جنبش میں آتے ہیں تو شعر پیدا ہوتا ہے۔“
واقعی اچھا شعر سن کر رُوح کے تار بج اُٹھنے سے انسان کو سر سے پاؤں تک ایک گونج سیسنائی دینے لگتی ہے جو اُسی ازلی و الہامی آہنگ کا زائیدہ ہوتی ہے۔
اشعار میں یہ آہنگ ، الفاظ کی موزُنیت اور ان میں چھپی داخلی موسیقی کی دریافت سے جنم لیتا ہے۔ اگر الفاظ میں اُس داخلی اور خارجی موسیقی کو جنم دینے میں ناکام رہیں تو آہنگ کا اثر گڑبڑا جاتا ہے ۔
خورشید ربانی کے ہاں قاری کو کئی ایک مقامات پر اُسی ”الہامی آہنگ“ سے مس ہونے کے نہایت کامیاب اور دلکش نمونے دیکھنے کو مل جاتے ہیں تمام ترکیبیں اور استعارے خوش آہنگ و خوش رنگ نہ سہی اکثر ایسے ضرور ہیں جو ”دامن دل “ کو کھینچ کر ” جا این جا ست“ کا واضح اشارہ دیتے ہیں ۔ اُن کے منتخب اشعار میں اصوات و الفاظ کے سجل پن کے ساتھ ساتھ غزل کی تمام نستعلیقی نفاستوں کا رچاؤ بھی نظرآتا ہے احساس کا شعلہ دھیما ہونے کے باعث شعر سنتے ساتھ دل میں ترازو ہو جاتے ہیں ان کے تصورات و احساسات تقریبا وہی ہیں جو عہد حاضر کے اکثر شاعروں کے ہاں دیکھنے کو مل جاتے ہیں تاہم مخصوص استعاروں ، خوش نما ترکیبوں اور خوش منظر پیکروں کی بدولت اُن میں جدّت اور تازگی کروٹیں لیتی محسوس ہوتی ہے ۔ نرم و شریں الفاظ سرما کی جھڑی کی شبنمی بوندوں کی مانند سماعت کے راستے دل کی زمین میں جذب ہو جاتے ہیں ویسے تو وہ ہائیکو اور آزاد نظم کے پُل صراط پر سے بھی سلامتی اور عافیت کے ساتھ گزرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن ان کے افکار و احساسات کے کنول غزل کے تالاب میں زیادہ دلآویزی اور رعنائی کے ساتھ کھِلتے ہیں۔
محمد حسن نے اپنی وقیع تالیف ” ادیبات شناسی“ میں شاعری اور نثر کے مابین خطِ امتیاز کھینچتے ہوئے لکھا ہے کہ ”نثر کا خطاب ذہن ہوتا ہے تو نظم کا جذبات ایک آگاہی دیتی ہے تو دوسری سرشاری۔“ شبلی ؒ نے شعر العجم میں بھی اِسی سے ملتی جلتی بات لکھی تھی کہ ”جو کلام انسانی جذبات کو برانگیختہ کرے تو وہ شعر ہے۔“ شاعری چونکہ بحالتِ جذب و کیف وجود میں آتی ہے یا ورڈزورتھ کے بقول” حالت سکون میں جذباتی کیفیات کی باز آفرینی سے جنم لیتی ہے“ اِسی لیے جذبات میں اُبال پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی ہے ۔ ”کفِ ملال“ کے مطالعے کے دوران اِس امر کا بار بار احساس ہوتا ہے کہ یہ خورشید ربانی کے جذباتِ قلبی کے بجائے اُس کے احساسات ِ دلی کی آواز ہے کیونکہ اِس میں گھلاوٹ یا گداز کی وہ شدت دکھائی نہیں دیتی جو جذباتی شاعری کے لیے ضروری ہے ۔ گویا خورشید ربانی کے اشعار کا مزاج بھی اُن کے اپنے مزاج کی طرح دھیما ہے اسی لیے اُن کے سمندِ سخن کا آہنگ آہستہ خرام بلکہ مختار مسعود کی اصطلاح میں ”شاہ گام “ ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے درون میں جذبات کے الاؤ کی جگہ احساس کی چِتا دھیرے دھیرے سُلگ رہی ہے سوائے بعض ایک مقامات کے جہاں، جذبے کا رنگ ذرا چوکھا ہے
بس اب تو رُکنے لگی نبض کی حرارت بھی
بس اور غم تیرے بیمار سے نہیں اُٹھتے
ڈاکٹر ابوالخیر کشفی نے ایک جگہ تحریر کیا تھا کہ ”تنقید میں تفہیم کے بعد تحسین کی منزل آتی ہے جو دراصل کسی ادبی کاوش سے ہماری لُطف اندوزی کی علامت ہے آج کی تنقید تجزیے اور جائزے اور نکتہ چینی میں ایسی اُلجھی ہے کہ تحسین سے محروم ہو گئی ہے۔“ آیئے ہم بھی تفہیم و تجزیے کی قدرے خشک و بے کیف موشگافیوں سے فرصت پا کے ”کفِ ملال“ کی تحسینیت (Appreciation)کی طرف اپنے آخری قدم بڑھائیں ۔ اس باب میں بھی علمائے ادب نے بڑی معرکہ آراءبحثیں کی ہیں۔ جو اہلِ نقد کے لیے سرمۂ چشم ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپ بھی ہیں۔ مثلاً اچھے شعر کے لیے مولانا محمد حسین آزاد نے”آبِ حیات“ میں ”نشتر“ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور اس کے لیے ”تڑپتا ہوا“ کی شرط بھی لگائی ہے۔ حالی نے مقدمے میں ”سادگی ، اصلیت اور جوش“ کا کڑا معیار مقرر کیا ہے۔ عبدالرحمن دہلوی نے ”مراةُ الشعر“ میں اشعار کو پانچ مراتب و مدارج میں تقسیم کیاہے۔ یعنی مُرقّص (رقص آور) مَطرَب (طرب انگیز ) مقبول ( اچھا ) مسمُوع(صرف سن لینے تک کا حقدار ) مَردود(رد کرنے کے لائق ) ۔ خاکہ نگری میں اشفاق احمد وردک نے ایک بلیغ جملہ نقل کیا ہے کہ ”شاعری یا تو ہوگی یا نہیں ہوگی۔ “ یادشبخیر پروفیسر نظیر صدیقی مرحوم اپنی کتاب ”غالب اور اقبال “ میں لکھ گئے ہیں کہ ” ہر فن کا ر کو بلندش بغایت بلند کی منزل پر دیکھنا چاہیئے نہ پستش بغایت پست“ ۔
ان معائر و محاسن کی روشنی میں جب میں نے ذوق ِ سلیم کی عصا ہاتھ میں لے کر کم و بیش بیس مرتبہ ”کفِ ملال“ پر نظر ڈالی تو مجھے کوہ نور ہیروں کی مانند چمکتے دمکتے ایسے کئی اشعار نظرآئے جو رقص آور اور نشتر ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف سادگی اصلیت اور جوش کی صفات سے مملُو لُبریز تھے بلکہ بلندش بسیار بلند ہونے کے منصب پر فائزہونے کے مستحق بھی تھے ۔ یہ اشعار خورشید ربانی کو اکیسویں صدی کے غزل کی تاریخ میں ضرور زندہ رکھ پائیں گے۔ ان شاءاللہ !
گونجتا ہوں دلوں کے گنبد میں
ایک آوازہ محبت ہوں
ہم نے طاقِ غزل میں اے خورشید!
اپنے احساس کا دِیا رکھا
تیرا میرا یہی دُکھ مشترک ہے
ہمیں انسان کا غم کھا گیا ہے
محبت اک پرانا راگ ہے جو
کسی اُستاد کا گایا ہوا ہے
چمکتی سوچ پہ شب خون مارنے والو!
یہی چراغ ہے جو آندھیوں میں جلتا ہے
بس اب تو رُکنے لگی نبض کی حرارت بھی
بس اور غم تیرے بیمار سے نہیں اُٹھتے
شہر خوابِ دلِ برباد میں کٹ جائے گا
عید کا دن بھی تیری یاد میں کٹ جائے گا
طاقِ احساس میں جلتا ہوا اِک ایک چراغ
تیرگی دل کی مٹاتا ہی چلا جاتا ہے