سیّد علی عباس جلالپوری( ١٩١٤ ٕ ٕ۔١٩٩٨ ٕ) کا شمار ممتاز پاکستانی فلسفیوں میں ہوتا ہے ،تاریخ ، تہذیب و ثقافت اور مذہب اُن کی دلچسپی کے خاص شعبے تھے، ایک درجن سے زیادہ کتب سے اُردو کا دامن مالا مال کیا،اُن میں سے ” مقاماتِ وارث شاہ” ،” اِقبال کا علم کلام”، ” روحِ عصر” کو بہت پذیرا ٸ ملی۔
” حُسن کیا ہے” ایک تحریری مذاکرے کا حصہ ہے جو رسالہ ” ادَبی دنیا” لاہور،خاص نمبر،دورِ پنجم۔شمارہ ہفتم،(مُدیر:صلاح الدین احمد ، شریک مدیر:وزیر آغا) میں شایع ہوا۔
سیّد علی عباس جلالپوری نے اپنی راۓ کی ابتدا جی ای مُور سے ایک شخص کے استفسار اور اس کے جواب سے کیا ہے۔مستفسر نے دریافت کیا” خیر کیا ہے!”جواب دیا گیا” خیر خیر ہے”۔اِس کے بعد سیّد علی عباس جلالپوری لکھتے ہیں ” راقم سے جب یہ سوال کیا گیا کہ حُسن کیا ہے!تو اس کا بھی جی چاہا کہ جواب دے” حُسن حُسن ہے” کہ اس سے زیادہ جامع تعریف حُسن کی ممکن نہیں ہے”(ص١٦)،( یہاں وہ جمالیات کے حوالے کو ناگزیر خیال کرتے ہیں جس کے بارے میں حاشیے میں لکھتے ہیں ” حُسن و جمال کی قدر پر افلاطون اور ارسطو نے بحث کا آغاز کیا تھا لیکن Aesthetics(جمالیات) کی ترکیب سب سے پہلے بام گارٹن نے ١٧٥٠ ٕ ٕ میں استعمال کی تھی۔یعنی وہ صنفِ علم جو منطق کی طرح صداقت سے بحث نہیں کرتی بلکہ حسّیاتی تاثرات کو معرضِ بحث میں لاتی ہے۔ہیگل نے ١٨٢٠ ٕمیں ایک مقالہ لکھا جس میں یہ ترکیب متداول مفہوم میں مستعمل ہو ٸ تھی۔اُس کے بعد عام طور سے رواج پا گیی”)،
سیّد علی عباس جلالپوری نے آگے چل مختلف دانش وروں کی آرا ٕ درج کی ہیں اور اس سے پہلے انھوں نےواضح طور پر اپنی اس راۓ کا اظہار کیا ہے ” حُسن و جمال سے زیادہ لطیف شے اس دارِ فانی میں اورکو ٸ نہیں” (ص٢١٧)، علما ۓ جمالیات کی درج ذیل آرا ٕکو وہ” سنگلاخ بحثیں”، ” بے کیف تحریریں” قرار دیتے جن سے اُن کے خیال میں ان سے حُسن کے مفہوم میں شدید اختلافات رونما ہوۓ ۔مندرجہ آرا ٕ ملاحظہ ہوں:
۔” حُسن وہ مسرّت ہے جس نے معروض کا رُوپ دھار لیا ہو”(سینٹیانا)،
۔ ” حُسن مسرّت کا وعدہ ہے”(ستاں وال)،
۔ ” اپالو بلوید پر(ایک مشہور مجسمہ) اِس لیے حسین نہیں ہے کہ وہ ہمیں مسرّت بخشتا ہے بلکہ وہ ہمیں مسرّت بخشتا ہے ، کیوں کہ وہ حسین ہے”(کولرج)،
۔ ” حُسن جہاں کہیں بھی دکھا ٸ دے اور جس صورت میں دکھا ٸ دے وہ حُسنِ ازل کا ہی پَرتو ہے”(فلاطینوس)،
۔” حُسن نہ نور ہے اور نہ تاریکی بلکہ اِن دونوں کے بَین بَین ایک جُھٹپٹا سا ہے”(گیٹے)،
۔” حُسن اِظہار ہے”(کروچے)،
۔ ” حُسن جِنسی خواہش کی تخلیق ہے”( فرایڈ)،
۔” حُسن توافق ہے”(وِل ڈیورنٹ)،
۔ ” حُسن وہ ہے جو نیکی کی طرف مایل کرے”(ٹالسٹا ٸ )،
محوّلہ بالا آرا ٕکو سیّد علی عباس جلالپوری بظاہر عام فہم قرار دیتے ہو ۓ اُن کے بین السطور جمالیت کے چند اہم نظریات کے مخفی ہونے کی بات کرتے ہیں ۔وہ نظریات ان کی نظر میں درج ذیل ہیں :
* عقلیاتی نظریہ: کانٹ کے تتبع میں کولرج نے پیش کیا ہے۔ کانٹ کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا جیسا کہ ہیوم نے کہا تھا حُسن سے جو آسودگی حاصل ہوتی ہے وہ حسیاتی نہیں عقلیاتی ہے۔
* جذباتی نظریہ : شوپنہار اور نیٹشے نے پیش کیا۔وہ کہتے ہیں کہ حُسن سے لُطف اندوز ہونے کے لیے اُس شے سے جذباتی لگا ٶ کا ترک کرنا ضروری ہےجس میں حُسن پایا جا ۓ۔
* اِظہاری نظریہ : کروچے کہتا ے کہ جمالیاتی عمل داخلی ہے اور اِظہارِ ذات سے تعلّق رکھتا ہے۔تِمثالی پیکر کےصفحہ ذہن پر ابھرآنے سے فنی تخلیق کا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔لہٰذا اظہار ہی حُسن ہے۔فرایڈ جنسی جبلّت کے اِظہار کو حُسن کا خالق سمجھتا ہے۔ہمارے ہاں اِقبال اس نظریے کے شار ح ہیں۔اُن کے خیال میں انا حُسن کی تخلیق کرتی ہے۔
* تجرباتی نظریہ : حُسن کا تجربہ ہیگل کے خیال میں نظریاتی ہے اور ہماری ذات کے عملی پہلو کے مخالف ہے۔ ہیگل فطرت کو حسین نہیں سمجھتا اور جمالیات کو فنونِ لطیفہ کا فلسفہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ حسن خواہ فنی ہو خواہ فطری وہ ہر حالت میں انسانی ذہن کی ہی پیداوار ہے۔نتیجتاً وہ فلسفے کو آرٹ پر فایق سمجھتا ہے۔
* وجودی نظریہ : اِس کا سب سے بڑا شار ح سکندریہ کا فلسفی فلطینوس تھا۔ وہ کاینات کے تمام مظاہر کو حُسنِ ازل کی تجلّی گاہ سمجھتا ہے۔اُس کا عقیدہ ہے کہ حُسن و جمال خواہ کسی رُوپ میں ظاہر ہو حُسنِ ازل کا ہی عکس ہے۔ایران کے مشاہیر وجودی شعرا حافِظ شیرازی، مَحمود شبستری،عِراقی،جامی،رُومی وغیرہ کا جمالیاتی نظریہ بھی نو فلاطونی یا نو اشراقی ہے۔
* اخلاقی نظریہ : افلاطون ، ٹالسٹا ٸ اور رسکن نے پیش کیا۔ان کے خیال میں حُسن کو خواہ وہ موسیقی کے توافق میں ہو یا کسی شخص کے تناسبِ اعضا میں ، اِنسان کو نیکی کی طرف مایل کرنا چاہیے ۔
مذکورہ نظریات میں سے بعض کو سیّد علی عباس جلال پوری موضوعی اور بعض کو معروضی کہتے ہیں ۔موضوعی نظریہ ان کی را ۓ میں یہ ہے کہ حُسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے اور معروضی نظریہ یہ ہے کہ حُسن موضوع یا مشاہِد و سامع سے بے نیاز ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تمام اِظہاری نظریے لازماً موضوعی ہوتے ہیں چنانچہ کروچے،فرایڈ اور اقبال کے خیال میں موضوع خواہ اسے انا کہا جا ۓ یا اس کا وجود جبلّت اور شاہِدوسامع میں تسلیم کیا جا ۓ ،حُسن کی تخلیق کرتا ہے ۔سیّد علی عباس جلالپوری فلاطینوس اور کولرج کے تصوّرات کو اس کے برعکس قرار دیتے ہیں جن کے نظریات معروضی ہیں ۔اُن کا عقیدہ ہے کہ جمالیاتی قدر کی بقدرِ توفیق تصریح کر دی جا ۓ کہ اِس سے ہمیں حُسن کی تعریف کرنے میں مدد ملے گی” (ص٢١٨)،
سیّد علی عباس جلالپوری حُسن کے ذیل میں اپنا ایک موقّف رکھتے ہیں تاہم وہ مشاہیر کی آرا ٕ سے اپنی تحریر کو سجانے اور اُنہیں بیّن دلیل کے طور پر پیش کرنے کا خاص ہُنر رکھتے ہیں ، اِس طرز سے اُن کی تحریر زیادہ وقیع اور پُر معانی ہوتی چلی جاتی ہے۔ وہ افلاطون کے حُسن کے ذیل میں تین تصورات ١۔حُسن،
٢۔خیر ،
٣۔ صداقت
کی جانب اِشارہ کرتے ہو ۓ اس کے ردِّ عمل سے بھی آگاہ کرتے ہیں مثلاً
کیٹس کہتا ہے کہ حُسن صداقت ہے اور صداقت حُسن ۔
جرمن مثالیت پسند شیلنگ کا عقیدہ تھا کہ ہماری حسِ جمال ہی صداقتِ کبریٰ کا اِدراک کرنے میں کامیاب ثابت ہو سکتی ہے۔
کروچے کہتا ہے کہ حُسن و جمال کی پرستش کو مذہبی اخلاق یا خیر کا نعم البدل سمجھا جا سکتا ہے۔
فرانسیسی جمالین حُسن کے مقابلے میں خیر اور صداقت کو ناچیز سمجھتے تھی۔
کلفورڈ بیرٹ کہتے ہیں کہ اِنسان اپنی طرزِ زندگی سے کبھی مطمین نہیں ہو سکتا اور ہمیشہ بہتروبرتر کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔برتر کے حُصول کے اِمکانات ہمیشہ سے موجود رہے ہیں ،یہی اِمکانات اُس کے دِل و دماغ میں اِحساسِ قدر کو بیدار کرتے ہیں۔وہ مِثالی صداقت کا خواہاں اِس لیے ہے کہ وہ اِسے روزمرّہ کی زندگی میں نہیں پا سکتا۔وہ مثالی خیر کو اِس لیے تلاش کرتا ہے کہ اپنے گردوپیش میں اُس سے دوچار نہیں ہوتا اور مثالی حُسن کی جُستجو اِس لیے کرتا ہے کہ اُسے زندگی میں کہیں نہیں دیکھ پاتا” (ص٢١٨)،
یہاں سید علی عباس جلالپوری قدر کی گرہ کشا ٸ کرتے ہیں،اُن کی را ۓ میں ” قدر اُسُ چیز میں ہوتی ہے جس میں کو ٸ دِلچسپی لے”(ص ٢١٨)۔ اِس موقف کی وضاحت وہ دو مثالں سے کرتے ہیں:
١۔ ایک عطّار اور ایک شاعِر کسی گلاب کے پُھول کو دیکھتے ہیں۔عطّار اس میں اِس لیے دلچسپی لیتا ہے کہ اُس سے عِطر کھینچا جا سکتا ہے اور شاعِر کو پُھول دیکھ کر اپنی محبوبہ کا عارضِ گلگوں یاد آ جاتا ہے۔اوّل الذّ کر کے لیے پھول میں اِفادی قدر ہو گی اور ثانی الذّ کر کے لیے جمالیاتی۔
٢۔ فرض کیجیے کہ برسات کی ایک شام ہے، مغربی اُفق پر بدلیاں چھا ٸ ہو ٸ ہیں جِن میں ڈوبتے سُورج کی قِرمزی شُعاعوں نے آگ لگا دی ہے۔ایک کسان اپنے ڈھور ڈنگر ہنکاتا ہوا سڑک پر سے گزرتا ہے لیکن وہ اس منظر کے حُسن سے بالکل بے خبر ہے اور اُس کی جمالیاتی قدر کا مُطلق اِحساس نہیں رکھتا لیکن ایک مصوِّر اُن شُعلہ بدامن بدلیوں کو دیکھ کر دھک سے رہ جا ۓ گا اور خُدا معلوم حُسن و جمال کی کیسی کیسی تجلّیاں اُس کی چشمِ تصوّر کے سامنے جِھلملانے لگیں گی "( ص٢١٨۔٢١٩)،
سیّد علی عباس جلالپوری نےقدر کی دو قِسموں کی نشان دہی کی ہے:
١۔ وسایلی قدریں،
٢۔ بُنیادی قدریں ،
” ہمیں بعض اشیا اِس لیے اچھی لگتی ہیں کہ وہ دُوسری چیزوں کے حُصول میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں یہ وسایلی قدریں ہیں ، مثلاً ایک شخص دِن رات دولت سمیٹنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے تاکہ دولت کے وسیلے سے حکومت حاصل کر سکے لیکن بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو فی نفسہ اہمیت رکھتی ہیں یہ بُنیادی قدریں ہیں، اِس مفہوم میں حُسن ، خیر اور صداقت کو بنیادی قدریں سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ انہیں کسی دوسری چیز کے حُصول کا وسیلہ نہیں بنایا جا سکتا بلکہ وہ خود اپنی ذات میں ہماری ذوقی آسودگی اور ذہنی طمانیت کا باعث ہوتی ہیں” [ ص٢١٩] ،
سیّد علی عباس جلالپوری کی اس مدلّل اور شان دار تحریر کے نکات قابل غور ہیں :
* اگر یہ مان لیا جا ۓ کہ قدر اُس وقت منکشف ہوتی ہے جب ناظِر یا سامع اُس شے سے دلچسپی لے جس میں قدر موجود ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ حُسن کی قدر کسی حسین شے میں موجود تو ہوتی ہے لیکن اُس کی نشان دہی کے لیے کسی ناظِر یا سامع کا اُس سے دلچسپی لینا ضروری ہے۔
* حُسن کی قدر کا تشخّص کرنے کے لیے اُس کی بُنیادی خصوصیت یعنی توافق (Harmony) کو بھی مدِ نظر رکھنا پڑے گا۔قدما ۓ یونان توافق کو بھی حُسن سمجھتے تھے۔یہ بات بداہتہً صحیح ہے کہ حُسن خواہ کسی شے میں جلوہ گر ہو اس شے کے اجزا ۓ ترکیبی میں توافق و تناسب لازماً موجود ہو گا۔
* حُسن کے اظہار کی تین صورتیں تسلیم کی گیی ہیں۔
١۔فطری مناظر کا حُسن ،
٢۔حُسنِ نسوانی ،
٣۔ اُصولِ فن کا حُسن ۔
آسمان پر اِدھراُدھر پھیلی ہو ٸ بدلیوں کو کو ٸ نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا لیکن جب ماہتاب کی کرنیں اُن میں روشنی اور سا ۓ کا توافق پیدا کر دیتی ہیں تو منتشر بدلیاں منظر کی صُورت اختیار کر لیتی ہیں اور اُن میں حُسن پیدا ہو جاتا ہے۔عورت کے حُسن کی بھی یہی کیفیت ہے ۔ایک حسینہ کے چہرے کے نقوش اور اُس کے پُر شباب جسم کے دلآویز خُطوط اور زاویوں میں توافق موجود ہوتا ہے۔بعض لڑکیوں کے خدوخال موزوں ہوتے ہیں لیکن اعضا میں گدراہٹ اور گداختگی نہ ہونے کے باعث اُن میں کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔یہ کمی توافق کی ہی ہوتی ہے۔اصولِ فن کا یہی حال ہے ۔تصویر خواہ کتنے ہی بد صورت شخص کی ہو اُس کے خطوط اور رنگوں میں توافق کی کیفیت ہو گی تو ہم اُسے حسین کہنے پر مجبور ہو جاییں گے۔
سید علی عباس جلالپوری اِسی توافق و تناسب کو حُسن کا حقیقی سرمایہ اور بُنیادی شناخت خیال کرتے ہیں اِس کے بغیر ذوقی اور باطنی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی ۔ فلسفیانہ اَساس کی حامِل اِس مختصر مگر جامع تحریر سے سیّد علی عباس جلالپوری کے افکار کے جمالیاتی گوشوں سے متعارف ہونے کے ساتھ ساتھ اِس موضوع سے متعلق اُن مشاہیر کے تصوراتِ حُسن و جمال کو بھی سمجھنے کی راہیں ہموار ہوتی ہیں جِن کا ذکر سیّد صاحب نے کیا ہے ۔ وہ ان مشاہیر کے علم و فضل سے مَرعوب ہونے کے بجاۓ اپنا مدّعا بیان کرنے اور اپنے زاویہ نگاہ اور حاصل ِ مطالعہ سطحِ قرطاس بر منتقل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔