جلیل عالی
حلقہِ اربابِ ذوق اسلام آباد کے کل کے اجلاس میں "سائنس،فلسفہ اور اقبال ” کے موضوع پر ہود بھائی کا لیکچر کوئی دانشورانہ ذمہ داری سے دیا ہوا سنجیدہ لیکچر نہیں تھا،اقبال کے تہہ دار افکار و تصورات بارے اپنی لاعلمی کو طنزیہ و مزاحیہ جملے بازی میں چھپانے کی ناکام کوشش تھی۔مجھے لگتا ہے کہ ہود صاحب سے کہیں زیادہ اقبال کو بہتر طور پر سمجھنے والے اقبال دشمنوں نے اس لیکچر کا اہتمام صرف اس لیے کیا کہ اقبال کے خلاف جو باتیں علمی پاسداری اور فکری دیانت میں ان کے لیے کہنا دشوار تھیں وہ ایک نام نہاد آزاد خیال ملّا جوشِ مجہول میں آسانی سے کہہ سکتا ہے۔
یہ بات بھی ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئی کہ اجلاس کے صدرِ محترم نے اس اعلان کے باوجود کہ حلقے کا انداز ہی بروئے کار ہو گا،کسی کو دو منٹ بھی بات کرنے کی اجازت نہیں دی۔
اقبال دشمنی کی اس مہم کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج جب کہ پوری دنیا میں مذہب کے اجتماعی سروکار سے جان چھڑائی جا چکی ہے،اشتراکیت کی پسپائی کے بعد استعماری قوتوں کے خلاف اسلامی عالمگیر وفا داری جگہ جگہ مزاحمت کا زندہ عملی ثبوت دے رہی ہے۔اور عصرِ جدید میں اس مزاحمت کے پیچھے اقبال کی نئی فکری تشکیل کا تحرک کار فرما ہے۔
سو استعمار کے لا مذہب اور آزاد خیال حواریوں کے ساتھ ساتھ مایوس اشتراکیوں کے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اقبال جیسے استعمار دشمن مفکر کے خلاف انہدامی مہم چلائیں،اور انسانیت کو "خوفِ اسلام”کے نفسی اختلال میں مبتلا کریں۔