تنقید

بارگاہِ بیدل


ڈاکٹر معین نظامی
            مجھے فارسی سے اردو ترجمہ نگاری میں طبع آزمائی کرتے ہوئے تیس برس ہونے کو آئے اور اب قدیم و جدید نظم و نثر کا ترجمہ کرتے ہوئے کوئی خاص دقّت پیش نہیں آتی۔ میرا دائرہء کار ادب و تاریخ و تصوّف اور ان کے متعلّقات ہیں۔ اس محدود سے دائرے کے باہر ترجمہ نگاری میرے لیے ان دیکھا میدان ہے۔ میرے تراجم کا معیار عموماً تسلّی بخش ہوتا ہے۔ لیکن مرزا عبد القادر بیدل کے عظیم و جلیل اشعار کا ترجمہ کرتے ہوئے آج بھی میری وہ حالت ہوتی ہے جو زندگی میں پہلی بار امتحان دینے والے کسی ایسے طالب علم کی ہوتی ہے جس نے محنت اور لگن سے نہ پڑھا ہو اور جس میں اعتماد کی بھی کمی ہو۔

شدّت سے دھڑکتے ہوئے دل اور لرزشِ خفی پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہوئی انگلیوں کے ساتھ ترجمہء بیدل کا یہ کٹھن مرحلہ میرے لیے ایک نادر مسرّت بخش ذوقی و تخلیقی تجربہ ہوتا ہے لیکن ہمیشہ ایک جسارت بھی لگا کرتا ہے۔ بیدل کا بے کراں محیطِ معانی کسی ذرا سی آبجو میں کہاں سما سکتا ہے، وہ عکس، وہ نقش، وہ رنگ، وہ خوشبو، وہ کسک، وہ اثر خیزی، دل اور دماغ کی یک جا سیرابی کی وہ معجزہ گری بھلا سپاٹ سی اردو نثر میں کیسے منتقل کی جا سکتی ہے۔
دل با تو سفر کرد و تہی ماند کنارم
اکنون چه دہم عرضِ خود آئینه ندارم
دل تمھارے ساتھ ہی سفر کر گیا اور میری آغوش خالی رہ گئی، اب مَیں اپنا جلوہ کیا دکھاؤں، میرے پاس تو کوئی آئینہ ہی نہیں رہا
افسردگی ام سوخت در این دیرِ ندامت
پروانهٔ بی بال و پرِ شمعِ مزارم
پچھتاوں کے اس بت خانے میں مجھے افسردہ خاطری نے جلا ڈالا، مَیں کسی مزار کے چراغ کا پروانہ ہوں اور پروانہ بھی بے بال و پر
چون شمع در این بزم پناہی دگرم نیست
جز گردشِ رنگی‌ که قضا کرد حصارم
شمع کی طرح اس بزم میں رنگوں کی گردش کے سوا مجھے کوئی پناہ میسّر نہیں ہے، جسے قضا و قدر نے میرا حصار بنا رکھا ہے
ہرچند سرشکم ہمه تن لیک چه حاصل
ابری نشدم تا رَوَم و پیشِ تو بارم
گو مَیں سر سے پاؤں تک آنسو ہی آنسو ہوں لیکن کیا فائدہ، مَیں کوئی بادل نہ بنا جو جا کے تیرے حضور میں برستا
دل عافیت اندیش و جہان محشرِ آفات
کو طاقِ درستی‌ که بر آن شیشه‌ گذارم
دل امن و سلامتی کے چکر میں رہتا ہے جب کہ کائنات ساری کی ساری مصیبتوں کا محشر ہے، ایک طاقچہ بھی صحیح سلامت نہیں جہاں مَیں یہ آبگینہ سنبھال کر رکھ سکوں
رحم است به حالِ من‌ِ گم‌کرده حقیقت
آئینهٔ خورشیدم و با سایه دُچارم
مجھ حقیقت کو کھو بیٹھنے والے کی حالت قابلِ رحم ہے، ہوں تو مَیں سورج کا آئینہ لیکن سایوں میں پھنسا ہؤا ہوں
در انجمنِ یاس چه‌ گویم به چه شغلم
در کارگهِ عجز ندانم به چه کارم
کیا عرض کروں کہ مایوسی کی انجمن میں میرا کیا شغل ہے، مَیں نہیں جانتا کہ بے بسی کے کارخانے میں مَیں کس کام پر لگا ہؤا ہوں
بارم سرِ خویش است به دوشِ ‌کِه ببندم
خارم دلِ ریش است ز پای‌ کِه برآرم
میرا سر ہی میرا بوجھ ہے، اسے کس کے کندھے پر باندھوں، میرا زخمی دل ہی میرا کانٹا ہے، اسے کس کے پاؤں سے نکالوں
ای انجمنِ ناز، تو خوش باش و طرب‌ کن
من بیدلم و غیرِ دعا ہیچ ندارم
اے ناز و ادا کی انجمن، تو خوش رہ، محوِ سرمستی رہ، مَیں بیدل ہوں اور میرے پاس دعا کے سوا کچھ نہیں ہے

km

About Author

1 Comment

  1. Dr Shabbir Ahmad Qadri

    ستمبر 7, 2019

    Bohat umda sir , Kaamyab tarjumay ki aik khubi yeh hoti hat qari asl baat ko pa ja’y , aour musannif ka mudda’ samajh ja’y . aap ka tarjuma is zimn main bohat ahmeyyat ka haamil hay.

Dr Shabbir Ahmad Qadri کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں