تنقید

اقبال کا کلام اور نوآبادیات : پروفیسرکلیم احسان بٹ

 

اقبال اردو کے جدید شعری ادب کا نقطہ کمال ہے۔یوں تو غالب نے شعر میں وہ جدت و ندرت پیدا کر دی تھی کہ اب شعر لب و رخسار کے فسانوں سے نکل کر زندگی کے پیچیدہ اور گوناگوں مسائل کو بھی موضوع بنانے کے قابل ہو گیا تھا ۔مگر خالص فکر ی موضوعات کو شعر کے قالب میں پیش کرنا اقبال کے سوا اردو ادب کی شعری تاریخ میںاور کسی کے حصے میں نہیں آیا۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ایک قومی فریضہ سر انجام دیا۔اور اپنی قوم کو ذہنی غلامی کی دلدل سے نکال کر آزاد اور خودمختار قوم بنانے کی سعی کی ۔ جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔
اگر تاریخ پر ذرا نظر دوڑا لی جائے تو معلوم ہو گا کہ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی سے قبل بھی فورٹ ولیم کالج اور دہلی کالج اور انگریزوں کی سرپرستی یا تعاون سے چلنے والی سوسائٹیوں کے ذریعے ایک ایسا تعلیم یافتہ طبقہ پیدا ہو چکا تھا جسے انگریزی حکومت کی برکات پر پورا یقین تھا ۔اور وہ انگریزوں کے اقبال و سلطنت کے لیے دعا گو تھا۔
’’عہد میں اشرف الاشراف مارکولس ولزلی گورنر جنرل ‘ لارڈ مالنگٹن صاحب کے ( جن کی تعریف میں عقل حیرا ن اور فہم
سرگرداں ہے۔جتنے وصف سرداروں کو چاہیے ان کی ذات میں خدا نے جمع کیے ہیں ۔غرض قسمت کی خوبی اس ملک کی
تھی جو ایسا حاکم تشریف لایا جس کے قدم کے فیض سے ایک عالم نے آرام پایا ۔مجال نہیں کہ کوئی کسو پر زبردستی کر سکے
شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں ۔سارے غریب غربا دعا دیتے ہیں اورجیتے ہیں)چرچا علم کا پھیلا ۔صاحبان ذی
شان کو شوق ہوا کہ اردو زبان سے واقف ہو کر ہندوستانیوں سے گفت و شنود کریں۔‘‘(۱)
کمزور مغل سلطنت نے اس فتنے کو پنپنے کا پورا موقع دیا اور یوں برصغیر پاک وہند میں ہزار سالہ مسلم اقتدار کے چراغ کی لو پھڑپھڑانے لگی ۔ تاہم ۱۸۵۷ میں مقامی آبادی نے اپنی منتشر قوت کو یکجا کر کے انگریزوں کے سیاسی عزائم کے خلاف ردعمل کا اظہار کیاتو اس جنگ میں قلعہ معلی ہی کو مرکز بنایا گیا اور بہادر شاہ ظفر کو مشکل بحروں کی مشق سے نکل کر کچھ دیر کے لیے جنگ کی حکمت عملی دیکھنا پڑی۔نتیجہ وہی نکلنا تھا جو نکلا ۔اب انگریز کی سر پرستی میں پلنے والے افراد و خیالات کو پھلنے پھولنے کا پورا موقع ملا ۔سرسید اور ان کے ہم خیال دانشوروں نے مہذب قوموں کی پیروی کو ترقی کا زینہ بتایا(۲)
جنگ آزادی میںناکامی کے بعد رد عمل کی آواز بہت کمزور پڑ گئی اور ۱۸۸۰میں حالی نے تہذیب الاخلاق کے ایک مضمون’’کیا مسلمان ترقی کر سکتے ہیں ‘‘میںلکھا
’’آج سے تیس برس پہلے ہندوستان میں ایک مسلمان بھی ایسا نہ ہو گاجو انگریزی زبان سیکھنے کو مصیبت نہ جانتا ہولیکن اب
برخلاف اس کے ایک مسلمان بھی ایسا نہ ہو گا جو انگریزی سیکھنے کو ضروری نہ سمجھتا ہو۔‘‘(۳)
ان دانشوروں کے خلوص سے انکار نہیں مگر وہ متعدد وجوہات کی بنیاد پر دھوکے میں آگئے کیونکہ مقامی آبادی بالخصوص مسلمانوں کی فکر میں یہ انقلاب نوآبادیاتی نظام کے استحکام کی علامت تھا ۔ اور لارڈ میکالے کے مقاصد کے حصول کی طرف ایک بڑاقدم ۔لارڈ میکالے کے مقاصد کیا تھا اب تاریخ انہیں بے نقاب کر چکی ہے ۔ اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا:
I have traveled across the length adn breadth of India and I have not `
seen one person who is a begger , who is a thief. Such wealth I have
seen in this country; such high moral values; people of such cultrure;
that I do not think we would ever conquer this country , unless we break
the very backbone of this nation which is her spiritual and cultural heritage
and therefore I propose that we replace her old and ancient education system, her culture , for if the indians think that a forign and english is good and greater than their own , they will lose their self esteem , their native self culture and they will became what we want them , a truely dominated nation(4)

اس رپورٹ کی صداقت یا عدم صداقت پر مباحث موجود ہیں لیکن تاریخ کی اس موڑ پر جب ہم ڈیڑھ دو سو سال پرانے عہد کا از سرنو جائز لیتے ہیں تو اس کی صداقت پر ایمان لانے میں کوئی دلیل حائل نہیں ۔
مسلمان مدبرین نے اس خدشہ کے پیش نظر کہ کہیں مسلمان ترقی کے ثمرات سے محروم رہ کر قومی ترقی کی دوڑ میں اپنے ہم وطنوں سے بہت پیچھے نہ رہ جائیں شد و مد کے ساتھ قوم کو لعن طعن شرو ع کی ۔ نئی فکر کی مدح اور مقامی معاشرت و آداب کی ہجو مسلسل کے نتیجے میں ایک ایسی کٹھ پتلی نسل تیار ہوئی جس میں تحقیق کی بجائے تقلید کی روش نے نمو پائی اور نو آبادیاتی نظام کے کارخانوں سے مقامی رنگ و نسل کے انگریز تیار ہونے لگے ۔اور یہی لارڈ میکالے کامدعا تھا ۔خواجہ ذکریا نے اس صورت حال کا نقشہ کچھ ان الفاظ میں بیا ن کیا ہے ۔
’’انگریزوں کی حکومت برصغیر پر دوسو سال تک رہی۔اس عرصے میں کیا کچھ نہیں ہوا ۔حکومت گئی ، خوش حالی رخصت
ہوئی ۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود اعتمادی جاتی رہی۔ایک طرف انگریزوں کی طاقت تھی دوسری طرف پروپیگنڈا
اور تیسری طرف پالیسی۔اس سہ طرفہ حملے نے برصغیر کے باشندوں کو پہلے لوٹا مارا پھر نگاہوں کو خیرہ کیا اور آخر میں
ذہنوں کو مسخر کر لیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ اب لوگ تھے اور یورپ کی قصیدہ خوانی ۔۔یورپ نے دنیاکو تہذیب سکھائی ہے
نئی ایجادات سے انسانی زندگی کے مصائب کم کر دیے ہیں اور جدید علوم سے ذہنوں کو جلا بخشی ہے وغیر ہ وغیرہ ۔
چنانچہ لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اگر انگریز ہندوستان میں نہ آتے تو ہم ہمیشہ قرون مظلمہ میں زندگی بسر کر رہے ہوتے۔
سڑکیں ریلیں تاربرقی اور ٹیلی فون وغیرہ ہماری زندگیوں میں داخل نہ ہوتے تو ہماری حالت کتنی قابل رحم ہوتی۔‘‘(۵)
اس صورت حال میں کسی قوم کا دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑاہونا ممکن نہ تھا ۔سیاسی محاذ پر اس ذہنی شکست کے دائرے وسیع سے وسیع تر ہوتے گئے ۔یہاں سے ہم سیاست سے گریز کرتے ہوئے ہم ادب کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں ۔
ہمارے ادب میں بہت سی خرابیاں ہیں جن کو دور کرنا ضروری ہے اور انگریزی ادب انتہائی ترقی یافتہ اور مثالی حیثیت رکھتا ہے لہذا اس کی تقلید سے ہی ہم اپنا ادبی وقار بحال کر سکتے ہیں ۔یہی وہ خیالا ت تھے جو سر سید اور ان کے ساتھیوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے قارئین میں عام کیے ۔حالی نے لکھا نے شعر کی افادیت کے بارے میں جو چار کی چار مثالیں نقل کی ہیں وہ مغربی شعرا کی ہیں ۔اور اس کے بعد لکھا ہے
’’الغرض یورپ میں لوگوں نے شعر سے بہت بڑے کام لیے ہیں ۔خصوصا ڈریمیٹک پوئٹری نے یورپ کو جس قدر فائدہ پہنچایا ہے
اس کا اندازہ کرنا نہایت مشکل ہے۔اسی واسطے شیکسپئر کے ڈرامے جن میں پولیٹیکل ،سوشل اور مورل ہر طرح کے بے شمار فائدے
اہل یورپ کو پہنچے ہیں بائبل کے ہم پلہ سمجھے جاتے ہیں ۔۔۔ایشیا کی شاعری میں اگرچہ ایسی مثالیں جیسی کے اوپر ذکر کی گئی ہیں شاید
مشکل سے مل سکیں لیکن ایسے واقعات بکثرت بیان کئے جا سکتے ہیں جن سے شعر کی غیر معمولی تاثیر اور اس کے جادو کا کافی ثبوت ملتا
ہے۔‘‘(۶)
ہماری تنقیدکی تقلید پر بنیا د حالی نے رکھی اور یہ وہ ٹیڑھی دیوار ہے جس پر کوئی عمارت قائم نہیں ہو سکتی تھی۔ مولانا محمد حسین آزاد نے بھی انگریزی کی بالادستی کو تسلیم کیا اور لکھا
’’انگریزی کے باب میں مجھے کچھ کہنا زیبا نہیںکیونکہ اب روشن ضمیر انگریزی خواں بہت ہیں اور مجھ سے زیادہ جانتے ہیں مگر اتنا کہنا کافی ہے
کہ جس طرح ایک مہذب سلطنت کو تمام ضروریات سلطنت کے کارخانے اور ملکی سامان موجود ہونے چاہیئیں اسی طرح سب قسم کے الفاظ
اور تمام ادائے خیالات کے انداز انگریزی زبان میں موجود ہیں ۔‘‘(۷)
پریم چند کے افسانے ادیب کی عزت میں حضرت قمر پر انگریزی زبان کے ایک معمولی ادیب کو جو ترجیح دی گئی ہے وہ ہماری نظری تنقید میں پیدا شدہ اس صورت حال کی نہایت عمدہ تصویر کشی ہے ۔جس نے بائرن کیٹس اور شیلے اور ملٹن کو نہیں پڑھا اس کو ادیب کہلوانے کا حق نہیں ۔اور مقامی تخلیقی سرگرمیوں سے کہیں بہتر ہے انگریزی شاہکاروں کے ترجمے کیے جائیں۔
انگریزوںنے دلی و لکھنو کی جگہ لاہور کو ادب کا مرکز بنایا ۔شیخ محمد اکرام کے خیال میں
’’اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ جدید اردو شاعری نے لاہور میںجنم لیا لیکن اسے اپنی نشو و نما کے لیے علی گڑھ کی فضا راس آئی۔نئے انداز اور
نئے اسلوب کی نظمیں اسی شہر کے ادبی ماحول کی پیداوار ہیں ۔پہلی بارمحمڈن ایجوکیشنل کانفرنس نے اس انداز کلام کو دنیا سے روشناس کرایا
اردو خطابت کی تربیت گا ہ دراصل یہی کانفرنس ہے ۔اس کی آغوش میں وقت کے بلند پایہ ارباب ادب کی خطیبانہ صلاحیتیں بیدار ہوئیں۔
اس کانفرنس کے پلیٹ فارم نے انہیںعوام سے متعارف کرایا اور یہیں حقیقت میں ان شخصیتوں کے دبے ہوئے نقوش ابھرے۔(۸)
لاہور میں انجمن پنجاب کی کوششوں اور حالی اور محمد حسین آزادکی نظم و نثر نے انگریزی خیالات کو عام کیا اور مشرقی سرمایہ ادب میں بہت سی اصناف غیرضروری قراردیں ۔غزل کی جگہ نظم کو مقبول بنانے کی کوشش کی ۔مشرقی فن شعر میں اصلاحات تجویز کیں اور خود اپنی شاعری کے ذریعے ایک نمونہ بھی پیش کرنے کی کوشش کی ۔
اکبر الہ آبادی وہ واحد آواز ہے جس نے سیاسی کم اور معاشرتی و فکری محاذ پر مشرق کے دفاع کی کوشش کی ۔اکبر کے علاوہ جن لوگوں نے انگریزی خیالات و تہذیب و تمدن کے خلاف آواز اٹھائی اس کی نوعیت زیادہ تر سیا سی ہے ۔ خواہ اسے ادب کے پیرائے ہی میں کیوں بیان نہ کیا گیا ہواس کی بڑی مثالیں مولانا حسرت موہانی ،مولانا ظفر علی خان ، مولانا شبلی نعمانی وغیرہیں ۔یہ سب بنیادی طور پر انگریز کے سیاسی اقتدار کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ۔اور اس کے لیے عملی کوششوں میں حصہ بھی لیتے ہیں ۔نوآدیاتی تہذیب و تمدن اور فکرودانش کے خلاف پہلی کامیاب اور بھرپورآواز اقبا ل کی ہے ۔
یہاں یہ نکتہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نوآبادیاتی نظام کی آفرینش اور اس نظام سے فیض یافتہ تھے۔انہوں نے سکول کالج کی تعلیم حاصل کی اور یورپ کی درسگاہوں میں اعلی تعلیم حاصل کی ۔ انہوں نے اپنے اولین دور میں نوآبادیاتی فکر کے کئی عوامل کو قبول کیا تھا مگر مسلسل مطالعہ او ر مشاہد کے بعد انہوں نے ایک مربوط فلسفہ پیش کیا جس کی بنیاد دلائل و براہین پر ہے اور اس کا تعلق اقبال کے وجدان سے بھی ہے ۔
نو آبادیاتی فکر کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ مقامی افراد کو یقین واثق دلایا جائے کہ نئی فکر اور نیا نظام ہی ان کے لیے بہتر ہے اور پرانا نظام اور پرانی فکر فرسودہ اور ازکار رفتہ ہو چکی ہے مغربی تہذیب کی پیروی ہی سے مقامی افراد اپنی فرسودہ روایا ت اور نظام سے ایک متمدن اور مہذب دنیا میں داخل ہو سکتے ہیں ۔
اس مقصد کے حصول کے لیے لارڈ میکالے نے ایک تعلیمی نظام وضع کیا جس کا مقصد ایک ذہنی غلام نسل جومغربی تہذیب کے سیاسی و فکری منشور سے ہم آہنگ ہو پیدا کرنا تھا تاکہ ہندوستان میں سیاسی بالادستی کو آسانی سے برقرار رکھا جا سکے۔اس تعلیمی نظام کے نتیجے میں دین سے دوری ،اقدار سے بیزاری اور انگریز کی پیروی تہذیب و تمدن کے نشانات ٹھہرے۔یہ تعلیمی نظام ابھی تک ہمارے ہاں رائج ہے یہی وجہ ہے کہ ہر معاملے میں مغرب کی طرف دیکھنے کی روایت آج بھی قائم ہے۔
اقبال کے عہد تک نوآبادتی فکر کی جڑیں کافی ہندوستان میں کافی گہر ی ہو چکی تھیں ۔بالخصوص تعلیم یافتہ طبقہ مزاحمت کے قابل نہیں رہا تھا اور نئی طرز معاشرت اور طرز فکر میں ڈھل چکا تھا ۔ تاہم حقیقت یہی ہے کہ اجنبیوں کی سوسالہ حکومت کے باوجودعوام کے طرز زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا۔اور جب بھی کسی رہنما نے اجنبی حکومت کے خلاف بات کی عوام میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوگیا۔
اقبال کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کا تعلق ایک عام مذہبی گھرانے سے تھا۔مگر انہیں اعلی تعلیم کے ساتھ نوآبادیاتی نظام کو دیکھنے اور سمجھنے کے مواقع بھی ملے ۔اقبال کی فکر نے ردوقبول کے بعد جو شکل اختیار کی ۔اس کے دو رخ قابل توجہ ہیں
مغربی تہذیب کے اثرات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال ان کے سامنے تھی۔انہوں نے مغربی تہذیب و تمدن کا بھر پور انتقادی جائزہ لیا۔اور اس کے مضر اثرات کو اپنی فکر کو موضوع بنایا ۔اور دلائل سے ثابت کیا کہ مغربی نظام فکر کے اندر ایسے خطرناک عناصر موجود ہیں ۔جو بنی نوع انسان کو تباہی کی طرف لے جائیں گے۔اس لیے یہ نظام فلاح انسانیت کے لیے کار گر نہیں اور خود اپنی موت مر جائے گا
اقبال نے مقامی افراد کو بالخصوص مسلمانوں کو اس صورت حال سے نپٹنے کے لیے راہ عمل بھی تجویز کی ۔اور شعر کی صورت میں ایک باقاعدہ فلسفہ پیش کیا ۔جس کے ذریعے انہوں نے ہندوستان کی خفتہ عوام کو بیدا ر کیا ۔اور ان کے لیے ایسے راستے کا تعین کیا جو بالاخر منزل تک پہنچتا تھا۔
پروفیسر سمیع اللہ قریشی موضوعات فکر اقبال میں رقم طراز ہیں
’’اقبال ان مسلم مفکرین میں سے ہیں جنھیں اس صدی کے آغاز ہی میں مغربی تہذیبی و سیاسی خلفشار اور استعماری رویے کا
تنقیدی جائزہ لینے کا نہ صرف موقع ملا بلکہ اس میںانہیں ایسے محرکات نظر آئے جو اگر ایک طرف اقوام مشرق کے لیے تباہ کن
تو دوسری جانب خود مغرب کی تباہی پر بھی شاہد تھے ۔انہیں اس بات کا اندازہ اپنے پہلے سفر اور قیام یورپ کے دوران ہی ہو
گیا تھا۔چنانچہ آخری سفر یورپ مابیچ کے زمانے اور وفات تک انہیں مغرب کے تاجرانہ رویے اور استعمارانہ ذہنیت کے ساتھ
ہی ساتھ اقوام مغرب کے استحصال ، ہوس زر اور حب جاہ کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کا پورا پورا موقع ملا ۔پہلی جنگ
عظیم کا تہذیبی و سیاسی صلہ ان کے پیش نظر تھا۔جس میں انہیں سراسر سامان عبرت نظر آیا۔اپنے عہد کے تہذیبی وسیاسی انقلابات
اور بعض مغربی تحریکوں کے دوررس نتائج کو اقبال اچھی طرح بھانپ گئے تھے ۔اس ساری الٹ پلٹ میں انہیں کرہ ارض کے مشرق
و مغرب دونوں خطوں کے خرابے پیش از وقت نظر آ رہے تھے ۔انہیں دکھائی دے رہا تھا کہ مغرب کی طرف سے اٹھنے والے تہزیبی
و سیاسی استعمار کی آندھی مشرق کی معرفت اور مغرب کے رویے کی صداقت اور محنت ہر چیز کو ملیا میٹ کر کے رکھ دے گی۔ ‘‘(۹)
اقبال سے قبل مغرب کی اندھا دھند تقلید یا مکمل بے گانگی کا رویہ عام تھا ۔مغربی تہذیب ہے کیا ۔اس کے عناصر ترکیبی کیا ہیں ۔ا س کی فوائد و برکات ہیں تو کیا کوئی مضر اثرات بھی ہیں اس کی طرف سوچنے اور سمجھنے کا رویہ مفقود نہیں تو شاذ ضرورہے۔اقبال نے مشرق و مغرب کے علوم سے استفادہ کے بعد اس سلسلے میں اپنی رائے دی ۔ یہ رائے اتنی صائب ہے اوراتنی درست ہے کہ تاریخ کے اس موڑ پر ہم اسے پیش بینی یا اقبال کی چشم بصیرت کا کرشمہ کہہ سکتے ہیں ۔اقبال نے اپنے کلام میں بار بار اس بات کا اظہار کیاہے کہ میری فکر میری خوش خیالی نہیں بلکہ میرے مشرق و مغرب کے علوم کے غائر مطالعے کے بعد پیدا ہوئی ہے۔
حکمت مشرق و مغرب نے سکھایاہے مجھے
ایک نکتہ کے غلاموں کے لیے ہے اکسیر
غلاموں کے لیے ۔ضر ب کلیم ۔ص۱۴۴
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل
بال جبریل۔۶۳
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق ومغرب کے مے خانے
یہاںساقی نہیںپیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا
ٍٍٍ بال جبریل ۔ص۲۳
اگر ہم بنظر غائر جائزہ لیں تو اقبال کا کلام دراصل نوآبادتی فکر کا تریاق ہے ۔ اقبال نے مرض کی تشخیص کی اور اس کی ایک علامت کا بغور جائزہ لینے کے بعد ایلو پیتھک طریقہ علاج کی طرح فکر کے مقابلے میں مخالف فکر سے قوم کی بیماری کا علاج کیا ۔
نوآبادیاتی نظام کی مضبوطی کے لیے سب سے زیادہ اصرار ا س بات پر تھا کہ مغرب کا نظام زیست و نظام سیاست مشرق کے مقابلے میں بہت ترقی یافتہ اور متمدن ہے لہذا مشرق کو پیروی مغرب سے دنیا میں اعلی مقام حاصل ہو سکتا ہے ۔ یوں مقامی افراد کو اپنی روایت اور ثقافت سے بدگمان کر کے احسا س کمتری پیدا کیا ۔اقبال نے مغربی فکر کے مطالعہ کے بعد اس کے نقصانات کا ادراک کیا اور مطالعہ کے نتائج شاعری کی صورت میں قوم کے سامنے پیش کیے۔
اسلام نے عالمگیر انسانی اخوت کا نظریہ پیش کیا تھا۔لیکن اس کے مقابلے میں یورپ کے پاس تین قسم کی نظریات موجود تھے جن میں وطنیت، جمہوریت اور اشتراکیت کا نظریہ و فلسفہ شامل تھا ۔ یورپ نے وطنیت کے نظریے کے ذریعے رنگ ،نسل ، زبان یا جغرافیہ کی بنیاد پرقوموںکی تقسیم کی اور جذبہ حب الوطنی کو بیدا ر کیا ۔ اقبال نے ابتدا اس فکر کو قبول کیا ۔اس لیے وہ ہندوستان کو اپنا وطن اور اس سے محبت کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں۔ بانگ درا کی پہلی نظم ہمالہ ہندوستان کی عظمت کی قصہ بیان کرتی ہے ۔ ہندوستان چونکہ کثیر المذاہب خطہ ہے اس لیے ہندوستان کے تمام لوگوں کو مذہبی ہم آہنگی کا درس دیتے ہیں اور ترانہ ہندی لکھتے ہیں
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
بانگ درا۔ترانہ ہندی۔ص۸۳
وہ ہندوستان کے بچے بچے کو جذبہ حب الوطنی سے سرشار کرنا چاہتے ہیں اور ہندوستانی بچوں کا گیت لکھتے ہیں۔
بندے کلیم جس کے پربت جہاں کے سینا
نوح نبی کا آکر ٹھیرا جہاں سفینا
رفعت ہے جس زمیں کی بام فلک کا زینا
جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
بانگ درا ۔ہندوستانی بچوں کا گیت۔ص۸۷
نظم نیا شوالہ میں وہ خاک وطن کے ہر ذرے کو دیوتا کہتے ہیں
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
بانگ درا۔نیا شوالہ ۔ص ۸۸
اس دور میںانہیں اگر کسی سے کوئی خطرہ ہے تو اس کا حوالہ بھی وطنیت ہی ہے کہ ہمارے وطن ہندوستان پر مصیبت آنے والی ہے ۔
رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرافسانہ سب فسانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
بانگ درا ۔تصویر درد۔ص۷۱
مگر دوسرے دور میں داخل ہونے سے پہلے ہی اقبال کی خیالات میں تغیر رونما ہونا شروع ہو گا تھا ۔دوسرے دور میں پیام عشق وہ پہلی نظم ہے جہاں وہ وطن سے ملت کی طرف سفر کرتے نظر آتے ہیں ۔
وجود افراد کا ہے مجازی ہے ہستی قوم کی حقیقی
فداہو ملت پہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا
یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا
بانگ درا۔ پیام عشق ۔ص۱۳۰
پروفیسر سید وقار عظیم کے خیال میں تہذیب مغر ب کی زر پرستی اور انسانی ہمدردی کے فقدان کی تنقید مخالفانہ پہلے پہل اس نظم میں ہوئی۔جو مارچ ۱۹۰۷ میں لکھی گئی ۔
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکا ں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہووہ اب زر کم عیار ہو گا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا (۱۰)
یہ نظم نہیں بلکہ غزل ہے اور اس سے پہلے اقبال وطنیت کے تصور سے ملت کے تصور کی طرف مائل ہوچکے تھے۔اب وہ مغرب میں مقابلے میں اسلام کے تصور وطن سے زیادہ قریب ہو رہے ہیں
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے
کہاں کا آنا کہاں کا جانا فریب ہے امتیاز عقبی
نمود ہر شے میں ہے ہماری کہیں ہمارا وطن نہیں ہے
بانگ درا ۔ص۳۶
پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
بانگ درا۔ جواب شکوہ۔ص۲۰۵
ہے اگر قومیت اسلام پابند مقام
ہندہی بنیاد ہے اس کی نہ فارس ہے نہ شام
آہ یثرب دیس ہے مسلم کا ماوی ہے تو
نقطہ جاذب تاثر کی شعاعوں کا ہے تو
بانگ درا۔ بلاد اسلامیہ ۔ص۱۴۷
ترانہ ہندی کی جگہ اب ترانہ ملی نے لے لی
اب ترانہ ہندی کی جگہ ترانہ ملی نے لے لی
چین وعرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
سالار کارواں ہے میر حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
بانگ درا۔ ترانہ ملی ۔ص۱۵۹
اقبال نے مسلمانوں پر واضح کیا کہ وطنیت کا مغربی تصور اسلامی اصولوں کے خلاف ہے اور اس تصور کو اپنانے سے اسلام کے تصور وطنیت کی جڑ کٹ جاتی ہے ۔ ان کے خیال میں تہذیب حاضر کا تراشیدہ یہ بت دین نبوی کے لیے غارت گر ہے ۔اسلام کا پیغام تو اخوت عالم گیری ہے لیکن اس نظام میں قوموں کے درمیان رقابت ہے اور اس کا مقصود محض تجارت ہے ۔یہ نظام صداقت و محبت کے جذبات سے بالکل خالی ہے ۔انہوں نے سمیع اللہ قریشی کے الفاظ میں مسلمانوں کے لیے یہ تجویز کیا کہ وہ جس قدر جلد ہو سکے اس بت کو خاک میں ملا دیں اگر یہ قائم رہتا ہے تو قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے ۔وطنیت جہاں جہاں بھی مشرق میںمغربی استعمارانہ حکمت عملی کے تحت آئی۔اس نے اقوام مشرق کو شدید نقصان پہنچایا۔(۱۱)
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانہ دین نبوی ہے
بازو تر اتوحیدکی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظار ہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اس مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی سے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میںمخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
بانگ درا۔وطنیت ۔ص۱۶۰
اقبال نے واضح کیا کہ وطن اور قوم کا یہ تصور انگریز کی حکمت ہے و ہ اس کے نتیجے میں ہمیں تقسیم در تقسیم کرنا چاہتا ہے ۔ اور ہماری اخوت پر ضرب کار ی لگا رہا ہے
حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
بانگ درا۔ خضر راہ ۔ص۲۶۲
یہ مغرب کی حکمت عملی تھی اور اسی لیے اس نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے مسلم ممالک کوتقسیم کر دیا ۔سادہ دل مسلمان انگریزوں کی عیاری میں آ کر اتا ترک کو اپنا ہیرو قرار دیتے رہے۔
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیار ی بھی دیکھ
بانگ درا ۔ہلال عید ۔ص۱۸۲
انہوں نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ دین اسلام میں رنگ ونسل کی بنیاد پر قوم کی تشکیل کا تصور موجود نہیں بلکہ مذہب کی بنیاد پر ہے اور ساری دنیا کے مسلمان ایک قوم ہیں ۔اگر دین چھوڑ دیں گے تو سمجھو کہ ہماری ملت بھی نہیں رہے گی۔کیونکہ ہم سب دین کے رشتے میں پروئے ہوئے ہیں
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغر ب سے نہ کر
خا ص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
بانگ درا۔ مذہب ۔ص۲۴۸
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگزر
بانگ درا۔ خضر راہ ۔ص۲۶۴
مغرب کا نظام اقوام کو تقسیم کرتا ہے جبکہ اسلام ایک عالم گیر اخوت کا داعی ہے
تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملت آدم
مکے نے دیا خاک جینوا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم
ضرب کلیم۔مکہ اور جینوا۔۵۸
اسلام کا تصور وطنیت جغرافیہ کا پابند نہیں یہی وجہ ہے کہ کئی خطوں میں سیاسی زوال کے باوجود اسلام ایک عالم گیر قوت کی شکل میں موجود ہے
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
بانگ درا۔ جواب شکوہ۔ص۲۰۶
جمعیت اقوام کا تصور بھی اقبال کی تنقید کی ز د میں آیا ۔ ان کے خیال میں مغربی عظیم طاقتوں کا یہ اتحاد صرف کمزور قوموں کی تباہی اور ان کی بندر بانٹ چاہتا ہے ۔پھر ساتھ ہی اس کا حل بھی تجویز کردیا اور مغربیت کے استعماری رویوں کی کوتاہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلم اقوام مشرق کی ایک الگ جمعیت اقوام کا ذکر کیا ۔جس کے لیے بطور مرکز وہ طہران کا نام تجویز کرتے ہیں ۔(۱۲)
طہران ہو اگر عالم مشرق کا جینوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
ضرب کلیم ۔جمعیت اقوام مشرق۔ص۱۴۷
’’انہوں نے با آواز بلند یورپ کو بتایاکہ جس تمدن کو وہ ترقی کی معراج تصور کر رہاہے وہ دراصل ترقی نہیں
بلکہ ایک قریب المرگ مریض کا ہذیان ہے ۔‘‘
عبدالواحد سید ۔نقش اقبال۔آئینہ ادب لاہور۔۱۹۶۹بار اول۔ص۲۴
پیر مے خانہ یہ کہتا ہے کہ ایوان فرنگ
سست بنیاد بھی ہے اور آئنہ دیوار بھی ہے
ٍٍ بال جبریل۔۶۴
خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے
بال جبریل۔۶۹
تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار
جن کی روباہی کے آگے ہیچ ہے زور پلنگ
خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح
دیکھئے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ
بال جبریل۔یورپ ۔۱۶۷

ہوا اس طرح فاش راز فرنگ
کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بے زار ہے
گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
بال جبریل۔ساقی نامہ۔ص۱۲۳
زندہ کر سکتی ہے ایران وعرب کو کیونکر
یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور
ضرب کلیم ۔اقوام مشرق ص۷۰
لہذا اقبال نے مسلمانا ن پاک ہ ہند کو مغربی مدنیت کے رنگ ونسل کے تصور کی بجائے اسلام کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دی۔ان کے خیال میں نغمہ توحید ہی سے رنگ ونسل کے اس بت کو توڑا جاسکتا ہے ۔ مدنیت کے مغربی تصور سے گریز کرکے ہی ہم عالم گیر اخوت قائم کرسکتے ہیں۔
پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز
دل کے ہنگامے مے مغرب نے کر ڈالے خموش
بانگ درا ۔ شمع و شاعر ۔۱۸۹
شب گریزاںہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
بانگ درا۔شمع وشاعر ۔ص۱۹۵
غبار آلودہ رنگ ونسل ہیں بال وپر تیرے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
بانگ درا۔ طلوع اسلام۔ص۲۷۳
مغربی استعمار اپنے ساتھ اقوام مشرق کے لیے سیاسی حوالے سے ایک اہم سوغات جمہوریت کے نام سے بھی لے کر آیا۔انہوں نے مغرب کے نظام جمہوریت کو ایک فریب قرار دیا ۔دراصل یہ نظام سرمایہ داروں کے حقوق کا محافظ ہے اور آزادی کے نام پر اس میں بھی جبر و استبداد سے کام لیا جاتا ہے۔
بقول سمیع اللہ قریشی ’’مغربی تہذیبی استعمار کی یلغار میںاقوام مشرق نے جو رعنائی دیکھی اقبال نے اس رعنائی کے باطن میں منافقت ، خود فروشی ، استبداد اور قیصریت کو دریافت کیا اور نفسانیت اور انانیت محض کو محسوس کیا ۔‘‘(۱۳)
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری
گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زر گری
بانگ درا۔ خضر راہ۔ ۲۶
اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ضرب کلیم۔جمہوریت۔ص۱۴۸
اقبال کے خیال میں سیاست میں اخلاق اور فلاح انسانیت کے لیے مذہب سے قریبی تعلق ضروری ہے ۔دین اور دنیا کو جدا جدا کرنے سے فلاح انسانیت کامقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔
سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا
چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری
ہوئی دین و دولت میںجس دم جدائی
ہوس کی امیری ہوس کی وزیری
دوئی ملک ودیں کے لیے نامرادی
دوئی چشم تہذیب کی نا بصیری
بال جبریل۔دین و سیاست ۔ ۱۱۸
انہوں نے ضرب کلیم میں سیاسیات مشرق و مغرب کے باب میں اشتراکیت اور کارل مارکس کے فلسفہ پر بھی تنقیدی نگاہ ڈالی اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دنیا کے مسائل کی حل اس کے پاس بھی موجود نہیں ۔ ابلیس کی مجلس شوری میں بھی جب مشیر اشتراکیت کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہیں تو شیطان ان خدشات کو رد کرتا ہے اور کہتا ہے مزدکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے ۔میرے خیال میں تہذیبوں کے تصادم کا تصور نیا نہیں اور اقبال ابلیس کی مجلس مشوری میں بالکل انہی خطو ط پر یورپ کے خدشات کا تجزیہ کرتے ہیں جن خطوط پر ہمنگٹن نے کیا ہے۔یورپ اپنی بالادستی کیسے قائم رکھ سکتا ہے اور اس سلسلے میں اسے کیا کیا مسائل درپیش ہیں ۔ایک وقت میں اشتراکیت کو سمجھا گیا کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل ہو سکتا ہے ۔لیکن اقبال نے اس نظریے کو رد کیا ۔ اشتراکیت بھی دنیا کوکچھ نہیں دے سکتی اور یہ بھی دراصل انسانیت کے لیے اتنی ہی خطر ناک ہے جتنا سرمایہ دارانہ نظام مغرب ۔اقبال نے ضرب کلیم میں سیاسیات مشرق ومغرب کے باب میںتکرار کے ساتھ اشتراکیت پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے ۔اشتراکیت ، کارل مارکس کی آواز ، بلشویک رو س وغیرہ اشتراکیت کے بارے میں ان کے خیالات کا خاکہ تیارکیا جا سکتا ہے ۔ارمغان حجاز میںابلیس کی مجلس شوری بھی اس خاکے میں رنگ بھرتی ہے۔اور اس میں ابلیس کا اپنے مشیروں کا جواب اقبال کے سیاسی فلسفوں پر ان کی رائے کا نچوڑہے
کیا امامان سیاست کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بناسکتی ہے میری ایک ہو
کارگاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام وسبو
دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوںکو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
کب ڈراسکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ ہو
ہے اگر مجھ کوکوئی خطرہ تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو
جانتاہے جس پہ روشن باطن ایام ہے
مزدکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے
ارمغان حجاز۔ابلیس کی مجلس شوری۔۱۲
برطانوی سامراج نے اپنی مطلوبہ غلام نسل تیار کرنے کے لیے جو تعلیمی نظام وضع کیا تھا ۔ اقبال نے اس پر بھی بھر پور وار کیے ہیں ۔اور اس کی کوتاہیاں کھول کھول کر بیان کی ہیں ۔معین الدین عقیل نے لکھا ہے کہ
’’برطانوی حکومت نے خوب سوچ سمجھ کر ہندوستان کی روایتی اسلامی اور ہندو تعلیمی نظاموں کو انگریزی نظام تعلیم سے بدل کر
ہندوستانی ذہن کا ایک دروازہ مغرب کی طرف کھول دیا اس طرح انگریزوں نے ہندوستانیوں کو اپنے معاشرتی تصورات ،
پارلیمانی دستوری نظام حکومت اور قوم پرستی کے نظریات سے روشناس کرایا‘‘ (۱۴)
تعلیم اور اس کے متعلق موضوعات اقبال کے کلام میں عام ہیں ۔انہوں نے ضرب کلیم میں تعلیم و تربیت کا پوراایک باب شامل کیا ہے ۔یہ باب تقریبا ۳۲ صفحات پر مشتمل ہے ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال مغربی نظام تعلیم کی خرابیوں سے کس قدر آگاہ تھے۔مسلمانوں کے قدیم نظام تعلیم کے خاتمے کے ساتھ مسلمان علما اعلی عہدوں اور روزگار کے وسیلوں سے محروم ہو گئے۔ اور اب مادی ترقی کے لیے ضروری قرار پایا کہ انگریزی تعلیم حاصل کی جائے ۔مسلمان دانشوروں نے اس سلسلے میں بہت زور وشور کے ساتھ نئے نظام تعلیم سے استفادے کا مشور ہ دیا ۔اگرچہ اکبر نے بھی اس نظام کی خرابیوں کا ادراک کر لیا تھا اور اس موضوع سخن بنایا تھا لیکن اقبال نے تواتر کے ساتھ اور سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ پر اظہار خیال کیاہے ۔ان کا خیال ہے کہ نئی تعلیم مادی ترقی کے حصول کے لیے تو کارآمدہو سکتی ہے لیکن چونکہ یہ ہمارے دینی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں اس لیے ا س تعلیم کے نتیجے میںدین سے دور ی پیدا ہو گی
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
بانگ درا ۔ تعلیم اور اس کے نتائج۔۲۰۹
جب پیر فلک نے ورق ایام کا الٹا
آئی یہ صدا پائو گے تعلیم سے اعزاز
آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل
دنیا تو ملی طائر دیں کر گیا پرواز
بانگ درا ۔فردوس میں ایک مکالمہ ۔ ص۲۴۵
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدالا الہ الا اللہ
بال جبریل ۔۴۶
ان کے خیال میں یہ نظام تعلیم مقامی لوگوں سے تحقیق و جستجو اور عمل چھین کربے عملی کی طرف مائل کرتا ہے
شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
بال جبریل۔۳۲
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کرگئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ
بال جبریل۔جاوید کے نام ۔ص۱۱۶
اس نظام کی خرابیوںمیں بڑی خرابی یہ ہے کہ عقل پر اساس رکھتا ہے اور یقین کی قوت سے محروم ہے ۔یہ عقل کو آزادکرکے خیالات میں کسی قسم کا ارتباط پیدا کیے بغیر چھوڑ دیتا ہے ۔
مے یقیںسے ہے ضمیر حیات پر سوز
نصیب مدرسہ یارب یہ آب آتش ناک
بال جبریل۔۶۶

مدرسہ عقل کو آزاد تو کر دیتا ہے
چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
ضرب کلیم۔عصر حاضر ۔۸۱
اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا
جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش
مدرسے نے تری آنکھوں شے چھپایا جن کو
خلوت کو ہ و بیاباں میں ہو اسرار ہیں فاش
ضرب کلیم ۔مدرسہ ۔ ص۸۳
یہ نظام فقط ہمیں تقلید سکھاتا ہے اور ہمیںانگریز حاکموں کی کٹھ پتلی بناتاہے ۔
گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے
مردہ ہے مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس
ضرب کلیم ۔ص۱۷۱
یہ مدرسہ یہ جواں یہ سرو ر ورعنائی
انھیں کے دم سے ہے میخانہ فرنگ آباد
بال جبریل۔۷۰
آہ مکتب کا جوان گرم خوں
ساحرافرنگ کا صید زبوں
بال جبریل ۔پیر ومرید ۔۳۶
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر
ضرب کلیم ۔نصحیت ۔ص۱۵۴
اقبال نے تعلیم نسواں پر براہ راست تنقید سے گریز کیا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ جو نظام تعلیم مرد کے لیے بہتر نتائج پیدا نہیں کرتا وو خواتین کے لیے کیسے کر سکتا ہے ۔
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈلی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مدنظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
بانگ درا۔ص۲۸۳
اقبال کے خیال میں علم محض عقل نہیں بلکہ عقل کی رہنمائی میں روحانی قوت کے استحکام کا نام ہے ۔
وہ علم۱پنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم
کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم
و ہ علم کم بصری جس میں ہمکنار نہیں
تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم
ضرب کلیم۔علم اور دین ۔۲۶
اپنی مضبوط اور عیار سیاسی سرمایہ داری نظام اورتعلیم کے ذریعے انگریز نے ایک ایسی تہذیب ہم پر مسلط کی ۔کہ غلامی کے دن طویل ہوتے گئے۔نئے تعلیم نظام کے نتیجے میں انگریز کی ہر بات میں دل سے حمایت کرنے والا طبقہ پیدا ہو چکا تھا۔لہذا اس تہذیب و تمدن کے بارے میں اقبال کا لہجہ کافی تند اور ترش ہے ۔ وہ اس تہذیب ، اس تہذیب کے علمبرداروں اور اس تہذیب کے طرف داروں پر طعن و تشنیع کے تیر برساتے ہیں ۔
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن ممبری کونسل صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
بانگ درا۔ص۲۹۰
اقبال یہ کسی تعصب کی بنیاد پر نہیں بلکہ علمی تجزیے کی بنیاد پر کہتے ہیں کیونکہ تہذیب حاضر میں رقابت ، خودفروشی ، ناشکیبائی اور ہوس ناکی جیسی خطر ناک بیماریاں ہیں
حرارت ہے بلا کی بادہ تہذیب حاضر میں
بھڑک اٹھا بھبھوکا بن کے مسلم کا تن خاکی
حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
رقابت خود فروشی نا شکیبائی ہوس ناکی
بانگ درا۔تہذیب حاضر ۔ص۲۲۵
فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس کی مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک و خیال بلند و ذوق لطیف
مغربی تہذیب ۔ضرب کلیم ،ص۷۱
یہ تہذیب دماغ تو روشن کرتی ہے لیکن دلوں کو ظلمت کدوں میں بدل دیتی ہے ۔بظاہر یہ آزادی دیتی ہے مگر درحقیقت ہمیں اپنے طلسم میں گرفتار کر لیتی ہے۔
یہی زمانہ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بے باک
بال جبریل۔۶۷
سرور و سوز میں ناپایدار ہے ورنہ
مے فرنگ کا تہ جرعہ بھی نہیں نا صاف
بال جبریل۔۷۸
مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری
بال جبریل۔ص۳۸
وہ اپنی قوم کو اس تہذیب کی ظاہری چکا چوند سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔اور اگر خاک مدینہ و نجف کو سرمہ بنا کر اس تہذیب کو دیکھا جائے تو پھر اس کی چکا چوند سے آنکھیں چندھیانے سے بچ سکتی ہیں۔
نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی
بال جبریل۔۵۸
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش افرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کاخاک مدینہ و نجف
بال جبریل۔۴۰
جولوگ اس تہذیب کے مدح خواں ہیں وہ سرمہ افرنگ سے اس کا نظارہ کرتے ہیں ۔ان لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ انگریز صرف اپنے مقاصد کے لیے ان کی قابلیت کااستعمال کرتے ہیں۔اور انگریزی تہذیب کے اپنانے سے وہ انگریزوں کے برابر نہیں ہو سکتے۔
وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن ساز ہے نمناک نہیں ہے
بال جبریل۔ص۳۳
علاج آتش رومی کے سوز میںہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
بال جبریل۔۲۸
ہوا ہے بندہ مومن افسونی فرنگ
اسی سبب سے قلندر کی آنکھ ہے نم ناک
شریک حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جوہر ادراک
مناصب۔ضرب کلیم۔ص۱۳۹
انگریز کس طرح مراعات و منصب کے لالچ دے کر لوگوں کو اپنے مقاصدکے لیے استعمال کرتے ہیں ۔اقبال نے اس کا پردہ چاک کیا ہے ۔ اور ان لوگوں کو طنز کا نشانہ بنیا دہے
کچھ غم نہیں جو حضرت واعظ ہیں تنگ دست
تہذیب نو کے سامنے سر اپنا خم کریں
رد جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا
تردید حج میں کوئی رسالہ رقم کریں
بانگ درا۔ص۲۸۴
اقبال تہذیب نو کے شیشے کو کر چی کرچی کردیتے ہیں اور اپنے لیے اس کے فریب سے بچنے کی دعا کرتے ہیں
تہذیب نوی کار گہ شیشہ گراں ہے
آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو
میںناخوش و بے زار ہوں مر مر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
فرشتوںکا گیت ۔بال جبریل ۱۱۰
نوآبادیاتی فکر کا سب سے مضبوط وار مقامی افراد میں کم مائیگی کا احساس پیدا کرنا اور انگریزی فکر اور تہذیب کو کامیابی کی کلید سمجھنے کی فکر پیدا کرنا تھا اقبال نے اس کے خلاف بھرپور جہاد کیا ۔اس حوالے سے پہلا براہ راست شعر عبدالقادر کے نام میں ملتا ہے ۔یہ نظم ۱۹۰۵تا۱۹۰۸ یعنی دوسرے دور کی ہے ۔
اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر
قطرہ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں
بانگ درا ۔ عبدالقادر کے نام ۔ص۱۳۲
اقبال کی فکر کا مرکزی نقطہ ہی یہی ہے یہ قوم سے کم مائیگی اور کہتری کے احساس کو ختم کیا جائے ۔اس کے لیے انہوں نے مربوط فلسفہ خودی کے نام سے پیش کیا ۔ جس کے مباحث اس وقت موضوع کی حدود سے خارج ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ اقبال نے اپنے سارے کلام میں اپنی اس بنیادی فکر کو پھیلا دیا ہے ۔وہ مختلف تمثیلوں قائل کرتے ہیں کہ آپ اگر اپنی حقیقت سے آگا ہ ہو جائیں تو یہ راز کھلتا ہے کہ کائنات کا مرکز و محور آپ کی ذات ہے ۔
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو کھیتی بھی تو باراں بھی تو حاصل بھی تو
کانپتا ہے دل ترا اندیشہ طوفاں سے کیا
ناخدا توبحر تو کشتی بھی تو ساحل بھی تو
وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا
مے بھی تو مینا بھی تو ساقی بھی تو محفل بھی تو
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
خوف باطل کیا کہ ہے غارت گرباطل بھی تو
بانگ درا۔شمع و شاعر ۔۱۹۲
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے
کیو ں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو
دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ وتفنگ
تواگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
بانگ درا۔شمع و شاعر ۔۱۹۳
مثل بو قیدہے غنچے میںپریشاں ہو جا
رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا
ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباںہو جا
نغمہ موج سے ہنگامہ طوفاں ہو جا
قو ت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میںعشق محمد سے اجالا کر دے
بانگ درا۔جواب شکوہ ۔ص۲۰۷
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مر د مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
بانگ درا۔طلوع اسلام۔ص۲۷۱
گرمائو غلاموں کا لہو سوزیقیں سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑادو
فرشتوں کاگیت ۔بال جبریل۱۱۰
وہ فرد کا اس کی صلاحیتوں کا یقین دلاتے ہیں اور اسے بے یقینی سے نکالتے ہیں کیونکہ بے یقینی غلامی سے بھی بد تر ہے
خدائے لم یزل کا دست قدر ت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
بانگ درا ۔طلوع اسلام۔ص۲۶۹
یقیں مثل خلیل آتش نشینی
یقیں اللہ مستی خود گزینی
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بتر ہے بے یقینی
بال جبریل۔۸۱
اس طرح اقبال نے نوآبادیاتی فکر اور اس کے مقاصد کا درست تجزیہ کر کے ملک و ملت کا شافی علاج دریافت کیا۔یورپ کے سیاسی فلسفوں سرمایہ دارانہ ، جمہوریت ، اشتراکیت ، یورپ کے تمدن اور تہذیب میں پائی جانے والی ظاہری چمک دمک اور تعلیم کے ذریعے ہندوستان کے عوام کی مستقل غلامی کی عیاری کا پردہ چاک کیا ۔ان کی پیش بینی کی داد دینا پڑتی ہے۔کہ تاریخ کے اس موڑ پر ہمیں اقبال کے سوا کوئی دوسرا مفکر یا دانشور نظر نہیں آتا جس نے بروقت ملت کے مرض کو پہچانا ہواور اس بھی بڑھ کر اقبال کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ان خالص فکر ی مسائل کو شعر کے دلچسپ اور اثر انگیز روپ میں پیش کیا۔ اردو ادب میں اس قسم کی شاعری کی مثال ڈھونڈنا عبث ہے ۔نہ صرف اقبال جیسا شاعر اقبا ل سے قبل پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ اقبال کے بعد بھی ابھی تک پیدا نہیں ہوا۔

حوالہ جات :
۱۔میر امن ۔ باغ وبہار۔سنگ میل پبلی کیشنز لاہور۔۲۰۰۸۔ص۸
۲۔اسماعیل پانی پتی (م) ۔مقالات سر سید ۔مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۶۲۔ص۳۲۔
۳۔الطاف حسین حالی مولانا ۔ کلیات نثر حالی جلد اول۔مجلس ترقی ادب لاہور۔طبع اول ۱۹۶۷۔ص۱۶۸
۴۔Sulekha.com
۵۔محمد زکریا ڈاکٹرخواجہ۔اکبر الہ آبادی۔سنگ میل پبلی کیشنز لاہور۔۱۹۸۶۔ص۱
۶۔الطاف حسین حالی خواجہ ۔مقدمہ شعرو شاعری۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس۔
۷۔ محمدحسین آزاد مولانا ۔غلام علی اینڈ سنز لاہور۔ حسین آزاد ۔ آب حیات ۱۹۵۴۔ص۲۸ ۔
۸۔ محمد اکرام شیخ ۔موج کوثر۔ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہو۔ر۱۹۸۸طبع پانزدہم۔ص۹۵
۹۔سمیع اللہ قریشی پروفیسر ۔موضوعات فکر اقبال ۔اقبال اکادمی پاکستان۔۱۹۹۶طبع اول ۔ص۳۲
۱۰۔وقار عظیم پروفیسر سید ۔اقبال معاصرین کی نظر میں ۔مجلس ترقی ادب لاہور۔۱۹۷۳طبع اول ۔ص۱۰۹
۱۱۔موضوعات فکر اقبال۔۳۵
۱۲۔موضوعات فکر اقبال۔ص۳۷
۱۳۔موضوعات فکر اقبال ۔ص۳۴
۱۴۔معین الدین عقیل ڈاکٹر۔اقبال اور جدید دنیائے اسلام ۔مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور۔طبع اول ۱۹۸۶۔ص۳۰۷
کتب استفادہ :
۱۔اقبال ۔کلیات اقبال ۔شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور۔جنوری ۱۹۷۵ اشاعت دوم
۲۔اسماعیل پانی پتی (م) ۔مقالات سر سید ۔مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۶۲۔
۳۔الطاف حسین حالی مولانا ۔ کلیات نثر حالی جلد اول۔مجلس ترقی ادب لاہور۔طبع اول ۱۹۶۷۔
۴۔الطاف حسین حالی خواجہ ۔مقدمہ شعرو شاعری۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس لاہور۔
۵۔سمیع اللہ قریشی پروفیسر ۔موضوعات فکر اقبال ۔اقبال اکادمی پاکستان۔۱۹۹۶طبع اول ۔
۶۔ محمد اکرام شیخ ۔موج کوثر۔ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہو۔ر۱۹۸۸طبع پانزدہم۔
۷۔ محمدحسین آزاد مولانا ۔غلام علی اینڈ سنز لاہور۔ حسین آزاد ۔ آب حیات ۱۹۵۴۔
۸۔محمد زکریا ڈاکٹرخواجہ۔اکبر الہ آبادی۔سنگ میل پبلی کیشنز لاہور۔۱۹۸۶۔
۹۔معین الدین عقیل ڈاکٹر۔اقبال اور جدید دنیائے اسلام ۔مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور۔طبع اول ۱۹۸۶۔ص۳۰۷
۱۰۔میر امن ۔ باغ وبہار۔سنگ میل پبلی کیشنز لاہور۔۲۰۰۸۔ص۸
۱۱۔وقار عظیم پروفیسر سید ۔اقبال معاصرین کی نظر میں ۔مجلس ترقی ادب لاہور۔۱۹۷۳طبع اول ۔ص۱۰۹

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. صفیہ قاضی

    اپریل 21, 2020

    تو کیا سمجھنا چاہیے کہ سر سید بھی وہ شخص ہے جنھوں نے ہمیں احساس کمتری کا شکار ہونے میں اہم کردار ادا کیا؟؟؟

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں