ڈاکٹر ناصر عبا س نیر ّ
ماڈرن ازم اقبال کی معاصریورپی ادبی تحریک تھی۔ اس کا زمانہ ۱۹۱۰ء تا ۱۹۳۰ء قرار دیا جاتا ہے۔معاصر تحریک ہونے کے باوجود اس کے بہ راہِ راست اثرات اقبال کی شاعری پر نظر نہیں آتے۔ ایسے میں یہ سوال بے حد اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ آیا اقبال اس تحریک سے آگاہ نہیں تھے اور اگر آگاہ تھے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی انتخابی نظر اس تحریک کو اپنے شعری مقاصد سے ہم آہنگ محسوس نہیںکرتی تھی؟
اقبال مغربی ادبیات سے پورے طورپر آگاہ تھے۔ انھوں نے ’’بانگِ درا‘‘ میں درجن بھر امریکی اور برطانوی شعرا:جیسے لانگ فیلو، ایمر سن، ولیم کو پر، ٹینی سن، برائو ننگ، سیمو ئیل راجرز اور دوسروں کی نظموں سے اخذ و ترجمہ کیا ہے۔ ورڈز ورتھ کا انھوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا اور ۱۹۱۰ء میں اپنی انگریزی بیاض میںلکھا تھا کہ ورڈز ورتھ نے انھیں الحاد سے بچایا۔ اسی طرح ملٹن کا بھی ذوق و شوق سے مطالعہ کیا۔ اپنے ایک مکتوب محررہ مارچ ۱۹۱۱ء میں یہ بات درج کی کہ ’’ملٹن کی تقلید میںکچھ لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیوںکہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔‘‘ شیکسپیئر کو انھوں نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ گوئٹے سے بھی اقبال کا گہر ا تعلق ہے۔ کیا مغربی ادبیات کے اس حصے سے آگاہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقبال پر مغربی جدیدیت کے اثرات تھے؟ جواب نفی میںہوگا۔ اس لیے کہ ان تمام شعرا کو ماڈرن کَہ سکتے ہیںکہ ان سب کا تعلق (زیادہ کا تعلق انیسویں صدی سے ہے) ماڈرینٹی (ہمہ گیر جدیدیت) کے عہد سے ہے… مگر ماڈرن اسٹ نہیںکَہ سکتے۔ ماڈرن اور ماڈرن اسٹ میںاتنا ہی فرق ہے جتنا ٹینی سن اور ایلیٹ میںیا تھیکر ے اور جیمز جوائس میں ہے۔ دراصل اقبال نے مغربی ادبیات سے اخذ و استفادے کا عمل اپنے ابتدائی دور میںشروع کیا اور ۱۹۱۰ء تک ان کا شعری شعور متشکل ہو چکا تھا۔ اپنے ابتدائی دور میں اقبال کا مغربی ادبیات سے تعلق تقلیدی ہے، انھوں نے کئی مغربی نظموں کو پورے کا پورا اور کہیں مغربی نظموںکے کچھ مصرعوںکو ترجمہ کیا ہے۔ جیسے’’کو پر‘‘ کے اس مصر عے:
And, while the wings of fancy still are free
کو نظم ’’مرزا غالب‘‘ کا یہ مصرع بنا دیا ہے ــ:
ہے پرِ مرغِ تخیّل کی رسائی تا کجا
مگر ۱۹۱۰ء کے بعد ان کی نظر انتخابی ہو جا تی ہے اور وہ اپنے شعری شعورکی راہ نمائی میں معاصر مغربی ادبیات اور تحریکوںسے ربط ضبط قائم کرتے ہیں۔ جو ادبی تحریکیں اور رجحانات انھیں اپنے تصورِ شعر سے متصادم یا مختلف محسوس ہوتی ہیں انھیں وہ خاطر میں نہیں لاتے ۔یوںبھی جن دنوںماڈرن ازم کی تحریک زور شور سے جاری تھی، اقبال مغربی تہذیب پر تنقید کا آغاز کر چکے تھے اور ماڈرن ازم مغربی تہذیب ہی کا جمالیاتی مظہر ہے۔ چناںچہ جن دنوںمغرب میں’’ویسٹ لینڈ‘‘ اور ’’یولی سس‘‘ چھپتے ہیں،انھی دنوں اقبال اُردو میںنظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ (۱۹۲۲ء) اورفارسی میں ’’پیامِ مشرق‘‘ (۱۹۲۳ء) منظر عام پر لاتے ہیں۔ ان کا فرق ظاہر ہے۔ اقبال، ایلیٹ اور جوائس کے نہ صرف موضوعات، ہیئتیں اور اسالیب مختلف تھے بلکہ جمالیاتی مقاصد بھی مختلف تھے۔
یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ ایک ہی عصر میں ادبی سطح پر انسانی سرو کار مختلف ہو سکتے ہیں؟ یہ سوال اس وقت زیادہ اہم، متعلق اور بامعنی ہو جاتا ہے جب ہم ادب کے آفاقی ہو نے کو کلیے کے طورپر لیتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ہر ادبی تجربہ، ادبی تحریک، ادبی نظریہ اور جمالیاتی نظام اور شعریات کسی نہ کسی تناظر اور صور ت حال کے پابند ہوتے ہے۔ادبی سطح پر ظاہر ہونے والے انسانی سروکار بھی تناظر اور صورت ِحال کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔ اس لیے کوئی تجربہ، تحریک، نظریہ یا شعریات آفاقی نہیں، وہ اپنی متعلقہ صورتِ حال اور تناظر میں’’آفاقی‘‘ہے۔ جہاں جہاں اور جب جب وہ صورتِ حال موجود ہوتی ہے، اس کے تحت لکھا جانے والا ادب متعلق اور اسی مفہوم میںآفاقی ہو تا ہے۔ بنا بریں بیسو یں صدی کے دوسرے عشرے کے مغربی ادب پارے اور اقبال کی شاعری اپنی اپنی صورتِ حال اور تناظر کے پابند ہیں اور اسی لیے جدید مغربی ادبا اور اقبال کے سروکار ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ادب جب صورتِ حال اور تناظر سے الگ ہوتا ہے تو وہ ایلی نیشن (Alienation) کا شکار ہوتا ہے۔ تاہم یہاں ایک نازک نکتے کو بھی ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔کوئی ادبی تجربہ اور پھر ادبی انسانی سروکار ،تناظر اور صورتِ حال سے از خود پیدا نہیں ہوتے۔تخلیقی ذہن تناظر اور صورتِ حال کی کاربن کاپی نہیں ہوتا۔اگر ایسا ہوتا تو ایک معاشرے میں تمام لکھنے والوں کے یہاں ایک جیسے ہی ادبی تجربات اور انسانی سروکار ظاہر ہوتے اور ہم یہ کہنے میں قطعی حق بہ جانب ہوتے کہ ایک عہد میں کسی ایک بڑے تخلیق کار کو ہی لکھنے کا حق ہے۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی عہد میںمتعدد لکھنے والے موجود ہوتے ہیں اور ان کے یہاں ادبی تجربات اور سروکاروں کا تنوع موجود ہوتا ہے۔گو تعدد اور تنوع کے عقب میں ایک ساخت کو نشان زد کیا جا سکتا ہے مگر یہ بھی غور کیجیے کی یہ تنوع ہی ہے جس کی وجہ سے ساخت وجود پذیر ہوتی ہے۔نازک نکتہ یہ ہے کہ تناظر اور صورتِ حال سے از خود ادبی تجربات کا جنم نہیں ہوتا۔تخلیق کار صورتِ حال کی ’’تعبیر‘‘ کرتا ہے۔تعبیر کا عمل شعوری یا غیر شعوری ہو سکتا ہے،مگر ہوتا ضرور ہے اور تعبیر کے لیے تصورِ کائنات،آئیڈیالوجی،تھیوری ،مائنڈ سیٹ ،کئی طرح کی چیزیں کام آتی ہیں۔
ہر چند اقبال نے ماڈرن ازم سے راست ربط ضبط نہیںرکھا اور اس لیے نہیں رکھا کہ وہ ایک مختلف تصور کائنات اور مائنڈ سیٹ کے علم بردار تھے ،مگر ماڈرن ازم کے بعض تصورات اور اقبال کی شاعری کے بعض پہلووں سے تقابل و تماثل دل چسپی سے خالی نہیں۔ ماڈرن ازم کی تجربہ پسندی، روایت شکنی، ا نفرادیت پسندی ،تاریخی و جمالیاتی عدم تسلسل اقبال کے یہاں اپنے مغربی سیاق کے ساتھ موجود نہیں۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ اقبال نے نئیہیئتوں کی تلاش کے بجائے روایتی ہیئتوں کو ہی اپنے لیے موزوںسمجھا ہے۔ اس طرح روایت سے اپناتعلق قائم رکھا ہے،جسے توڑنے میںجدیدیت افتخار اور لذت ہی محسوس نہیںکرتی ،اپنی شعریات کے اظہار کے لیے لازم بھی سمجھتی ہے۔جدیدیت کی نظر میں ہر فن پارہ مواد اور ہیئت پر مشتمل تو ہوتا ہے ،مگر دونوں میں رشتہ ناخن اور گوشت کا ہوتا ہے۔نئے مواد کو پرانی ہیئت میں پیش کرنے کا مطلب ،نئے موادکو روایت سے ہم آہنگبنانا ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ہیئت روایت کے وسیع منطقے کا ایک جز ہے۔ تاہم اُسلوبی سطح پر اقبال نے تجربہ پسندی اور روایت شکنی کا مظاہرہ ایک خاص مفہوم میںبہ ہرحال کیا ہے۔ اقبال نے اُردو شاعری میںقطعی منفرد ڈکشن ہی متعارف نہیں کروایا بلکہ اسے بے مثال تخلیقی شان کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کچھ اس طورکہ یہ ناقابلِ تقلید ہے۔ اتنی شدید اور فقید المثال انفرادیت شاید ہی کسی دوسرے اُردو شاعر کے یہاں موجود ہو، جس کا مظاہر ہ اقبا ل نے کیا ہے۔ ماڈرن ازم میںبھی انفرادیت پر زور ملتا ہے۔ کیا اقبال کی انفرادیت کا وہی مفہوم ہے جو مغربی جدیدیت میں ہے؟ بالکل نہیں، اقبال کی انفرادیت اس کی اپنی انفرادیت ہے، تاہم ایک سطح پریہ انفرادیت مشرقی شعریات میںقابلِ فہم ہے اور دوسری سطح پر اقبال کے شعری وژن میں ۔
مشرقی شعریات میںانفرادیت کے مظاہرے کو جدّت کا نام دیا گیا ہے۔ جدت کے ضمن میںحسنِ ادا، اپج، معنی آفرینی، مضمون آفرینی، نکتہ سنجی، نازک خیالی ایسی اصطلاحات کا بھی ذکر ہوا ہے۔ جدت ان سب کو محیط ہے۔ یہ سب جدت کی فروع ہیں، اس طور جدت کا تعلق معنی اور اُسلوب ہر دو سے ہے۔ جدت بہ قول ڈاکٹر عنوان چشتی، ’’مانوس اشیا کے مخفی امکانات کی دریافت کا عمل ہے… جدت روایت کے بطن سے نمودار ہوتی ہے، مگر روایت پر ستی سے انحراف کرتی ہے۔‘‘ گویا جدت انحراف ہے مگر جدیدیت کا انحراف نہیں۔جدیدیت کا انحراف کلی ہوتا ،جب کہ جدت کاجزوی ہوتا ہے۔جدت کا انحراف روایت کے حدود کے اندر ہو تا ہے اور اس محتاط انداز میں ہوتا ہے کہ روایت کی بنیاد کو اس انحراف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔دوسرے لفظوں میں جدت کاانحراف اس وقت ممکن ہے جب ر روایت کا علم موجودہو۔اس علم کی سطح اور درجے کی مناسبت سے ہی انحراف کی سطح اور درجہ متعین ہوتا ہے۔لہٰذا جس تخلیق کار کا روایت کا تصور وسیع، گہرا اور سرایت گیر ہوتا ہے اس کا انحراف بھی اتنا ہی بڑاہو تاہے۔ اقبال کی انفرادیت دراصل جدت ہے۔ جدت کا مظاہرہ ہر چند اور بھی کئی اُردو شعر انے کیا ہے مگر روایت کا جتنا وسیع اور گہر ا تصورا قبال کا تھا، اتنا کسی دوسرے جدیداُردو شاعر کا مشکل سے ہوگا۔ اقبال کی انفرادیت نا قابلِ تقلید تو ہے مگر اپنی مشرقی روایت میںقابلِ فہم بہ ہرحال ہے۔مثلا یہی دیکھیے کہ اقبال نے پہلی مرتبہ اسمائے معرفہ کو غزل میں استعمال کیا اور غزل کی غنائیت میں فرق نہیں آنے دیا۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اقبال نے مشرقی ادبیات کی روایت کو کھو جا ہی نہیںتھا اسے مرتّب بھی کیا۔ اقبال نے فارسی، عربی، اُردو، سنسکرت، ادبیات کو ایک روایت ٹھہرایا اور اسے اپنی شاعری کی روحِ رواں بنایا۔ ان کے یہاںفارسی شعرا ملّا عرشی، ابو طالب کلیم، فیضی، صائب، مرزا بیدل، عرفی، خاقانی، انوری، سنائی، حافظ، سعدی اور سب سے بڑھ کر فکر رومی کے اثرا ت بالواسطہ اور بطور تضمین ملتے ہیں۔ عربی ادبیات سے انھوں نے ہر چند کسی مخصوص شاعر کے اثرات نہیںلیے مگر عربی شعریات کے اصول سادہ بیانی اور صحرائیت پسندی ضرور قبول کیے۔اقبال نے ابوالعلا معری کو خراج ِ تحسین ضرور پیش کیا،مگر معری کے یہاں جو آزادہ روی کا مسلک ملتا ہے ،اقبال نے اسے قبول نہیں کیا۔ معری کے یہ اشعار:یرتجی الناس ان یقوم امام؍ناطق فی الکتیبہ الخرساء؍کذب الظن لا امام سوی العقل؍مشیر ا فی صبحہ و المسا؛ (لوگ اس امید میں ہیں کہ ایک امام آئے گا جو امت بے زبان کے درمیان اٹھ کر حق کا بول بالا کرے گا۔یہ لوگ جھوٹے گمان میں ہیں،اس لیے کہ عقل کے سوا کوئی امام نہیں،جو انسان کی صبح شام راہنمائی کرے،ترجمہ محمد کاظم)جن خیالات کو پیش کرتے ہیں،اقبال کی شاعری میں جگہ نہیں پاتے۔معری پر اقبال کی نظم پڑھیں تو لگتا ہے کہ معری میں اقبال کے اپنے تصورات ہی کا عکس دیکھا ہے:افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو؍دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات؛معری کے حوالے سے اقبال کا یہ شعر اور کیا بتا تا ہے؟
مولانا غلام رسول مہر نے جب طلوعِ اسلام پر تنقید کی تو اقبال نے جواب دیا کہ ’’میں عربی شاعری کی روش پر بالکل صاف صاف اور سیدھی سیدھی باتیںکَہ رہا ہوں۔‘‘ اسی طرح انھوں نے متعدد قرآنی آیات کو راست یا ان کے ترجمے کو اپنی شاعری میں پیش کیا۔ اقبال کا تصورِ روایت اگر چہ ایلیٹ کے تصورِ روایت سے مختلف ہے مگر دونوں میں یہ مماثلت موجود ہے کہ ایلیٹ نے تمام مغربی ادب :ہو مر سے بائرن تک کو ایک روایت قرار دیا۔ اقبال نے روایت کی تنقیدی تھیوری پیش نہیں کی، مگر ادبی روایت کو مسلسل جاری روایت کی صورت اپنی شاعری میںمرتب، دریافت اور پیش کیا ہے۔ اقبال کی روایت مشرقی اسلامی روایت ہے۔ عبدالمغنی کا یہ کہنا وزن رکھتا ہے کہ ’’اقبا ل کی شاعری درحقیقت مشرقی ادبیات کی تمام شاعرانہ روایات کا نقطۂ عروج ہے۔‘‘
اقبال کا تصورِ روایت، مابعدجدید تنقیدی اصطلاح میںبین المتونی (Intertextual) ہے۔ فارسی، عربی، اُردو اورسنسکرت ادبیات مختلف متون ہیں، جنھیںاقبال نے باہم ممزوج کیا ہے،مگر اپنی انتخابی نظر سے۔ اقبال نے مختلف مشرقی روایات کو ایک نئے متن میںمنقلب کر دیا ہے۔ یعنی یہ روایات اقبال کے شعری متن کے میکانکی اجزا نہیں،نامیاتی عناصر ہیں۔ اقبال کا شعر ی متن ایک زندہ متن ہے اور ایک زندہ وجود کی طرح ہی نہ صرف حسی تاثر کا حامل ہے بلکہ مخصوص زاویۂ نظر اور آئیڈیالوجی بھی رکھتا ہے۔ تاہم واضح رہے کہ یہ حسی تاثر شخصی نوعیت کا نہیں۔
اقبال کے اسلوب کو جو بات ناقابلِ تقلید بناتی ہے ،وہ ان کا شعری وژن ہے۔ان کا اسلوب ان کے وژن کی تجسیم ہے۔کسی تخلیق کار کے وژن کی تفہیم کی جا سکتی ہے، تقلید نہیں۔اس لیے کہ وژن ’ایک مسلسل نموئی عمل سے وجود میں آنے والی باطنی حقیقت ‘ہے۔
ماڈرن ازم کے’’نظامِ فکر‘‘ میںفرد کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہ اہمیت تین چار سطحوں پر فرد کو تفویض ہوئی ہے۔ فرد بطور منفرد وتنہا وجود؛ فرد کا زندگی کو مستند اور بہ راہِ راست طریقے سے تجربہ کرنا او ر اس تجربے کے نتیجے میں اپنی تقدیر یعنی بے چارگی، تنہائی اور لغویت سے آگاہ ہونا؛ فرد کا سماج، فطرت اور کائنات سے داخلی انقطاع کی صورتِ حال سے دو چار ہونا۔
جدید ادب کا فرد ایلی نیشن کا شکار ہے۔ ایلی نیشن کا تصور مارکسیت میں بھی ملتا ہے مگر جدیدیت اور مارکسیت کی ایلی نیشن ایک جیسی نہیںہیں۔ مارکسی ایلی نیشن یہ ہے کہ فرد اپنی محنت کے وسائل اور ثمرات سے بوجوہ اجنبی ہو جاتا ہے۔ جب کہ جدید فرد کی ایلی نیشن ایک خاص فلسفیانہ تصور کی پیدا کردہ ہے۔اس فلسفے (وجودی) کی ر’و سے فرد تنہاہے ۔وہ دوسروں سے اور کائنات سے علاحدہ ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اقبال کے یہاں بھی فرد موجود ہے۔ یہاں اشارہ اقبال کے مردِ مومن کی طرف نہیں۔ مرد مومن ایک آدرش ہے، جس میںوہ تمام بہترین خصوصیات یک جاہو گئی ہیں جنھیں اسلامی تاریخ میںپیش کیا گیا ہے۔ مرد مومن ایک ’’غیرشخصی‘‘ تصور ہے۔ یہ بشری تقاضوں سے بلند اور اعلیٰ انسانی مقاصد کا علم بردار ہے۔ اقبال کی شاعری میں، بالخصوص بالِ جبریل کی غزلوںمیں ایک اور فرد ظاہر ہوا ہے۔ یہ ایک شخصی وجود ہے۔ اس کا اپنا نقطۂ نظر اور اپنے سوالات ہیں۔ ہر چند اس کا لہجہ پُر تمکین اور کہیں جلالی ہے، مگر یہ ایک حقیقی فرد ہے اور اسی لیے تنہا بھی ہے۔ یہ چند اشعار اسی فرد کا اظہارِ ذات ہیں:
میری نواے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہاے الاماں بت کدہ صفات میں
تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینہء کائنات میں
اگر کج رو ہیںانجم، آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو، جہاںتیرا ہے یا میرا؟
اسی کو کب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیر ا ہے یا میرا؟
تو ہے محیطِ بے کراں میںہوں ذراسی آب جو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
یہ مشتِ خاک، یہ صرصر، یہ وسعتِ افلاک
کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجا د!
مذکورہ بالااشعار میںایک ایسا فرد آشکار ہے جو تنہا ہے مگر ایک اور ہستی کے رُوبرو بھی ہے۔بہ ظاہر یہ پیراڈاکس ہے کہ ’اقبال کا فرد تنہا،مگر ایک اور ہستی کے روبرو بھی ہے‘:کیا وہ اس ہستی سے ایلی نیشن کا شکا ر ہے؟اصل یہ ہے کہ اقبال کے فرد کی تنہائی ہی اسے اس ہستی کے روبرو لے جاتی ہیتاکہ وہ اپنے وجود کی معنویت دریافتکرسکے۔ حقیقتاً اس فرد کو اپنی بے معنویت کا نہیں،اپنی معنویت کے از سرِ نو تعیّن کے سوال کا سامنا ہے۔ چناںچہ یہ اس بے چارگی اور لغویت کا شکار نہیںجو جدیدیت کے فرد کو اس کی تقدیر کی صورت در پیش ہے۔ حالاں کہ اقبال کا فرد بھی زندگی کا مستند اور حقیقی تجربہ کر رہا ہے جسے جدیدیت کا فرد اپنے لیے لازم ٹھہراتا ہے۔ اقبال کے بعض ناقدین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اقبال کی شاعری میں جدید فرد کہیںموجود نہیں۔ اقبال نے فردکا پُر عظمت تصور پیش کیا مگر جدید انسان جس ٹو ٹ پھوٹ کا شکار، جس بے چارگی میںمبتلا اور جس تنہائی کے کرب سے دو چار ہے، اقبال نے اسے اپنی شاعری میںکہیںپیش نہیںکیا۔ ان ناقدین کے نزدیک اقبال نے حقیقی فرد کو نہیں فرد کے مثالی اور Glorified تصور کو پیش کیا ہے۔ ان نقادوں نے غالباً مرد مومن کے تصور کو سامنے رکھا ہے اور اس فرد کی آواز نہیں سنی جس کی زبانی چند اشعار اوپر درج کیے گئے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ اقبال کا فرد اپنے وجود کے باطنی سر چشمے سے منقطع نہیں ہوا، تاہم اس سے ایک ایسے فاصلے پر ضرور ہوا ہے ،جس میں وہ اپنی معنویت کے سوال کو تشکیل دے سکتا ہے۔چناں چہ وہ اپنے وجود کی معنویت کا تعین نئے سرے سے اورمستند طریقے سے چاہتا ہے مگر معنویت کے گم ہو چکنے یا ’’بے معنی‘‘ ہونے کے بحران کا اسے سامنا نہیں ہے۔ نئے سرے سے معنویت کی طلب پر ماڈرینٹی کی عقلیت پسندی کی پیدا کردہ تشکیک کا ہلکا سا سایہ موجود ہے مگر یہ طلب باطنی اور مابعد الطبیعیاتی سر چشمے پر سوالیہ نشان نہیں لگاتی۔ جدیدیت (ماڈرن ازم) میں یہ سوالیہ نشان جلی طورپر موجود ہے۔
لہٰذا جدیدیت اور اقبال کے فرد میںجو بنیادی فرق پیدا ہوا ہے وہ دونوں کے جداگانہ ’’ورلڈ ویو‘‘ کی وجہ سے ہے۔ جدیدیت کے فرد کا ’’ورلڈ ویو‘‘ روایت اور مابعد الطبیعیات کی نفی پر استوار ہے، مگر اقبال کے فرد کا ’’ورلڈ ویو‘‘ ان دونوں کے اثبات پر مبنی ہے۔ ایک کی محرومی دوسرے کی قوت ہے۔
یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ جدید فرد نے بیسویںصدی کے عظیم سانحات (عالمی جنگیں، اقتصادی بدحالی،اعتقادات کا ٹوٹنا وغیرہ) کو جھیلا، اس لیے وہ بے بسی اور بے معنویت کے احساس میںمبتلا ہوا۔ کیا اقبال کے یہاں ان سانحات کی گونج موجود ہے؟ یہ موضوع الگ تفصیلی مطالعے کا متقاضی ہے۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ کسی سانحے کو جھیلنے میں فرد کا ’’ورلڈ ویو‘‘ (Worldview) اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک مذہبی آدمی کسی المیے کا سامنا جس طور کرتا ہے، مذہب بے زار فرد اسی المیے کو کسی اور طریقے سے محسوس کرتا ہے۔لہٰذا اقبال جس تصورِکائنات میں شریک ہی نہیں تھے،الٹاجس کے ناقد تھے،اس کی روشنی میں اقبال کے فرد کا مطالعہ قرینِ انصاف نہیں۔
ماڈرن ازم کا تعلق اگر اقبال کی شاعری سے ہے تو ماڈرینٹی اور ماڈرنائزیشن (جدیدکاری) کا تعلق اقبال کی فکر سے ہے۔ واضح رہے کہ اقبال کی فکر بہ یک وقت ان کی نثر اور شاعری میں ظاہر ہوئی ہے۔ سلیم احمد نے اقبال کی شاعری کا امتیاز ہی فکر کو قرار دیا ہے اور اس فکر کو اقبال کی انفرادی فکر بھی قرار دیا ہے۔ سلیم احمد نے جذبے، تصور اور جبلت سے تو فکر کو ممیّز کیا ہے مگر فکر کی قسموں اور سطحوں میں فرق نہیں کیا اور نہ یہ بتایا کہ کہاں ان کی شاعری خالص فکر کو اور کہاں شاعرانہ فکر کو پیش کرتی ہے۔خالص فکرکسی منطقی خیال یاکسی نظریے سے عبارت ہے ،اور یہ شعری تخیل سے ورا،عقلی طور پر وضع ہوتی ہے،جب کہ شاعرانہ فکرحسی تجربے سے پھوٹتی ہے؛یہ حس اور تخیل کا امتزاج ہے۔دونوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ خالص فکر اگر شاعری میں پیش ہو تو اسے شاعری سے الگ بھی تصورکیا جاسکتا ہے،مگر شاعرانہ فکر،شعری تمثالوں،استعاروں میں اس طرح شامل ہوتی ہے جس طرح پانی برف میں۔ مثلاً اقبال کے یہاںمتعدد اشعار ایسے موجود ہیں جو خالص فکر کو پیش کرتے ہیں،فقط دو شعر دیکھیے:
عشق اب پیروی عقل خداداد کرے
آبرو کو چہ جاناں میںنہ برباد کرے
کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے
یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے
ان اشعار کو اقبال کے فکری مؤقف کا ترجمان سمجھا جا سکتا ہے اور یہی خالص فکر کی نشانی ہے۔ جب کہ اس قسم کے اشعار ان کی شاعرانہ فکر کی علم بردار ہیںـــ:
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یا رب !پھر وہی مشکل نہ بن جائے
مذکورہ بالاا شعار جو اقبال کے فکری مؤقف کے ترجمان کے طورپر پیش کیے گئے ہیں، ماڈرینٹی سے متعلق اقبال کے تصور کی نمایندگی کرتے ہیں۔ ماڈرینٹی کا اہم داعیہ عقلیت ہے اور اقبال نے بھی عشق کو عقل کی برتری تسلیم کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس شعر کو اقبال کے عشق و عقل کے تصورات کے تناظر میںبھی اگر چہ دیکھا جاسکتا ہے مگر اقبال نے ان اشعار کو ’’ادبیات’’کے عنوان کے تحت لکھا ہے اور‘‘ ضربِ کلیم ’’میںانھیں درج کیا ہے جو عہدِ جدید کے خلاف اقبال کے اعلانِ جنگ یعنی اقبال کے فکری مؤقف کی عَلم بردار ہے۔ عقل کی اہمیت کا دوسرا مطلب عقلی و سائل کی مدد سے مذہبی و معاشرتی تجدید ہے۔ اس میں دور ائے نہیں ہو سکتیں کہ اقبال تجدید یا ماڈرنائزیشن کے قائل تھے، جو عشق سے نہیںعقل ہی سے ممکن ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اقبال کا ماڈرنائزیشن یا تجدید کاری کا تصور کیا تھا؟ اس تصور کا سر چشمہ (Origin) کیا تھا اور اس کے مضمرات و امکانات کیا تھے؟
یہاںاقبال کے جدید کاری کے تصور کی جملہ پیچیدگیوں میں جانا ممکن نہیں، اس تصور کے مرکزی نکتے کو بیان کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ خود اقبال کی زبانی سنیے۔ خطبات (مذہبی فکر کی تشکیلِ نو) میں لکھا ہیـ:
The only course open to us is to approach modern knowledge with a respectful but independent attitude and to appreciate the teachings of Islam in the light of that knowledge even though we may be led to differ from those who have gone before us.
[ہمارے پاس واحد راستہ یہ ہے کہ ہم نیازمندانہ مگر آزادانہ وضع کے ساتھ جدید علم تک رسائی حاصل کریں اور اس علم کی روشنی میں اسلام کی تعلیمات کی تحسین کریں،خواہ اس ضمن میں ہمیں پہلے گزرے لوگوں سے اختلاف ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔]
یعنی جدید مسلمانوں کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ جدید علم سیکھیں اور اس کی روشنی میںاسلامی تعلیمات کی تحسین کریں۔ تحسین کا لفظ اقبال نے اس لیے استعمال کیا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ اسلام ماڈرن علوم کی تحقیقات کی نفی نہیں، تائید و تو ثیق کرتا ہے۔ گویا اسلام جامد نہیں متحرک نظامِ حیات ہے۔ چناںچہ اقبال نے ماڈرینٹی کا مفہوم و مدعا یہ لیا کہ نہ صرف جدید عقلی و سائنسی علوم کو پڑھا جائے بلکہ مذہبی صداقتوں سے ان کی تطبیق بھی کی جائے۔ دوسرے لفظوں میں، اقبال کی ماڈرینٹی عقل و عقیدے، سائنس و مذہب کی تطبیق پر مبنی ہے۔ ماڈرینٹی کے اسی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے اقبال نے واضح اور ثابت کیا کہ توسیعِ کا ئنات اور ارتقائے حیات کے تصورات اس قرآنی آیت میں (اشارتا ً) موجود ہیں:
تم کہَ دو کہ تم زمین میں چلو پھر و، پھر غور سے دیکھو کہ اللہ نے خلق کو شروع کیوں کر کیا۔ پھر وہی اللہ ان کی آخری اٹھان بھی اٹھالے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ (۲۹:۲)
اسی طرح اقبال کے خیال میںآغازِ حیات کے نئے نظریات ابن مسکویہ اور رومی کے یہاںموجود ہیں۔ مثلاً رومی کے یہ اشعار:
آمدہ اوّل با قلیم جماد
در نباتی از جمادی او فتاد
سالہا اندر نباتی عمر کرد
وز جماتی یا دناورد از بزد
وز نباتی چوں بہ حیوانی افتاد
نایدش حال نباتی، ہیچ یاد
باز از حیواں سوے انسانیش
می کشدگاں خالقے کہ دانیش
مزید برآں اقبال نے ایٹمی نظریے کا سراغ اشاعرہ کے یہاں لگایا ہے۔ اشاعرہ نے ہی، اقبال کے خیال میں، سب سے پہلے وقت کے مسئلے پر غور کیا اور کہا کہ وقت مفرد ’’اب‘‘ کا تسلسل ہے۔ اقبال کا قصۂ قدیم و جد ید کو دلیل کم نظری قرار دینا اشاعرہ کے اسی تصورِ وقت سے ماخوذ ہے۔ اقبال نے فخر الدین رازی، ملّاجلال الدین دوانی، عراقی اور ملّابا قر کے جدید نظریات کا بھی ذکر کیا ہے۔ اقبال کی ان کوششوں کا مقصدیہ باورکرانا ہے کہ ماڈرینٹی اور اسلام میں کوئی مغائرت نہیں۔ ماڈرینٹی اپنی جن علمی و سائنسی تحقیقات پر تفاخر کرتی ہے وہ اسلام اور اسلامی تاریخ کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ استقرائی طرزِ فکر جدید مغربی تہذیب کی بنیاد ہے اور اقبال اس فکر کو اسلام کا اختصاص قرار دیتے ہیںاور اسی لیے وہ مغربی تہذیب کو ایک مخصوص تناظر میں اسلامی تہذیب کی توسیع بھی کہتے ہیں۔ اقبال کے اس دعویٰ کی عملی و تاریخی بنیاد کا سوال ایک طرف، اس دعویٰ نے یہ تاثر ضرور مٹا دیا کہ جدیدیت کا دوسرا نام ’’مغربیانا‘‘ (ویسٹرنائزیشن) ہے۔ اقبال کی یہ عطا کچھ کم نہیں کہ انھوں نے جدیدیت کو مغربیت سے آزاد کیا جو سر سیّد سے نہیں ہو سکا تھا۔
تاہم اقبال کے اس تصورِ جدیدیت کا سر چشمہ ایک طرف سر سیّد کا اصولِ تطبیق ہے (سر سیّد نے کہا تھا کہ ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ یا تو حکمتِ جدیدہ کا بطلان کر دیا جائے یا اس سے ہم آہنگ ہوا جائے۔ سر سیّد نے ہم آہنگ ہونے کو ترجیح دی) اور دوسری طرف اقبا ل کے عہد کا سماجی اور علمیاتی تناظر ہے۔ ڈاکٹر منظور احمد کا یہ کہنا معنی خیزہے کہ اقبال کی فکر کو ان کے عہد کے تناظر میں دیکھا جائے کہ اقبال نے ماڈرینٹی کے ضمن میں جو مؤقف اختیار کیا وہ اسی تناظر میں انھیں سوجھا اور اسی تناظر میں وہ موزوں اور Valid بھی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اقبال کا مئوقف اپنی اصل میں ’تاریخی ‘ہے،حتمی اور ایک آفاقی کلیہ نہیں ہے۔اب جب کہ دنیا پوسٹ ماڈرینٹی میں داخل ہو چکی ہے ،اقبال کے ’تاریخی مئوقف‘ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
حقیقتاً ماڈرینٹی اور ماڈرنائزیشن تمام غیر مغربی اقوام اور بالخصوص اسلامی ممالک کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کا مستقل اور ہر سطح پر قابلِ قبول حل اب تک پیش نہیں ہوسکا اور مختلف ممالک میں جو حل تجویز کیے گئے ہیںوہ ان ممالک کے سماجی ،تاریخی تناظر کے زائیدہ ہیں۔ نیز ایک ہی ملک میں مختلف اوقات میں مختلف حل سامنے آئے ہیں۔ مثلاً ترکی اور مصر میں ابتدا میں ماڈرنائزیشن سے مراد مغرب کی عسکری تکنیک کا حصول تھا اور ہندوستان میں ابتداً ماڈرنائزیشن کا مطلب جدید مغربی انگریزی تعلیم سے بہرہ مند ہونا تھا۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ محکوم ممالک میںماڈرنائزیشن بڑی حد تک ویسٹر نائزیشن کے مترادف سمجھی گئی ہے۔ اس لیے کہ مغرب نے غیر مغربی اقوام کو اپنی تہذیب کے جس پہلو سے زیادہ متاثر یا مغلوب کیا وہی پہلو محکوموں کا آدرش بنا۔ غالباً اسی لیے اقبال نے کہا تھا:
بھروسا کر نہیںسکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حرکی آنکھ ہے بینا
چناںچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ غلام اقوام نے ماڈرینٹی کا بالعموم سطحی تصور قائم کیا ہے۔ انھوں نے ماڈرینٹی کو اس کے ہمہ گیر تناظر میںنہیں دیکھا؛ اس پر اسس کو سمجھنے کی سعی نہیں کی، جس نے ماڈرینٹی کو ممکن بنایا۔ ٹیکنالوجی یا علوم تو ماڈرینٹی کے آئس برگ کا وہ معمولی سا حصہ ہیں جو سمندری پانی سے باہر ہوتا ہے۔ ماڈرینٹی کے پورے پراسس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی بیش تر مسلم ممالک میں ماڈرینٹی ممکن نہیں ہوئی۔یہ ایک تلخ مگر ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلم ممالک مغربی ماڈرینٹی کے ’’صارف‘‘ بن کر رہ گئے ہیں۔کسی شیکیخالق اور صارف میں جو فرق ہوتا ہے ،اس کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں۔اقبال کو اس امر کا آرزو مندانہ احساس تھا، انھوں نے سیّد سلیمان ندوی کے نام خط میں لکھا کہ ’’مسلمان ذہنی انقلاب کے اسی مرحلے میںداخل ہونے والے ہیںجس سے یورپ لو تھر کے زمانے میں گزرا تھا۔‘‘ (مگر کیا واقعی؟) اقبال اس نوع کا ذہنی انقلاب لانے کی غرض سے ہی اسلامی فقہ کی تدوینِ نو کرنا چاہتے تھے۔ صوفی تبسّم اور غلام السیّدین کے نام مکا تیب میںاقبال نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے۔
اب ایک نظر اقبال کے تصورِ جدیدیت کے حدود اور امکانات پر !
اقبال عقلیت اور جمہوریت کے مخصوص تصور کے قائل تھے۔ آمریت، شہنشاہیت اور ملائیت کے خلاف تھے۔ اس ضمن میں ان کے یہاں درجنوںفارسی اور اُردو اشعار موجود ہیں۔ اسی طرح ذہنی جمود کے نکتہ چیں اور متحرک نظامِ فکر میں یقین رکھتے تھے مگر مظہر الدین صدیقی کے بہ قول اقبال نے ماڈرنائزیشن کے مسئلے کا تجریدی اور فلسفیانہ حل تو بخوبی دریافت کیا، مگر:
He does not seem to have realized the importance of the socio-economic structure in molding masse’s minds, lives and personality.
[معلوم ہوتا ہے کہ انھوںنے عوام الناس کی ذہنوں،زندگیوں اور شخصیت کو سنوارنے کے لیے سماجی معاشی ساخت کی اہمیت کا احساس نہیں کیا۔]
ہر چند اقبال نے شاعری میںمعاشی سماجی عوامل کا ذکر کیاہے، تاہم ایک تھیوری کے طورپر اقبال نے اسے پیش بہ ہرحال نہیں کیا۔ نہ اس کی توقع ہی اقبال سے مناسب ہے ،اس لیے کہ اقبال کا مطمح نظر مذہب و سائنس کی تطبیق تھا۔ اصولی طورپر جب دو چیزوںکو اکٹھا کیا جاتا ہے تو ایک کو لازماً برتر اور دوسرے کوثانوی اور اس پر منحصر قرار دیا جاتا ہے۔ اقبال نے مذہب، سائنس یا عقل ووجدان کے ضمن میں جو درجہ بندی کی، اس میں اوّلیت مذہب اور وجدان کو دی، اور عقل اور سائنس کو مذہب کی تعبیرِ نو کا وسیلہ بنایا۔ دوسرے لفظوں میں عقل اور سائنس کو ان کی آزاد حیثیت میںقبول کرنے کے بجائے انھیںمذہبی صداقتوں کے تابع رکھا۔ انھیں مقصد نہیں ،وسیلہ قرار دیا۔ اسلامی تاریخ میں ہمیں ایک طرف رازی،معری اور ابن رشد ملتے ہیں اور دوسری طرف کندی، اشعری اورغزالی ملتے ہیں۔اقبال کا عقل و مذہب کے سلسلے میں جھکائوآخرالذکر گروہ کی طرف تھا۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اقبال نے آزادانہ سائنسی تحقیقات کے حق میں آواز بلند کرنے کے برعکس ’’ہو چکی سائنسی تحقیقات‘‘ سے (ایک خاص مقصد کے تحت) استفادے پر زو ر دیا۔ ہر چند بعض مقامات پر اقبال نے عقل کی برتری کا دعویٰ کیا ہے مگر بالعموم عشق کے مخصوص و محدود تصور کے مقابلے میں ایسا کیا ہے۔ سائنس کی برتری کو تسلیم کرنا شاید اقبال کے لیے ممکن نہ تھا کہ سائنس نے جس ماڈرینٹی سے جنم لیا ہے، وہ اپنی اصل میں ’’بشر مرکزیت‘‘ ہے۔ اقبال عالم گردوں کو بشریت کی زد میں ٹھہرانے کے باوجود بشر مرکز فلسفے کو قبول نہیں کر سکتے تھے کہ اسے قبول کرنے کا مطلب ماڈرینٹی کو پورے کا پورا قبول کرنا تھا جو عقل کومستند ذریعہ ء علم تسلیم کرتا ہے ۔ صاف لفظوں میں یہ کہ علم کا سر چشمہ وحی کے بجائے انسانی عقل کوتسلیم کرنا تھا۔ اقبال ماڈرینٹی کو تنقیدی اور انتخابی طور سے قبول کرنے کے حق میںتھے۔ اقبال ماڈرینٹی کے نکتہ چیں بھی تھے اور مدّاح بھی۔ اقبال دراصل اپنی اسلامی ثقافتی نہاد کو قائم و بر قرار رکھتے ہوئے مغربی جدیدیت سے اخذ و استفادے کے قائل نظر آتے ہیں۔ ایک خاص مفہوم میں یہ ایک جدید اور ترقی پسندانہ نقطہ ء نظر تھا۔