تنقید

اردو ڈراما ، امتیاز علی تاج اور’’انار کلی‘‘ : ڈاکٹرعبدالعزیزملک

جب دیوتا اپنی زندگی کی یکسانیت اور بے کیفی سے تنگ آگئے تو وہ راجا اِندر کے پاس عرض داشت لے گئے کہ ہم یکسانیت اور بے کیفی سے اُکتا گئے ہیںلہٰذا ہماری زندگیوں میں لطف و انبساط اور فرحت کا ساماں پیدا کیا جائے۔راجا اندر نے انھیں برہما کے پاس بھیجا اور کہا اس کا انسب حل اُن کے پاس ہے۔جب برہما نے ان کی بات سنی تو اس نے ’’رگ وید‘‘ سے رقص،’’سام وید‘‘ سے سرود،’’یجر وید‘‘ سے حرکات و سکنات اور ’’اَتھر وید‘‘ سے اظہار جذبات لیے اور ایک نئی کلّا(فن) کی تخلیق کر کے اس کا نام ’’نٹ وید ‘‘ رکھا جس کی مناسبت سے ہندوستان میں ڈرامے کو ناٹک کہا جا تا ہے۔یوں ہندوستان میں ناٹک کی روایت کا آغاز مذہبی تعلیمات اور دیوتاؤں کے بھجنوں اور گیتوں سے ہواجس نے آگے چل کر ڈرامانگاری کی مستحکم روایت کو جنم دیا ۔قدیم ہندوستان میں ناٹک مذہبی رسوم سے ہٹ کر ،تفریحی مقاصد کے لیے بھی کھیلے جاتے رہے ہیں۔سنسکرت ناٹک کے عروج کا زمانہ چندر گپت موریہ اور راجا اشوک کے زمانے کو خیال کیا جاتا ہے۔سنسکرت ڈرامے کا قدیم ترین خالق اشوگھوش کو تسلیم کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ بھاس، سموئیل اور کوی پتر کے نام بھی اہمیت کے حامل ہیںلیکن جو عظمت اور سر بلندی کالی داس کے حصے میں آئی،وہ قابل رشک ہے۔وہ راجا چندر گپت دوم کے عہد میںدرباری شاعر کے طور پرموجود تھا جس نے’’شکنتلا‘‘ کے علاوہ ’’ مالویک اگنی مترا ‘‘ اور ’’وکرم اروشی ‘‘ جیسے ناٹک رقم کیے ۔ راجا ہرش،بھٹ نرائن اور بھو بھوتی کو بھی کسی صورت ہندوستانی ڈراما کی روایت میں فراموش نہیں کیا جا سکتا،بھوبھوتی کی وفات کے بعد ناٹک زوال کا شکار ہونا شروع ہوا جو گیارہوں صدی عیسوی میں انتہا کو پہنچ گیا۔ سنسکرت ناٹک کے زوال کی کیا وجوہات تھیںاوریہ عدم تسلسل کا شکار کیوں ہوا، اس سے قطع نظر ،اردو زبان میں ڈراما نگاری کی بات کریں تواس کا آغاز انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں ہوا ۔معروف محقق مسعود حسن رضوی ادیب کے نزدیک اُردو کا پہلا ڈراما واجد علی شاہ کا ’’رادھا کنہیا‘‘ہے جن کی تقلیدمیں اے بی اشرف اور پروفیسر فصیح الدین نے بھی اس کو اردو کا پہلا ڈراما تصور کیا ہے،لیکن ڈاکٹر عطیہ نشاط بعض ڈرامائی عناصر کی عدم موجودگی کی بنیاد پر اس کو اردو کا ابتدائی ڈراما تسلیم کرنے سے انکاری ہیںالبتہ اِسے اُردو ڈراما نگاری کی طرف پہلا قدم خیال کرتی ہیں۔متذکَّرہ ڈراما سنسکرت کی روایت سے متاثر ہے جب کہ ہئیت کے اعتبار سے راس لیلا کی قدیم ہندوستانی روایت سے استفادہ کیا گیا ہے۔ رام بابو سکسینہ،مولانا عبدالسلام ،سید بادشاہ حسین حیدر آبادی اوردیگر نقاد۱۸۵۲ء میں تخلیق ہونے والے، امانت لکھنوی کے ڈراما ’’ اندر سبھا‘‘ کو اردو کا پہلا ڈراما تسلیم کرتے ہیں۔امانت لکھنوی نے اس روایت کے تسلسل کو آگے بڑھایا جس کی بنیاد واجد علی شاہ رکھ چکے تھے۔مذکورہ ڈراما بھی را س لیلا سے متاثر ہے ۔اس کے تتبع میں ہندوستان کے دیگر علاقوں میں اسٹیج ڈرامے کی روایت کا آغاز ہوا اور کئی ڈراما کمپنیاں وجود میں آ گئیں۔۱۸۶۱ء میں بمبئی میں لگ بھگ انیس تھیٹریکل کمپنیاں کام کر رہی تھیں جن میں بیشتر اردو ڈرامے اسٹیج کرتی تھیں۔لکھنو،ڈھاکا،بمبئی اور لاہور نے اردو ڈرامے کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ابتدا میں اچھے شاعر اور ادیب تھیٹر سے وابستہ ہونا ،کسرِ شان خیال کرتے تھے لیکن پارسی تھیٹریکل کمپنیوں نے اس طرف خاص توجہ دی اور سنجیدہ شعرا اور ادبا کو ڈراما نگاری کی جانب ملتفت کیا۔ان میں احسن لکھنوی،میر عبدالطیف شاد،بیتاب بنارسی،سید علی عباس حسینی،مراد لکھنوی،آرام،رونق،حافظ محمد عبداللہ،مرزا نظیر بیگ،آغا حشر کاشمیری اور حکیم احمد شجاع کے نام نمایاں ہیں۔انیسویں صدی میں جس جوش اور جذبے سے اُردو اسٹیج ڈرامے کا آغاز ہواتھا بیسویں صدی کے اوائل میں اس میں کمی ہونے لگی اور اردو تھیٹر مائل بہ زوال ہو گیا۔کچھ باشعور لوگوں نے اس میں اصلاح کی مساعی بھی کیں لیکن کوئی خاطر کامیابی حاصل نہ کر پائے،اس دور کے نمایاں ڈراما نگاروں میں منشی دوارکا پرشاد اُفق،منشی جوالا پرشاد برق،مرزا محمد ہادی رسوا اورپنڈت سدرشن کے نام خاص طور پر لیے جا سکتے ہیں۔
سید امتیاز علی تاج کا تعلق بھی بیسویں صدی کے نصف اوّل کے لکھاریوں میں سے ہے ۔ انھیں ڈراماسے اس قدر شغف تھا کہ لاہور میں کوئی بھی تھیٹریکل کمپنی آتی تو تاج ڈراما دیکھنے لازمی جاتے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے شوق میں اضافہ ہوتا رہا اور انھوں نے اردو اور انگریزی ڈرامے کی روایت کا مطالعہ کیا۔وہ مختلف تھیٹریکل کمپنیوں کے معائب و محاسن پر غور کرتے اور سکول اور کالج کے ڈراموں میں خود بھی حصہ لیتے،اس طرح تاج اسٹیج کے تقاضوں ،ایپک تھیٹر(Epic Theater)اور یبسرڈ تھیٹر(Absurd Theater)کے فرق کوبھی اچھی طرح سمجھتے تھے۔انھوں نے انگریزی سے اردو تراجم کا سلسلہ بھی شروع کیا،اس ضمن میں انھوں نے آسکر وائلڈ،گولڈ سمتھ اور کرسٹین گیلرڈجیسے ادیبوں کی تخلیقات کو اُردو کے قالب میں ڈھالا۔اسی دور میں انگریزی علوم اور مغربی فکر نے ہندوستانیوں کو متاثر کیا۔سیاسی طور پر جس شدت سے ہندوستانی انگریزوں سے متنفر ہو رہے تھے اسی شدت سے وہ تہذیبی، تعلیمی اورفکری اقدار کو اپنانے میں مصروفِ عمل تھے۔ زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں، ان تبدیلیوں نے فنونِ لطیفہ، زبان اور ادب پر بھی اثرات مرتسم کیے۔اب ڈراما محض روپیا کمانے کا ذریعہ نہ رہا بلکہ شوقیہ تھیٹر قائم ہوئے اور سکولوں اور کالجوں میں ڈرامے کی سوسائٹیاں قائم ہونے لگیں۔پرانے ڈرامے نئی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر تھے ،لہٰذا ڈرامے جدید انداز میں لکھنے کا رواج ہوا۔ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی(صیدِ زبوں)،ڈاکٹر عابد حسین(پردۂ غفلت) اور سید امتیاز علی تاج (انار کلی)نے اس ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی۔انھوں نے محض حسن و عشق کو موضوع نہیں بنایا بلکہ ابسن اور بریخت کے تتبع میں سماجی صورتِ حال کو بھی ڈراموں میں پیش کرنے کا جتن کیا۔
سید امتیاز علی تاج ۱۳ ؍اکتوبر ۱۹۰۰ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔امتیاز علی تاج کے والد سید ممتاز علی اپنے دور کے نامور عالم اور ادیب تھے۔ان کی خدمات کے صلے میں انھیں شمس العلماء کا خطاب دیا گیا۔آب کی والدہ بھی روشن خیال اور تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔اس طرح امتیاز علی تاج کو علمی اور ادبی ماحول ورثے میں ملا۔آٹھ سال کی عمر میں تاج کی والدہ کا انتقال ہو گیا لیکن ان کے باپ نے والدہ کی کمی محسوس نہ ہونے دی اور ان کی پرورش بہتر انداز میں کی۔ امتیاز علی تاج نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔بی اے میں دو بار ناکام ہونے کے باوجود ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ان کی شادی اردو کی افسانہ نگار حجاب اسماعیل سے ہوئی جن سے ان کی واحد اولا یاسمین طاہر ہیں۔وہ کئی رسائل کے مدیر رہے ،ان میں ’’پھول‘‘ اور ’’ کہکشاں‘‘نمایاں ہیں۔آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہوئے اور ریڈیو کے لیے کئی ڈرامے تحریر کیے۔بعد میں مجلسِ ترقی ادب لاہور کی نظامت کے فرائض انجام دیے ۔ ان کے دور میں قدیم ڈراموں کی تدوین کا کام تیزی سے ہوا جو ان کی ڈراما نگاری سے محبت اور لگن کا برملا ثبوت ہے۔۸ اور ۹ اپریل ۱۹۷۰ء کی درمیانی شب انھیں پُر اسرار طور پر قتل کر دیا گیا۔
سید امتیاز علی تاج نے اپنا شاہ کار(Magnum Opus) ڈراما ’’انار کلی‘‘ ۱۹۲۲ میں تحریر کیاجسے جدید اردو ڈراما نگاری کا نقش اوّل خیال کیا جاتا ہے۔اس ڈرامے کی پہلی اشاعت ۱۹۳۲ء میں دارالاشاعت پنجاب،لاہور کے توسط سے ممکن ہوئی۔اس کی موجودہ صورت تھیٹریکل کمپنیوں کو قبول نہ تھی ،انھوں نے تاج کو ترامیم کرنے کا مشورہ دیالیکن امتیاز علی تاج کو تبدیلیاں قابلِ قبول نہ تھیں،اس لیے مذکورہ ڈراما اسٹیج پر نہ کھیلا جا سکا۔اس کو سٹیج کے ناموافق اس لیے خیال کیا گیا، کیوں کہ تین ایکٹ کے کھیل میں تیرہ مناظر پیش کیے گئے ہیں۔ان تیرہ مناظر کو پیش کرنے کے لیے نو بار اسٹیج کی سیٹینگ تبدیل کرنا پڑتی ہے جو محنت طلب ہونے کے ساتھ ساتھ دقت طلب کام بھی ہے۔یہی وجہ تھی کہ تھیٹریکل کمپنیوں نے اس میں تبدیلیوں کی ضرورت محسوس کی لیکن امتیاز کو یہ گوارا نہ ہوا اور یوں یہ ڈراماا دبی حلقوں میں سراہا تو گیا لیکن سٹیج نہ ہو سکا۔اس طرح ’’انار کلی‘‘ کو سٹیج ڈراما کے بجائے ایک ادبی ڈرامے کے طور پر پڑھا جانا چاہئے ۔ڈرامے میں ہئیت کے اعتبار سے کوئی تازہ تجربہ نہیں کیا گیا اسی لیے یہ روایتی ڈرامے کے اصولوں کا پابند دکھائی دیتا ہے۔تین ایکٹ کے اس کھیل میںپھیلاؤ کے باوجود اختصار کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ہر باب یا ایکٹ کو عنوان دیا گیا ہے۔پہلے باب کا عنوان’’ عشق‘‘ ، دوسرے باب کا عنوان’’رقص‘‘ اور تیسرے کا ’’ موت‘‘ ہے،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ڈراما نگار کے سامنے ڈراما دیکھنے والے نہیں بلکہ ڈراما پڑھنے والے ہیں۔جتنے ڈرامے سٹیج پر کھیلے جاتے ہیں ان میں ابواب کی سرخیاں قائم نہیں کی جاتیں،یہ ڈراما نگار کی ذاتی اختراع معلوم ہوتی ہے جو ڈرامے میں نہیں بلکہ اردو ناول میں دکھائی دیتی ہے۔ہر باب چار مناظر پر مشتمل ہے اور آخری باب میں پانچ مناظر پیش کیے گئے ہیں۔ڈرامے کا مقام قلعہ لاہور ہے اور زمانہ ۱۵۹۹ء کا پیش کیا گیا ہے۔پہلے باب کے پہلے منظر میں طویل بیان کی شمولیت اِسے ناول کے مزاج کے قریب لے جاتی ہے لیکن یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ،تحریری ڈراموں میں ایسا ہوتا آیا ہے۔ برنارڈ شا اور گالزوردی کے مطبوعہ ڈراموں میں اس طرز کے بیانات موجود ہیں جو ’’انارکلی‘‘ کو یونانی ڈرامے کے بجائے انگریزی ڈرامے کی روایت کے قریب لے جاتے ہیں۔مذکورہ ڈراما عشق و محبت اور جرم و تعزیر کی دل چسپ کہانی ہے جو اپنے اندر سازشوں اور مظالم کو چھپائے ہوئے ہے۔یہ فرماں رواؤں کی کہانی ہے جن کے نزدیک محبت کا جذبہ قابلِ تعزیر جرم ہے۔
پہلے باب کا پہلا منظرطویل بیان سے شروع ہوتا ہے جو مذکورہ ڈرامے کی، ناول سے قربت کو واضح کرتا ہے۔جب پردہ اٹھتا ہے تو کنیزیں تفریحات میں مصروف دکھائی گئی ہیں جن میں سے دلآرام ، مروارید اور عنبر کے کرداروں کو ڈراما نگار نے سلیقے سے نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ان میں سے دلآرام کے کردار کی شکل و صورت کے نقوش واضح کیے جاتے ہیں جس سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سٹیج سے زیادہ فلم کی تکنیک کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ پہلے پورے منظر کی تصویر کشی کی جاتی ہے،پھر ایک گروہ کو ماسکہ کے تحت لایا جاتا ہے اور آخر میں فلم کا کیمرہ ایک فرد( دلآرام) پر آ کر رک جاتا ہے۔دلآرام کا کردار ڈرامے کے شروع میں یوں سامنے آتا ہے جیسے شیکسپیر کے ڈرامے اوتھیلو میں ایاگو کا کردار پیش کیا گیا ہے۔دلآرام اداس ہے ،عنبر اس کی قریبی سہیلی ہے،باقی کنیزیں اس سے کھچی کھچی ہیں جو اس کے بد تمیز اور مغرور ہونے کو ظاہر کرتا ہے لیکن اب اس کا احساس تفاخر نحیف پڑ گیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اب اس کی جگہ نادرہ نے لے لی ہے۔ اس جگہ تاج نے نادرہ کے حسن ،اکبر کے مزاج،نادرہ کے اکبر کو خوش کر کے انار کلی کاخطاب پانے اوردلآرام اور انار کلی کے مابین آویزش کو بیان کیا ہے۔دلآرام میں جذبہ انتقام کے پیدا ہونے کو دکھایا گیا ہے۔وہ سلیم پر عاشق ہے،مگر سلیم اس کی ذرہ برابرپرواہ نہیں کرتا۔ وہ انار کلی کی مقبولیت کو کم کرنے کی خواہاں ہے اور اسے نیچا دکھانا چاہتی ے۔وہ کنیزوں کے داروغے کافور کے ساتھ اُلجھتی ہے۔انار کلی کی ماں کے داخلے اور اس کی بات چیت، انار کلی اور اس کے مزاج کو قاری پر آشکار کرتی ہے۔انار کلی کو یکبارگی قاری کے سامنے نہ لانا بلکہ آہستہ آہستہ اس کی شخصیت کے داخلی اور خارجی پہلوؤں کو،اس کی یاسیت اورمایوسی کو اوراس کے حسن کوآشکار کرنا،تاج کا ڈرامائی ہنر ہے۔ صورتِ حال کی پیش کش یہ ظاہر کر رہی ہے کہ وہ اندر ہی اندر شہزادہ سلیم پرفریفتہ ہو چکی ہے جو آگے چل کر اس کے المیے کا باعث بننے والا ہے۔وہ اردو ادب میں پیش کی جانے والی دیگر ہیروئنوں سے الگ تھلگ اور منفرد ہے۔اس منظر کے اختتام پر انار کلی کو ثریا سے محو گفتگو دکھایا گیا ہے۔ثریا ایسا کردار ہے جو شہزادہ سلیم اور انارکلی کے مابین واسطے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ شہزادے کے حال کا بیان اورانارکلی کی افسردگی کو رفع کرنے کے لیے اس سے ٹھٹھا کرنا بھی اس منظر کا حصہ بنا ہے۔ڈرامے کی اصطلاح میں اسے Exposition کانام دیا جاتا ہے جس سے ڈرامے کی سیٹنگ،پلاٹ میں گزشتہ واقعات کا تعارف اور کرداروں کی تفصیل کو سامنے لایا جاتاہے ۔ اس سے ڈرامے کی کہانی میں نہ صرف سامع کی دلچسپی میں اضافہ ہو تا ہے بلکہ وقوع پذیر ہونے والے المیے کی شاعرانہ پیش گوئی بھی ہوتی ہے۔
دوسرے منظر کے آغاز میں ڈرامے کے ہیرو شہزادہ سلیم کو سامنے لایا گیا ہے۔وہ کنیزوں میں سے انار کلی کو بلانا چاہتا ہے مگر کوئی ان جانی طاقت اسے ایسا کرنے سے روک لیتی ہے۔کنیزیں رخصت ہوجاتی ہیں اور وہ خود کلامی کے ذریعے عشق کا اظہار کرتا ہے۔یہ خود کلامی ڈرامے کا جذباتی حصہ ہے جہاں رومانی رنگ سامنے آتا ہے۔یہاںسلیم کا دوست بختیاربھی دکھایا گیا ہے جو سلیم کے لیے انار کی کلیاں لاتا ہے اور سلیم ان کی تعریف میں شاعرانہ ہو جاتا ہے۔اسی دوران میں دلآرام اکبر کے آنے کی اطلاع دیتی ہے جو اپنے ساتھ حکیم لایا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ اکبر سلیم کی افسردگی سے افسردہ خاطر ہے۔ باد شاہ کی روانگی کے بعد دلآرام دوبارہ آتی ہے اور انار کے پھول لے کر چھپ جاتی ہے۔بخیار بھی دوبارہ سامنے آتا ہے اور گفتگو کے درمیان اس کا ذکر کرتا ہے کہ انار کلی راتوں کو باغ میں پھرتی ہے۔وہ انار کلی سے تنہائی میں ملنے کا ارادہ کرتا ہے۔دلآرام چھپ کر ان باتوں کو سن لیتی ہے۔یہ منظر شہزادے اوربادشاہ کے حالات کو مزدید واضح کر دیتا ہے۔
تیسرے منظر میں دلآرام کوسہیلیوں سے گفتگو کرتے دکھایا گیا ہے ،انار کلی اور ثریا بھی ایک دوسرے سے باتیں کر رہی ہیں۔انار کلی سلیم سے ملنے جا رہی اور دلآرام اس کا تعاقب کرتی ہے۔ چوتھے منظر میں سلیم اور انار کلی کی ملاقات کو دکھایا گیا ہے۔دونوں کے مکالمے رومانیت سے لبریز ہیں ۔سلیم کے چلے جانے کے بعد دلآرام ،انار کلی کے سامنے آجاتی ہے۔یہاں کہانی کی تثلیث تکمیل پذیر ہو جاتی ہے۔۔۔سلیم، انار کلی اور دلآرام۔۔۔۔اسی دوران میں ثریا بھی آجاتی ہے اور ہنسی مذاق کی باتیں ہوتی ہیں ،وہ اپنی بہن کو ہندوستان کی ملکہ کے روپ میں دیکھ رہی ہے جس پر دلآرام اس پر طنز کرتی ہے۔پہلا باب یہاں اختتام پذیر ہوتا ہے جس کے بنیادی موضوع’’ عشق‘‘ کی موجودگی ہر جگہ ہے اوراس کے ہمراہ رقابت کا جذبہ بھی چل رہا ہے۔
دوسرے باب کے پہلے منظر میں دکھایا گیا ہے کہ بختیار اور سلیم مثمن برج میں موجود ہیں اور انار کلی سے عشق کا موضوع زیرِ بحث ہے جس میں انار کلی سے سلیم کے عشق کا راز دلآرام پر آشکار ہوجانے پر سلیم مغموم دکھائی دے رہا ہے۔بختیار سلیم کے عشق میں دلآرام کو خطرہ خیال کرتا ہے اور سلیم کو انار کلی سے دست بردار ہو جانے کا مشورہ دیتا ہے۔اس دوران میں زعفران اور ستارا آ جاتی ہیں اور ہنسی مذاق کادور چلتا ہے،زعفران نظیری کی غزل سناتی ہے۔دلآرام حافظ کی غزل گاتی ہے جو اس کے سلیم سے عشق کا اشارہ ہے۔سلیم اس کو بتاتا ہے کہ اگر وہ انار کلی پر الزام لگائے گی تو وہی الزام ا س پر بھی لگ سکتا ہے۔دلآرام رخصت ہو جاتی اور بختیار سلیم کو اناڑی شاطر کہ کر مخاطب کرتا ہے۔اسے متنبہ کرتا ہے کہ دلآرام ضرور کوئی چال چلے گی۔
دوسرے باب کے دوسرے منظرمیں انار کلی کا حجرہ دکھایا گیا ہے۔انار کلی خود کلامی میں عشق کی باتیں کر رہی ہے۔ماں اس کے پاس آتی ہے لیکن وہ ماں سے باتیں کرتے ہوئے بھی سہم جاتی ہے اور کہیں دور جانا چاہتی ہے۔سلیم کے عشق کا جادوسرچڑھ کر بول رہا ہے اور ’’چھپائے نہ بنے‘‘والی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ثریا گھبرائی ہوئی آتی ہے اور سلیم اور دلآرام کے عشق کا بیان کرتی ہے۔دلآرام نے جب سلیم سے عشق کا اظہار کیاتو بختیار نے سن لیاتھا۔اب دلآرام ،انار کلی کو بدنام کرتے ہوئے ہچکچاتی ہے کیوں کہ یہی الزام اس پہ بھی لگ سکتا ہے۔دلآرام کا سلیم سے محبت کا اعتراف، اپنی ناکامی پر صبر کا اظہار اور انار کلی سے اس کا معافی مانگنا، انار کلی کی یاسیت کا سامنے آنا اور ثریا کا انار کلی کی جانب سے سوالوں کا جواب دینا بھی اس منظر میں دکھایا گیا ہے۔ثریا اس بات کا عزم کرتی ہے کہ وہ دلآرام کی چالوں کا جواب دے گی۔
چوتھے منظر میں اکبر اور مہارانی کو باتیں کرتے دکھایا گیا ہے۔انار کلی کی بیماری کا واقعہ ،اسے کسی صحت مند مقام پر جانے کی اکبر کی طرف سے اجازت اور مہارانی کا اسے جشن تک روک لینا اس منظر کے شروع میں موجودہے، آگے چل کر اکبر دلآرام کو انارکلی کے بجائے،جشن کی تیاری کا حکم صادر کرتا ہے۔وہ خیال کرتی ہے کہ اس موقع پر وہ اکبر کو شہزادہ سلیم اور انار کلی کے عشق سے آگاہ کرے گی ۔ یہاں کرداروں کے Rising Actionsکے بعدڈرامے کا عروج(Climax)شروع ہوتا ہے۔اس لمحے اکبر کا کردار پس منظر سے پیش منظر میں آجاتا ہے۔کہانی میں اکبر ظالم کے روپ میں نمودار ہوا ہے جو دو محبت کرنے والے کرداروں میں روکاوٹ بنتا ہے،حالاں کہ وہ قوم کا مخلص اور ملک کے مستقبل کے بارے فکرمند ہے۔جشنِ نوروز میں اکبر اور سلیم کو شطرنج کھیلتے دکھایا گیا ہے جس میں اکبر سلیم کو شکست دیتا ہے۔اسی دوران میں کافور آتش بازی کی خبر لاتا ہے اور اکبر اور سلیم آتش بازی دیکھنے چلے جاتے ہیں۔اب دلآرام تنہا رہ جاتی ہے اور وہ اپنی چال کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے منصوبہ گھڑتی ہے۔وہ سلیم اور اکبر کے تخت کو یوں لگاتی ہے کہ سلیم کا تخت اکبر کو آئینے میں نظر آتا ہے۔وہ ’’عرق کے شیشے‘‘ کا انتظام بھی کرتی ہے۔ سلیم نمودار ہوتا ہے اوردلآرام سلیم سے وعدہ کرتی ہے کہ رقص کے بعد وہ انار کلی کو اس کے پاس لے آئے گی۔ سلیم اس کا معترف ہوتا ہے لیکن ثریا اس پر اعتبار نہ کرنے کی تاکید کرتی ہے۔عنبر ’’عرق‘‘ لے کر آتی ہے اور دلآرام اسے چھپا کر رکھ لیتی ہے۔ دلآرام سلیم کے تخت کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ یہاں اوٹ ہے ،وہ جب اور جو چاہیں اشارہ کر سکتے ہیں۔اکبر کی آمد پہ رقص کا آغاز ہوتا ہے۔زعفران اور ستارہ کے رقص کے بعد انار کلی کا رقص شروع ہوتا ہے۔اکبر اس کا رقص دیکھ کر اور گیت سن کرخوش ہوتا ہے۔مروارید عرق لے کر آتی ہے جو دلآرام انار کلی کو پلا دیتی ہے،انار کلی نشے میں آجاتی ہے۔اس سے فیضی کی غزل سنانے کی فرمایش کی جاتی ہے۔غزل سنانے کے دوران میں انار کلی زیادہ سے زیادہ بے باک ہوتی جاتی ہے۔دلآرام، اکبر کو انار کلی اور سلیم کی اس حرکت کی جانب متوجہ کرتی ہے۔اکبر آئینے کو دیکھتا ہے تو سلیم اور انار کلی ایک دوسرے کو اشارے کرتے نظر آتے ہیں۔اکبر غصے میں آ کر انار کلی کو زندان میں ڈالنے کا حکم صادر کرتا ہے۔دلآرام کی چال کامیاب ہو جاتی ہے۔ابھی تک ڈرامے میں اکبر کا کردار رحم دل باپ کا کردار بن کر سامنے آیاتھا۔ اس واقعے کے بعد وہ شہنشاہ کے روپ میں سامنے آتا ہے۔یہ واقعہ ڈرامے میں تجسس کے عنصر کو بڑھا دیتا ہے۔
تیسرے باب کے پہلے منظرمیںسلیم کی بے چینی کو دکھایا گیا ہے۔رانی اور سلیم ایک دوسرے سے محو گفتگو ہیں ۔رانی اسے سمجھاتی ہے کہ اکبر صرف پدرانہ محبت میں ایسا کر رہا ہے مگر سلیم کو ہر صورت میں انار کلی کی رہائی درکار ہے۔ اس کا دوست بختیار بھی اسے سمجھاتا ہے کہ وہ انار کلی کو بھول جائے۔دوسرا منظر زندان میں کھلتا ہے،جہاں سلیم خود جاتا ہے اورداروغہ اسے وہاں پہنچاتا ہے جہاں انارکلی قید ہے۔دونوں کی گفتگو عشق و محبت کے جذبات سے لبریز ہے۔سلیم انار کلی کو یہاں سے زبر دستی نکالنا چاہتا ہے مگر دھوکے سے داروغہ سلیم کو اپنے حجرے میں بند کر دیتا ہے۔تیسرے منظر میں اکبر کی خواب گاہ دکھائی گئی ہے۔رانی اور اکبر ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہیں،رانی سلیم کی خواہش پورا کرنے کی سفارش کر رہی ہے۔اکبر شاہی مصلحتوں میں گرفتار ہے،ایک طرف حکومت اور دوسری جانب بیٹے کی محبت ہے۔بیٹے کی محبت پر شاہی مصلحت غالب آجاتی ہے۔انار کلی کی ماں اکبر کی منت سماجت کرتی ہے مگر اس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔زندان کاداروغہ اکبر کو اطلاع دیتا ہے کہ وہ زبر دستی زندان میں داخل ہوا،شہنشاہ سے بغاوت کا اظہار کیا ،میں نے اسے حجرے میں بند کر دیا۔ اکبر غصے میں آجاتا ہے اور سلیم کی بغاوت کا محرک انار کلی کو خیال کرتا ہے۔ یوں وہ انار کلی کو زندہ دیوار میں چنوا دینے کا حکم صادر کر تا ہے۔چوتھا منظر انتہائی جذباتی ہے جس میں انار کلی کے قصے کے غم انگیز پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔ پانچویں منظر میںمثمن برج ہے جہاں سلیم غم اور غصے کی حالت میں موجود ہے۔ڈرامے کے تمام کردار اس منظر میں سلیم سے آکر ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔پہلے دلآرام نمودار ہوتی ہے جو شہزادے کو انار کلی کے مرنے کی خبر سنا کر پردے کے پیچھے چلی جاتی ہے۔سلیم باہر جانا چاہتا ہے لیکن سپاہی اسے روک لیتا ہے اس پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں۔بختیار آتا ہے جو اسے انار کلی کے بارے بتانے سے انکار کرتا ہے۔ ثریا سلیم کو ہندوستان کا بزدل ولی عہد کہ کر پکارتی ہے۔ سلیم انتقام کے لیے باہر جانا چاہتا ہے مگر دروازے بند ہیں۔ وہ دیوار سے پردے نوچتا ہے تو اس کے پیچھے سے دلآرام ظاہر ہوتی ہے۔ وہ اسے انار کلی خیال کرتا ہے لیکن ثریا اس کی تردید کرتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ یہ دلآرام ہے۔وہ اُسے پٹخ دیتا ہے۔ سلیم ،اکبر پر بھی غصہ ظاہر کرتا ہے۔اکبر، دلآرام اور داروغہ سے انتقام کا وعدہ کرتا ہے۔ثریا اکبر کو کوستی ہے اور پھر بے ہوش ہو کر گر جاتی ہے۔سلیم اور بھی جذباتی ہو جاتا ہے۔قصے کی تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ ڈراما نگار نے پلاٹ کی تعمیر میں محنت اور ہنر مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔اردو ڈرامے میں بقول ڈاکٹر جمیل جالبی’’ پہلی کامیاب کوشش‘‘ہے جو آنے والے ڈراما نگاروں کے مشعلِ راہ رہے گا ۔ڈرامے کے مطالعے سے جو بات نمایاں ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ امتیاز علی تاج رومانیت اور جذباتیت کے قائل نظر آتے ہیں اور المیہ سے میلو ڈراما کا سفر طے کر جاتے ہیں۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انار کلی کو المیہ ڈراما کہا جا سکتا ہے۔ ڈرامے میں ہیرو اور ہیروئن کمزور کردار بن کر سامنے آئے ہیں جو موت سے فرار کی راہیں تلاش کر رہے ہیں،ان میں جرأت اور بہادری کی کمی ہے اور حالات کے سامنے مجبورِ محض ہیں۔انار کلی کو ڈرامے میں کہیں بھی جرأت اور بہادری کا مظاہر ہ کرتے نہیں دکھایا گیا۔وہ ہر موقع پر افسردگی ، غم اور یاسیت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تاج اسے حسرت ناک کردار کے روپ میں پیش کرنا چاہتے ہوں۔ڈرامائی کش مکش کو آ گے بڑھانے کے لیے اس کے متوازی ثریا کا کردار گھڑا گیا ہے جو کم عمر، اوسط درجے کی ذہین اور نا تجربہ کار ہے جس کے باعث وہ شہنشاہ اکبر ،سلیم اور دلآرام کے مدِ مقابل کھڑی ہو جاتی ہے۔ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے مجہول انار کلی ،ثریا کے روپ میںمستعد اور فعال ہے۔ سلیم میں بھی مردانہ الولعزمی اور جرأت کا فقدان ہے۔ثریا اُسے ہندوستان کا بزدل ولی عہد کہ کرپکارتی ہے تاکہ اس میں حوصلہ پیدا ہو۔وہ ڈرپوک بچے کے مانند ہے جو باپ سے خوفزدہ ہے اور ماں کی چھاتی سے لپٹ جاتا ہے جو اس کی مادر پرستی(Mother Fixation)کو ظاہر کرتا ہے۔ سلیم نے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے،جو نقصان ہوا وہ انار کلی کا ہوا، وہ تو ویسے کا ویسے ہی شہزادہ رہا ۔المیہ ڈرامے میں جو ہیرو سمجھوتہ کر لیتا ہے، وہ ہیرو نہیں کہا جا سکتا،اس دلیل کے تحت ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ المیہ سلیم کا نہیں ہے اور نہ ہی اکبر کا المیہ ہے بلکہ صحیح معنوں میں انار کلی کا المیہ ہے جس کے لیے ڈراما نگار نے پوری فضا تیار کی ہے۔محبت کے معاملے میں انار کلی اور دلآرام کے مابین تضاد پیدا کیا گیا ہے تا کہ المیاتی اثر (Tragic Effect)پیدا کیا جا سکے۔انارکلی کی محبت خاموش ، مستور اور دبی ہوئی ہے۔ اس کا اگر کوئی ہمراز ہے تو وہ ثریا ہے۔ اس کے برعکس دلآرام کی محبت بے باک اور برملا ہے۔ وہ ایک موقع پر سلیم سے اپنی محبت کا کھلے عام اظہار بھی کرتی ہے۔انار کلی جب اس کی جگہ لیتی ہے تو وہ انتقام پر تل جاتی ہے۔باقی تمام ڈراما اس کے انتقام کی تیاری اور اس کے نتائج پر آگے بڑھتا ہے۔دلآرام کے مقابلے میں انارکلی کے دھیمے انداز سے اس کے کردار کو نمایاں کیا گیا ہے۔وہ عشق کے غم میں مبتلا ہے اور غم میں جو کرب انسان محسوس کرتا ہے اس کی سنگین صورت تنہائی کا احساس ہے۔ امتیاز علی تاج ڈرامے میں شعوری کوشش سے یہ صورتِ حال پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انار کلی کی ماں ہو یااس کا محبوب سلیم ،وہ کسی سے حالِ دل بیان نہیں کرتی۔اس کے کردار میں باطنی اور خارجی صورتِ حال میں تصادم کو بھی نمایاں کیا گیا ہے ۔یہ کیفیت دیگر کرداروں میں ابھارنے کی کوشش نہیں کی گئی کیوں کہ امتیازعلی تاج انار کلی کو ہی المیہ کردار کے طور پر پیش کرنے کے خواہاں ہیں۔ڈرامے میں اکبر اور دلآرام کے کردار مضبوط اور جرأت مند کرداروں کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔اکبر کو احساس ہے کہ وہ شہنشاہِ ہندوستان ہے اور اس نے لوگوں کو قوتِ ارادی کے تابع رکھنا ہے۔وہ اپنے ارادوں کو حقیقی روپ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مصلحتوں کو گفتگو اوراپنی حرکات سے ظاہر نہیں ہونے دیتا۔دلآرام بھی قوتِ اقتدار کی حریص ہے ۔سلیم سے اس کی محبت بھی اسی جذبے کے تابع ہے۔ اکبر جو شہنشاہِ وقت ہے جوایک دن نہیں رہے گا ، سلیم اس کا جانشین ہے اور سنہرے مستقبل کااستعارہ بھی ہے ۔اسی لیے وہ چالیں چلتی ہے اور انار کلی کو اپنے راستے سے ہٹانا چاہتی ہے۔انار کلی کے زیادہ تر کردار یک رخے ہیں۔ اکبر اور دلآرام کے کردار فعال ، مضبوط اورکثیر الجہت ہیں جو ڈرامے میں حرکت و عمل کا شرارہ ہیں۔ڈراما شکستِ آرزو کے جس المیے کا اظہاریہ ہے اس میں اسی طرح کے کرداروں کی گنجایش موجود تھی۔ڈراما نگار نے ان کرداروں کی بدولت انسانی نفسیات کی بعض باریک ترین حقیقتوں کا انکشاف کیا ہے۔مثلاً شدتِ احساس،انکشافِ ذات ،ذہنی و نفسیاتی کرب،انانیت،احساسِ تنہائی،عمیق اداسی،داخلی ویرانی اورکرداروں کی باطنی کشمکش وغیرہ ۔

نوٹ:

(ڈاکٹر عبدالعزیز ملک ، جی سی یونی ورسٹی ،فیصل آباد میں ادبیات اردو کے استاد ہیں۔ ترقی پسند اردو رسالے ’’ انگارے‘‘کے شریک مدیر ،ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ رسالے ’’ زبان و ادب‘‘ کے نائب مدیر اور پنجابی ا دب و ثقافت کے ترجمان رسالے’’ ققنس‘‘ کے معاون مدیر ہیں۔’’جدید تنقیدی نظریات:تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ کے عنوان کے تحت جی سی یونیورسٹی، فیصل آباد سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ان کی ’’اردو افسانے میں جادوئی حقیقت نگاری‘‘،’’ تعبیرو تفہیم‘‘ اور ’’ پنجابی کہانیاں(تراجم)‘‘ جیسی کتب مثال پبلیشرزفیصل آباد سے شایع ہو چکی ہیں۔)

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. شبیراحمد قادری

    اکتوبر 13, 2020

    واہ ۔
    کیا بات ہے ڈاکٹر عبد العزیز ملک صاحب ، محنت ، توجہ اور یکسوئ کے ساتھ لکھا گیا مضمون ،
    اردو میں ڈرامہ نویسی کے سفر پر نظر دوڑانے کے بعد ” انارکلی” کے پلاٹ ، کرداروں ، مناظر اور دیگر اہم پہلوؤں پر آپ کی راۓ استناد کا درجہ رکھتی یے ، ایسے ذمہ دارانہ اور سنجیدہ مطالعات قاری کے ذوق مطالعہ کی تسکین کے ساتھ ساتھ بڑھاوے میں بھی معاون ہوتے ہیں ،
    ” انارکلی ” ایک مشکل ڈرامہ ہے ، روایتی ڈرامے سے یکسر مختلف ، اسے ہم اردو کا پہلا ادبی ڈراما کہہ سکتے ہیں کہ یہ تھیٹر کے لیے نہیں لکھا گیا تھا اور ایک طویل مدت تک اسے اسٹیج کی زینت بنایا بھی نہیں گیا ،
    ڈاکٹر عبدالعزیز ملک صاحب آپ کا یہ مضمون پڑھنے کے بعد ” انارکلی” ایک بار پھر پڑھنے اور بغور پڑھنے کی تحریک پیدا ہوئ ہے ، اس پر میں آپ اور "خیال نامہ” کے مدیر شہیر محترم ڈاکٹر یونس خیال صاحب کا بہ دل و جان شکرگزار ہوں ۔

شبیراحمد قادری کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں