پاکستان میں اردو زبان میں بڑا ناول نہیں لکھا گیا، اس حوالے سے اکثر مباحث ہوتے رہتے ہیں۔ بعض سکہ بند نقادوں کا خیال ہے کہ بیسویں صدی کے مختصر دورانیے میں اگر پندرہ سے بیس ناول ایسے لکھے گئے ہیں کہ جنہیں عالمی معیار کے کسی بھی پلیٹ فارم پر رکھا جا سکتا ہے تو یہ بڑی بات ہے۔ممکن ہے،نقادین فن کے نزدیک یہ معیار قابل قبول ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک صدی کے عرصہ میں اتنے قلیل تعداد میں ناولوں کا لکھا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ناول نگاری جن لوازمات اور تخلیقی صلاحیتوں کا تقاضا کرتی ہے، ہمارا ناول نگار اور معاشرہ دونوں ہی اس سے ابھی تک محروم ہیں۔
ابتدا میں ناول کو معاشرتی اصلاح کے ایک پیمانے یا ہتھیار کے طور پر لکھا جاتا رہا۔ ناول کے کردار معاشرے کے صالح کردار تھے جو مختلف کرداروں کے ساتھ کشمکش میں اخلاقی اور اصلاحی درس دیتے تھے۔ مگر یہ تو ناول نگاری کا نہایت ہی محدود سا مقصد ہے اور جب تک یہی مقصود رہا، کوئی بھی بڑا ناول لکھا جانا ممکن ہی نہ تھا۔ اس کے بعد ناول نگاری کی کچھ ایسی مثالیں ہیں کہ جن کا مقصد معاشرے کے مسائل کی عکاسی تھا۔ایسے ناولوں میں معاشرتی اقدار کو مذہبی پیمانے کے متوازی رکھ کر پرکھا گیا اور اچھے معاشرے کی تشکیل کا درس دیا گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان برسوں میں عالمی سطح پر ناول نگاری اپنے عروج پر تھی بل کہ اس سے ایک صدی پہلے روس میں انقلاب اور مختلف نظریات کے پھیلاؤ کے لئے ناول نگاری کو استعمال کیا جا رہا تھا۔ بیسویں صدی کے کئی فلسفیوں نے جہاں ایک جانب زندگی کی حقیقتوں کو سمجھنے، معاشرے اور اس میں بسنے والے لوگوں کو مذہب اور ریاست سے الگ کر کے دیکھنے کی کوشش کی، وہاں ایسے ناول اور کردار بھی تخلیق کئے جو پیچیدہ معاشرے کی عکاسی کرنے لگے۔ مگر ان ناولوں میں بھی ایک عام انسان کی بے بسی، کم مائیگی اور استحصال کی مختلف صورتوں کو پیش کیا جاتا رہا۔
بیسویں صدی کے نصف میں ناول نگاری نے اپنا کینوس نہایت وسیع کر لیا تھا۔ اردو زبان میں منشی پریم چند اور کرشن چندر کے ہاں معاشرتی اور معاشی مسائل کا تذکرہ ہی ہوتا رہا۔ مگر اس کے بعد قرۃالعین حیدر، عبداللہ حسین، انتظار حسین نے ایسے ناول لکھے کہ اردو ناول نگاری کا دامن وسیع ہو گیا۔ قرۃالعین حیدر نے ایک جانب تاریخ کو ناول کے ساتھ جوڑا تو دوسری جانب تہذیب و ثقافت اور تمدن کے مختلف دھاروں کو ناول نگاری میں سمویا۔ وہ خود چوں کہ کئی ممالک میں گھوم پھر کر،وہاں کے مقامی کلچر اور جدیدیت کے سبب آنے والی تبدیلیوں سے آگاہی حاصل کر چکی تھیں، اس لئے ان کے موضوعات میں ایک تنوع پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ اس کے متوازی عبداللہ حسین کو بھی عالمی ادب تک رسائی حاصل تھی اور وہ انگریزی پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے، اس لئے انگریزی میں لکھے جانے والے ناول اور ناول نگاری کے فن سے وہ براہ راست شناسا ہوئے۔ انہوں نے اردو ناول پڑھ کر ناول لکھنا نہیں شروع کیا تھا۔انتظار حسین بھی تراجم سے وابستہ رہے، غیر ملکی ادب پڑھا ہوا تھا مگر اُن کے ہاں ہندی تہذیب اور ہندو مذہب کی کتابیں اسکول کے زمانے سے پڑھی جا رہی تھیں، انہوں نے ان مذہبی کتابوں اور اساطیر و دیو مالائی کہانیوں کو اپنا اظہار کا ذریعہ بنایا اور تقسیم کے عمل کو تاریخ و تہذیب کی بدلتی صورت حال کے تناظر میں پیش کرتے ہوئے ناول اور افسانے لکھے۔
اشفاق احمد، ممتاز مفتی، بانو قدسیہ، قدرت اللہ شہاب نے اپنا الگ راستہ بنانے کے لئے، انتظار حسین کے برعکس ہنداسلامی تصوف کو اپنا منبع قرار دیا۔ اُن کے ہاں بر صغیر پاک وہند کی آٹھ سو سالہ تصوف کی تاریخ کے تناظر میں فکشن لکھا گیا۔ ممتاز مفتی نے جدید معاشرتی اقدار کے سبب معاشرے اور کرداروں میں ہونے والی تبدلیوں کو اپنا فوکس بنایا۔ اشفاق احمد نے فکشن اور ڈرامہ اور پھر ٹیلی ویژن پروگرام زاویہ کے تحت لوگوں کو متاثر کیا اور ان میں تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ ان کے ہاں ادب کی تخلیق کا مقصد معاشرے کی اصلاح اور صالح کرداروں کی تشکیل رہا ہے۔ بانو قدسیہ نے راجہ گدھ میں جدید جینیٹکس کے علم کو بنیاد بنا کر اسلام میں حلال و حرام کی تھیوری کو نہایت اثر انگیز انداز میں پیش کیا۔ ان کے ساتھ ساتھ مستنصر حسین تارڑ نے ناول اور سفر نامے بے شمار تعدادمیں لکھے۔ مستنصر حسین تارڑ نے ایک جانب کتابوں کے مطالعے سے تہذیب و ثقافت کا بین الاقوامی سطح پر مطالعہ کیا اور دوسری جانب ان قدیم شہروں میں گھوم پھر کر تہذیب وثقافت کے ان مراکز کو دیکھا اور وہاں قدیم اور جدید معاشرے کے باہم ملاپ سے تشکیل پانے والی صورت حال کو اپنے ناولوں اور سفر ناموں میں پیش کیا۔ اردو ادب میں نصف صدی کی یہ صورت حال سامنے رکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اردو ادب میں ناول کے دامن میں یہی کچھ سمیٹنے کی گنجائش تھی؟ کیا ناول کا مقصد کسی خاص نقطہ نظر، نظریہ یا تہذیب و ثقافت کی ایک خاص زمان ومکان میں پیش کش کا ہی نام ہے؟ اگر ایسا ہے، تو پھر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس پر تو بہت کام ہو چکا اور اب آنے والے وقت میں کسی بڑے ناول کے ہر امکان کو رد کر دینا چاہئے۔ اور اگر ناول نگاری کا فن ایسی حدود میں مقید نہیں ہوتا تو پھر اردو ناول کے مزید کیا امکانات ہیں؟
ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ تخلیقی کام نہایت غیر معمولی صلاحیتوں کا متقاضی ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں فکشن ہو یا شاعری، ایسے تخلیق کاروں کے ہاتھ میں ہے کہ جن کی تعلیمی قابلیت بھی واجبی سی ہوتی ہے، معاشرے کے بارے میں ان کا علم بھی براہ نام ہوتا ہے۔ جن اداروں میں یہ لوگ کام کر رہے ہوتے ہیں، وہاں ان کو ایک ناکارہ شخص سمجھ کر ایک طرف کر دیا جاتا ہے اور بنیادی دھارے میں ان کی شمولیت سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ادب کو محض شغل کے طور پر اپنائے ہوتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف تاریخ و ادب کا مطالعہ نہیں کیا ہوتا بل کہ ان کی سمجھ بوجھ بھی اوسط درجے کی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں ادب اور ادبی سرگرمیاں اور ادب سے متعلق ادارے ایسے ہی اوسط ذہنی صلاحیت رکھنے والے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔ اب ایسے لوگوں سے کوئی بھی اعلیٰ ادبی سرگرمی کی توقع بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اعلی ناول لکھنے کے لئے ضروری ہے کہ تاریخ و تہذیب کا گہرا شعور موجود ہو، آج کے دور میں سیاسی، سماجی اور معاشی اداروں کی سرگرمیاں کیسے سرانجام پا رہی ہیں، اس کے بارے میں علم ہو، حکولمتی نظام کیسے چل رہا ہے، لوگوں کے بنیادی حقوق کے حصول میں کیا رکاوٹیں ہیں، مذہب اور فلسفہ نے صدیوں سے چلی آنے والی انسانی زندگی پر کیا اثرات مرتب کئے ہیں؟ مذہب اور فلسفہ کو جب سائنس نے چیلنج کیا تو جدیدیت نے روایت کو کیسے پس پشت دھکیل کر اپنی جگہ بنائی۔وجودیت، جدیدیت، مابعد جدیدیت، ساختیات، پسِ ساختیات، جیسے جدیدتنقیدی نظریات نے زندگی اور معاشرے کے باہمی ربط اور تہذیب و ثقافت کو سمجھنے میں کیا مدد دی ہے؟۔ہمارے ادیب و شاعر ریاست سے بہت کچھ توقع رکھتے ہیں مگر خود اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے تیار نہیں۔ جو چاہے، جیسا چاہے لکھے اور کتاب کی صورت میں چھاپے، کوئی معیار مقرر نہیں ہے۔
مستنصر حسین تارڑ نے میلان کندیراکا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ”ناول سائنس اور فلسفے سے بغاوت کر کے انسان کے اندر ارتقا پذیر مسلسل سوالوں کا جواب ہے، ایک ناول جو لمحہ موجود تک کے وجود کو دریافت نہیں کرتا، ناول نہیں، بے کار،بد ذائقہ کاوش ہے۔ جہاں خواب اور حقیقت کاملاپ ہوتا ہے، وہاں سے ناول جنم لیتا ہے۔ ہر بڑا ناول اپنے پڑھنے والے سے کہتا ہے کہ کائنات اتنی سادہ اور واضح نہیں ہے“۔
آگے چل کر مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں؛ ”ایک عظیم ناول ہمیشہ ناول نگار کی نسبت شعور اور فہم کی ایک بلند سطح پر وجود میں آتا ہے“۔ ہمیں تھوڑی دیر کے لئے قائم کردہ معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے اردو زبان میں اب تک لکھے جانے والے ناولوں کا غیر جانب داری سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ہمیں خود ہی سمجھ آ جائے گی کہ اردو ادب میں ناول نگاری کے امکانات محدود کیوں ہیں۔