تنقید

’’اردو فکشن پر روسی ادب کے اثرات‘‘ … ایک تعارف : ڈاکٹر عبدالعزیز ملک

روسی ادب نے دنیا پھر کے اہلِ قلم کو نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ ادب میں مخصوص رجحان کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار بھی ادا کیا ہے۔روسی ادب کو براہِ راست روسی زبان میں کم لوگوں نے ہی پڑھا ہے ۔یہ تراجم کے توسل سے ہی دنیا کے کونے کونے تک پہنچا اور مختلف خطوں کے قلب واذہان کو متاثر کیا ۔اس کے اثرات ہندوستانی ادب نے بھی قبول کیے اور اردو ادب کے نامور اور رجحان ساز اُدبا روسی ادب سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔اردو نثر نگاروں میں ،اختر حسین رائے پوری ،سجاد ظہیر،احمد علی ، پریم چند، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی،سدرشن،اختر اورینوی ،سعادت حسن منٹو،احمد ندیم قاسمی،شوکت صدیقی اوربلونت سنگھ ایسے کتنے نام ہیں جنھوں نے روسی ادب سے اثرات قبول کیے ہیں ۔ شعرا میں فیض احمد فیض ،ساحر لدھیانوی،اسرار الحق مجاز،مجروح سلطان پوری،اور جوش کے نام نمایاں ہیں۔اردو میں ترقی پسند تحریک سے منسلک ادبا نے خاص طور پرروسی ادب سے اثرات قبول کیے اور اپنی تخلیقات کی بنیادیں مارکسی نظریات پر استوار کیں۔شعری تخلیقات سے قطع نظرناول اور افسانے نے خاص طور پر روسی ادب سے رس کشید کیا۔ڈاکٹر پروین اخترکلّو نے ان تخلیقات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور ’’ اردو فکشن پر روسی ادب کے اثرات‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کامقالہ تحریر کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔مذکورہ کتاب ان کے مقالے کی کتابی شکل ہے۔اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ۲۰۲۰ء میں الحمد بپلی کیشنز لاہور سے اشاعت پذیر ہوا ہے۔
مذکورہ کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں روسی ادب کے سیاسی اور سماجی پس منظر کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب اور روسی ادب کے ارتقاء پر بحث کی گئی ہے۔مزید براں اس باب میںروسی ادب کی چند منفرد خصوصیات کو بھی زیرِ بحث لایا گیا گیا ہے۔دوسرے حصے میں روسی ادب کے اردو تراجم اور ان ادیبوں کی تخلیقات کو نمایاں کرنے کا جتن کیا گیا ہے جنھوں نے اردو فکشن نگاروں کو خاص طور پر متاثر کیا۔کیوں کہ ترجمہ نہ صرف مختلف قوموں میں اتحاد و ارتباط پیدا کرتا ہے بلکہ نئے نظریات و افکار کو ایک قوم سے دوسری قوم تک پہنچانے کا کام کرتا ہے۔کتاب کا تیسرا حصہ اردو ناول پر روسی ادب کے اثرات کے جائزے پر مشتمل ہے جس میں روسی ناول نگاری کے اثرات کا اولین نمایندہ پریم چند کو قرار دیا گیا ہے۔ ان کے ناولوں چوگانِ ہستی، گئو دان اور میدانِ عمل سے مثالیں پیش کر کے اس کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس کے علاوہ سجاد ظہیر ، کرشن چندر، عزیز احمد، راجندر سنگھ بیدی ،عبداللہ حسین، خواجہ احمد عباس اور شوکت صدیقی کے ناولوں پر بحث بھی اس حصے میں شامل ہے۔دوران تجزیہ ڈاکٹر صاحبہ نے مواد اور ہئیت دونوں کو مدِ نظررکھا ہے۔ چوتھا حصہ اردو افسانے کو موضوع بناتا ہے۔ اس حصے میں اردو افسانے کے ارتقائی مراحل کو بیان کرتے ہوئے پریم چند کے افسانے ’’ کفن‘‘ کو اردو افسانے کی تاریخ میں انقلابی قدم خیال کیا ہے۔ان کے خیال میں اردو افسانے نے اس وقت ایک اور کروٹ لی جب ۱۹۳۲ء میں افسانوں کا مجموعہ ’’ انگارے‘‘ اشاعت پذیر ہوا۔بعد میں ۱۹۳۶ میں شروع ہونے والی ترقی پسند تحریک نے اردو افسانے کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔اس باب میں منشی پریم چند ،حیات اللہ انصاری،علی عباس حسینی،سدرشن،ل احمد،نیاز فتح پوری ، اختر اورینوی،سہیل عظیم آبادی،عزیز احمد اور حسن عسکری جیسے افسانہ نگاروں کے افسانوں پر روسی ادب کے اثرات کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کتاب کا آخری حصہ ’’ حاصلِ تحقیق‘‘ کے عنوان سے کتاب میں شامل ہے جس میں مجموعی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔تحقیق و تجزیے کے بعد ڈاکٹر صاحبہ جس نتیجے پرپہنچی ہیں۔اس ضمن میں ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’روسی ادب کے اثرات سے موضوعات ،کردار نگاری،فطرت نگاری، منظر نگاری ،تکنیک،ہئیت اور اندازِ بیان میں خاص تبدیلی آئی۔ہر موضوع پر کھل کر اور سچائی کے ساتھ روشنی ڈالی جانے لگی۔ترگنیف اور گورکی کی کردار نگاری اور دیگر خصوصیات نے مل کر اردو افسانے کو نئی روشنی عطا کی۔‘‘
’’اردو فکشن پر روسی ادب کے اثرات‘‘ڈاکٹر پروین کلّو کی موضوع کے اعتبار سے منفرد اور اہم کتاب ہے۔ محققانہ اورتنقیدی بصیرت سے مملومعلومات کو تجزیاتی انداز میں پیش کر کے جس طرح سے نتائج نکالے ہیں وہ قاری کے لیے نہ صرف مفید ہیں بلکہ اسے نئے زاویے سے سوچنے کی دعوت بھی دیتے ہیں۔کتاب کی اہمیت اور ضرورت کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کم عرصے میں اس کا تیسرا ایڈیشن منظر عام پر آگیا ہے ورنہ بہت کم تنقیدی و تحقیقی کتب کے نصیب میں ایسا ہوتا ہے۔

اس کی اشاعت پر ڈاکٹر صاحبہ کو مبارک باد

younus khayyal

About Author

6 Comments

  1. مجاہد حسین

    نومبر 28, 2020

    بہت عمدہ

  2. تجمل عباس

    نومبر 28, 2020

    ماشااللہ۔۔۔۔۔سر بہت عمدہ
    ہمیں آپ کی راہنماٸ کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے۔

  3. شبیر احمد قادری ، فیصل آباد

    نومبر 28, 2020

    اچھی کتاب کا اچھا تعارف ۔
    ڈاکٹر پرین کلو صاحبہ نے اس کتاب پر بہت محنت کی ہے ، یہ ان کا پی ایچ ۔ ڈی اردو کا تحقیقی مقالہ ہے جو انھوں نے ڈاکٹر رشید امجد کی نگرانی میں لکھا تھا اور اس پر انھیں علامہ اقبال اوپن یونیوعسٹی اسلام آباد کی جانب سے سند عطا کی گئ ۔ بلاشبہ یہ بہ اعتبار موضوع معیاری کام ہے ۔

  4. شبیر احمد قادری ، فیصل آباد

    نومبر 28, 2020

    اچھی کتاب کا اچھا تعارف ۔
    ڈاکٹر پروین کلو صاحبہ نے اس کتاب پر بہت محنت کی ہے ، یہ ان کا پی ایچ ۔ ڈی اردو کا تحقیقی مقالہ ہے جو انھوں نے ڈاکٹر رشید امجد کی نگرانی میں لکھا تھا اور اس پر انھیں علامہ اقبال اوپن یونیوعسٹی اسلام آباد کی جانب سے سند عطا کی گئ ۔ بلاشبہ یہ بہ اعتبار موضوع معیاری کام ہے ۔

    • ڈاکٹر عبدالعزیز ملک

      نومبر 28, 2020

      سر آپ کی حوصلہ افزائی کا ممنون ہوں

  5. مصطفےٰ

    نومبر 28, 2020

    بہت عمدہ سر جی بہت باکمال!

ڈاکٹر عبدالعزیز ملک کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں