موت تو ہے قدیم سچ کوئی
اپنےبڑے بھائی کی وفات پرلکھی پروفیسرشفیق احمدخاں کی اِکیاون اشعارپرمشتمل طویل نظم کو شخصی مرثیہ کہناچاہیے۔کچھ لوگوں کاخیال ہےکہ ایسی نظموں مرثیہ کی بجائے کو ’تعزیتی نظم ‘ کہنازیادہ مناسب ہےکیونکہ ان میں کسی رثائی صورت کے بجائے مرنے والے سے صرف تعلقِ خاطر کا ذکر کیا جاتا ہے۔
اس حوالےسے تعلق کےبیان کی دوسطحیںممکن ہیں ۔ایک یہ کہ نظم میں صرف مرنےوالےکےاوصاف کابیان شاعراپنی ذات سےتعلق تک محدودرکھےاوردوسری طرزمیں یہ کہ معاشرے کےاجتماعی دُکھ کی تاثیریاموت وحیات کافلسفہ کسی نظم میں سمٹ آئے۔دوسری طرزکےشخصی مرثیوں کی مثالیں غالبؔ کے ’’ مرثیہ ءعارفؔ ‘‘، اقبالؔ کے ’’ مرثیہ ء داغ ؔ‘‘ اور ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘اورمولاناحالیؔ کےہاں ’’مرثیہء غالبؔ ‘‘کی صورت میں ملتی ہیں۔شفیق احمدخاں کی نظم ایسے ہی مرثیوں میں شامل ہےکیونکہ اس میں انھوں نےبھی اپنی ذات سے اوپراُٹھ کرزندگی اورموت کی باہمی کشمکش کوبھی موضوع بنایاہے۔
زین العابد ین خاں عارف ؔ ،غالب کوبہت عزیزتھے۔ان کاانتقال ۱۸۵۳ء کو ہوا۔ ان کی موت پر غزل کی ہیئت میںانھوں نے دس اشعار پر مشتمل ایک پُرسوز مر ثیہ کہا ۔
لازم تھاکہ دیکھومراراستہ کوئی دن اور ’’ ‘‘
تنہا گئے کیوں ؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو ’’قیامت کو ملیں گے ‘‘
کیا خوب قیامت کا ہے گو یا کوئی دن اور
حالیؔ نےمرثیہ غالبؔ میںاُن کے مزاج،عادات،نکتہ شناسی،بذلہ سنجی اوردیگرشخصی خوبیوں کےذکرکےساتھ لکھاکہ غالبؔ کےمرنےکےبعددلی مرگئی یعنی شعروسخن کی محفلیں ویران ہوگئیں۔
اس کے مرنے سے مرگئی دلی
خواجہ نوشہ تھا اور شہربر ات
یاں اگر بزم تھی تو اس کی بز م
یاں اگر ذات تھی تو اس کی ذات
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھانہ رہا
شفیق احمدخاں اپنی نظم میں جہاں اپنےبھائی کی وفات پردُکھ کی کیفیت میں بھیگے دکھائی دیتےہیں اوران کےبعدزندگی سے اپنی وابستگی کی کمی کااظہارکرتےہیں وہاں کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ’’ موت ‘‘کوہرزندہ کےساتھ ازل سےجُڑاہونےکی بات کرتے ہوئے اس کاعکس چاروں طرف دیکھتےہیں۔بقاکےسبز درخت کےساتھ لپٹے فناکےکالےسانپ کےوجودسےانکارممکن نہیں ہےاورموت کی خزاں، زندگی کی بہارکے تعاقب میں ہےاس فلسفے کےبیان میں شاعرکےہاں کسی قسم کےخوف بجائے سکون اورٹھہراوکی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔اپنے ذاتی دُکھ کووہ اپنےاردگردکےماحول میں موجوددکھ سےوابستہ کرکےاپنی نظم کوآفاقیت کی سطح پر لےجاتےہیں:
زندگانی کی رہ گزاروں میں
آتی جاتی ہوئی بہاروں میں
موت تو ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
دے کے ہاتھوں میں ہاتھ چلتی ہے
موت کا عکس چاروں جانب ہے
موت کا رقص چاروں جانب ہے۔
موت سے کون بھاگ سکتا ہے
دیر تک کون جاگ سکتا ہے
موت سب کو سلانے والی ہے
موت پر اک کو آنے والی ہے
شفیق احمدخاں کی نظم میں بہائوکی ایک خاص کیفیت موجودہے۔وہ رواں زندگی میں موت کاعکس دیکھتےہیں اور پھر موت کےسکوت میں زندگی کاتحرک محسوس کرتے ہیں۔موت کاساتھ ساتھ چلنا/موت کارقص کرنا/چھائوں میں دھوپ لےکے پھرنا/ رگوں میں غم کادوڑنا جیسی مثالوں میں اس تحرک کودیکھاجاسکتاہے۔
سادہ بیانی اورنظم کی رواں بحرکےعلاوہ لفظ ’’ بہائو‘‘ کوبھی انھوں نے مختلف صورتوں میں باندھاہے ۔یہاں کچھ مثالیں دیکھیے:
شہر در شہر وقت بہتا ہے
لہر در لہر وقت بہتا ہے
۔۔۔
موت سب کے قریب رہتی ہے
خون بن کر رگوں میں بہتی ہے
۔۔۔
غم سدا دل کے ساتھ رہتا ہے
آنکھ سے اشک بن کے بہتا ہے
شفیق احمدخاں کی نظم سے پہلے اقبالؔ کااپنی ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ کہے گئے مرثیے کے کچھ اشعارپیش کرناضروری سمجھتاہوں ۔اپنی والدہ سےمحبت اوران کی وفات کےدکھ کےساتھ ساتھ فلسفہءموت وحیات پرشاندارنظم صرف اقبالؔ جیسےشاعراور مفکرہی کہہ سکتے تھے:
موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات
عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظام کائنات
ہے اگر ارزاں تو یہ سمجھو اجل کچھ بھی نہیں
جس طرح سونے سے جینے میں خلل کچھ بھی نہیں
آہ غافل موت کا راز نہاں کچھ اور ہے
نقش کی ناپائیداری سے عیاں کچھ اور ہے
جنت نظارہ ہے نقش ہوا بالائے آ ب
موج مضطر توڑ کر تعمیر کرتی ہے حباب
موج کے دامن میں پھر اس کو چھپا دیتی ہے یہ
کتنی بے دردی سے نقش اپنا مٹا دیتی ہے یہ
پھر نہ کر سکتی حباب اپنا اگر پیدا ہوا
توڑنے میں اس کے یوں ہوتی نہ بے پروا ہوا
اب آپ دوستوں کے لیے شفیق احمدکی اپنے بھائی کی وفات پردُکھ میں بھیگی نظم (موت تو ہے قدیم سچ کوئی) لیکن اردوادب کے شخصی مرثیہ میں خوب صورت اضافہ پیش ِ خدمت ہے۔اللہ پاک ان کے بھائی کے درجات بلندکرے اورہمارےشاندارشاعرکویہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت عطاکرے۔آمین۔
موت تو ہے قدیم سچ کوئی
ہر طرف سوگ کی فضائیں ہیں
زہر آلو د سی ہوائیں ہیں
دل پہ سوچوں کے پہرے رہتے ہیں
اشک آنکھوں میں ٹہرے رہتے ہیں
دل کہ اجڑے چمن کی مانند ہے
سانس پر اک چھبن کی مانند ہے
ہر خوشی خار جیسی لگتی ہے
سانس تلوار جیسی لگتی ہے
تیری یادوں میں کھونے لگتا ہوں
اپنی پلکیں بھگونے لگتا ہوں
دل کو ناشا د کر دیا تو نے
مجھ کو برباد کر دیا تونے
ہر گھڑی خوف کے وبال میں ہے
زندگی مستقل ملال میں ہے
نیّرِ غم کا ڈھلنا مشکل ہے
اب یہ موسم بدلنا مشکل ہے
بجھتی جاتی ہے میری بینائی
بڑھتی جاتی ہے دل کی تنہائی
درد وہ ہے کہ حد نہیں کوئی
چارہ اب تا ابد نہیں کوئی
کر دیا کیسے سوز سے واقف
درد کے شب و روز سے واقف
یہ زمیں آسماں ہے بے معنی
غم سے تیرے جہاں ہے بے معنی
رنگ و رعنائی کھو چکے منظر
دور تک گرد ہو چکے منظر
دل ہے، غم ہے غبارِ وحشت ہے
چار سو اک حصارِ وحشت ہے
دل کو پل بھر سکوں نہیں ملتا
کوئی ایسا فسوں نہیں ملتا
ختم ہو جس سے دل کی بے تابی
یہ طبعیت ہے غم سے سیمابی
دل دھڑکتا ہے درد کی لے پر
یاس کا عکس ہے ہر اک شے پر
روز و شب تیری یاد باقی ہے
غم ہی غم تیرے بعد باقی ہے
غم اترنے لگا ہے رگ رگ میں
آگ سی بھر گئی ہے سینے میں
ہر طلب مر گئی ہے سینے میں
غم ترا روگ بنتا جاتا ہے
مستقل سوگ بنتا جاتا ہے
یاد کا زخم بھر نہیں سکتا
کچھ مداوا بھی کر نہیں سکتا
نقش ہیں کتنے داغ سینے میں
غم ہیں مثلِ چراغ سینے میں
دکھ ہے، نوحہ گری ہے، ماتم ہے
ہر طرف اک زیاں کا موسم ہے
دکھ ہے اک کائنات میں ہر سو
بے بسی ہے حیات میں ہر سو
بے بسوں کی خدا نہیں سنتا
التجا و دعا نہیں سنتا
زندگانی کی رہ گزاروں میں
آتی جاتی ہوئی بہاروں میں
موت تو ساتھ ساتھ چلتی ہے
دے کے ہاتھوں میں ہاتھ چلتی ہے
موت کا عکس چاروں جانب ہے
موت کا رقص چاروں جانب ہے
موت سے کون بھاگ سکتا ہے
دیر تک کون جاگ سکتا ہے
موت سب کو سلانے والی ہے
موت ہراک کو آنے والی ہے
جینا اک پل بھی اپنے بس میں نہیں
زندگی اپنی دسترس میں نہیں
شعلۂ جاں کو بجھ کے رہنا ہے
موت کا درد سب نے سہنا ہے
شہر در شہر وقت بہتا ہے
لہر در لہر وقت بہتا ہے
غم کے گرداب چھوڑتے ہیں کہاں
عمر بھر خواب چھوڑتے ہیں کہاں
کون کس خوف کے مدار میں ہے
کیا خبر موت کس دیار میں ہے
موت سب کے قریب رہتی ہے
خون بن کر رگوں میں بہتی ہے
انگنت روپ لے کے پھرتی ہے
چھاؤں میں دھوپ لے کے پھرتی ہے
موت سب کو پچھاڑ دیتی ہے
موت پل میں اجاڑ دیتی ہے
موت کا وقت ٹل نہیں سکتا
کوئی قسمت بدل نہیں سکتا
اک مصیبت ہے اک قیامت ہے
موت اک خوف کی علامت ہے
زندگی کے سبھی قرینوں میں
غم زدہ سے نحیف سینوں میں
غم کے خنجر اتار دیتی ہے
موت زندوں کو مار دیتی ہے
مرنے والے کہاں پلٹتے ہیں
یاد میں صبح و شام کٹتے ہیں۔
غم سدا دل کے ساتھ رہتا ہے
آنکھ سے اشک بن کے بہتا ہے
جو بھی دنیا کو چھوڑ جاتا ہے
رنج و غم سے نجات پاتا ہے
جو انہیں یاد کرتے رہتے ہیں
جیتے جی خود میں مرتے رہتے ہیں
زندگی خاک کے حصار میں ہے
موت ہر اک کے انتظار میں ہے
زندگی خاک کا فسانہ ہے
خاک میں سب کو لوٹ جانا ہے
ایک دن خاک سے بھی نکلیں گے
اور دنیا بھی جا کے دیکھیں گے
ہے ازل سے عظیم سچ کوئی
موت تو ہے قدیم سچ کوئی
………………….