(یونس خیال کے سفرنامہ "کیا سناؤں میں سفرنامہ تجھے!” پر تخلیقی، ادبی و فکری تجزیہ)
ادب، بالخصوص نثری ادب جب سفر کے تجربات کو اپنے دامن میں سمیٹتا ہےتو وہ محض جغرافیہ کی ترجمانی نہیں کرتا بلکہ ایک داخلی کیفیت، فکری شعور اور تہذیبی تناظر کو بھی اپنے ساتھ لے آتا ہے۔ سفر اپنی اصل میں ایک خارجی حرکت ضرور ہے، مگر جب اسے ایک حساس دل اور بیدار قلم محسوس کرتا ہےتو وہ تجربہ ایک ادبی شے میں بدل جاتا ہے۔ ایک ایسی شے جو بیک وقت ذاتی بھی ہوتی ہے اور اجتماعی بھی؛ جو فرد کی کہانی بھی ہوتی ہے اور قوم کی گواہی بھی۔
اردو ادب میں سفرنامہ نگاری محض ایک بیانیہ عمل نہیں رہی بلکہ یہ ایک ایسی فکری روایت کی صورت اختیار کر چکی ہے جس میں زبان، تہذیب، شناخت اور داخلی مسافتیں ہم آہنگ ہو کر ایک نئے بیانیے کو جنم دیتی ہیں۔ یونس خیال کا سفرنامہ "کیا سناؤں میں سفرنامہ تجھے!” اس روایت میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے جو تخلیقی تجربے کو صرف بیان نہیں کرتابلکہ اس کی تہوں میں چھپی معنویت کو بھی قاری کے سامنے وا کرتا ہے۔ شاعر کی حیثیت سے ان کا مشاہدہ عام آنکھ سے بالاتر ہے؛ وہ فاصلوں کو ناپتے نہیں بلکہ محسوس کرتے ہیںاور یہی وصف اُن کی نثر کو غیر معمولی بناتا ہے۔ ان کا قلم جب کسی گلی، کسی آبشار، کسی محفل یا کسی میزبان کا تذکرہ کرتا ہےتو وہ محض ایک خارجی واقعہ نہیں رہتا بلکہ وہ ایک ایسی نثر میں ڈھل جاتا ہے جو شعر کی تاثیر رکھتی ہے اور فلسفے کی چپ میں بولتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مصنف نے ہر منظر کو اپنے دل سے گزار کر لکھا ہو، ہر جملے میں ایک جذبہ بُن دیا ہو اور ہر باب کو ایک ایسی صدا میں ڈھالا ہو جو قاری کے باطن میں دیر تک گونجتی رہے۔ یہ سفرنامہ محض مشاہدات کی ترتیب نہیں بلکہ ایک ایسا بیانیہ ہے جو وقت، تہذیب اور مسافرت کے درمیانی خلا کو تخلیقی سچائی سے بھر دیتا ہے۔ یہی خصوصیت اسے عام سفرناموں سے ممتاز کرتی ہے اور ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے فکر و احساس کی نئی جہتوں کو روشن کرتی ہے۔
مسافت دراصل زمین پر بکھری یادوں کا وہ ادبی گلدستہ ہےجسے مسافر چن چن کروقت کے صفحے پر لفظوں میں سجاتا ہے۔ یہ محض راستوں کی گرد نہیں بلکہ روح کی روانی ہے، دل کی دھڑکن ہےاور مشاہدے کا شعری اشک ہے۔ جب انسان نکلتا ہے تو صرف اپنے جسم کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے خواب، خدشے، یادیں، اور ماضی کی آندھیاں بھی ہمسفر ہوتی ہیں۔ ہر منظر ایک آئینہ ہوتا ہےاور ہر لمحہ ایک داستان۔ ادب میں سفرنامہ اس لمحاتی کیمرے کی مانند ہے جو صرف تصویریں نہیں، جذبات بھی محفوظ کرتا ہے۔ یہاں قاری صرف پڑھتا نہیںوہ خود بھی ایک خاموش ہمسفر بن جاتا ہے، جو مصنف کے ساتھ ہر موڑ پر رک کر سانس لیتا ہے، سوچتا ہےاور دل میں ایک بے نام اداسی لیے اگلے منظر کی طرف بڑھتا ہے۔سفری یادوں کی تقسیم اور تفہیم ادب کا وہ زاویہ ہے جہاں فن اور حقیقت، خواب اور زمین، فکرو فلسفہ، سب ایک ہی کارواں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ نثر اس میں نظم کی صورت ڈھل جاتی ہے، اور حقیقت اپنے آپ کو قصے کی چادر میں لپیٹ لیتی ہے۔ ہر لفظ ایک در کھولتا ہے، جہاں زبان کی لطافت اور احساس کی شدت قاری کو ان جگہوں تک لے جاتی ہے جہاں وہ کبھی گیا نہیں مگر وہاں کی خوشبو، ہوا، لوگوں کی باتیں، سب اُسے چھو جاتی ہیں۔ جب ایک شاعر سفرنامہ لکھتا ہے تو وہ پتھروں میں بھی نرمی، سڑکوں میں بھی ساز اور اجنبی چہروں میں بھی پہچان تلاش کرتا ہے۔ یہی یونس خیال کا ہنر ہےکہ وہ لفظوں کو سانس دیتے ہیں، اور سانسوں کو معنی۔ادب کی ہر صنف کا ایک مرکز ہوتا ہے، اور سفرنامے کا مرکز "احساسِ مسافت” ہے۔ یہ مسافت صرف جغرافیائی نہیں، بلکہ جذباتی، فکری اور روحانی بھی ہے۔
"کیا سناؤں میں سفرنامہ تجھے!”اُس طرزِ بیان کا نمائندہ ہے جو قاری کو صرف یہ نہیں دکھاتا کہ مسافر کہاں کہاں گیابلکہ وہ یہ بھی بخوبی بتاتا ہے کہ وہاں جا کر اُس نے کیا محسوس کیا، کیا کھویا، کیا پایا اور کیا سوچا۔ یہی وہ نکتۂ امتیاز ہے جو سفر کو نثر بننے سے پہلے ایک ادبی تجربہ بناتا ہے۔ یونس خیال کا یہ سفر نامہ خود اپنے اندر سوال بھی ہے اور جواب بھی؛ تامل بھی ہے اور تہیہ بھی۔ اس میں شاعر کی بےبسی بھی ہے اور اس کے جذبے کی بلندی بھی۔ گویا مصنف قاری سے مخاطب ہو کر اعتراف کر رہا ہو کہ وہ سب کچھ بتا بھی نہیں سکتا اور چھپا بھی نہیں سکتا۔ یہ وہ تخلیقی کش مکش ہے جو صرف سنجیدہ ادب میں ہی دکھائی دیتی ہے۔ یہ سفرنامہ اپنی ساخت میں روایتی صنفِ نثر سے جدا ہے؛ یہاں بیانیہ صرف منظر کشی نہیںبلکہ ایک باطن کی درزن بھی ہے۔ یونس خیال اپنے ہر باب میں مسافرت کے تجربے، مغربی معاشرے کی ساخت اور اپنے وطن کی یادوں کو اس طرح باہم مربوط کرتے ہیں کہ قاری کو یہ احساس ہوتا ہے جیسے وہ خود بھی ان لمحوں کا ہمسفر بن گیا ہو۔
برطانیہ کی فضا، اُس کی سڑکیں، تعلیمی ادارے، مشاعرے، دوستوں کی محفلیں،سب کچھ محض ایک سیاحتی بیان نہیںبلکہ ایک مکمل ذہنی اور فکری سفر ہے جو قاری کے شعور پر ثبت ہو جاتا ہے۔ شاعر کا قلم کبھی ذاتی ہو جاتا ہے، کبھی علامتی اور کبھی ایسے فلسفیانہ جملے ادا کرتا ہے جو کئی صفحوں پر بھاری ہوتے ہیں۔ اس تجزیے کا مقصد اسی تخلیقی گہرائی، اسلوب کی انفرادیت اور مواد کی تہذیبی معنویت کو سمجھنا اور واضح کرنا ہے۔ یہ تجزیہ صرف ایک کتاب کا مطالعہ نہیںبلکہ ایک ایسے قلمکار کی ذہنی و روحانی مسافت کو سمجھنے کی سعی ہےجو لفظوں کے ذریعے صرف اپنے تجربات نہیں بلکہ اپنی شناخت، اپنی وابستگی اور اپنے عہد کی روح کو بھی محفوظ کرنا چاہتا ہے۔
"کیا سناؤں میں سفرنامہ تجھے؟” صرف ایک سوالیہ جملہ نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ پکار ہے ۔یہ عنوان نہ صرف قاری کو چونکاتا ہے بلکہ اسے اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کرتا ہے۔یہ سفرنامہ گو کہ برطانیہ کی سرزمین پر بیتے کچھ دنوں کی روداد ہے مگر اصل میں یہ دل کی دھڑکنوں کا وہ ترانہ ہے جو مہجوری کے نغمے سے گونجتا ہے۔ یونس خیال نہ صرف سفر کے ہمسفر بنتے ہیںبلکہ ہر منظر کے ساتھ قاری کو شریکِ حال بھی کرتے ہیں۔ اُن کی نثر میں صرف مقام نہیں بلکہ احساس آباد ہیں ۔ مانچسٹر کی شامیں اور سڑکیں، یونیورسٹیوں کے لیکچر روم اور مشاعروں کی راتیں ،یہ سب صرف جغرافیہ نہیں بلکہ محبتوں کی تصویریں ہیں۔ ان دنوں میں بیتا ہر لمحہ وقت کے اس کینوس پر نقش ہوا ہے جس پر شاعر نے اپنے جذبوں کی روشنائی سے رنگ بھرا ہے۔ یہاں ہر باب ایک داستان ہے، ہر لمحہ ایک آئینہ اور ہر گفتگو ایک آہنگ۔ برطانیہ کی ان گلیوں میں جہاں ماضی اور حال کا سنگم ہے، یونس خیال نے صرف چلنے کا فاصلہ نہیں طے کیابلکہ محبت، روایت، اور شناخت کے ان میلوں کو بھی عبور کیا جو دراصل ہر مہاجر شاعر کے اندر کا سفر ہوتا ہے۔ یہی اس کتاب کی اصل خوبصورتی ہےکہ وہ باہر کے ملک میں اندر کی دنیا کو دریافت کرتی ہے۔رفتہ رفتہ ورق پھرولیں تو وقت پلٹنے لگتا ہے۔ انتساب سے اختتام تک ایک لمبی مسافت کی کہانی ہے جو دھیرے دھیرے قاری پر لمحوں کی دھڑکنوں کو وَا کرتی جاتی ہے۔ سفر کی اصل تعبیر وہی جانتا ہےجس نے کسی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی مشقت کو محبت میں ڈھلتے دیکھا ہو۔ اور جب رفیقِ سفرصرف ساتھی نہیں بلکہ خاموش دعا، لبریز صبراور مکمل اعتماد کی صورت ہو تب وہ ہر مسافت، چاہے اندر کی ہو یا باہر کی، ایک روحانی وجد میں بدل جاتی ہے۔ ۔ یونس خیال نے برطانوی سفر کا انتساب، زندگی کے سفر میں ہمسفر کے نام کیا ہے جو دراصل ایک خاموش مگر مکمل اظہارِ محبت ہے، جو الفاظ سے کہیں بڑھ کر محسوسات کی سطح پر قاری کو چھو لیتا ہے۔ مبینہ خیال کی ذات، اس سفرنامے میں بظاہر پس منظر میں ہےمگر حقیقت میں وہ ہر صفحے کی پشت پر موجود ایک دعائیہ ہاتھ کی مانند ہے، جس نے ہر جذبے کو سہار دیا، ہر تھکن کو تھپک دیااور ہر لمحے کو معنی دے دیا۔ یہ انتساب فقط شکریہ نہیںیہ ایک زندگی کی نظم ہے۔ وہ نظم جو ہر اس عورت کے نام ہےجو اپنے شریک سفر کی مسافتوں میں خاموشی سے شامل رہتی ہے ۔ یہ انتساب اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ جب ایک شاعر پردیس میں ہو تب ایک آواز، ایک خیال، ایک چہرہ اُسے مسلسل تاک رہا ہوتا ہے(یہاں ہر دو معنوں میں مفہوم مکمل ہے)۔
چلیے! کتاب کا ورق ورق پھرولتے ہیں اور یونس خیال کے ساتھ مسافت و مسافرت کا اک اک باب کھولتے ہیں۔ آغازِ سفر معلوم نہیں البتہ آغازِ سفر نامہ خوب ہے: "کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے”، گویا پورے سفر کی تمہید ہےجہاں شاعر نے جسمانی روانگی کو روحانی بیداری کا عنوان بنا دیا ہے۔ یہ فقط ایک جغرافیائی ترتیب کا اظہار نہیں بلکہ ایک تہذیبی اور فکری مقام کی جھلک ہے۔مسافر جب اپنے ملک سے روانہ ہوتا ہے تو وہ محض فاصلے طے نہیں کرتابلکہ ایک تہذیب سے دوسری تہذیب اور ایک روایت سے دوسری روایت میں قدم رکھتا ہے۔ اس لمحے میںجہاں کعبہ اور کلیسا ایک ہی منظر میں دکھائی دیتے ہیںوہاں شاعر خود کو سوالوں کے درمیان کھڑا پاتا ہے جو سادہ نثرکو تمثیلی مکالمے میں بدل دیتا ہے،جیسے عقل و دل باہم مکالمے میں ہوں اور ہرجملہ اپنی تفہیم کی تعبیر ڈھونڈ رہا ہو۔سفرنامے کا آغاز ایک داخلی کیفیت سے ہوتا ہےجہاں بظاہر ہم سفر کی تیاری دیکھتے ہیںلیکن درحقیقت یہ تیاری یاد کے کمرے میں رکھی اُن تصویروں کی جھاڑ پونچھ ہے جو مصنف کے ہمراہ چلتی ہیں۔ "کیا سناؤں میں سفرنامہ تجھے!” جیسے ایک ایسا جملہ ہے جو خود سے پوچھا گیا ہو، جیسے وہ اپنے قلم کو دیکھ کر کہہ رہا ہو: "کیا تو بھی میرے ساتھ ہے؟” یہی وہ نکتہ ہے جہاں ادب، سفر اور وجودی سوال ایک مثلث کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور ہم جان لیتے ہیں کہ یہ سفر صرف وہاں کا نہیں بلکہ یہاں سے وہاں تک کے ہر لمحے کی داستان ہے۔
دوسرا باب : "سرگودھا، مانچسٹر اور راجہ صاحب”، ایک ایسا روزن کھولتا ہے جہاں سرگودھا کی مٹی مانچسٹر کے بادلوں سے ہمکلام ہو جاتی ہےاور ماضی حال کے دریچوں میں جھانکتا ہے۔ سرگودھا صرف ایک شہر نہیںبلکہ مصنف کی اصل، اُس کی مٹی کی خوشبو اور اُس خواب کا نقطۂ آغاز ہے جو مسافرت کی سمت اڑان بھرتا ہے ۔ ایک وجود جو مانچسٹر میں بظاہر "مقیم” ہےمگر دل اب بھی سرگودھا کے کسی کوچے میں دھڑکتا ہے۔ یونس خیال ان دونوں دنیاؤں کو محض لفظوں سے نہیں، احساس کی ڈور سے باندھتے ہیں۔ وہ ڈور جو برسوں کی مسافت و مسافرت کے بعد بھی اپنی بنیاد سے کٹتی نہیں۔یہاں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے "پردیس” اور "دیس” ایک دوسرے سے ہم کلام ہوں اور ترسیل سفر نامہ ہو ۔ باب کے عنوان میں موجود مصر ع”کبھی وہ آنکھ سے اُترا تو خواب دیکھیں گے، اپنے اندر ایک دھیمی حسرت، ایک مدھم احتجاج لیے ہوئے ہے جو پردیس میں جاگی آنکھ میں بسے خواب کا عکس ہے۔بظاہر مغرب کی چکاچوند میں گم مگر اندر سے دیسی مٹی کی باس سے مخمو ر ایک ایسا علامتی اظہاریہ ،جہاں پردیس میں گھومتے وجود کا دل گاؤں کی کسی مسجد کی بانگ میں رہ گیا ہو ۔جب ایک شاعر پردیس میں لفظوں کی میز پر مدعو ہوتا ہےتو وہ اپنے ساتھ محض اشعار یا افکار نہیں لاتابلکہ اپنے ملک، اپنی زبان اور اپنی شناخت کے سائے بھی ساتھ لاتا ہے۔
تیسرا باب : "برطانیہ میں پہلی ادبی میزبانی”، برطانیہ میں یونس خیال کی پہلی ادبی پذیرائی کا آئینہ ہے جہاں "پی بی اے کالنچ” اور "آج دی گل” کے پلیٹ فارم پر اردو زبان کو مہذب اور مسافرت کے قالب میں ڈھالا گیا۔ادب میں میزبانی کا عمل بظاہر رسمِ تکریم ہوتا ہےمگر پردیس میں یہ ایک اعترافِ وجود بھی بن جاتا ہے۔
چوتھا باب :” اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہروں میں شرکت”، مسافرت کی اس سچائی کو سامنے لاتا ہے جہاں پردیس میں رہنے والے صرف تماشائی نہیں ہوتےبلکہ وقت کی دھڑکن میں حصہ دار بھی بنتے ہیں۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہروں میں شرکت یونس خیال کے لیے محض ایک وقتی احتجاج نہیں تھا بلکہ یہ ایک ضمیر کی صدا تھی، ایک حساس دل کی بے قراری۔ "فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے ، یہ مصرع جیسے ایک عالمگیر سچائی کی تشریح ہےجہاں مظلومیت کا جغرافیہ ختم ہو جاتا ہےاور صرف انسانیت باقی رہ جاتی ہے۔
پانچواں باب: ” ایک دن Huddersfield یونیورسٹی میں”، میں "ہیڈرزفیلڈ”یونیورسٹی کا تذکرہ گویا علم و تعلیم کے اس مقدس ہیکل کا ذکر ہے جہاں مستقبل کی اساس ڈھالی جاتی ہےلیکن جب شاعر کی آنکھ اسے دیکھتی ہےتو وہ اینٹوں کی ترتیب، کلاس رومز کی ہئیت یا فیکلٹی کی شائستگی سے زیادہ وہاں پھیلے علم کی بدلتی نوعیت کو محسوس کرتا ہے۔ شاعر جب کہتا ہے، "گوگل مرے سماج کی دانش کو کھا گیا” تو وہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی احتجاج رقم کرتا ہے،ایک ایسی دنیا کاجہاں "جاننا” باقی ہے مگر "سمجھنا” ناپید۔
چھٹا باب: ” ایک دن ولیم ورڈزورتھ کی رہائش گاہ پر”، ولیم ورڈزورتھ کے ساتھ ایک مکالمہ دراصل یونس خیال کے اندر کے شاعر کی وہ سیر ہےجسے لفظوں کی نسبت خامشی زیادہ بھاتی ہے۔ ولیم ورڈزورتھ کی رہائش گاہ میں وہ صرف اینٹوں اور پتھروں کو نہیں دیکھ رہے بلکہ وقت کی دبیز تہوں میں چھپے شعر کے سانس لیتے لمحے کو محسوس کر رہے ہیں۔یہ محض ایک دور افتادہ انگلش گاؤں میں واقع پرانی عمارت نہ تھی بلکہ ایک روحانی آستانہ تھاجہاں دیواروں میں وقت کی سانسیں تھیں اور کھڑکیوں سے جھانکتی روشنی میں فکر کی بازگشت۔ جب یونس خیال اس مکان میں داخل ہوئے تو اُن کی آنکھ نے اینٹوں کو نہیں بلکہ خامشی کے لہجے میں بند ایک نظم کو پڑھا۔ وہ رہائش گاہ جو کبھی ولیم ورڈزورتھ کے تخیل کا مرکز تھی اب ایک مہاجر شاعر کے وجدان کی آزمائش بن گئی۔ وہاں کوئی شخص موجود نہ تھا، مگر ہر شے بول رہی تھی؛ میز جیسے ابھی کوئی جملہ لکھنے کو تیار ہو، اور کھڑکی جیسے فطرت کی گواہی لے رہی ہو۔ اس لمحے میںدونوں شاعروں کے بیچ جو مکالمہ ہوا وہ نہ کسی زبان میں تھا، نہ کسی لفظ میںبلکہ خامشی کی موسیقی میں گندھا ہوا تھا۔ ورڈزورتھ کی روح جس نے کبھی پہاڑوں سے باتیں کی تھیں، اب لاہور سے آئے ایک مسافر کے دل کی دھڑکن میں چھپے احساس کو پہچان رہی تھی۔ وہ جیسے خاموشی سے کہہ رہا ہوکہ لفظ الگ ہو سکتے ہیںمگر درد کا لہجہ ایک جیسا ہوتا ہے؛ تم بھی اسی فطرت کی اولاد ہو جس کے سایے میں میں نے حمد لکھی ہے۔
ولیم ورڈزورتھ کی کھڑکی سے جھانکنے والا منظر اور لاہور کی چھت سے دکھنے والے بادل دونوں ایک ہی کائنات کے اشارے ہیں۔ یہ باب صرف ملاقات نہیںبلکہ دو شاعروں کے درمیان ایک بین السطور مکالمہ ہے جو وقت، زبان، اور تہذیب کی حد سے پرے ممکن ہواہے۔ ورڈزورتھ کی وہی کھڑکی جہاں سے کبھی "Tintern Abbey” کی روح اتری تھی اب ایک مہاجر شاعر کی آنکھوں سے اُسی فطرت کو دیکھتی ہےجو لاہور کی چھت سے بھی دکھائی دیتی ہے۔ اسی لمحے یوں لگتا ہے جیسے وقت ایک دائرے میں بدل گیا ہو؛ جیسے دو زبانوں، دو صدیوں، اور دو قارتوں کے بیچ تخلیق کا ایک مشترکہ لمحہ پیدا ہو گیا ہواور شاید یہی لمحہ تھا جسے ورڈزورتھ نے ان الفاظ میں شناخت کیا تھا:
A motion and a spirt,that impels”
,All thinking things,all objects of all thought
And rolls through all things,therefore am I still
A lover of the meadows and the woods
And mountains;and of all that we behold
From this green earth;of all the mighty world
,Of eye,and ear,….both what they half creat
And what perceive;well pleased to recognise
In nature and the language of the sense
,The anchor of my purest thoughts, the nurse
The guide,the guardian of my heart and soul
".Of all my moral being
ایک ایسی روانی، ایک ایسی روح جو ہر سوچنے والے وجود کو مہمیز دیتی ہے، ہر خیال کی ہر شے میں گردش کرتی ہےاور ہر ذرّے میں پیوست ہے۔اسی لیے میں آج بھی سبزہ زاروں، جنگلوں اور پہاڑوں کا عاشق ہوں اور اُن سب مناظر کا جو اس زمیں کی بانہوں میں پَلتے ہیں۔ اُس عظیم کائنات کا جو آنکھ اور کان سے بنتی ہے، کچھ ہماری تخلیق، کچھ ہماری ادراک کا حاصل اور ان دونوں کی ہم آہنگی میں،مجھے فطرت اور حواس کی زبان میں اپنے پاکیزہ ترین خیالات کا سہارا دکھائی دیتا ہے؛ ایک نرمی بخشنے والی ماں، ایک رہبر، ایک محا فظ جو میرے دل کی راہ دکھاتا ہے اور میری اخلاقی ہستی کا نگران ہے۔ گویا فطرت کی ہر شے، ہر خیال اور ہر احساس میں وہی روح رواں ہے جو ہر سچے شاعر کے باطن میں بھی گونجتی ہے۔یہ مکالمہ صرف شاعری کی روح سے نہیںبلکہ اس آفاقی وحدت سے ہے جو ہر سچے شاعر کے دل میں سانس لیتی ہے۔ ایک شاعر نے یہ کمرہ چھوڑ دیا، دوسرا اُسے آباد کرنے آیا ہے ۔نہ تقلید میں، بلکہ تخلیقی ہم آہنگی کی تلاش میں۔
"کیا سناؤں میں سفرنامہ تجھے!”میں سجی الفاظ کی محفل جب مسافرت کی شام میں سجتی ہےتو اس کی زرد عنابی رنگت میزبانی کے میز پر رکھے گلاسوں سے نہیں، آنکھوں میں رہ جانے والے لمحوں کی پہچان سے آتی ہے۔”اکادمی ادبیات برطانیہ اور پاک ٹی ہاؤس یو کے کا عشائیہ”، ایسی ہی ایک شام، جہاں اردو نے اپنے لباس پر پردیس کی روشنی کو خوشی سے اوڑھا مگر دامن میں مٹی لاہور کی تھی۔ یونس خیال جیسے وہاں صرف بولنے نہیں گئے بلکہ اپنے ہونے کی بازگشت کو بھی ساتھ لے گئے جو ہر دل میں سنائی دی اور ہر سننے والے کو اس کی اپنی زبان کی طرف لوٹا لائی۔ وہی بازگشت جو کچھ دیر بعد کسی ناشپاتی کے پتے سے ٹوٹ کر سیب کے پودے پر جا گری ۔”ناشپاتی سے سیب کے پودے تک”، وہ باب جہاں تہذیب اور خواب مل کر سیر کرتے ہیں ،جب کہ کچھ فاصلے پر، ایک”لان کا دایاں کونا اور لکڑی کا بڑا جھولا ” جہاں یاد کے جھولے پر ایک ادھوری کسک کی آہٹ جھول رہی تھی۔ مسافر نے خیال سے دامن بچا کر رُخ بدلا تو "ڈاکٹروں کے درمیان ایک بار بی کیو” کی خوشبو ، باتوں کی چٹخارےاور قہقہوں کی لَے میں جگہ بنالی۔ یوں ہر ملاقات، ہر منظر، ہر گوشہ ایک ایسا عکس بن گیا جس میں شاعر نے خود کو ہر رنگ میں پہچانا۔بازگشت میں موجود، نسل کے بیچ گم، لان میں بیٹھا خاموش، یا میز پر باتوں میں الجھا ہوامگر ہر جگہ وہی تھا: یونس خیال، ایک مسافر شاعر، جو پردیس میں رہ کر بھی اپنی مٹی کی خوشبو میں مہک رہاتھا، جس پر کبھی ورڈزورتھ نے تنہا بیٹھ کر لکھا تھا:
;In body and become a living soul ”
While with an eye made quiet by the power
,Of harmony,and the deep power of joy
"We see into the life of things
ہاں! جب جسم خاموشی اوڑھ لیتا ہےتو روح ایک زندہ نغمہ بن جاتی ہےاور آنکھ جو ہم آہنگی کی طاقت اورخوشی کی گہرائی سے پرسکون ہو چکی ہوکا ئنات کی اشیاء میں چھپی زندگی کو دیکھنے لگتی ہے۔
"ویلز میں سویلو آبشار کے کنارے”کھڑے یو نس خیال نے گرتے پانی کے کینوس پر بکھرے قوس قزح کے رنگوں کو ہی نہیں دیکھابلکہ اُس زمین کی دھڑکن میں وہ راگ سنا جو دھمالی رنگ بانٹتا ہے۔ آبشاروں کی سرگوشی، سازوں کی لے، اور آنکھ سے بہتے حرف ۔یہ سب لمحے یوں یکجا ہو گئے جیسے مسافتوں میں گم سپنے اک ساتھ جاگ اُٹھے اور جب احساس نے خیال کے ساتھ محفل جمائی تو شعر و معانی کی گونج نمایاں تھی ۔
"پاک برٹش آرٹس کا مشاعرہ اور شامِ موسیقی” وہ لمحہ جب موسیقی جاگ گئی اور گھنگھرو بجنے لگے۔ ایسے بے خود لمحوں کے بیچ ، اک صدائے محبت کی گونج جو ذاتی بھی تھی اور آفاقی بھی۔ جی ہاں! "برادر عزیز شاہد الیاس کی دعوت”، ایک دوست،ایک میزبان، ایک جذبہ جو مسافتوں کا کشٹ سنبھالے ، ایک مسافر کا احساس بدل دیتا ہے۔ سویلو کی ویرانی، مشاعرے کی تنہائی اور دوست کی محبت ،سب ایک ایسے باب میں گھل جاتے ہیں جس کا عنوان صرف محبت بنتا ہے؛ دل کہاں بسے، یہ اہم نہیں، ہاں! دل میں کون بسا، یہ اہم ہے۔
جب لفظ عمر بھر کی مسافتوں کا اعتراف بن جائیں اور محفل ایک تمغے سے بڑھ کر یاد بن جائے تو فنکار خامشی میں بھی گنگنانے لگتاہے۔ مسافرت کے اگلے باب کا عنوان: "کاروانِ ادب برطانیہ کے زیرِ اہتمام تقریب”، اُس لمحے کا نام ہے جہاں ہاتھ میں تھمایا گیا اعزاز دراصل اُس کشٹ، اُس ریاضت اور اُس تخلیق کا صلہ ہے جسے کسی ایسی ہی محبت بھر محفل اور بلاوے کی شنید تھی۔ یہ تقریب صرف "لائف ٹائم اچیومنٹ” کا اعلان نہیںبلکہ ان بے شمار لمحوں کا شمار ہے جن میں یونس خیال نے دنیا کو اپنی روح کے آئینے میں جھانکنے دیا۔ جب یہ لمحہ بیتا تو زندگی ایک بار پھر سفر ی دائروں میں اتر چکی تھی۔ دائروں کے درمیان ” ذکر مانچسٹر میں کچھ خریداری کا” ایک گم گشتہ یاد کی بانگ جگانے جیسا تھا۔ بازار کے ہجوم میں جب ایک اداس آنکھ آئینے میں جھانکتی ہے تو شاعر خود سے سوال کرتا ہے: "کیا خریدنا؟ کیا بانٹنا؟” اور شاید اسی سوال کا تسلسل ہی اُسے وہاں لے جاتا ہے جہاں ہر سفر کا اختتام نہیں بلکہ ایک نئی تمہید بنتا ہے اور کہنے پر مجبور ہوتا ہے،”نامکمل ہے ابھی میرا سفر”۔
یوں لگتا ہے جیسے یہ ” کیا سناؤں میں سفرنامہ تجھے !”کے ورق گنتی پوری کرنے کو ہیں مگر نہ خیال رکا اور نہ قلم ٹھہرنے کو تیا رہوئی؛ شاید! صفحہ پلٹا گیا لیکن جذبہ و کیف ٹھہرگیا ہے ۔کیوں کہ اصل میںنہ راستے ختم ہوتے ہیں، نہ لفظ،اورنہ احساس۔ یہ سفر، جو کبھی برطانیہ کی بارشوں میں بھیگا تھا، اب قاری کے دل میں تازہ ہے اور خود یونس خیال کے لبوں پر صرف ایک ہلکی مسکراہٹ اور سرگوشی باقی ہے: "کیا سناؤں میں سفرنامہ تجھے؟ … نامکمل ہے ابھی میرا سفر۔”
یہ آخری باب، دراصل ادھورے پن کی تکمیل کا اعلان ہے۔ و ہ نکتہ جہاں مسافراپنے قاری سے کہتا ہے: "یہ سفر تمہارے دل میں مکمل ہو گا۔” اس اعتراف میں عاجزی بھی ہےاور فن کی عظمت کا اقرار بھی۔ یونس خیال جانتے ہیں کہ ہر قاری اپنے تجربے، اپنی مسافرت ، اور اپنی یادوں کے مطابق ان لفظوں میں معنی تلاش کرے گا ۔ اور یہی اس کتاب کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ "لوٹ کے بدھو” یہاں طنز نہیں بلکہ ایک عرفانی مسکراہٹ ہے؛ ایک مسافر کی، جو جانتا ہے کہ وہ دوبارہ لکھے گا، دوبارہ چلے گا اور شاید دوبارہ لوٹے گا۔کیوں کہ اصل میں تخلیق کبھی مکمل نہیں ہوتی، وہ بس قاری کے دل میں نئی صورت میں جنم لیتی ہے۔ لفظوں کے اس کائناتی سفر کا اختتام دراصل ایک نئے سوال کی شروعات ہے ۔کیا کوئی سفر کبھی مکمل ہوتا ہے؟ کیا کسی کتاب کی آخری سطر قاری کے دل میں آخری تاثر بن سکتی ہے؟ "کیا سناؤں میں سفرنامہ تجھے!” ایک ایسی دستاویز ہے جو صرف سفر کی روداد نہیں بلکہ روح کے سفر کا فسانہ ہے؛ جہاں ہوائی جہازوں، یونیورسٹیوں، آبشاروں اور مشاعروں کے بیچ اصل مسافت، دل کی دھڑکن سے دل تک کی ہے۔
یونس خیال نے اپنے قلم سے صرف رستے نہیں چُنےبلکہ اُن رستوں پر بکھری خامشیوں کو بھی لفظوں کی تھکن عطا کی ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں جو پردیس کو مادی کامیابی کے آئینے میں دکھاتے ہیں؛ وہ اُن مسافروں میں سے ہیں جن کی نگاہیں ہر نئی منزل پر ماضی کی دھول تلاش کرتی ہیں۔ اُن کا ہر مشاہدہ، ایک مکالمہ ہے ۔خود سے، خدا سے، اور قاری سے۔ ان مکالموں میں جو بات کہی نہیں گئی وہ سب سے بلند آواز میں سنائی دیتی ہے۔ اس سفرنامے میں وقت، مقام اور تجربہ صرف خارجی مظاہر نہیں بلکہ داخلی کائنات کے استعارے ہیں۔ برطانیہ کی گلیوں میں جب وہ راجہ صاحب سے ملتے ہیںیا ورڈزورتھ کے کمرے میں خاموشی سے کھڑے ہوتے ہیں، یا سویلو آبشار کے سامنے اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھتے ہیںتو وہ ہر لمحہ محسوسات کو معنویت میں ڈھالنے کا فن پیش کرتے ہیں۔ اور یہی وہ ادب ہے جو نہ صرفپڑھا جاتا ہےبلکہ محسوس بھی کیا جاتا ہے؛ جو صرف ذہن میں نہیں، بلکہ دل میں بھی زندہ رہتا ہے۔
اس کتاب کا ہر باب، ایک رنگ، ایک صدا، ایک کیفیت ہےا ور جب آخری صفحہ بند ہوتا ہے، تو قاری اپنے اندر ایک ادھورے خواب، ایک مکمل تجربےاور ایک گمشدہ دعا کے ساتھ خاموش ہو جاتا ہے۔ "نامکمل ہے ابھی میرا سفر” صرف یونس خیال کا اعلان نہیں، یہ ہر اُس دل کی آواز ہے جو اپنے لفظوں کے اندر کہیں سفر کرتا رہتا ہے ۔ا یسی کتاب صرف پڑھی نہیں جاتی یہ ساتھ چلتی ہے۔
……………………………