سلسہ جات

کُچھ کھٹی میٹھی یادیں (۲۷)



از: نیلما ناہید درانی
سادگی مہم اور بڑی گاڑیوں کی واپسی
میں نے حسین نواز کا ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنایا تھا۔۔۔کیونکہ ان کی عمر کم تھی۔۔۔۔لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کا لائسنس بن گیا ہوگا۔۔۔پرویز راٹھور ایس پی ایڈمن بن چکے تھے۔۔۔لیکن ابھی تک پرانی تاریخوں میں لائسنس بنا رہے تھے۔۔۔۔
جس کے بارے میں مجھے ٹریفک کا عملہ بتاتا رھتا تھا۔۔۔۔
پولیس کا ماتحت عملہ کبھی قابل اعتبار نہیں ہوتا۔۔۔وہ بس چڑھتے سورج کے ساتھ ہوتے ہیں۔۔۔۔اور تبدیل ہونے والے افسر کی ہزاروں خامیاں بتانا شروع کر دیتے ہیں ۔۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خوشامدی لوگ ہر دور میں رہے ھیں۔۔۔یہ بھی ممکن ھے کہ حسین نواز کا ڈرائیونگ لائسنس بنا کر ایس پی ایڈمن خود وزیر اعلی کی خدمت میں حاضر ھوئے ھوں اور اپنی وفاداری کا یقین دلایا ھو۔۔۔
رانا مقبول کا رویہ بظاھر میرے ساتھ اچھا تھا۔۔۔لیکن مجھے گاڑی نہیں ملی تھی۔۔۔گاڑی کو بلاوجہ پولیس لائن میں روکنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔۔۔۔اس سیٹ کے لیے جس پر میں تعینات تھی اس کے لیے ایک گاڑی الاٹ تھی۔۔۔جو پرویز راٹھور کے زیر استعمال تھی۔۔۔میرے آتے ہی اس کو پولیس لائن بھیج دیا گیا تھا۔۔۔۔جبکہ پرویز راٹھور کو ایس پی ایڈمن والی گاڑی مل چکی تھی۔۔۔۔
ایک دن ایس پی ایم ٹی عظیم درانی میرے دفتر آئے۔۔۔انھوں نے میرا مسلہ سنا۔۔۔تو وعدہ کیا کہ وہ مجھے ایک گاڑی دے دیں گے۔۔۔۔ان کی ورکشاپ میں ایک پرانا سوزوکی ڈبہ نیلامی کے لیے جمع کروایا گیا تھا۔۔۔۔انھوں نے اس کو ٹھیک کروا کر ڈرائیور سمیت مجھے بھجوا دیا۔۔۔۔
جس کو” چلتی کا نام گاڑی”۔۔۔ کہا جا سکتا تھا۔۔۔۔لیکن میرے دفتر آنے جانے کا مسلہ وقتی طور پر حل ہوگیا تھا۔۔۔۔
ان دنوں جونیجو وزیر اعظم تھے۔۔۔انھوں نے خرچہ کم کرنے کے لیے۔۔۔۔ایک حکم جاری کیا کہ تمام افسران بڑی گاڑیوں کا استعمال چھوڑ دیں اور سادگی اختیار کریں۔۔۔۔
تمام بڑی گاڑیاں سول سیکرٹریٹ میں جمع کروا دی گئیں۔۔۔۔۔مگر بڑے افسر چھوٹی گاڑی میں بیٹھنا کیسے گوارہ کرتے۔۔۔۔انھوں نے اپنے لیے کاروں کی جگہ جیپیں منگوا لیں۔۔۔
سادگی کی تحریک نے قومی خزانے کو بچت کی جگہ نقصان ہی پہنچایا۔۔
۔کیونکہ بڑی گاڑیاں ایک عرصہ تک سول سیکرٹریٹ میں کھڑی گلتی سڑتی رہیں۔۔۔۔
مجھے پولیس میں آتے ھی ایک چیز بہت اچھی لگی تھی۔۔۔وہ افیسرز کی بیلٹ اور جوتے تھے۔۔۔
کانسٹیبل سے انسپکٹر تک کے یونیفارم کی بیلٹ اور جوتے کالے رنگ کے ھوتے تھے۔۔۔جبکہ ڈی ایس پی سے آئی جی تک کی بیلٹ اور جوتے براون رنگ کے ہوتے تھے۔۔۔
میں نے براون رنگ کے جوتے اپنے لیے پسند بھی کر رکھے تھے۔۔۔کہ میں ڈی ایس پی بننے کے بعد وہ پہنا کروں گی۔۔۔۔
لیکن ضیاالحق کے مارشل لا میں پولیس والوں کو براون جوتے اور بیلٹ لگانے سے منع کردیا گیا۔۔۔۔
براون بیلٹ اور جوتے صرف فوج کے افسر ھی پہن سکتے تھے۔۔۔۔
پنجاب والوں نے فورا اس حکم پر سر تسلیم خم کیا اور براون بیلٹ اور جوتے پہننے سے توبہ کرلی۔۔۔۔۔۔اور آج تک اس پر قائم ہیں۔۔۔۔
پنجاب کی غلامانہ سوچ کے بر عکس۔۔خیبر پختونخواہ۔۔۔جو اس وقت صوبہ سرحد تھا۔۔۔ کے پولیس افیسرز آج بھی براون جوتا اور بیلٹ پہنتے ہیں۔۔۔۔
شاعروں ادیبوں اور فنکاروں میں ایک بات مشہور ھو چکی تھی۔۔۔۔کہ ڈرائیونگ لائسنس کا حصول بہت آسان ھو چکا ھے۔۔۔اب تو ٹریفک آفس میں لائسنس بھی ملتا ہے اور چائے بھی۔۔۔۔
اور کئی صحافیوں نے اخباروں میں یہ سرخی بھی لگا دی تھی۔۔۔۔
جرائم کی خبروں کی تلاش میں ایس ایس پی آفس آنے والے کرائم رہورٹر میرے دفتر میں آجاتے ۔۔۔جن میں ثقلین امام اور شعیب عزیز شامل تھے۔۔۔اور ھم شاعری اور ادب کی باتیں کرتے رھتے۔۔۔۔
میری یہ ڈیوٹی بہت تھکا دینے والی تھی۔۔۔سڑکوں پر ڈرائیونگ ٹسٹ لینا ایک انسپکٹر کے ذمہ تھا۔۔۔۔اس کے بعد امیدواروں سے ٹریفک کے نشانات پوچھے جاتے۔۔۔۔اور ٹسٹ پاس کرنے والوں کو اسی دن لائسنس حاصل ھوجاتا۔۔۔۔
میں صبح دفتر پہنچتی تو امیدواروں کی ایک بڑی تعداد دفتر کے باہر موجود ہوتی۔۔۔۔
جن کے ھاتھوں میں مختلف افسروں اور دیگر محکمے کے لوگوں کے کارڈز یا سفارشی چٹیں ھوتیں۔۔۔
جن میں بڑی تعداد۔۔۔ضلع کچہری کے مجسٹریٹس کے دفتری ملازم ھوتے۔۔۔جن کے ھاتھوں میں ان کی چٹیں اور امیدوار بھی ہوتا۔۔۔۔
پولیس افیسرز میں سب سے زیادہ کارڈز منیر ڈار کے ھوتے۔۔۔منیر ڈار آئی جی آفس میں تھے۔۔۔۔لیکن ان کی خوش مزاجی اور ملنسار طبیعت کے باعث کر ھر شعبہ زندگی کے افراد ان کے دستخط شدہ کارڈ لیے موجود ھوتے۔۔۔اگر دن بھر میں 100 ڈرائیونگ لائسنس ایشو ھوتے تو ان میں یقینا 50 منیر ڈار کی طرف سے آئے ھوئے لوگوں کے ہوتے تھے۔۔۔۔
میاں اظہر مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے۔۔۔وہ بھی اپنے ورکرز کو اپنے کارڈز دے کر بھیجتے۔۔۔۔کئی افیسرز کی بیگمات بھی اپنے عزیزوں یا ملازمین کے ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے لیے مجھے فون کرتیں۔۔۔
ایک دن ایک آفسر کی بیگم کا فون آیا۔۔۔۔انھوں نے کوئئ کام کہنے کی بجائے بڑی بے تکلفی سے کہا۔۔۔۔،” نیلما میں آپ کو دیکھنا چاھتی ھوں۔۔۔آپ کس طرح ان مگرمچھوں میں رھتی ہیں۔۔۔”
                                                                                            (جاری ہے)
نیلما ناھید درانی

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

آنسو سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ پہلاورق : یونس خیال

  • جولائی 17, 2019
 مجھے ٹھیك سے یادنہیں كہ میں پہلی باركب رویاتھالیكن آنسووں كے ذائقےسے آشنائی دسمبر1971ء میں ہوئی۔عجیب لمحہ تھاایك بینڈ كے
آنسو خیال نامہ سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ دوسراورق

  • جولائی 21, 2019
از: یونس خیال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  گزشتہ سے پیوستہ ’’ بڑا‘‘ہونے پر میرے پہلے ہمرازیہی آنسوتھے۔ میں نے بظاہرہنستے ہوئےجیناسیکھ لیاتھالیکن تنہائی