سلسہ جات

کُچھ کھٹی میٹھی یادیں(۱۴)


از: نیلما ناہید درانی
جیلانی کامران کی برطرفی۔۔۔۔دلدار پرویز بھٹی کی شادی
دلدار پرویز بھٹی ۔۔۔باغبانپورہ کالج میں انگریزی کے لکچرر تھے۔۔۔جیلانی کامران اسی کالج کے پرنسپل تھے۔۔۔جیلانی کامران نے اپنے آفس میں قائد اعظم کی تصویر لگائی ہوئئ تھی۔۔۔اس تصویر میں قائد اعظم کے ہاتھ میں سگریٹ تھا۔۔۔
یہی تصویر جیلانی کامران کی برطرفی کا باعث بنی۔۔۔ان پر الزام تھا کہ انھوں نے بابائے قوم کا امیج خراب کیا ہے۔۔۔
دلدار پرویز بھٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر ترقی ھوئی۔۔۔تو وہ ھر مبارکباد دینے والے کو کہتے۔۔۔” جب میں لکچرر تھا تو سب لوگ مجھے پروفیسر صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔۔۔اب ترقی ھوئی ھے تو سب اسسٹنٹ پروفیسر کہنے لگ گئے ہیں۔۔۔۔
دلدار بھٹی راجگڑھ میں پروفیسر رفیق اختر کے ساتھ رھتے تھے۔۔۔پروفیسر رفیق اختر ایم اے او کالج میں انگریزی کے پروفیسر تھے۔۔۔ان کے شاگرد انھیں "جوگی” کے نام سے پکارتے تھے۔۔۔ ان دنوں دلدار کی عقیدہ سے دوستی ہوئی۔۔۔۔۔
عقیدہ اسلامیہ سکول برانڈرتھ روڈ میں پڑھتی رھی تھی۔۔۔اس کا گھر دل محمد روڈ پر تھا۔۔۔۔عقیدہ اور میرا سیکشن الگ تھا گو ھم دونوں چھٹی کلاس میں تھیں۔۔۔۔اس کی بڑی بہن فریدہ آٹھویں جماعت میں تھی۔۔۔
فریدہ کی کلاس فیلو عظمت سے میری اور صوفیہ کی دوستی تھی۔۔۔
عظمت اتفاق فونڈری کے سات بھائیوں میں سے میاں بشیر کی بیٹی تھی۔۔۔ان کا گھر دالگراں چوک میں تھا۔۔۔۔ اسکی بہنیں۔۔عصمت،صنوبر گڑیا اور کزننز رخسانہ، نصرت اور بہت سی اسی سکول میں پڑھ رھی تھیں۔۔۔۔ھمارا گھر سکول کی گلی میں تھا۔۔۔جب تک ان کی گاڑی انھیں لینے آتی وہ چھٹی کے بعد میرے گھر میں رک جاتیں۔۔۔
یا میں اور صوفیہ سکول میں رک کر عظمت کی گاڑی آنے تک اس کا ساتھ دیتیں۔۔۔۔اگر ہم جانے لگتیں تو عظمت گنگناتی۔۔۔ابھی نا جاو چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں۔۔۔
آٹھویں جماعت کے بعد انھوں نے سکول آنا چھوڑ دیا۔۔ پھر ھم اس کے گھر جا کر اسے ملنے لگے۔۔۔۔اتفاق والوں کے گھر کے نیچےبرف خانہ اور بہت بڑا ڈرائینگ روم تھا۔۔۔جو سب گھر والوں کا سانجھا تھا ۔۔۔۔اوپر کی منزلوں میں سات فلیٹ بنائے گئے تھے جس میں ہر بھائی اپنے بچوں کے ساتھ مقیم تھا۔۔۔۔تقریبا سب مرد اور نوجوان لڑکے کوٹ لکھپت میں واقع اتفاق فونڈری میں کام کرتے تھے۔۔۔چند ایک پڑھ کر کالج تک پہنچے تھے۔۔۔جن میں میاں شریف کے بیٹے نواز اور شہباز شامل تھے۔۔۔
ان لوگوں نے ماڈل ٹاون میں سات کو ٹھیاں بنا لیں اور وھاں شفٹ ہو گئے۔۔۔
عظمت اپنی شادی کا کارڈ دینے آئی۔۔۔اس کی شادی اپنے کزن میاں فاروق سے اور میاں شہباز کی شادی نصرت سے ہو رہی تھی۔۔۔۔
جس دن ان کی بارات تھی ۔۔سارے شہر میں ھڑتال تھی کوئی سواری میسر نہیں تھی۔۔۔میں اور صوفیہ۔۔صوفیہ کے ابو جنہیں ھم ابی جی کہتے تھے کے ساتھ ان کے سکوٹر پر بیٹھ کر شادی میں شرکت کرنے گئے تھے۔۔۔۔
عظمت اور ان کا خاندان بھٹو سے بہت نالاں تھا۔۔۔کیونکہ اس نے ان کی فیکٹری نیشنلائز کر دی تھی۔۔۔۔ بھٹو کے اقتدار کا خاتمہ ان کے لیے خوشی کی نوید تھا۔۔۔
مجھے جب عقیدہ اور دلدار کی دوستی کا پتہ چلا تو میں نے دلدار سے کہا عقیدہ بہت معصوم لڑکی ھے اسے دھوکہ نہیں دینا۔۔۔۔
کچھ دن بعد دلدار بھٹی اور عقیدہ کی شادی ہو گئی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم آر ڈی کی خواتین لیڈرز بدستور گھروں میں نظر بند تھیں۔۔۔۔ایس پی کینٹ روزانہ رات کو گشت پر نکلتے اور ڈیوٹی پر موجود نفری کو چیک کرتے۔۔۔۔
ایس پی کینٹ محمد وسیم بہت بیبے انسان تھے۔۔۔ان کو دیکھ کر ایسے لگتا جیسے کو ئی سکول کا بچہ یونیفارم پہن کر آیا ھے۔۔۔وقت کی پابندی کے ساتھ۔۔۔نہایت سلیقے سے کنگھی کئے ھوئے بال۔۔۔ ھلکی مسکرا ھٹ کے ساتھ شرما کر بات کرنے کا انداز۔۔۔۔
ان کا گھر مال روڈ پر نقی مارکیٹ کے پیچھے تھا۔۔۔یہ مارکیٹ ان کے دادا کے نام پر تھی۔۔۔اسی نام کی ایک مارکیٹ انارکلی بازار میں بھی ان کے دادا کی جاگیر تھی۔۔۔۔لیکن ان میں کسی قسم کے غرور کا شائبہ تک نہ تھا۔۔۔صبح سویرے دفتر آتے۔۔۔شام کو سکواش کھیلنے کلب جاتے۔۔۔اور رات بھر اپنے علاقے کی گشت کرتے۔۔۔اتفاق سے تمام نظر بند خواتین کے گھر ان کے علاقے میں ہی تھے۔۔۔
جب وہ نورین جن کو نینا کہہ کر پکارا جاتا تھا کے گھر پہنچتے تو وہ ان کو ساتھ لے جانے پر اصرار کرتی۔۔۔جسے وہ ٹال نہیں سکتے تھے۔۔۔لہذا باقی چیکنگ کے دوران نینا ان کے ساتھ ان کی گاڑی میں ہوتی۔۔۔۔جسے وہ واپس اسکے گھر اتار دیتے۔۔۔
کچھ دن بعد ان خواتین کو جیل منتقل کرنے کے احکامات آ گئے۔۔۔۔کچھ کو چھوڑ دیا گیا۔۔۔جن میں نینا اور اعتزاز احسن کی والدہ اور بیگم بشری شامل تھیں۔۔۔باقی خواتین کو شاھی قلعہ منتقل کر دیا گیا۔۔۔۔
ڈیوٹی والی آفیسرز واپس پولیس لائن آگئیں۔۔۔۔کچھ کو شاھی قلعہ ڈیوٹی پر بھیج دیا گیا
                                                                                                (جاری ہے )
نیلما ناھید درانی

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

آنسو سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ پہلاورق : یونس خیال

  • جولائی 17, 2019
 مجھے ٹھیك سے یادنہیں كہ میں پہلی باركب رویاتھالیكن آنسووں كے ذائقےسے آشنائی دسمبر1971ء میں ہوئی۔عجیب لمحہ تھاایك بینڈ كے
آنسو خیال نامہ سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ دوسراورق

  • جولائی 21, 2019
از: یونس خیال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  گزشتہ سے پیوستہ ’’ بڑا‘‘ہونے پر میرے پہلے ہمرازیہی آنسوتھے۔ میں نے بظاہرہنستے ہوئےجیناسیکھ لیاتھالیکن تنہائی