سلسہ جات

دبستانِ سرگودھا — یادیں (دوسری قسط) : پروفیسریوسف خالد

اسّی ( 80) کی دہائی میں سرگودھا ادبی سرگرمیوں کے لحاظ سے کافی حد تک غیر فعال تھا – حلقہ اربابِ ذوق تعطل کا شکار ہو چکا تھا مرکزیت ختم ہو چکی تھی – نتیجہ یہ کہ بہت سی چھوٹی چھوٹی ادبی تنظیمیں وجود میں آگئیں – جن کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں – بزمِ فکر و خیال البتہ باقاعدگی سے اپنے اجلاس منعقد کرتی تھی پروفیسر شیخ اقبال بزم کو متحرک رکھے ہوئے تھے – اس دور میں زیادہ تر شعرا نجی محفلوں میں مل بیٹھتے تھے – نوجوان شعرا جن میں ذولفقاراحسن ،عابد خورشید، عابد سیال ، صفدر رضا صفی، فیصل سلہری اور عامر رانا کے نام شامل ہیں کا زیادہ وقت جنابِ پرویز بزمی ،جناب صوفی فقیر محمد، جناب صفدر خورشید اور مرزاسلیم کے ہاں گزرتا تھا اور یوں یہ نوجوان ان سینئر شعرا کو اپنا کلام سناتے اور ان کی صحبت میں سیکھتے
ان نجی ادبی محافل کے متوازی کلب روڈپر مختار ہوسٹل ( گورنمنٹ پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ سرگودھا) میں ہر شام کچھ شعرا مل بیٹھتے تھے۔ اس ہوسٹل کے انچارج جناب ڈاکٹریونس خیال تھے ۔ شاعراور ادیب شام کویہاں اکثرمحفلیں جماتے۔ ان میں جناب پروفیسر غلام جیلانی اصغر ، جناب رشک ترابی، جناب صوفی نیاز احمد  ، جناب زاہد منیر عامر ، جناب ارشدگوہر ، جناب صفدررضاصفی ، خاکسار یوسف خالد اور دیگراحباب کا نام شامل ہے –            جیلانی صاحب اسی سڑک یعنی کلب روڈ پر رہتے تھے اور ہوسٹل کے بہت قریب تھے ان سے روزانہ ملاقات ہوتی تھی – صوفی نیاز ( گروپ کیپٹن) بھی شام کو آجاتے ، میں بھی شام کو رشک ترابی صاحب کو ساتھ لے کر پہنچ جاتا – باہمی گپ شپ ہوتی اور شاعری بھی سننے سنانے کا دور چلتا – جناب ایم ڈی شاد گرچہ ایک نامور وکیل تھے لیکن انہیں علم و ادب سے بہت محبت تھی وہ ہماری ان مجالس میں بڑی باقائدگی سے شریک ہوتے –

جیلانی صاحب تندور کی کڑک روٹی کھانے کے بہت شوقین تھے وہ بھی بغیر سالن اور بغیرکسی تکلف کے ۔ ہوسٹل کا باورچی لال خان روٹی کمال کی لگاتا تھا اور یہ روٹی جیلانی صاحب کی کمزوری تھی لہٰذا انہیں یہ پیش کی جاتی -جناب محمد شفیع علوی جو اس ہوسٹل کے ڈپٹی وارڈن تھے وہ میزبانی کے فرائض انجام دیتے تھے –

رشک ترابی بڑے پر گو اور دبنگ لہجے کے شاعر تھے ان کی شاعری سے ہم سب کے علاوہ ہوسٹل کے طلبا بھی مستفیض ہوتے تھے – صوفی نیاز احمد کو اللہ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے وہ ایک اچھے شاعر، ایک اچھے فوٹو گرافر ایک اچھے مصور ایک اچھے کہانی گو اور بہت اچھے صدا کار ہیں – وہ جب اپنی شاعری ترنم سے سناتے تو سماں بندھ جاتا – ان ایک غزل کے اشعار آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں وہ بڑی سریلی آواز میں یہ غزل ہمیں سناتے تھے –
وہ دلہن سے لگ رہی تھی تھا نظر نظر اجالا
شب زیبِ تن کیے تھی میرے آنسوؤں کی مالا
میری غمگسار بن کر میرے گھر میں شام آئی
وہ بدن لہو لہو سا وہ لباس کالا کالا
دریا کی دل لگی کا سامان ہوں میں صوفی
اسی موج نے ڈبویا اسی موج نے اچھالا
صوفی صاحب اپنی خوبصورت آواز میں اپنا ایک گیت بھی سنایا کرتے تھے جو اب یاد نہیں اس کا مکھڑا تھا
لبِ سڑک ہے مکاں تمہارا
جو ہو سکے تو مکاں بدل لو

جناب یونس خیال کے کچھ شعر حافظے میں محفوظ ہیں
طے ہوا کچھ اس طرح اپنی جوانی کا سفر
جس طرح دریا تلک بارش کے پانی کا سفر
——-
بانٹتا پھرتا تھا جب وہ منزلیں
میں نے اپنے ہاتھ پر لکھا سفر
—-
جب ہوا ختم شہر میں پانی
میری پلکوں پہ دستیاب رہا

جیلانی صاحب گو ہم سے عمر اور رتبے میں بڑے تھے لیکن بہت بے تکلف تھے عمومآ مہینہ کے پہلے ہفتے میں کسی دن اچانک مسکراتے ہوئے پہنچ جاتے اور کہتے مجھے پینشن مل گئی ہے آج زم زم پہ سیخ کباب یا شہر میں ایٹمی کباب کھانے چلتے ہیں – اس قافلے میں عمومآ یونس خیال ، یوسف خالد ،نیاز احمد صوفی اور میاں ایم ڈی شاد شامل ہوتے – یہ وقت انتہائی خوش گوار طریقے سے گزرتا اور جیلانی صاحب کی گفتگو لطف دوبالا کر دیتی -جیلانی صآحب کے یہ اشعار ان کے لہجے سمیت میرے حافظے کا حصہ ہیں
وہ نفرت بھی نہیں کرتا محبت بھی نہیں کرتا
وہ اس طرزِ تعلق کی وضاحت بھی نہیں کرتا
جو ملتا ہے تو کتنی چاہتوں کا ذکر کرتا ہے
نہ ملنے پر کبھی اس کی شکایت بھی نہیں کرتا
——–
گلی کے موڑ پہ سایا بہت سہانا تھا
گرا دیا ہے ہوا نے شجر پرانا تھا
ابھی سے ترکِ تعلق کا تم نے سوچ لیا
یہ مرحلہ تو کہیں راستے میں آنا تھا
——-
جناب رشک ترابی اپنے مخصوص اور پر اثر لہجے میں جب اشعار سناتے تو سحر طاری کر دیتے –
میں نہ اس کو پیش کر پایا کوئی زادِ سفر
بارہا جس شخص نے مڑ کر مجھے دیکھا بھی تھا
کیا کہوں کس بھیڑ میں گم ہو گیا وہ اجنبی
جس نے لوگوں سے مرے گھر کا پتا پوچھا بھی تھا

وہ کون شخص تھا جو حقارت کی آنکھ سے
دریا کو دیکھتا ہوا پیا سا گزر گیا
کانٹے مری انا کے مجھے روکتے رہے
میں اس گلی سے بن کے تماشہ گزر گیا

ان محافل کی روداد بہت طویل ہے – مختصر یہ کہ مختار ہوسٹل کا ادبی ماحول سرگودھا کی ادبی تاریخ کا ایک اہم باب ہے – اس کی شامیں آباد رہتیں کبھی کبھی جناب ممتاز عارف ،جناب، ظہرالدین ظہیر، جناب شاکر نظامی ، جناب اصغر شامی ،جنابِ آصف راز جناب پروانہ شاہپوری ، جناب فاروق روکھڑی اور کچھ دیگر احباب بھی ہوسٹل میں تشریف لاتے – انہیں مشاعروں میں خصوصی دعوت دی جاتی –

یہ مشاعرے بھی سرگودھا کی ادبی تاریخ کے اہم ترین مشاعرے تھے- اس دور میں ادارے کے پرنسپل جناب افضل خان نیازی کی ادب کے فروغ کے لیے کی گئی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں – ادارے میں مجھ سمیت جنابِ یونس خیال، جناب امجد الٰہی زانش جناب خادم حسین بھٹی جناب صابر پرویز جناب نیاز محمد اور کچھ دیگر اساتذہ نے پولی ٹیکنک سرگودھا کو پورے پنجاب میں ایک نمایاں مقام عطا کیا تھا – اس ادارے کی سالانہ تقریبات کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ شعرا اور شہری بڑی شدت سے ہفتہ تقریبات کا انتظار کرتے – ہر نوع کی سرگرمی اپنی مثال آپ تھی – نصرت فتح علی کی رات بھر گائیکی کا سحر ہو یا مشاعرے میں جناب ضمیر جعفری ،جناب غلام جیلانی اصغر ، جناب ایوب رومانی، جناب جمیل یوسف ، محترمہ شبنم شکیل ، جناب فاروق روکڑی ، جناب منیر نیازی اور سرگودھا کے شعرا کی شرکت اور بھرپور مشاعرہ کی یادیں آج بھی ذہن ودل کو سرشاری عطا کرتی ہیں –
یوسف خالد
جاری ہے

younus khayyal

About Author

13 Comments

  1. ارشد شاہین

    اگست 7, 2020

    بہت خوبصورت اور شاندار ادبی ماحول کی یادگار معلومات پر مبنی تحریر ہے

  2. گمنام

    اگست 7, 2020

    بہت خوب

  3. گمنام

    اگست 7, 2020

    عمدہ سلسلہ ہے ادبی یادگاروں کا

  4. محمد حسین ملک مسقط

    اگست 7, 2020

    بہت خوبصورت تحریر ہے سر.اپکا بہت شکریہ آپ نے میری گزارش پر یہ سلسلہ جاری رکھا ہے.. یقیناً دیگر احباب نے بھی اصرار کیا ہوگا…دبستان سرگودھا کا آپ نے ذکر چھیڑا ہے تو دل چاہتا ہے پڑھتے جائیں… اشعار کا انتخاب بھی پرلطف ہے
    محمد حسین ملک مسقط

    • یوسف خالد

      اگست 7, 2020

      سلامت رہو عزیزم محمد حسین

  5. یوسف خالد

    اگست 7, 2020

    سلامت رہیں جناب

  6. Shiraz Ghafoor

    اگست 7, 2020

    خوب کیا کہنے

    • یوسف خالد

      اگست 7, 2020

      سلامت رہیں جناب

  7. Arooj Butt

    اگست 7, 2020

    یادوں کا یہ خوبصورت سلسلہ محترم یوسف خالد کے لیے باغ میں صبح صبح کھلنے والے موتیے کے پھولوں کی مانند ہے اور کیا حسن بیاں آرائ ہے گویا ہم بھی وہیں ساتھ ہوں ۔۔۔پڑھنے کا لطف دوبالا بھی ہوتا ہے اور محترم یوسف خالد کی سخن وری اور سخن شناسی کے جوہر بھی آنکھوں سے گزرتے ہیں

    • یوسف خالد

      اگست 7, 2020

      سلامتی ہو – اس تحسین کے لیے سپاس گزار ہوں

  8. رفیق سندیلوی

    اگست 7, 2020

    دلچسپ روداد ۔ پڑھ کر لطف آیا۔ ان یادوں کی جمع آوری ضروری تھی۔

  9. شبیر احمد قادری = فیصل آباد ۔

    اگست 7, 2020

    بہت خوب محترم یوسف خالد صاحب ! ایسی ہی تحریریں شہروں کی علمی و ادبی اور تقافتی میراث کی آئنہ دار ہوتی ہیں ، سرگودھا شاہینوں اور ادیبوں کا شہر ہے ، کیسے کیسے نابغوں نے اس دھرتی پر آنکھیں کھولیں یا رزق کی تلاش میں کچھ لوگ یہاں آن بسے ، یہ سب لوگ اپنے اپنے انداز اور رنگ میں سرزمین سرگودھا کی علمی و ادبی شناخت ٹھہرے ۔
    آپ نے سرگودھا کی ادبی مجالس کے ذیل میں اپنی یادداشتوں کو قلم بند کرنا شروع کیا ہے ، بہت خوشی ہوئ ، یہ یادداشتیں نہیں یک گونہ امانت ہے جو آپ امروزوفردا کی نسلوں کو منتقل کر رہے ہیں ۔ آپ نے اپنے حصے کی جو شمع جلائ ہے ، کوشش کریں یہ بجھنے نہ پاۓ ۔
    اس سلسلے کو میں ” خیال نامہ ” کی عطا سمجھتا ہوں ۔

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

آنسو سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ پہلاورق : یونس خیال

  • جولائی 17, 2019
 مجھے ٹھیك سے یادنہیں كہ میں پہلی باركب رویاتھالیكن آنسووں كے ذائقےسے آشنائی دسمبر1971ء میں ہوئی۔عجیب لمحہ تھاایك بینڈ كے
آنسو خیال نامہ سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ دوسراورق

  • جولائی 21, 2019
از: یونس خیال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  گزشتہ سے پیوستہ ’’ بڑا‘‘ہونے پر میرے پہلے ہمرازیہی آنسوتھے۔ میں نے بظاہرہنستے ہوئےجیناسیکھ لیاتھالیکن تنہائی