سلسہ جات

دبستانِ سرگودھا — یادیں (تیسری قسط) : پروفیسریوسف خالد

سرگودھا میں ریلوے روڈ (موجودہ نام ڈاکٹر وزیر آغا روڈ) پرواقع ڈاکٹر وزیرآغا کی رہائش کو ایک ادبی مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے – یہ مرکز اردو ادب میں جدید رجحانات اور اصناف کے فروغ اور ان کی تفہیم میں اہم کردار کا حامل رہا ہے اور اپنی ایک الگ طویل اور شاندار تاریخ رکھتا ہے – برصغیر کے اہم ترین ادباء اور شعراء کو اس ادبی مرکز سے منسلک رہنے اور فیض یاب ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے – ڈاکٹر صاحب کا زیادہ وقت اپنے گاؤں اور لاہور میں گزرتا تھا مگر جب وہ سرگودھا تشریف لاتے تھے تو ان کی رہائش گاہ پر غیر رسمی ادبی محافل سج جاتی تھیں اورپھراردو ادب کے حوالے سے جدید ترین رجحانات پر گفتگو ہوتی – عصری ادبی منظر نامہ کو موضوعِ بحث بنایا جاتا – غرض یہ کہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں ایک ادبی میلہ سا لگ جاتا – ان محفلوں میں پروفیسر غلام جیلانی اصغر، پروفیسر سجاد نقوی ،پروفیسرصاحبزادہ عبدالرسول ،جناب عصمت علیگ، جناب پرویز بزمی، صوفی فقیر محمد اور ایم ڈی شاد تواتر سے شریک ہوتے تھے – ڈاکٹر صاحب کی ادارت میں شائع ہونے والے مؤقرادبی جریدے "اوراق” کا بیشتر کام بھی یہیں ترتیب پاتا تھا- ڈاکٹر صاحب شعرا اور ادباء کی تخلیقات سے اوراق کے لیے انتخاب کرتے ،اداریہ تحریر فرماتے اور کتابت کے بعد غلطیاں لگانے کا مشکل اور اہم کام جناب سجاد نقوی بڑی ذمہ داری سے ادا کرتے – یہ تمام کام غیر محسوس انداز میں شرکاء محفل کو بہت کچھ سکھا دیتے تھے –
ان محفلوں میں وقت کے ساتھ بہت سےاور دوست بھی شامل ہوتے گئے – جن میں راقم کے علاوہ محترمہ نجمہ منصور، جناب یونس خیال،جناب صؤفی نیاز، جناب ہارون الرشید تبسم ،جناب ارشد ملک، جناب عابد خورشید، جناب صفدر رضا صفی، جناب ذوالفقار احسن، محترمہ نائلہ رفیع، جناب سلیم آغا، محترمہ منزہ گویندی، اور سلیم مرزا کے نام شامل ہیں – ان محفلوں میں کوئی جدید نظم پیش کی جاتی اور اس پر تنقیدی گفتگوہوتی،نظم کو کھولا جاتا اس کے فکری ابعاد کو تلاش کیا جاتا اور اس کے فنی پہلوؤں پر بات چیت ہوتی – جس سے شرکائ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا – انشائیہ کی پہچان کے حوالے سے انشائیے پیش کیے جاتے اور پھر ان پر گفتگو کرتے ہوئے مزاحیہ مضامین ،جواب مضمون اور دیگر مضامین کیسے انشائیہ سے الگ ہیں، پر خوب گفتگو ہوتی اور انشائیہ بطور ایک صنف اپنے اندر کیا کیا امکانات رکھتا ہے پر مباحث ہوتے تھے – ان محفلوں سے ادباء و شعرا نے بہت فائدہ اٹھایا – نجمہ منصور جو پہلے پابند شاعری کی طرف مائل تھیں جناب ڈاکٹر وزیر آغا کی راہنمائی میں نثری نظم کی طرف آئیں – صفدر رضا صفی نے جدید نظم کے علاوہ بہت عمدہ انشائے لکھے ، عابد خورشید نے نئی نظم کو اپنایا ،سلیم آغا نے نثری نظم ، انشائیے اور جدید افسانےلکھے – ذوالفقار احسن نے تنقیدی اور تحقیقی میدان چنا اور ادبی پرچے کی اشاعت کے مراحل کو جانا – آج سرگودھا سے شائع ہونے والا ادبی پرچہ ” اسالیب ” ذوالفقاراحسن کی محنت کا ثمر ہے – محترمہ منزہ گوئندی اور محترمہ منزہ گوندل نے افسانے اور جدید نظم میں طبع آزمائی کی اور عمدہ تخلیقات پیش کیں ان کا تخلیقی سفر پوری توانائی کے ساتھ جاری ہے – محترمہ نائلہ رفیع اپنی مصروفیات کے باعث زیادہ دیر تک ان مجالس کا حصہ نہ رہ سکیں تاہم انہوں نے ایک خوبصورت شعری مجموعہ ” انکشاف” کے نام سے مکمل کیا تھا مگر بعض ناگزیر وجوہات کے باعث یہ مجموعہ شائع نہ ہو سکا – نائلہ رفیع بہت عمدہ شاعرہ ہیں ان دنوں امریکہ میں ہیں – ان کے یہ اشعار میرے حافظے میں محفوظ ہیں
ان پر تو نہ بگڑے تھے جو اسباب بڑے تھے
چھوٹی سی کسی بات پہ ہم دونوں لڑے تھے
جس روز وہ بچھڑا تھا بڑی تیز ہوا تھی
اس روز ہی شاخوں سے کئی پھول جھڑے تھے
—-
ڈاکٹر صاحب کے ہاں ہونے والی مجالس کی داستاں بہت طویل ہے – سرگودھا اکادمی ان مجالس کا اہتمام کرتی تھی جناب ایم ڈی شاد تمام دوستوں کو آغا جی کی آمد کی اطلاع دیتے تھے، یہ ادبی مرکز ایک بہترین تربیت گاہ تھا –
ڈاکٹر صاحب اکثر مجھے اپنی آمد کی اطلاع دیتے اور اپنائیت بھرے لہجے میں کہتے ” جلدی سے آ جاؤ تمہارے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے”
یونس خیال صاحب کا تبادلہ جہلم ہو گیا تھا اور میں ان کے بغیر بہت اداس رہتا تھا –
ڈاکٹر صاحب میری کیفیت کو سمجھتے تھے- میں پہنچا تو چٹکی بجاتے ہوئے کہنے لگے یونس خیال نے کہا ہے کہ میں بس پندرہ بیس سال میں واپس آ رہا ہوں – یہ سن کرمیں بہت ہنسا اور ڈاکٹر صاحب بھی بہت خوش ہوئے –
ڈاکٹر صاحب کے ہاں علمی و ادبی گفتگو کے ساتھ ساتھ جناب جیلانی صاحب اور ڈاکٹر صاحب کی باہمی نوک جھونک جاری رہتی تھی جس کا ہم سب لطف اٹھایا کرتے تھے – ایک روز عمروں کے حوالے سے کوئی بات ہو رہی تھی تو آغا جی نے جیلانی صآحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ” جیلانی صاحب !میں آپ سے دو سال چھوٹا ہوں ” جیلانی صاحب بہت حاضر جواب تھے فورآ بولے آغا جی آپ ہمیشہ مجھ سے چھوٹے رہیں گے – جیلانی صاحب کی گفتگو انشائیہ کا درجہ رکھتی تھی ان جیسا خلاق ذہن کم ہی دیکھنے کو ملا ہے – ان کے انشائیے پڑھ کر ایک انوکھی مسرت ملتی ہے – ایک تقریب میں ڈاکٹر صاحب نے جیلانی صاحب کے متعلق کہا تھا کہ ” تخلص کے اعتبار سے وہ اصغر ہیں مگرساری کی ساری کائیناتِ اکبر ان کی ذآت میں مستور ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے انشائیوں کا معیاردنیا کے بہترین انشائیوں کے معیار سے کسی طور کم نہیں ”
جناب عابد خورشید نے ان محفلوں میں ہونے والی گفتگو کو محفوظ کر دیا ہے ان کی کتاب ” باتیں جیلانی جی کی ” جیلانی صاحب کے حوالے سے خاصی اہم کتاب ہے –
اس مرکز کی سرگرمیوں کے علاوہ سرگودھا کی نجی محفل بھی آباد تھیں اور مشاعرے بھی باقائدگی سے ہوا کرتے تھے – بہت سے مشاعروں میں عوامی رنگ بہت غالب تھا اور ان مشاعروں میں اردو اور پنجابی کے شعرا کا کلام بڑی توجہ سے سنا جاتا تھا – پنجابی شعرا میں جناب پروانہ شاہ پوری ،جناب قاسم شاہ ،جناب مولوی اسلم ،جناب سلطان علوی، ممتاز عارف ، آصف راز اور اخلاق عاطف کے نام نمایاں ہیں –
1990 کے شروع میں سرگودھا میں یکے بعد دیگرے – محترمہ نجمہ منصور کی نثری نظموں کا مجموعہ ” میں سپنے اور آنکھیں- جناب ڈاکٹر یونس خیال کا شعری مجموعہ ” کالی رات، سفر اورمیں ” جناب صوفی نیاز کا شعری مجموعہ ” روپ، دھوپ اور صحرا” اور راقم کا شعری مجوعہ ” زرد موسم کا عذاب” شائع ہوئے جن کی رونمائی کی تقریبات کے باعث ادبی سرگرمیوں میں زبردست تیزی آ گئی –
ان تقریبات کے بعد میں نے سوچا کہ حلقہ اربابِ ذوق کی سرگرمیاں معطل ہوئے ایک طویل عرصہ گزر گیا ہے سرگودھا میں حلقہ جیسی کوئی تنظیم موجود نہیں جہاں نئے لکھنے والے اپنی تخلیقات پیش کر سکیں – اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے میں ایک دن روزنامہ وفاق کے دفتر میں ممتاز عارف سے ملنے چلا گیا – وہاں اس ضرورت کا ذکر کیا کہ سرگودھا کی تمام چھوٹی چھوٹی تنظیموں کو ختم کرکے ایک مرکزی تنظیم قائم کی جائے – ممتاز عارف نے میری تجویز سے اتفاق کیا اور ہم نے اس کا نام سوچنا شروع کر دیا – ممتاز عارف نے کہا کہ سرگودھا میں کچھ عرصہ پہلے تحریک استقلال کا ایک ادبی ونگ تھا جسے سرگودھا رائٹرز کلب کا نام دیا گیا تھا – کیوں نہ نئی تنظیم کا نام سرگودھا رائٹرز کلب ہی رکھ لیا جائے – اس پر اتفاق ہو گیا اور اگلے دن سے اس کی ممبر سازی کا آغاز کر دیا گیا – سرگودھا رائٹرز کلب کے قیام سے سرگودھا میں ایک نیا ادبی دور شروع ہوا –
اس کلب کے قیام کے بعد سرگودھا کے تخلیق کاروں کو آغا جی کے ہاں ہونے والی محفلوں کے ساتھ ساتھ ایک نیا پلیٹ فارم بھی میسر آگیا – یوں سرگودھا میں ڈاکٹر وزیر آغا کی رہائش گاہ ، سرگودھا رائٹرز کلب ( جناح ہال) اور بزمِ فکرو خیال میں ادباء و شعراء شرکت کرتے رہے –
جاری ہے
یوسف خالد

younus khayyal

About Author

8 Comments

  1. نجمہ منصور سرگودھا

    اگست 19, 2020

    بہت عمدہ تحریر کیا یادیں دہرائی ہیں کیسے کیسے منظر آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں کیا خوبصورت دن تھے بہت شکریہ

    • یوسف خالد

      اگست 19, 2020

      شاد رہیں آپ ان یادوں کا حصہ ہیں

      • اقتدار جاوید

        اگست 19, 2020

        بہت خوبصورت سلسلہ!!

        • یوسف خالد

          اگست 19, 2020

          شکریہ جناب اقتدار جاوید

  2. Shahneela Asif

    اگست 19, 2020

    خوبصورت ادبی یاداشتیں ۔۔۔

    • یوسف خالد

      اگست 19, 2020

      شکریہ شہنیلا آصف

  3. گمنام

    اگست 19, 2020

    دل پذیر

  4. اقتدار جاوید

    اگست 19, 2020

    شکر ہے

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

آنسو سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ پہلاورق : یونس خیال

  • جولائی 17, 2019
 مجھے ٹھیك سے یادنہیں كہ میں پہلی باركب رویاتھالیكن آنسووں كے ذائقےسے آشنائی دسمبر1971ء میں ہوئی۔عجیب لمحہ تھاایك بینڈ كے
آنسو خیال نامہ سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ دوسراورق

  • جولائی 21, 2019
از: یونس خیال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  گزشتہ سے پیوستہ ’’ بڑا‘‘ہونے پر میرے پہلے ہمرازیہی آنسوتھے۔ میں نے بظاہرہنستے ہوئےجیناسیکھ لیاتھالیکن تنہائی