از: صائمہ نسیم بانو
اے شجرِ زریں!
کیا تم یہ سرود بھرے گیت سنتے ہو؟
جو فطرت گنگنا رہی ہے.
سنو! یہ مجھ سے مخاطب ہے کہ اس نے تمہیں بحرِ ہند کی چھاتی پر ٹکے اک ننھے سے دیپ (جزیرہ) سری لنکا سے لے کر کشورِ محصور مملکتِ لاؤس تک اپنا سفیر چن لیا ہے.
اے سنہری برکھا برسانے والے املتاس!
میں تمہیں دیکھتی ہوں کہ تم محض بے عدیل اور قد آور ہی نہیں بلکہ فروتن اور زمیں بوس بھی ہو. تمہارے یہ زمردیں پات, عنابی پھلیاں, اور قندیل کی طرح جھکے ہوئے روشن طلائی غنچے محبت, سلامتی, تکریم, امید اور خوش بختی کے قاصد ہیں.
تمہارے یہ سنہری پھول کہ جن کا مرطوب گودا تتلیوں اور زنابیر کو بہت مرغوب ہے. جب وہ اس رسیلے زر سے سیر ہو رہتی ہیں تو پھر فضاؤں میں تمہارے زر گل کا سنہری برادہ بکھیر دیتی ہیں. یہ رسیلہ برادہ تازگی, شگفتگی, روئیدگی, بالیدگی, خوشی, طرب, رجائیت, امید, تکریم, تعظیم, وفا, اخلاص, ادراک, آگہی, صداقت, عزم اور ہمت کا پیامبر ہے.
مملکتِ لاؤس میں ہر نئے سال کی ابتدا تمہاری رسمِ غلاف پوشی سے ہوتی ہے۔ یہ وہ مبارک اور سعید لمحے ہیں کہ جب تمہاری مہاگنی ڈالیاں سبز پتوں کی پوشاک اتار پھینکتی ہیں. اور سنہری غنچے مل کر ایک نئی اور حسین فرغل تیار کر دیتے ہیں۔ ایسے میں بادِ بہاری اٹھلاتی ہے تو تمہاری پھلیاں باد زنگ کی طرح اپنی جھنکار بجایا کرتی ہیں۔
اے شجرِ زریں! تم فطرت کے وہ ایلچی ہو جو غنی ہے اور سخی بھی، جو بنا کسی لوبھ اور تحریص فیض عطا کئے جاتا ہے۔ تم بندگی، عجز، انکسار، تسلیم، مہر، رحم، شفقت، ایثار اور سخاوت کی تصویر ہو۔
تم بہار کے باران گیر
تم اس گلزار کے نمگیر
تم بگیہ کے گیتی بان
تم چمن زار کے رضوان
سالگرہ مبارک۔
کیا تم یہ سرود بھرے گیت سنتے ہو؟
جو فطرت گنگنا رہی ہے.
سنو! یہ مجھ سے مخاطب ہے کہ اس نے تمہیں بحرِ ہند کی چھاتی پر ٹکے اک ننھے سے دیپ (جزیرہ) سری لنکا سے لے کر کشورِ محصور مملکتِ لاؤس تک اپنا سفیر چن لیا ہے.
اے سنہری برکھا برسانے والے املتاس!
میں تمہیں دیکھتی ہوں کہ تم محض بے عدیل اور قد آور ہی نہیں بلکہ فروتن اور زمیں بوس بھی ہو. تمہارے یہ زمردیں پات, عنابی پھلیاں, اور قندیل کی طرح جھکے ہوئے روشن طلائی غنچے محبت, سلامتی, تکریم, امید اور خوش بختی کے قاصد ہیں.
تمہارے یہ سنہری پھول کہ جن کا مرطوب گودا تتلیوں اور زنابیر کو بہت مرغوب ہے. جب وہ اس رسیلے زر سے سیر ہو رہتی ہیں تو پھر فضاؤں میں تمہارے زر گل کا سنہری برادہ بکھیر دیتی ہیں. یہ رسیلہ برادہ تازگی, شگفتگی, روئیدگی, بالیدگی, خوشی, طرب, رجائیت, امید, تکریم, تعظیم, وفا, اخلاص, ادراک, آگہی, صداقت, عزم اور ہمت کا پیامبر ہے.
مملکتِ لاؤس میں ہر نئے سال کی ابتدا تمہاری رسمِ غلاف پوشی سے ہوتی ہے۔ یہ وہ مبارک اور سعید لمحے ہیں کہ جب تمہاری مہاگنی ڈالیاں سبز پتوں کی پوشاک اتار پھینکتی ہیں. اور سنہری غنچے مل کر ایک نئی اور حسین فرغل تیار کر دیتے ہیں۔ ایسے میں بادِ بہاری اٹھلاتی ہے تو تمہاری پھلیاں باد زنگ کی طرح اپنی جھنکار بجایا کرتی ہیں۔
اے شجرِ زریں! تم فطرت کے وہ ایلچی ہو جو غنی ہے اور سخی بھی، جو بنا کسی لوبھ اور تحریص فیض عطا کئے جاتا ہے۔ تم بندگی، عجز، انکسار، تسلیم، مہر، رحم، شفقت، ایثار اور سخاوت کی تصویر ہو۔
تم بہار کے باران گیر
تم اس گلزار کے نمگیر
تم بگیہ کے گیتی بان
تم چمن زار کے رضوان
سالگرہ مبارک۔