شاعر: محمد جاویدانور
درد آ لیتا ہے چُپکے سے سر شام مُجھے
جُگنٗوں سی کوئی لو اُٹھ کے مری رُوح تلک
قریہ جاں کو ادُھورا سا اُجالا دے کر
یاس و اُمید کی اک اور فسُوں نگری میں
ایسے بہلا کے یُوں پھُسلا کے لیے جاتی ہے
جیسے سب در نہ کبھی یاد کے وا ہو نے ہُوں
جیسے جیون نہ کبھی موت سے مل پائے گا
جیسے یہُ آخری اُمید بھی چھن جائے گی
جیسے بھُولے سے تو آ نکلے گا میری جانب
جیسے جو بیت چُکا جھُوٹ نکل آئے گا
جیسےکلیوں سے نکل آئے گی قیدی خُوشبُو
جیسے تُو آج کہیں سے مُجھے پھر آ لے گا
اور یہ زیست نئے رنگ نئے معنی میں
سردیوں جیسی کسی دُھوپ میں دُھو کر اک بار
میرے ماضی کو مرے سامنے لا رکھے گی
اور ہو پائے گا جو پہلے نہ ہو پایا تھا
ایک تقدیر نئی لکھیں گے ہم تُم مل کر
جس میں ہو جائے گا جو ہونا تھا پر ہو نہ سکا
چھین لیں گے سبھی سانسیں جو ہماری تھیں مگر
ہم کسی جبر کے طابع تھے سو تب لے نہ سکے
لوٹ آئے گا گیا وقت مری مانو تُم
وقت شہزور ہے خواہش سے مگر کمتر ہے
آنے والی ہے گھڑی ایک نئے منظر کی
اور پھر وقت کے تابع نہ رہے گی خواہش
وقت کو ماننی ہو گی جو بھی خواہش ہو گی
جو بھی دُنیا میں بساؤں گا بسنی ہو گی
ایک بس مان کے تُم ساتھ مرے آجاؤ
میرا وعدہ ہے گئے وقت کو لوٹاؤں گا
اور دکھلاؤںُگا ہو گا جو کہ ہونا تھا کبھی
دیکھ لینا وُہی ہوگا جو روا تھا ہونا
تُم جو مانو تو یہ ہو پائے گا لیکن دیکھو
یہ نہ سمجھو کہ مری عقل کا دھوکا ہے یقیں
پہلے بھی تُم کو یقیں ہوتا تو یہ ہونا تھا
آج بھی مان لو ہو گا تو یہی ہونا ہے
آج بھی مان لو ہو گا تو یہی ہونا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔…۔۔۔۔۔۔۔