شاعر : یوسف خالد
عجب اک والہانہ رقص میں ہے
چارسو اٹھلاتی پھرتی ہے
گھٹے ماحول کے جلتے ہوئے سب منطروں میں
خنکیاں تقسیم کرتی پھر رہی ہے
کبھی بادل کو چھو کر
اپنے پیاسے ہونٹ تر کرتی ہے
آنکھیں میچ لیتی ہے
کبھی دھرتی کو مس کرتی ہے
اس کی مانگ میں سندور بھرتی ہے
ہوا سرشار ہے
بادل سے ہم رشتہ ہے
سر تا پا تعلق کے حسیں احساس میں بھیگی ہوئی ہے
لبوں پہ گیت ہیں آنکھوں میں مستی
چال میں وارفتگی ہے
بے نیازی ہے
ادھر ساون کے پہلو میں گھٹا انگڑائیاں لینے لگی ہے
سلگتی،پیاس سے دم توڑتی دھرتی میں امرت گھلنے والا ہے
مسلسل آگ برساتے ہوئے سورج کو رخصت مل گئی ہے
ہوا،بادل،گھٹا،ساون
نئی رت کا سندیسہ لا رہے ہیں
یوسف خالد