Poetry نظم

گل شاخِ رِثا

شاعر: قاضی ظفراقبال

  (والدہ محترمہ کی وفات پر لکھی گئی رثائی نظم )
 ہُوا پورا ہوا کا مدعا بھی
 بجھا وہ طاق میں جلتا دیا بھی
 تری قسمت میں تھی صدموں کی یورش
 تری فطرت میں تھے صبر و رضا بھی
  سکھائی زندگی کو وضع داری
 نبھائی تو نے ہر رسمِ وفا بھی
 ریا سے، بد ظنی سے، خود سری سے
 نہیں تھا واسطہ تجھ کو ذرا بھی
 مصائب میں تحمل کا نمونہ
 شدائد میں بلا کا حوصلہ بھی
 ہیں سب ہی زندگی کرتے، پہ تجھ میں
 سلیقہ زندگی کرنے کا تھا بھی
 نہ بس یہ کہ شرافت دار تھی تو
 ترے قد پر یہ پیراہن سجا بھی
 حقیقت میں یہ مرنا ہے، نہ جینا
 اگرچہ بعد تیرے، میں جیا بھی
 یقیں ہے مجھ کو تیری قبر کے بیچ
 دریچہ خلد کا ہے ایک وا بھی
 مرا تیرے سوا کچھ بھی نہیں تھا
 تجھے رونے کو ہیں میرے سوا بھی
 ترے مرقد پہ دل یوں بیٹھتا ہے
 نہیں اٹھتے مرے دستِ دعا بھی
 معاً مرنے سے تیرے یہ کھلا اب
 نہیں مجھ ایسا بے برگ و نوا بھی
 یکایک بجھ گیا خورشید جیسے
 اچانک رک گئی جیسے ہوا بھی
 بجز لفظوں کے اب کیا نذر کیجے
 یہی گل ہیں سرِ شاخِ رثا بھی
 ظفر کیا تھا اگر کچھ اور جیتی
 اجل برحق، مگر ایسی شتابی

km

About Author

2 Comments

  1. Mahmoodahmadaziz

    جولائی 27, 2019

    خیال نامہ ایک عمدہ خیال ہے اس کاوش پر یونس بھائی مبارک باد کے حقدار ہیں دعا ہے کہ یہ سلسلہ دیر تلک چلتا رہے آمین۔

    • younuskhayyal

      جولائی 27, 2019

      بہت شکریہ جناب

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی