شاعر: یوسف خالد
اس کے ہونٹوں پہ
ایک چپ سی ہے
میری آنکھوں میں ایک حیرت ہے
ایسا لگتا ہے اجنبی ہیں ہم
اس سے پہلے کہیں ملے ہوں گے
پہروں باتیں بھی ہم نے کی ہوں گی
نیند کو الوداع کہا ہو گا
رات آنکھوں میں کاٹ دی ہو گی
بات بے بات لڑ پڑے ہوں گے
اس نے منہ پھر کر کہا ہو گا
جائیے مجھ سے بات مت کیجیے
آپ کو نیند آ رہی ہو گی
نیند شاید بہت ضروری ہے
اس کی باتوں کی گونج ہے ہر سو
اس کے لہجے میں اک اداسی ہے
اور اداسی میں ایک اپنا پن
گہری چپ میں چھپا ہوا سا ہے
ایسا لگتا ہے خواب تھا کوئی
تم کہو خواب تھا؟
نہیں تھا نا
آو —-
اک بار آ کے دیکھو تو
میری آنکھوں میں یہ نمی کیا ہے
جیسے کچھ یاد آرہا ہے مجھے
جیسے بیتے دنوں کی چوکھٹ پہ
آج بھی کوئی منتظر ہے مرا
جیسے کوئی بلارہا ہے مجھے
کیا یہ سچ ہے؟
مجھے بتاؤ نا
میرے لفظوں کی ہو پزیرائی
میرے الفاظ مجھ سے روٹھے ہیں
آؤ مل کر انہیں مناتے ہیں
پھر کہانی کوئی سناتے ہیں
مل کے ہنستے ہیں مل کے گاتے ہیں
آ بھی جاؤ کہ موسم گل بھی
بس تمہارے ہی انتظار میں ہے
یوسف خالد