شاعر: شاہد محمود
آہ ،،
سمندر کے کنارے
موجوں کا شور اور ہماری خاموشی
گیلی ریت پر چار مٹتے ہوئے پیروں کے نشان
تمہاری گھنی زلفوں سے کھیلتی ساحل کی نم ہوا
دور افق پر گم ہوتا ہوا بادبان
آوارہ پرندوں کے غول در غول
کہیں چٹانوں سے جھگڑتا ہوا پانی
کبھی تمہارے بالوں کی لٹ کا
تمہا رے گالوں سے بوس و کنار
میرے لبوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ
سوال در سوال ان کہے
اور تمہاری آنکھوں میں خوابیدہ جواب
ہم وصل کی آغوش میں ساتھ ساتھ
مگر روح میں فرقت کی دور اندیشی
اور تھامے ہوئے ہاتھوں میں دلوں کی تیز دھڑکن
لبوں تک نہ آئے ہوئے آہ و کاش
لمحات میں صدیوں کا سفر
بےسبب محبت خوبصورت تو ہے
بےپناہ، وجود کی حدوں کو چھوتی ہوئی
مگر کیا ثبات کی پائیداری بھی ہے ؟
کہیں یہ محبت اجڑنے کے لیے تو نہیں بسی؟