شاعر: عرفان صدیقی
پھر جگاتی ہے وہی ٹیس پُرانی بارش
اِس برس بھی ہے اُسی طرح سہانی بارش
سسکیاں بھرتی رہی رات ہوا آنگن میں
رات بھر کہتی رہی کوئی کہانی بارش
آگ بن کر کبھی شریانوں میں بہتا ہوا خون
کبھی آنکھوں سے برستا ہوا پانی بارش
اَب تو یہ پیڑ ٹپکتا ہے مری چھت کی طرح
دو گھڑی روک ذرا اپنی روانی بارش
سبز پانی نے بدل ڈالا ہے منظر کا طلسم
رنگ کوئی ہو، کیے دیتی ہے دَھانی، بارش
چاہنے والی، مرے درد جگانے والی
میری محبوب، مری دشمنِ جانی، بارش