شاعر: فضل گیلانی
اس لیے بھی مجھے تجھ سے ملنے میں تاخیر ہے
خواب کی سمت جاتی سڑک زیرِ تعمیر ہے
اتنے پھول اک جگہ دیکھ کر سب کا جی خوش ہوا
پتیاں جھڑنے پر کوئی کوئی دلگیر ہے
ہنستی دنیا ملی آنکھ کھلتے ہی روتی ہوئی
یہ مرا خواب تھا اور یہ اس کی تعبیر ہے
جس زباں میں ہے اس کی سمجھ ہی نہیں آ رہی
غار کے دور کے ایک انساں کی تحریر ہے
رحم کھاتی ہوئی کتنی نظروں کا ہے سامنا
میری حالت ہی شاید مرے غم کی تشہیر ہے
کیسا کیسا ہے جلوہ مرے سامنے اس گھڑی
پھر بھی چشمِ تصور میں تیری ہی تصویر ہے