شاعرہ : نیلم ملک
خُوش نظری سے منظر خُوش ہو جاتے ہیں
ہستی کے سب عُنصر خُوش ہو جاتے ہیں
روتا ہے وہ خُون میں لِتھڑے پیروں پر
ہم کانٹوں پر چل کر خُوش ہو جاتے ہیں
جب صیّاد کا وار خطا ہو جاتا ہے
لمحہ بھر کو تِیتر خُوش ہو جاتے ہیں
رات کے سنّاٹے میں سُن کر آہ مری
چُپ سے لڑتے جھینگر خُوش ہو جاتے ہیں
جب وَحشت میں اُن سے سر ٹکراتی ہُوں
لَمس کے رَسیا پتّھر خُوش ہو جاتے ہیں
صِرف مُصوّر افسردہ رہ جاتا ہے
کُچھ ناظر، کُچھ منظر خُوش ہو جاتے ہیں
یُوں تو ہم کو دونوں کام نہیں آتے
رونے سے کُچھ بہتر خُوش ہو جاتے ہیں
چھت پر دانہ تیری خاطر ڈالتی ہُوں
چِڑیاں اور کبوتر خُوش ہو جاتے ہیں
مدّھم ہو تو آنکھ کی جوت بُجھا ڈالے
دیکھ کے اُس کو تِیور، خُوش ہو جاتے ہیں
ہنستا دیکھ کے روتے ہیں انگور ہمیں
روتا پا کر کِیکر خُوش ہو جاتے ہیں