Poetry غزل

غزل

شاعر: شاہد فرید

کوئی بچ نہیں پا تا ایسا جال بُنتے ہیں
کیسے کیسے قصے یہ ماہ و سال بُنتے ہیں

جانے کتنی صدیوں سے ہر برس خزاں رُت میں
خشک پتے دھرتی پر ذرد شال بُنتے ہیں

آج کل نہ جانے کیوں ذہن پر تنائو ہے
ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے جو خیال بُنتے ہیں

شہر والے پو چھیں گے کچھ سبب جدائی کا
گھر کے خالی کونے بھی کچھ سوال بُنتے ہیں

ہِجر کے مناظر کو بھولنا ہی بہتر ہے
پیار کی طنابوں سے پھر وصال بُنتے ہیں

حلقئہ ِ محبت میں جو نظیر بن جائے
آئو ہم وفائوں کی وہ مثال بُنتے ہیں

اب پرانی باتوں کو کیا کریدنا شاؔہد
بھول کر گزشتہ کو اپنا حا ل بُنتے ہیں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں