شاعر: شاہد فرید
کوئی بچ نہیں پا تا ایسا جال بُنتے ہیں
کیسے کیسے قصے یہ ماہ و سال بُنتے ہیں
جانے کتنی صدیوں سے ہر برس خزاں رُت میں
خشک پتے دھرتی پر ذرد شال بُنتے ہیں
آج کل نہ جانے کیوں ذہن پر تنائو ہے
ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے جو خیال بُنتے ہیں
شہر والے پو چھیں گے کچھ سبب جدائی کا
گھر کے خالی کونے بھی کچھ سوال بُنتے ہیں
ہِجر کے مناظر کو بھولنا ہی بہتر ہے
پیار کی طنابوں سے پھر وصال بُنتے ہیں
حلقئہ ِ محبت میں جو نظیر بن جائے
آئو ہم وفائوں کی وہ مثال بُنتے ہیں
اب پرانی باتوں کو کیا کریدنا شاؔہد
بھول کر گزشتہ کو اپنا حا ل بُنتے ہیں