شاعر: شیخ ابراہیم ذوق
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
تم نے ٹھہرائِ اگر غیر کے گھر جانے کی
تو ارادے یہاں کچھ اور ٹھہر جائیں گے
خالی اے چارہ گرو ہوں گے بہت مرہم داں
پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے
پہنچیں گے رہ گزر یار تلک کیونکر ہم
پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے
شعلہٗ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں
پر یہی ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے
ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے
آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے
نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز
ہم جہاں سے روشِ تیر گزر جائیں گے
سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو، دریا!
چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے
لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں
اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے
رخِ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم
مہر و مہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے
ذوق جو مدرسہ کے بگڑے ہوئے ہیں مُلا
ان کو مے خانہ میں لے آؤ سنور جائیں گے