شاعر: اسد اعوان
ہم قافلہء زیست سے آگے کہیں بھی تھے
وہم و گماں بھی پیش تھے لیکن یقیں بھی تھے
تجھ پر کہاں کھلا ہے کوئی عقدہء نظر
جو لوگ صرف تیرے تھے تیرے نہیں بھی تھے
باہر کی بستیوں میں فروکش تھے بد لحاظ
کچھ بد سرشت دل کے مکاں کے مکیں بھی تھے
فرقت کی سختیوں میں برابر تھے مضطرب
جلوت گزیں جو فرد تھے خلوت گزیں بھی تھے
دونوں کے اب خلاف ہیں کل تک یہاں جو لوگ
تیرے قریں بھی ہوتے تھے میرے قریں بھی تھے
میلے لباس چاند سے چہروں کے جسم پر
محنت کشوں کے بیچ کئی مرمریں بھی تھے
دونوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہمیں اسد
پردہ نشیں بھی تھے کئی مسند نشیں بھی تھے
اسد اعوان