Poetry غزل

غزل


شاعر: ناصر کاظمی

یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے

جیسے بلقیس ، سلیماں کے محل میں آئے

یہ بھی آرائش ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم

حلقۂ فکر سے میدان عمل میں آئے

جبر سے ایک ہوا    ذائقۂ ہجر و وصال

اب کہاں سے وہ مزاصبرکے پھل میں آئے

ہر قدم دست وگریباں ہے یہاں خیرسے شر

ہم بھی کس معرکۂ جنگ و جدل میں آئے

زندگی جن کے تصور سے جِلا پاتی تھی

ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں