شاعر:غلام حسین ساجد
پتھر ہوئی ہے رات نہ بہتی ہے جوئے صبح
یعنی وجودِ صبح سے خالی ہے کوئے صبح
بڑھنے لگی ہے اُس کی تمازت سے فصلِ خواب
نکھرا ہوا ہے اُس کی صباحت سے روئے صبح
میں بھی نہال ہو گیا اور میری روح بھی
کیا اُس کے اردگرد بھی پھیلی ہے بوئے صبح
کب تک رہوں گا ظلمتِ دیروز کا اسیر
اِک روز دوشِ خوب پر آؤں گا سوئے صبح
بے رنگ کر دیا مری آنکھوں نے شہرِ وصل
لبریز کر دیا مرے دکھ نے سبوئے صبح
کیا کیا فروغِ صبح نے آنکھیں جلائی ہیں
پھر بھی عزیز تر ہے مجھے آبروئے صبح
ساجدؔ مجھے چراغ سے کوئی گلہ نہیں
بدلی نہیں ہے اُس کے بدلنے سے خوئے صبح