شاعر: خورشید رضوی
نگاہ سے نہیں ہٹتے ترے در ودیوار
یہ میرے ساتھ کہاں چل پڑے در و دیوار
نہ منہ سے بول سکیں کچھ نہ سر سے کھیل سکیں
ہمیں گواہ بھی کیسے ملے، در و دیوار
پھر اُس دیارِ محبت میں جا کے لوٹ آئے
نہ تھے مکین توکیادیکھتے در ودیوار
اُسی کی لو سے فروزاں تھے خال وخداِن کے
بجھا چراغ تو گل ہو گئے در ودیوار
زمیں لرزنے لگی روشنی سے ٹکراکر
ستارہ آ کے گرا، بج اُٹھے در ودیوار
کہاں سے مل گئی انجام کی خبر اِن کو
کہ رہ گئے ہیں کھڑے کے کھڑے در و دیوار